حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا

تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا
نامفاطمہ بنت موسی بن جعفر
وجہ شہرتشیعہ امام زادی، امام رضاؑ کی بہن
لقبمعصومہ، کریمہ اہل بیت، طاہرہ، حمیدہ، بِرّہ، رشیدہ، تقیہ، نقیہ، رضیہ، مرضیہ، سیدہ، اخت الرضا۔
تاریخ پیدائش1 ذی القعدہ، 173ھ
جائے پیدائشمدینہ
وفات10 ربیع الثانی، 201 ھ
مدفنقم
سکونتمدینہ
والدامام موسی کاظمؑ
والدہنجمہ خاتون
شریک حیاتغیر شادی شدہ
عمر28 سال
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


فاطمہ بنت موسی بن جعفر، حضرت معصومہؑ کے نام سے مشہور ہیں۔آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی اور امام علی رضا علیہ السلام کی بہن ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام موسی کاظمؑ کی اولاد میں امام رضاؑ کے بعد آپ کو اعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ تاریخی مآخذ میں آپ کی زندگی، تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ آپ کے ازدواجی زندگی میں منسلک ہونے کے بارے میں بھی تاریخ میں کوئی اطلاع موجود نہیں؛ البتہ مشہور یہی ہے کہ آپ رشتہ ازدواج سے منسلک نہیں ہوئیں۔ معصومہ اور کریمہ اہل بیتؑ آپ کے مشہور القابات میں سے ہیں۔ بعض احادیث کے مطابق امام رضاؑ نے آپ کو معصومہ کے نام سے یاد کیا ہے۔ جب آپ کے بھائی امام رضا علیہ السلام مامون رشید کے حکم پر مدینہ سے طوس تشریف لے گئے تو کچھ مدت بعد سنہ 201ہجری کو اپنے بھائی کی فرمائش پر حضرت معصومہ آپ سے ملنے کے لئے مدینہ سے ایران کی جانب عازم سفر ہوئیں؛ لیکن دوران سفر آپ بیمار ہوئیں۔ اہل قم کی درخواست پر آپ نے موسی بن خزرج اشعری کے گھر قیام کیا لیکن 17 دن بعد آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کو بابِلان (موجودہ حرم) نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ تاریخ اسلام اور تاریخ تشیع کے ماہر تاریخ نگار سید جعفر مرتضی عاملی کے مطابق حضرت معصومہؑ کو قم سے نزدیک ساوہ نامی مقام پر زہر دیا گیا اور وہیں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ اہل تشیع کے یہاں آپ اور آپ کی زیارت کو خاص اہمیت حاصل ہے؛ یہاں تک کہ ائمہؑ سے منقول احادیث کے مطابق قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے شیعہ جنت میں جائیں گے۔ انہی احادیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بہشت کو آپ کی زیارت کا صلہ قرار دیا ہے۔ مزید یہ کہ صنف نسواں میں حضرت فاطمہ زہراؑ کے بعد صرف آپ ہی کے لئے ائمہ معصومینؑ کی طرف سے زیارت‌ نامہ نقل ہوا ہے۔

حضرت معصومہ کے بارے میں اطلاعات کی کمی

ذبیح‌ اللہ محلاتی اپنی کتاب ریاحین الشریعہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت معصومہ کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات ہماری دسترس میں نہیں ہیں؛ آپ کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، آپ کی عمر، کب مدینہ سے روانہ ہوئیں؟، کیا آپ امام رضاؑ کی شہادت سے پہلے وفات پائیں یا بعد میں؟ اس حوالے سے تاریخ میں تفصیلی معلومات درج نہیں ہیں۔[1]

حسب و نسب

فاطمہ معصومہ امام کاظمؑ کی بیٹی اور امام رضاؑ کی بہن ہیں۔ شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں امام موسی کاظمؑ کی دو بیٹیوں فاطمہ کبرا اور فاطمہ صغرا کا نام ذکر کرتے ہیں لیکن یہ ذکر نہیں ملتا کہ ان میں سے کون سی بیٹی حضرت معصومہ ہیں۔[2] چھٹی صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابن‌ جوزی نے بھی لکھا ہے کہ امام کاظمؑ کی چار بیٹیوں کے نام فاطمہ تھے؛ لیکن انہوں نے بھی نہیں بتایا ہے کہ حضرت معصومہ ان میں سے کون سی ہیں۔[3] محمد بن جریر طبری صغیر، اپنی کتاب دلائل‌ الامامۃ میں لکھتے ہیں کہ حضرت معصومہ کی مادر گرامی کا نام نجمہ خاتون ہے جو امام رضاؑ کی والدہ بھی ہیں۔[4]


تاریخ ولادت و وفات

قدیمی کتب میں حضرت معصومہؑ کی ولادت اور وفات کا ذکر نہیں آیا ہے لیکن رضا استادی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے جس کتاب میں ان تاریخوں ذکر آیا ہے وہ جواد شاہ عبد العظیمی کی کتاب "نور الآفاق" ہے[5] جس کی سنہ 1344 ہجری میں طباعت ہوئی ہے۔[6] اس کتاب میں آپ کی تاریخ ولادت پہلی ذیقعدہ سنہ 173 ہجری اور تاریخ وفات 10 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری ذکر ہوئی ہے؛ یہی تاریخ دوسری کتابوں میں منتقل ہوئی ہے۔[7]

بعض علماء نے شاہ عبد العظیمی کے اس نظریے کی مخالفت کی ہے اور ان کی کتاب میں مذکورہ تاریخوں کو جعلی قرار دیا ہے؛ منجملہ آیت‌ اللہ شہاب‌ الدین مرعشی،[8] آیت اللہ موسی شبیری زنجانی،[9] رضا استادی[10] و ذبیح‌ اللہ محلاتی[11] کے نام قابل ذکر ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران کے سرکاری کلینڈر میں 1 ذی القعدہ کو روز دختر کا عنوان دیا گیا ہے۔[12]

القاب

معصومہ اور کریمہ اہل بیتؑ حضرت فاطمہ معصومہ کے مشہور القاب میں سے ہیں۔[13] کہا جاتا ہے کہ معصومہ کا لقب، امام رضاؑ سے منسوب ایک روایت سے اخذ کیا گیا ہے۔[14] محمد باقر مجلسی کی کتاب زاد المعاد میں یہی روایت منقول ہے جس کے مطابق امام رضاؑ نے آپ کو معصومہ کے نام سے یاد کیا ہے۔[15]

عصر حاضر میں آپ کا مشہور لقب کریمہ اہل بیت ہے۔[16] کہا جاتا ہے کہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی کے والد سید محمود مرعشی نجفی نے ائمہؑ میں سے کسی ایک امام کو حضرت معصومہ کے لیے کریمہ اہل بیتؑ کا لقب استعمال کرتے خواب دیکھا ہے۔[17]

شادی

"ریاحین الشریعہ" نامی کتاب کے مطابق یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت معصومہؑ نے شادی کی ہے یا نہیں، اور اولاد ہے یا نہیں؛[18] البتہ اس سلسلے میں مشہور یہی ہے کہ حضرت معصومہؑ رشتہ ازدواج سے منسلک نہیں ہوئی ہیں[19] اور شادی نہ کرنے کے بارے میں بعض دلائل بھی ذکر ہوئے ہیں؛ جیسے کہا گیا ہے کہ آپ نے کفو نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی ہے۔[20] اسی طرح تیسری صدی کے مشہور تاریخ نگار یعقوبی لکھتا ہے کہ امام موسی کاظمؑ نے اپنی بیٹیوں کو شادی نہ کرنے کی وصیت کی تھی؛[21] لیکن اس بات پر اعتراض کیا گیا ہے کہ امام کاظمؑ کے کتاب الکافی میں مذکور وصیت نامے[22] میں اس طرح کی کوئی بات ذکر نہیں ہوئی ہے۔[23] بعض محققین نے بنی عباس خصوصا ہارون رشید اور مامون کی طرف سے پیدا کردہ گھٹن ماحول کو حضرت معصومہ کی شادی میں رکاوٹ جانا ہے۔[24]

ایران کا سفر، قم میں ورود اور وفات

تفصیلی مضمون: بیت النور

"تاریخ قم" نامی کتاب کے مطابق حضرت معصومہ سنہ 200 ہجری میں اپنے بھائی امام رضاؑ سے ملاقات کے لئے مدینہ سے ایران کی جانب عازم سفر ہوئیں۔ شیعہ محقق باقر شریف قَرَشی نے کتاب «جوهرة الکلام فی مدح السادة الاعلام» سے یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت معصومہ کا ایران کی جانب سفر کا سبب وہ خط تھا جس میں امام رضاؑ نے حضرت معصومہ کو خراسان آنے کی دعوت کی تھی۔ [25]اس وقت امام رضا کا مامون عباسی کی ولی عہدی کا دور تھا اور امامؑ خراسان میں تھے؛ حضرت معصومہ دوران سفر راستے میں بیماری کی وجہ سے وفات پاگئیں۔[26] سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ حضرت معصومہؑ کو ساوہ کے مقام پر دشمنان اہل بیت نے زہر سے مسموم کیا تھا اور اسی زہر کی وجہ سے کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد آپ شہید ہو گئی تھیں۔[27]

حضرت معصومہ کے قم جانے کے بارے میں دو قول بیان ہوئے ہیں: ایک قول کے مطابق جب آپ ساوہ میں بیمار ہوگئیں تو آپ نے اپنے ہمراہ افراد سے قم کی طرف جانے کے لئے کہا۔[28] دوسرے قول؛ جسے تاریخ قم کے مصنف زیادہ صحیح سمجھتے ہیں، کے مطابق خود قم کے لوگوں نے آپ سے قم آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔[29]

قم میں حضرت فاطمہ معصومہ نے موسی بن خزرج اشعری کے گھر پر قیام کیا اور 17 دن کے بعد آپ کی وفات ہوئی۔[30] آپ کا جنازہ موجودہ حرم کی جگہ، بابلان نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔[31]

شیعوں کے یہاں آپ کا مقام و منزلت

حرم حضرت معصومہ سے متعلق کاشی‌ کاری معرق
امام رضاؑ فرماتے ہیں: جس نے آپؑ (حضرت معصومہ) کی معرفت کے ساتھ زیارت کی اس کے لیے بہشت ہے۔

شیعہ علماء حضرت معصومہؑ کے لئے بہت عظیم مقام و مرتبے کے قائل ہیں اور آپ کی منزلت اور زیارت کی اہمیت کے بارے میں بعض روایات نقل کرتے ہیں: علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ سارے شیعہ ان کی شفاعت کی بنا پر بہشت میں داخل ہو نگے۔[32] ان کے زیارت نامے میں ان سے شفاعت کی درخواست کی گئی ہے۔[33]

شیخ شوشتری "قاموس الرجال" میں لکھتے ہیں کہ موسی بن جعفر ؑ کی کثیر اولاد میں امام رضاؑ کے بعد کوئی بھی حضرت معصومہؑ کا ہم رتبہ نہیں ہے۔[34] شیخ عباس قمی کہتے ہیں: آپؑ امام موسی کاظمؑ کی بیٹیوں میں سب سے افضل ہیں۔[35] عباس قمی مزید لکھتے ہیں کہ حضرت معصومہ جلیل القدر امام زادیوں میں سے ہیں اور یقینی طور پر امام کاظمؑ کی بیٹی ہیں اور یقینی طور پر موجودہ حرم میں مدفون ہیں۔[36] امام صادقؑ، امام کاظمؑ اور امام محمد تقیؑ سے منقول روایات کے مطابق حضرت معصومہ کی زیارت کا ثواب بہشت قرار دی گئی ہے۔[37] البتہ بعض روایات میں بہشت ان لوگوں کی پاداش قرار دی گئی ہے جو معرفت اور شناخت کے ساتھ آپ کی زیارت کریں۔[38] کتاب "زندگانی کریمہ اهل‌بیت(ع)" کے مصنف نے محمود انصاری قمی (متوفی: 1998ء) سے اور انہوں نے ایک شیعہ عالم دین سید نصرالله مستنبط (متوفی: 1985ء) سے نقل کیا ہے کہ نویں صدی کے شیعہ عالم دین صالح بن عرندس حلی کی کتاب کشف اللئالی کے خطی نسخے میں ایک روایت منقول ہے کہ جس میں امام کاظمؑ نے حضرت فاطمہ معصومہ سے خطاب کر کے فرمایا: «فَداها اَبوها؛ بیٹی پر باپ کی جان قربان»۔ اس روایت کے مطابق امام کاظمؑ نے اس جملے کو اس وقت ارشاد فرمایا کہ جب حضرت معصومہؑ امام کی غیر موجودگی میں شرعی مسائل کا درست جواب دیا کرتی تھیں۔ کتاب "زندگانی کریمہ اهل‌بیت(ع)" کا کہنا ہے کہ اس مضمون پر مشتمل یہ حدیث دیگر کتب حدیثی میں نہیں پائی گئی۔[39]

زیارت نامہ

علامہ مجلسی نے کتاب زاد المعاد، بحار الانوار اور تحفۃ الزائر میں حضرت فاطمہ معصومہؑ کے لئے امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ایک زیارت نامہ ذکر کیا ہے۔[40] البتہ انہوں نے کتاب تحفۃ الزائر میں زیارت نامہ نقل کرنے کے بعد احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے کہ اس روایت میں زیارت نامے کا متن امام کے کلام کا حصہ نہ ہو بلکہ اسے علماء نے اضافہ کیا ہو۔[41] نقل ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ اور حضرت فاطمہ معصومہ وہ منفرد خواتین ہیں جن کے لیے ماثور زیارت نامہ (وہ زیارت نامہ جس کی سند معصومین علیہم السلام تک منتہی ہو) ذکر ہوا ہے۔[42]

حرم حضرت معصومہ

حرم حضرت معصومہ کی قدیمی تصویر

حضرت فاطمہ معصومہ کی قبر پر پہلے ایک سائبان اور پھر ایک قبہ بنایا گیا۔[43] آپ کے مدفن میں آئے روز وسعت آتی گئی اور آج ایران میں حرم امام رضا کے بعد سب بڑی بارگاہ شمار ہوتی ہے۔[44] حضرت معصومہ کا آستانہ، حرم، دیگر عمارتیں، موقوفات اور انتظامی دفاتر پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر قم شہر میں ہی ہیں۔[45]

حضرت معصومہ کی یاد میں کانفرنس

سنہ 2005ء میں آستانہ حضرت معصومہ کے متولی علی اکبر خمینی مسعودی کے حکم سےحضرت فاطمہ معصومہ کی شخصیت اور قم کی ثقافتی منزلت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک کانفرنس منعقد ہوئی[46] یہ کانفرنس حرم حضرت معصومہ میں منعقد ہوئی جس میں آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ جوادی آملی جیسے مراجع تقلید نے خطاب کیا۔[47]

اس کانفرنس کے سیکریٹری احمد عابدی کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعہ حضرت معصومہ، حرم حضرت معصومہ، حوزہ علمیہ قم، قم اور اسلامی انقلاب کے موضوعات پر 54 کتابیں لکھی گئیں۔[48]

کتابیات

حضرت فاطمہ معصومہ کے بارے میں لکھی گئی بعض کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

  • حضرت معصومہ فاطمہ دوم؛ مصنف: محمد محمدی اشتہاردی
  • پرتوی از روی دوست؛ مصنف: اسماعیل کرمانشاہی
  • زندگانی حضرت معصومہ و تاریخ قم؛ مصنف: سید مہدی صحفی
  • جغرافیای تاریخی حضرت فاطمہ معصومہ؛ مصنف: سیدعلی رضا سیدکباری
  • حضرت معصومه و شهر قم؛ مصنف: محمد کریمی
  • حیاة و کرامات فاطمة المعصومه؛ مصنف: سید محمدعلی حسینی بقاعی لبنانی
  • بانوی ملکوت؛ مصنف: علی کریمی جهرمی
  • عمه سادات؛ مصنف: سید ابوالقاسم حمیدی۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. محلاتی، ریاحین الشریعہ، 1373 ہجری شمسی، ج5، ص31۔
  2. ملاحظہ کریں: مفید، الارشاد، 1403ھ، ج2، ص244۔
  3. ملاحظہ کریں: ابن‌ جوزی، تذکرة الخواص، ص315۔
  4. ملاحظہ کریں: طبری، دلائل‌ الامامۃ، ص309۔
  5. استادی، آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص301۔
  6. استادی، «آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او»، ص297۔
  7. استادی، آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص301۔
  8. محلاتی، ریاحین الشریعہ، 1373 ہجری شمسی، ج5، ص32۔
  9. شبیری زنجانی، جرعہ‌ای از دریا، 1394ہجری شمسی، ج2، ص519۔
  10. استادی، آشنایی با حضرت عبدالعظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص301۔
  11. محلاتی، ریاحین الشریعہ، 1373 ہجری شمسی، ج5، ص31و32۔
  12. شورای مرکز تقویم مؤسسہ ژئوفیزیک دانشگاه تہران، تقویم رسمی کشور سال 1398 هجری شمسی، ص9۔
  13. مہدی ‌پور، کریمہ اہل بیتؑ، 1380 ہجری شمسی، ص23و41؛ نیز ملاحظہ کریں: اصغری‌ نژاد، «نظرى بر اسامى و القاب حضرت فاطمہ معصومہؑ»۔
  14. مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، 1380ہجری شمسی، ص29۔
  15. مجلسی، زاد المعاد، 1423ھ، ص547۔
  16. ملاحظہ کریں: مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، 1380ہجری شمسی، ص41و42۔
  17. مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، 1380 ہجری شمسی، ص41و42۔
  18. محلاتی، ریاحین الشریعہ، 1373 ہجری شمسی، ج5، ص31۔
  19. ملاحظہ کریں: مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، 1380 ہجری شمسی، ص150۔
  20. مہدی ‌پور، کریمہ اہل بیتؑ، 1380 ہجری شمسی، ص151۔
  21. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، 1413ھ، ج2، ص361۔
  22. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص317۔
  23. قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، 1413ھ، ج2، ص497۔
  24. حسینی، «راز عدم ازدواج حضرت معصومه(ع)»، ص103-104.
  25. قرشی، حیاة الامام الرضا(ع)، 1380ہجری شمسی، ج2، ص351.
  26. قمی، تاریخ قم، توس، ص213۔
  27. عاملی، حیاة السیاسی للامام رضا(ع)، ج1، ص428۔
  28. قمی، تاریخ قم، توس، ص213۔
  29. قمی، تاریخ قم، توس، ص213۔
  30. قمی، تاریخ قم، توس، ص213۔
  31. قمی، تاریخ قم، توس، ص213۔
  32. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج99، ص267۔
  33. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۹، ص۲۶۷؛ مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ھ، ص۵۴۸-۵۴۷۔
  34. تواریخ النبی و الآل، ص65۔
  35. منتہی الآمال، ج2، ص378۔
  36. قمی، مفاتیح الجنان، ص562.
  37. ملاحظہ کریں: ابن ‌قولویہ، کامل‌ الزیارات، 1356 ہجری شمسی، ص536؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج99، ص265-268۔
  38. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج99، ص266۔
  39. مہدی‌پور، زندگانی کریمہ اهل بیت(ع)، 1384ہجری شمسی، ص52-54.
  40. ملاحظہ کریں: مجلسی، زاد المعاد، 1423ھ، ص548-547؛ مجلسی، بحار الانوار، ج99، 1403ھ، ص266-267؛ مجلسی،‌ تحفة الزائر،‌1386 ہجری شمسی، ص4۔
  41. مجلسی،‌ تحفة الزائر،‌1386ہجری شمسی، ص666۔
  42. مہدی ‌پور، کریمہ اهل بیتؑ، 1380ہجری شمسی، ص126۔
  43. قمی، تاریخ قم، توس، ص213؛ سجادی، «آستانہ حضرت معصومہ»، ص359۔
  44. سجادی، «آستانہ حضرت معصومہ»، ص358۔
  45. سجادی، «آستانہ حضرت معصومہ»، ص358۔
  46. کنگرہ بزرگداشت حضرت فاطمہ معصومہ، مجموعہ مقالات، 1384ہجری شمسی، ج1، ص2۔
  47. شرافت، «کنگرہ بزرگداشت حضرت فاطمہ معصومہؑ و مکانت فرہنگی قم»، ص139و145۔
  48. شرافت، «کنگرہ بزرگداشت حضرت فاطمہ معصومہؑ و مکانت فرہنگی قم»، ص142۔

مآخذ

  • ابن‌ جوزی، تذکرۃ الخواص، قم، منشورات الشریف الرضی، 1418ھ۔
  • ابن‌ قولویہ، جعفر بن محمد، کامل‌ الزیارات، نجف، دار المرتضویہ، چاپ اول، 1356 ہجری شمسی۔
  • استادی، رضا، «آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او»، نور علم، ش۵۰و۵۱۔
  • اصغری‌ نژاد، محمد، «نظرى بر اسامى و القاب حضرت فاطمہ معصومہؑ»، فرہنگ کوثر، ش35، 1378 ہجری شمسی۔
  • سجادی، «آستانہ حضرت معصومہ»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1367ہجری شمسی۔
  • شرافت، امیر حسین، «کنگرہ بزرگداشت حضرت فاطمہ معصومہؑ و مکانت فرہنگی قم»، وقف میراث جاوید، ش52، 1384ہجری شمسی۔
  • شوشتری، محمد تقی، تورایخ النبی و الآل، تہران، 1391ھ۔
  • شبیری زنجانی، سید موسی، جرعہ‌ای از دریا، قم، مؤسسہ کتاب ‌شناسی شیعہ، قم، 1394 ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفہ حجج اللہ علی العباد، بیروت، دار المفید، 1414ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، قم، 1413ھ۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، حیاۃ السیاسیۃ للامام رضا (ع)، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ، 1403ھ۔
  • قرشی، حیاۃ الامام موسی بن جعفر دراسۃ و تحلیل، بیروت، دار البلاغہ، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، تصحیح: جلال‌ الدین تہرانی، تہران، توس، بی‌تا۔
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال فی تواریخ النبی و الآل، قم: جامعہ مدرسین، 1422ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الكافی، تصحیح: علی‌ اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • کنگرہ بزرگداشت حضرت فاطمہ معصومہ، مجموعہ مقالات، قم، زائر، چاپ اول، 1384 ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تصحیح: جمعی از محققان، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ: دوم، 1403ھ۔
  • مجلسی،‌ محمد باقر، تحفۃ الزائر،‌ تحقیق و تصحیح مؤسسہ امام ہادی، قم، مؤسسہ امام ہادی، چاپ اول، 1386 ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر، زاد المعاد، تصحیح: علاء الدین اعلمی، بیروت، مؤسسہ اعلمی للمطبوعات، 1423ھ۔
  • محلاتی، ذبیح‌ اللہ، ریاحین الشریعہ، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، بی‌تا۔
  • مہدی‌ پور، علی‌ اکبر، کریمہ اہل بیتؑ، قم، نشر حاذق، ہجری شمسی، چاپ 1، 1374ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌ یعقوب، تاریخ الیعقوبی، تحقیق عبد الامیر مہنا، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ اول، 1413ھ۔