عبد اللہ بن علی بن ابی طالب

ویکی شیعہ سے
عبد اللہ بن علی بن ابی طالب
حرم امام حسینؑ میں بعض شہدائے کربلا کی آرامگاہ
حرم امام حسینؑ میں بعض شہدائے کربلا کی آرامگاہ
کوائف
نسببنی ہاشم
مشہور اقاربامام علیؑ؛ امام حسنؑ؛ امام حسینؑ؛ حضرت عباسؑ
پیدائشتقریبا سنہ 35 ہجری
شہادتروز عاشورا 61ھ
مقام دفنحرم امام حسینؑ
اصحابامام حسینؑ


عبد اللہ بن علی حضرت علی بن ابی طالب کے فرزند اور حضرت عباس کے بھائی ہیں۔آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت حزام اور کنیت ام البنین ہے۔آپ کا شمار کربلا کے شہیدوں میں سے ہوتا ہے ۔عبد اللہ بن علی حضرت عباس سے آٹھ سال چھوٹے ہیں اور دوسرے بھائیوں سے بڑے ہیں ۔بعض کتب میں انہیں اپنے بھائیوں میں سے پہلا شہید بھی کہا گیا ہے ۔

زندگی نامہ

عبد اللہ کا نام تاریخی کتابوں میں "عبد اللہ اکبر"[1] اور "عبد اللہ اصغر"[2] مذکور ہوا ہے نیز کنیت "ابو احمد"[3] ذکر ہوئی ہے ۔حزام کی بیٹی فاطمہ جنکی کنیت ام البنین ہے ،آپ کی والدہ ہیں [4]۔حضرت عباس عبد اللہ بن علی سے آٹھ سال بڑے تھے جبکہ عبد اللہ دوسرے بھائیوں سے بڑے تھے[5]۔عبد اللہ نے چھ سال اپنے باپ کے ساتھ زندگی گزاری ہے ۔اس کے علاوہ کربلا کے واقعے سے پہلے ان کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں ہے ۔

شہادت

واقعۂ کربلا میں موجود ہونے اور ان کی شہادت کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے کیونکہ ابن سعد، ابن قتیبہ ،ابو الفرج،خوارزمی، شیخ طوسی اور دیگران نے انہیں شہدائے کربلا میں شمار کیا ہے[6] ۔بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے بھائی جعفر کے بعد شہید ہوئے۔[7]

آپ کی شہادت یوں قلمبند ہوئی ہے :

جب اصحاب امام حسین ؑ اہل بیت سے وعدۂ وفا کرتے ہوئے شہید ہو چکے تو حضرت عباس بن علی نے اپنے بھائی عبد اللہ کو طلب کیا اور ان سے کہا :میدان کارزار کی طرف بڑھو تا کہ میں تمہاری شہامت اور شجاعت کے جوہر دیکھوں اور تمہاری جدائی کا داغ میرے لئے اجر قرار پائے کیونکہ تمہارا کوئی فرزند نہیں ہے ۔ عبد اللہ نے اپنے بھائی کی آواز پر لبیک کہا اور یہ رجز پڑھتے ہوئے میدان جنگ میں دشمن پر حملہ آور ہوئے[8] :

میں اس کا فرزند ہوں جو بہادر اور بخشنے والا ہے اور وہ علی ہے جو خیر پر ہے اور نیک سیرت کا مالک ہے۔

وہ اللہ کی جانب سے انتقام کیلئے بھیجی ہوئی تلوار ہے اور اس کی ہیبت قوم کے اندر آشکارا ہے ۔

عبد اللہ نے عمر بن سعد کے لشکریوں کی ایک تعداد کو قتل کیا[9] اور بالآخر درجۂ شہادت پر فائز ہو گئے ۔

بعض نے ان کے قاتل کا نام ہانی بن ثبیت حضرمی لکھا ہے جس نے آپ کے سر پر وار کر کے شہید کیا[10] بعض نے خولی بن یزید کا نام لکھا ہے کہ جس نے تیر کے ذریعے انہیں نشانہ بنایا ۔اس کے بعد ابان بن دارم کی شاخ بنی تمیم کے ایک شخص نے انہیں شہید کیا[11] ان کا سن شہادت 25 سال لکھا ہے[12] ۔انہوں نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی ہے[13] ۔

زیارت ناحیہ

زیارت ناحیہ میں آپ کا نام یوں مذکور ہوا ہے: السّلام علی عبدالله بن امیرالمؤمنین(ع) مبلی البلاء و المنادی بالولاء فی عرصة کربلاء المضروب مقبلاً و مدبرا؛ لعن الله قاتله هانی بن ثبیت الحضرمی.[14]

حوالہ جات

  1. المجدی، ص ۱۵
  2. مناقب، ج۴، ص ۱۱۲
  3. المجدی، ص ۱۵؛ محلاتی، فرسان الہجاء، ج ۵، ص ۶۹
  4. الطبقات، ج ۳، ص ۱۴؛ ابن جوزی المنتظم، ج ۵، ص ۶۹
  5. مقاتل الطالبین، ص ۸۲؛ انصارالحسین، ص ۶۷
  6. الطبقات الکبری، ج ۳، ص ۱۴؛ المعارف، ص ۸۸؛ تاریخ طبری، ج ۵، ص ۱۵۳؛ مقاتل الطالبین، ص ۸۳؛ رجال طوسی، ص ۸۶
  7. الفتوح، ج ۵، ص ۲۰۷؛ مقتل الحسین، ج۲، ص ۱۰۹؛ مقاتل الطالبین، ص ۸۲
  8. ابن اعثم، الفتوح، ج ۵، ص ۱۱۴؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ج۴، ص ۱۱۶
  9. فرسان الہیجاء، ج ۱، ص ۲۵۰
  10. انساب الاشراف، ج۳، ص ۴۰۷؛ اخبارالطول، ص ۲۵۷؛ مقاتل الطالبین، ص ۸۲؛ الارشاد، ج۲؛ ص ۱۰۹؛ اعلام الوری، ج ۱؛ ص ۴۶۶
  11. الشجری، الامالی الخمسیہ، ج۱، ص ۱۷؛ المحلی، الحدائق الوردیہ، ج۱، ص ۱۲۰
  12. مقاتل الطالبین، ص ۸۲؛ اعلام الوری، ج ۱، ص ۳۹۵
  13. مقاتل الطالبین، ص ۸۲
  14. سید بن طاووس، مصباح الزائر، ص ۲۸۰-۲۷۹

مآخذ

  • منبع اصلی: جمعی از پژوہشگران زیر نظر سیدعلیرضا واسعی، نگاہی نو بہ جریان عاشورا، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، چاپ ہفتم، ۱۳۹۰ شمسی، ص ۱۱۹ ـ ۱۱۷.
  1. عمری، المجدی فی انساب الطالبین، تحقیق احمد مہدوی دامغانی، نشر کتابخانہ آیت الله مرعشی.
  2. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج ۴، چاپ دوم، بیروت، دارالاضواء، ۱۴۱۲ق.
  3. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الہیجاء، ج ۱، چاپ دوم، مرکز نشر کتاب، ۱۳۹۰ق.
  4. ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق عبدالقادر عطا، ج ۳، چاپ دوم: بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
  5. ابن جوزی، المنتظم، تحقیق محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر، ج ۵، چاپ اول: بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۲ق.
  6. ابن فندق، لباب الانساب، تحقیق مہدی رجایی و محمود مرعشی، ج۱، چاپ اول: کتابخانہ آیت الله مرعشی، ۱۴۱۰ق.
  7. اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبین، شرح و تحقیق سید احمد صقر، بیروت، دارالمعرفہ.
  8. دینوری، ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، چاپ ششم: الهیئہ المصریہ العامہ للکتاب.
  9. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، تحقق محمد ابوالفضل ابراہیم، ج ۵، بیروت، بی‌تا.
  10. شیخ طوسی، رجال، چاپ اول: نجف، المکتبہ الحیدریہ، ۱۳۸۰ق.
  11. ابن اعثم کوفی، الفتوح، تحقیق علی شیری، ج ۵، چاپ دوم: بیروت، دارالاضواء، ۱۴۱۱ق.
  12. دینوری، ابوحنیفہ، اخبارالطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر، چاپ اول: قاهره، منشورات الشریف الرضی، ۱۹۶۰م.
  13. شیخ مفید، الارشاد، موسسہ آل البیت، ج ۱، چاپ اول: قم، انتشارات الموتمر العالمی، ۱۴۱۳ق.
  14. طبرسی، اعلام الوری، تحقیق موسسہ آل البیت، ج۱، چاپ اول: ۱۴۱۷ق.
  15. شجری، الامالی الخمیسیہ، ج ۱، بیروت، عالم الکتب.
  16. محلی، الحدائق الوردیه، چاپ دوم: دمشق، داراسامہ، ۱۴۰۵ق.
  17. ابن طاووس، مصباح الزائر، چاپ اول: قم، تحقیق و نشر موسسہ آل بیت، ۱۴۱۷ق.