مارقین

ویکی شیعہ سے

مارقین اطاعت سے خارج ہونے والے گروہ کے معنی میں خوارج پر اطلاق ہوتا ہے جنہوں نے جنگ نہروان میں امام علی(ع) کے خلاف جنگ کی. مارقین جنگ صفین میں شروع میں امام علی(ع) کے لشکر میں تھے لیکن حکمیت کا مسئلہ سبب بنا کہ انہوں نے حضرت علی(ع) کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر کے ایک تیسرا گروہ تشکیل دیا۔ اس طرح انہوں نے حضرت علی(ع) کا ساتھ بھی نہیں دیا اور نہ ہی معاویہ کے ساتھ دیا۔ لیکن بعد میں انہوں نے حضرت علی(ع) کے ساتھ نہراوان نامی جگہے پر جنگ کی اور سوائے چند افراد کے سب کے سب ہلاک ہوگئے۔

مارقین کے معنی

مارقین، اسم فاعل کا صیغہ ہے اور مادہ "م ر ق" سے کسی چیز سے باہر جانے کے معنی میں ہے جیسے تیر کمان سے باہر چلا جاتا ہے۔ خوارج کو اسلئے مارقین کہا جاتا ہے چونکہ انہوں نے مسلمانوں کے صفوں سے نکل کر اگل ایک گروہ تشکیل دی۔ [1]

زبیدی لکھتے ہیں: مروق باہر جانے اور خارج ہونے کے معنی میں ہے، یہ گروہ امام علی(ع) کی مخالفت کرنے اور آپکے خلاف بغاوت کرنے کی وجہ سے دین اسلام سے خارج ہوگئے ہیں اس لئے ان کو مارقین کہا جاتا ہے۔[2]

مارقین کا استعمال

یہ عنوان امام علی(ع) کے کلام میں استعمال ہوا ہے جہاں آپ فرماتے ہیں: انا حجيج المارقين ترجمہ: میں دین سے خارج ہونے والوں کو دلیل اور برہان کے ذریعے مغلوب کرنے والا ہوں۔[3]

اسی طرح آپ(ع) خطبہ شقشقیہ میں اپنے دشمنوں کو تین گروہ میں تقسیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ... و مرقت اخری اور ایک گروہ دینداروں کی صفوں سے خارج ہو گئے۔[4] یہ عبارت گویا نہروان میں موجود خوارج کی طرف اشارہ ہے۔

چیدہ افراد

خوارج کے چیدہ افراد جو اس تحریک میں پیش پیش تھے درج ذیل ہیں:

البتہ بعض دیگر اشخاص جیسے فروۃ بن نوفل اشجعی نیز ابتدا میں اس گروہ میں شامل تھا لیکن جنگ نہروان کے شروع ہوتے ہی ان سے جدا ہو گئے۔

مارقین کا انجام

جنگ صفین میں خوارج کے اعتراضات میں اضافہ ہونے کے بعد امام علی(ع) نے عبداللہ بن عباس اور صعصعۃ بن صوحان کو ان کے ساتھ مذاکرات کیلئے بھیجا۔ لیکن ان کے ساتھ کسی خاص نتیجے تک نہیں پہنچا۔[5] اس کے بعد امام علی(ع) نے اس گروہ کے سرکردگان کے نام ایک خط بھیجا اور ان کو دبارہ مسلمانوں کی صفوں میں لوٹنے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول نہیں کیا۔[6] امام علی(ع) جب انکے تسلیم ہونے سے ناامید ہوگئے تو اپنی لشکر کو جو 14 ہزار نفر پر مشتمل تھا ان کے مقابلے میں لے آیا اور جنگ کا آغاز ہوا۔[7] البتہ جنگ کے آغاز سے پہلے جب امام علی(ع) کی طرف سے امان نامہ دیا گیا تو ان میں سے بعض نے اسے قبول کیا اور ان سے جدا ہوئے۔ [8] تاریخ شواہد کی بنا پر خارجیوں تعداد جنہوں نے امام علی(ع) کے ساتھ مقابلے کیلئے میدان میں رہنے کا فیصلہ کیا چہار ہزار افراد تھی جن میں گھڑسوار کی تعداد 1800 جبکہ 1500 افراد پیادہ سوار تھے۔[9]

جنگ کے شروع ہوتے ہی خوارج کا لشکر یا قتل ہوئے یا زخمی ہو گئے 400 کی تعداد میں زخمیوں کو انکے گھر والوں کی تحویل میں دی گئی جبکہ اس کی مقابلے میں امام علی(ع) کے لشکر سے بہت کم تعداد شہید ہوئے حنکی تعداد 10 نفر بھی نہیں تھی۔ خوارج میں سے کم از کم 10 نفر میدان سے بھاگ گئے جن میں سے ایک عبدالرحمان بن ملجم مرادی(لعن) تھا جس نے بعد میں امام علی(ع) کو شہید کیا۔[10]

حوالہ جات

  1. ابن منظور، ج‏ ۷، ص ۳۷۷؛ فیومی، ۵۶۹؛ نہج البلاغہ، ص ۴۵۱، تعلیقہ شماره ۱۵.
  2. زبیدی، ج ۱۳، ص ۴۴۰
  3. نہج البلاغہ، خطبہ ۷۵، ص ۵۶.
  4. نہج البلاغہ، خطبہ ۳، ص۱۱.
  5. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۳۵۲.
  6. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۳۷۰.
  7. دینوری، اخبارالطوال، ص ۲۱۰.
  8. دینوری، اخبارالطوال، ص ۲۱۰.
  9. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۳۷۱.
  10. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، صص ۳۷۳-۳۷۵.

مآخذ

  • ابن منظور، لسان العرب، دار صادر، بیروت، ۲۰۰۳ء۔
  • بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق محمدباقر محمودی، موسسہ اعلمی، بیروت۔
  • دینوری، اخبار الطوال، ترجمہ مہدوی دامغانی، بنیاد فرہنگ ایران، تہران۔
  • راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، تحقیق وضبط ابراہیم شمس الدین،الاعلمی للمطبوعات، بیروت: ۱۴۳۰ھ۔
  • زبیدی، تاج العروس، تحقیق علی شیری، دارالفکر، بیروت، بیتا۔
  • سید جعفر حسین شہیدی، ترجمہ نہج البلاغہ، تہران: علمی و فرہنگی، ۱۳۷۷۔
  • فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، دار الہجرہ، قم، بیتا۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، دارالاضواء، بیروت، ۱۹۸۴ء۔