بکائین

ویکی شیعہ سے

بَکّائین‌، یا بکّائون‌ (رونے والے) پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب کا ایک گروہ تھا جو غزوہ تبوک میں شرکت کرنے سے ناتوان ہونے پر رویا اور اسی وجہ سے اس لقب سے مشہور ہوا۔ نیز ایک روایت کے مطابق حضرت آدمؑ، حضرت یعقوب‌ؑ، حضرت یوسف‌ؑ، حضرت فاطمہؑ اور امام زین‌العابدینؑ کو بکائین قرار دیا گیا ہے۔

سات اصحاب

بکائین وہ سات صحابی تھے جو جو تنگدستی کی وجہ سے رسول اللہؐ کی خدمت میں آئے اور غزوہ تبوک میں شرکت کرنے کے لئے آنحضرتؐ سے سواری مانگی۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ کوئی سواری موجود نہیں ہے جو ان کو جنگ تک پہنچا سکے، جنگ میں شرکت سے محروم ہونے پر بہت مغموم ہوئے اور رونے لگے۔ واپس لوٹنا چاہ رہے تھے کہ بعض دیگر اصحاب نے انہیں سواری مہیا کی اور انہیں جنگ تک لے گئے۔[1] مآخذ میں ان سات نفر کو بکائون سے یاد کیا ہے۔[2] جبکہ ان کے ناموں کے بارے میں اختلاف ہے۔[یادداشت 1] غزوہ تبوک سنہ 9 ہجری [3] کو شدیدی گرمی کے موسم میں واقع ہوئی[4] اور صحابہ کی تنگدستی کے سبب اسے "جیش‌ العسرۃ" کہتے تھے۔[5] اس جنگ میں سواری اور جنگی آلات خود جنگجووں کے ہی ذمے تھے۔[6]

بعض مفسرین کے مطابق آیہ شریفہ " وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ"؛[؟؟] (ترجمہ:اور نہ ہی ان لوگوں پر کوئی گناہ ہے جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ ان کے لئے سواری کا کوئی انتظام کریں۔ اور آپ نے کہا کہ میرے پاس سواری کے لئے کچھ نہیں ہے۔ تو وہ اس حال میں مجبوراً واپس گئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اس رنج میں کہ ان کے پاس (راہِ خدا میں) خرچ کرنے کے لیے کچھ میسر نہیں ہے۔)[7] ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[8]اگرچہ اس آیت کی شان نزول کے بارے میں بعض دیگر احتمالات بھی پائے جاتے ہیں۔[9]

پانچ دیگر افراد

امام صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق بکائین پانچ نفر ہیں: حضرت آدمؑ بہشت سے نکالنے کی وجہ سے، حضرت یعقوب‌ؑ اپنے بیٹے یوسفؑ کی جدائی میں، حضرت یوسف‌ؑ اپنے والد کے فراق میں، حضرت فاطمہؑ اپنے والد گرامی حضرت محمدؐ کی مصیبت میں اور امام زین‌العابدینؑ، واقعہ عاشورا کے مصائب کی یاد میں رویا کرتے تھے۔[10]

نوٹ

  1. ابن ہشام کا کہنا ہے کہ بکائون میں سالم بن عمیر، علبۃ بن زید، ہرمی بن عبداللہ، عمرو بن حمام بن جموح، ابو لیلی عبدالرحمان بن کعب، عبداللہ بن مغفل (عمرو) مزنی و عرباض بن ساریۃ فزاری شامل تھے۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۵۱۸.)

حوالہ جات

  1. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۹۹۳-۹۹۴.
  2. ملاحظہ کریں: صالحی شامی، سبل الہدی، ۱۴۱۴ق، ج۵، ص۴۳۸؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۵۱۸؛ ابن حبیب بغدادی، المحبر، دار الآفاق الجدیدہ، ص۲۸۱؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۹۹۳-۹۹۴.
  3. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۳۶۸.
  4. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۹۹۰.
  5. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۳۶۸.
  6. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۹۹۰.
  7. سورہ توبہ، آیہ۹۲.
  8. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۸، ص۲۲۸؛ طوسی‌، التبیان‌، دار احیاء التراث العربی، ج۵، ص۲۸۰؛ طبرسی‌، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۹۱؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۶۲.
  9. ملاحظہ کریں: طوسی‌، التبیان‌، دار احیاء التراث العربی، ج۵، ص۲۸۰.
  10. صدوق، الامالی ۱۳۷۶ش، ص۱۴۰-۱۴۱.

مآخذ

  • ابن حبیب بغدادی، محمد بن حبیب، المحبر، تحقیق ایلزہ لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیدہ، بیتا.
  • ابن‌ ہشام‌، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم ابیاری و عبد الحفیظ شبلی، بیروت، دار المعرفہ، بی‌تا.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق محمد حمیداللہ، مصر، دار المعارف، ۱۹۵۹ء۔
  • صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۴ھ۔۱۹۹۳ء۔
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، ۱۳۷۶شمسی ہجری
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمدجواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷شمسی ہجری
  • طوسى‌، محمد بن حسن، التبيان‌ فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد حبيب‌ قصير عاملى‌، بيروت‌، داراحياء التراث‌ العربى‌، بی‌تا.
  • قرطبی، محمد بن محمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۶۴شمسی ہجری
  • واحدی، علی بن محمد، اسباب نزول القرآن، تحقیق کمال بسیونی زغلول، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ھ۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، حقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، ۱۹۸۹ء/۱۴۰۹ھ۔