اسما بنت عمیس

ویکی شیعہ سے
اسما بنت عمیس
شام کے قبرستان باب الصغیر میں اسماء بنت عمیس سے منسوب مقبرہ
شام کے قبرستان باب الصغیر میں اسماء بنت عمیس سے منسوب مقبرہ
کوائف
مکمل ناماَسْماء بِنْت عُمَیس
لقبخثعم
محل زندگیمدینہ، مکہ
اقاربجعفر بن ابی طالبابوبکرامام علیؑ
وفات40 ھ کے بعد
دینی معلومات
اسلام لاناصدر اسلام
ہجرتحبشہ، مدینہ
نمایاں کارنامےنقل روایت
دیگر فعالیتیںحضرت فاطمہؑ کی تجہیز و تکفین میں شرکت


اسماء بنت عمیس، (متوفی 38ھ پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب میں سے تھیں جس نے حضرت فاطمہ زہراؑ کو غسل دینے میں امام علیؑ کی مدد کی۔ اسما جعفر طیار کی شریک حیات تھیں اور جعفر کی شہادت کے بعد ابوبکر سے شادی کی اور ابوبکر کی وفات ک بعد امام علیؑ کی زوجہ بن گئیں۔ اسماء جناب زینب کے شوہر عبداللہ بن جعفر اور مصر میں امام علی کے گورنر محمد بن ابی بکر کی والدہ ہیں۔

حضرت فاطمہ زہرا کی وصیت کے مطابق اسما آپ کو غسل میت دینے میں امام علیؑ کے ساتھ تھیں اور آپ نے اسلام میں سب سے پہلا تابوت حضرت فاطمہؑ کے لئے بنایا تاکہ آپ کا بدن نظر نہ آئے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت زہراؑ کی عمر کے آخری ایام میں آپ کے ساتھ تھیں اور آپ نے حضرت زہرا کے آخری ایام نیز حسنینؑ اور امام علیؑ کے حضرت فاطمہ کے جنازے سے روبرو ہونے کی روایت کی ہے۔

اسما کا شمار ابتدائی مسلمانوں میں ہوتا ہے اور اپنے شوہر جعفر کے ہمراہ حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ آپ نے رسول اکرمؐ سے بعض احادیث نقل کی ہے۔

زندگی نامہ

آپ کے والد عمیس بن معد کا تعلق قبیلہ بنی خثعم سے تھا اور والدہ ہند بنت عون تھیں۔[1] حمزہ بن عبد المطلب کی بیوی سلمی بن عمیس ان کی سگی بہن تھیں جبکہ میمونہ زوجہ پیغمبر (ص) والدہ کی طرف سے ان کی بہن تھیں۔[2]

آپ کی شادی امام علی (ع) کے بھائی جعفر بن ابی طالب سے ہوئی۔ آپ سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھیں۔ آپ آنحضرت (ص) کے زید بن ارقم کے گھر میں وارد ہونے سے پہلے ایمان لائیں۔[3] اسماء نے بعثت کے پانچویں سال[4] اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔[5] سن 7 ہجری میں مہاجرین کے ہمراہ مدینہ ہجرت کی۔[6] سنہ 8 ہجری میں آپ کے شوہر جنگ موتہ میں شہید ہو گئے۔[7] تو آپ ابوبکر کی زوجیت میں آ گئیں اور ابوبکر کی وفات کے بعد امام علیؑ کی زوجیت میں آئیں۔[8]

امام جعفر صادق (ع) کی ایک حدیث میں اسماء کو بہشتی خواتین میں شمار کیا گیا ہے۔[9]

حضرت فاطمہؑ کے کفن و دفن میں حضور

اسماء نے حضرت فاطمہ کی وصیت کے مطابق، حضرت علی کے ہمراہ آپ کو غسل دیا۔[10] شیعہ مصادر میں منقول حدیث کے مطابق اسلام میں پہلا تابوت اسماء نے حضرت فاطمہ کے لئے آمادہ کیا۔ بستر بیماری پر حضرت فاطمہ نے اسماء سے خواہش ظاہر کی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو مجھے ایسے تابوت میں نہ رکھا جائے جس سے بدن نمایاں ہو لہذا اسماء نے جو تابوت حبشہ میں دیکھا تھا اس کے مطابق تابوت بنایا جسے دیکھ کر حضرت زہرا خوش ہوئیں۔[11] اسی طرح سے انہوں نے اس روایت کو جس میں حضرت زہرا کے آخر وقت کے حالات اور امام علی و حسنین کے انتقال پر رد عمل کو، نقل کیا ہے۔[12] حضرت زہرا کی شہادت کی مناسبت سے ہونے والی عزاداری میں اسماء اور ان کی اس روایت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ {حوالہ درکار}

بعض روایات کے مطابق اسماء حضرت علیؑ و حضرت فاطمہؑ کی شادی کے وقت بھی حاضر تھیں۔[13] اسی طرح سے ایک روایت کے مطابق حضرت زہرا کے یہاں پیدائش کے وقت بھی اسماء رسول خدا (ص) کے حکم پر دایہ کی حیثیت سے موجود تھیں۔[14] ساتویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم علی بن عیسی اربلی کے بقول: اس روایت کے ضبط میں اسماء بنت یزید انصاری و اسماء بنت عمیس میں خلط ملط ہوا ہے اس لئے کہ حضرت فاطمہ کی شادی سنہ 2 یا 3 ہجری میں ہوئی ہے جبکہ اسماء بنت عمیس فتح خیبر کے وقت (سنہ 7 ہجری) تک حبشہ میں تھیں۔[15] اسی طرح سے اربلی نے احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ خلط اسماء بنت عمیس و سلمی بنت عمیس (زوجہ حضرت حمزہ) کے درمیان ہوا ہو۔[16]

اسی طرح سے اسماء اس بیماری کے وقت جو رسول خدا (ص) کی رحلت کا سبب بنی، آپ (ص) کے حضور میں موجود تھیں۔[17]

نقل حدیث

اسماء نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایات نقل کی ہیں۔[18] اسی طرح سے آپ سے آپ کے فرزند عبداللہ بن جعفر، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر اور دوسرے افراد نے آپ سے روایت نقل کی ہیں۔[19] حضرت علیؑ کی بیٹی فاطمہ نے حدیث منزلت[20] و حدیث رد الشمس [21] کو آپ سے روایت کی ہے۔

تیسری صدی ہجری کے مورخ احمد بن ابی یعقوبی نے اسماء بنت عمیس کے پاس موجود ایک کتاب کا ذکر کیا ہے جو رسول خدا (ص) کے فرامین و اقوال پر مشتمل تھی۔[22]

فرزند

جعفر بن ابی طالب سے اسماء کے یہاں تین بیٹے عبد اللہ، محمد و عون پیدا ہوئے۔[23] اسی طرح سے ابوبکر سے محمد بن ابی بکر اور امام علی (ع) سے یحیی کی ولادت ہوئی۔[24] یحیی کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا۔[25] جبکہ محمد بن ابی بکر امام علی کے مصر میں گورنر تھے۔[26]

وفات

آٹھویں صدی ہجری کے مورخ ابن کثیر دمشقی نے اسماء کی وفات سنہ 38 ہجری میں ذکر کی ہے۔[27] البتہ بعض منابع میں ان کی وفات امام علی (ع) کی شہادت (سنہ 40 ہجری) کے بعد ذکر ہوئی ہے۔[28] دمشق کے قبرستان باب الصغیر میں ایک قبر آپ سے منسوب ہے۔[29]

حوالہ جات

  1. ابن‌ کلبی، نسب معد والیمن الکبیر، 1408ق، ج1، ص356-358.
  2. ابن‌ کلبی، نسب معد والیمن الکبیر، 1408ق، ج1، ص358-359.
  3. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج8، ص219.
  4. مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ق، ج9، ص116.
  5. ابن‌ هشام، السیرة النبویة، دار المعرفہ، ج1، ص323.
  6. ابن‌ عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج1، ص242.
  7. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج8، ص219.
  8. ابن‌ عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1784-1785.
  9. شیخ صدوق، الخصال، 1362ش، ج2، ص363.
  10. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج1، ص405.
  11. اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج1، ص503.
  12. اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج1، ص500-501.
  13. برای نمونہ نگاه کریں: گنجی شافعی، کفایة الطالب، دار احیاء تراث اهل البیت، ص306؛ اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج1، ص365-366.
  14. اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج1، ص551.
  15. اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج1، ص373.
  16. اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج1، ص366-367.
  17. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج1، ص545.
  18. واقدی، محمد، المغازی، ج2، ص766؛ حمیدی، عبداللہ، المسند، ج1، ص158؛ مزی، یوسف، تحفة الاشراف، ج11، ص259-263
  19. نک: ذہبی، محمد، سیر اعلام النبلاء، ج2، ص287
  20. بن عبدالبر، الاستیعاب (بیروت)، ج3، ص1097؛ مجلسی، بحار الانوار، ج37، ص263
  21. مجلسی، بحار الانوار، ج41، ص177؛ عاملی، اثبات الہداة، ج1، ص414
  22. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص101.
  23. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج8، ص219.
  24. ابن‌ عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ص1784-1785.
  25. ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص37.
  26. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج4، ص555-556.
  27. ابن‌ کثیر، البدایة و النهایہ، 1407ق، ج7، ص318.
  28. ابن‌ حجر عسقلانی، تقریب التهذیب، 1406ق، ص743.
  29. قائدان، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، 1387ش، ص105.

مآخذ

  • ابو الفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت، دار المعرفہ، بی‌ تا
  • ابن‌ حجر عسقلانی، احمد بن علی، تقریب التهذیب، تحقیق محمد عوامة، دار الرشید، سوریا، 1406ق/1986ء
  • ابن‌ سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیه، 1410ق/1990ء
  • ابن‌ عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، 1412ق/1992ء
  • ابن‌ کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، بیروت، دارالفکر، 1407ق/1986ء
  • ابن‌ کلبی، هشام بن محمد، نسب مَعَد والیَمَن الکبیر، تحقیق ناجی حسن، بیروت، عالم الکتب، 1408ق/1988ء
  • ابن‌ هشام، عبدالملک بن هشام، السیرة النبویہ، تحقیق مصطفی سقا و دیگران، قاهره، بیروت، دار المعرفة، بی‌ تا.
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ فی معرفة الائمة، تصحیح سید هاشم رسولی محلاتی، بنی هاشمی، تبریز، 1381ھ
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق محمد حمید الله، مصر، دار المعارف، 1959ء
  • حر عاملی، محمد بن حسن، إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، اعلمی، بیروت، 1425ھ
  • حمیدی، عبدالله بن زبیر، المسند، تحقیق حسن سلیم الدارانی، دمشق، دارالسقا، دمشق، 1996ء
  • ذهبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، قاهره، دار الحدیث، 1427ق/2006ء
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی‌ اکبر غفاری، قم، جامعه مدرسین، 1362ش
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت، دار التراث، الطبعة الثانیہ، 1387ق/1967ء
  • قائدان، اصغر، اماکن زیارتی سیاحتی سوریه، تهران، مشعر، 1387ش
  • گنجی شافعی، محمد بن یوسف، کفایة الطالب فی مناقب علی بن ابی‌ طالب، دار احیاء التراث اهل البیت، بی‌ تا
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، تحقیق محمد عبدالحمید النمیسی، بیروت، دارالکتب العلمیة، 1420ق/1999ء
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسة الاعلمی، الطبعة الثالثہ، 1409ق/1989ء
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌ یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌ تا

بیرونی روابط