عبد مناف بن قصی

ویکی شیعہ سے
عبد مناف بن قصی
شناختی معلومات
مکمل نامعبد مناف بن قصی بن کلاب، بن مرہ
لقبقمر البطحاء
کنیتابو عبدالشمس
والدقصی بن كلاب بن مرة
والدہحُبَّی بنت حُلَیل بن حبشیہ بن سلول بن کعب بن خزاعہ
شریک حیاتعاتکہ بنت مرہ بن ہلال بن فالج من بنی مازن
اولادہاشم، مُطَلِّب، عبد شمس
نوفل
مسکنمکہ
نسبقریشی
نامور اقرباءقصی بن کلاب (والد) ہاشم (فرزند)
مدفنجنۃ المعلی (مقبرہ حجون) مکہ
دینی معلومات
اعتقادی کیفیتمؤمن و یکتا پرست
کردار
قریش کی تجارتی مہمات کے بانی

عبد مناف بن قصی]] رسول اللہ کے تیسرے جد امجد اور قریش کے سردار اور بنو عبد مناف کے مورث اعلی ہیں اور ایک قول کے مطابق ایلاف کی تجارتی مہمات کی بنیاد ان ہی نے رکھی تھی۔

نام و نسب

عبد مناف، (نام: مغیرہ)، بن قصی (نام: زید)، بن کلاب بن مرہ، بن لؤی بن غالب بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ (نام: عامر) بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔[1]

ان کی والدہ حُبَّى بنت حُلَیل بن حبشیہ بن سلول بن کعب بن عمرو (نام: خزاعہ) بن ربیعہ (نام: لحی) بن عامر بن عمیر (قمعہ) بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ہیں۔[2]

لقب اور ذاتی خصوصیات

رسول خدا(ص) کے تیسرے جد امجد "مغیرہ" عبد مناف جو "قمر البطحاء" [اور فیّاض] کے لقب سے مشہور تھے، اپنے بھائی عبد الدار بن قصی سے چھوٹے تھے لیکن لوگوں کے دلوں میں خاص مقام و منزلت رکھتے تھے۔ شعار پرہیزگاری اور تقوی ان کا تھا اور لوگوں کو بھی تقوی، حسن سلوک اور صلہ رحمی (= اعزاء و اقارب کے ساتھ تعلق برقرار رکھنے) کی دعوت دیتے تھے لیکن اپنی اعلی منزلت، ممتاز حیثیت اور ہردلعزیز کے باوجود کبھی بھی اپنے بھائی کے ساتھ مسابقت اور کعبہ کے اعلی مناصب پر قبضہ جمانے کے درپے نہ تھے۔[3]

عبد مناف کی کنیت "ابو عبد شمس" اور لقب "قمر البطحاء" ہے؛ جس طرح کہ عبداللہ بن عبدالمطلب(ع) کو "قمر الحرم" اور عباس بن علی(ع) کو "قمر بنی ہاشم" کہا گیا ہے۔

شہید بدر جناب عبیدہ بن حارث کا سلسلۂ نسب مُطَلِّب بن عبدمناف تک اور بنو امیہ کا سلسلۂ نسب عبد شمس بن عبد مناف تک پہنچتا ہے۔

قصی بن کلاب نے وفات پائی اور انہیں مقبرہ حجون [4] میں دفنایا گیا تو عبد مناف قوم کے سید و سردار بنے اور ان کی منزلت کی رفعت ملی اور مکہ کے امور و معاملات کا انتظام بغیر کسی نزاع تخاصم کے قصی کے فرزندوں کے پاس تھا۔[5]

ازواج

  1. عاتکہ بنت مرہ بن ہلال بن فالج بن ذکوان بن ثعلبہ بن بہثہ بن سلیم بن منصور بن عکرمہ بنت خصفہ بن قیس بن عیلال بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان، السلمیہ جو ہاشم اور عبد شمس اورمطلب کی والدہ تھیں۔
  2. واقدہ بنت ابی عدی المازنیہ ـ جو بنو مازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس بن عیلان بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان سے تھیں۔ نوفل کی والدہ ہیں۔[6]

اولاد

  1. ہاشم بن عبد مناف؛
  2. مطلب بن عبد مناف؛
  3. عبد شمس بن عبد مناف؛
  4. نوفل بن عبد مناف؛
  5. ابو عمرو۔

عبد مناف کی چھ بیٹیاں بھی تھیں۔۔[7]

ابن سعد لکھتے ہیں کہ عبدمناف کے چھ بیٹے تھے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ مطلب ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے جنہوں نے تجارتی دورے کئے اور نجاشی کے ساتھ معاہدہ منعقد کیا۔ ہاشم (جن کا نام عمرو ہے) نے روم میں ہرقل کے ساتھ تجارتی معاہدہ منعقد کیا کیونکہ وہ شام کا سفر کیا کرتے تھے۔ عبد شمس، عبد مناف کی بیٹیاں "حنّہ"، قلابہ"، "بَرّہ"، اور "ہالہ" اور ان سب کی والدہ عاتکہ کبری بن مرہ بن ہلال تھیں۔ علاوہ ازیں عبد مناف کے چوتھے بیٹے کا نام نوفل ہے جنہوں نے یران کے بادشاہ کے ساتھ معاہدہ منعقد کرکے قریش اور عراق کے درمیان تجارت کو ممکن بنایا۔ ان کے پانچویں بیٹے کا نام ابو عمرو تھا اور چھٹا بیٹا "ابو عبید بن مناف" تھا جو طفولت میں گذر گیا تھا۔ مؤخر الذکر بیٹوں اور بیٹیوں کی والدہ "واقدہ بنت ابی عدی مازنیہ" تھیں۔[8]

مکہ کے مناصب و دیگر تفصیلات

حکومت اور زعامت والد (قصی کی وصیت کے مطابق عبدالدار کے ہاتھ میں تھی لیکن دو بھائیوں کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں کے درمیان ان مناصب پر تنازعہ رونما ہوا اور یہ کشمکش آخر کار مصالحت اور مناصب کی تقسیم پر منتج ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ کعبہ کی تولیت اور دارالندوہ کی ریاست عبدالدار کے سپرد کی گئی اور سقایت اور حجاج کی مہمان داری اور ضیافت کا منصب عبدمناف کے فرزندوں کو سونپ دیا گیا اور مناصب کی یہ تقسیم ظہور اسلام تک برقرار تھی اور دارالندوہ کی ریاست عبدالدار کے فرزندوں کے پاس تھی اور حجاج کی ضیافت کا منصب عبد مناف کے فرزندوں کے پاس۔

واضح رہے کہ کعبہ کی تعمیر کے وقت متعلقہ مناصب موجود نہ تھے بلکہ ایام و اعوام گذرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں کی رو سے یہ مناصب معرض وجود میں آئے۔ اسلام سے قبل کعبہ کے مناصب چار تھے:

  1. کعبہ کی تولیت (=متولی کا منصب) اور کلید داری؛
  2. سقایت (= حجاج کو پانی فراہم کرنے کا منصب)؛
  3. رفادت یعنی حجاج کو کھانا فراہم کرنا اور ان کی ضیافت کا اہتمام کرنا؛
  4. مکیوں کی سربراہی اور لشکر کی امارت

مؤخر الذکر منصب دینی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔[9]

معاصر دانشور سید ہاشم رسولی محلاتی تاریخ و سیرت کے مآخذ کے حوالے سے لکھتے ہیں: قصی کے چار بیٹوں میں سب سے بڑے کا نام عبدالدار تھا لیکن ان کے دوسرے بیٹے "مغیرہ" جن کو والدہ نے "عبدمناف" کا دام دیا تمام بھائیوں سے زیادہ کریم الطبیع اور شریف و بزرگوار تھے کیونکہ انھوں نے جود و سخا اور فیاضی میں دوسروں سے سبقت لے لی تھی اور اسی حوالے سے قریش میں "فیاض" کے لقب سے مشہور تھے۔ حسن و جمال زباں زد خاص و عام تھا یہاں تک کہ انہیں "قمر البطحاء" کہا جاتا تھا۔ چنانچہ لوگوں کی اکثریت کے نزدیک دوسرے بھائیوں کی نسبت والد کی جانشینی اور کعبہ کے مناصب سنبھالنے کے زیادہ اہل تھے؛ شاید اسی عوامی رائے کی وجہ سے قصی نے [اپنی زندگی کے آخر میں ہی ایک باضابطہ بیٹھک میں اپنے تمام مناصب اپنے بڑے بیٹے عبدالدار کے سپرد کئے کیونکہ وہ عبدالدار سے بہت محبت کرتے تھے اوردوسری طرف سے دیکھ رہے تھے کہ عبد مناف اور دوسرے بھائی فضائل و شرافت میں ان سے سبقت لے چکے ہیں۔ چنانچہ قصی سے مخاطب ہوکر کہا:

"جان لو! اے فرزند: خدا کی قسم! میں ایسے اقدامات کروں گا کہ تم شرف اور عظمت میں اپنے بھائیوں تک پہنچ جاؤگے اور اگرچہ بھائی تم پر برتری اور شرف حاصل کرچکے ہیں لیکن میں کچھ ایسے اقدامات کروں گا کہ قریش میں سے کوئی بھی کعبہ میں داخل نہیں ہوسکے گا جب تک تم نے اس کا دروازہ نہ کھولا ہو اور تم نے اذن دخول نہ دیا ہو؛ اور جنگ کے لئے کوئی پرچم قریش کے لئے نہیں باندھا جاسکے گا سوا اس کے تم اسے باندھ لو؛ اور سقایت کا منصب تمہارے ہاتھ آجائے اور حجاج تمہارے سوا کسی کا طعام نہ کھائیں اور قریش تمہارے گھر کے سوا کہیں کوئی فیصلہ نہ کریں"۔

اور یوں قصی نے اپنے تمام تر مناصب عبدالدار کو منتقل کئے اور سقایت، پرچمداری، کلید داری، دارالندوہ کی ریاست اور حاجیوں کو کھانا کھلانے کے تمام مناصب کے عہدہ دار ہوئے۔

قصی کے تمام فرزندوں نے بھی والد کی وصیت کو دل سے قبول کیا اور عبدالدار کی زعامت اور تمام مناصب کی ان کی طرف منتقلی پر راضی ہوئے اور قصی کی وفات سے عبدالدار کی وفات تک ان کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔[10]

بایں حال یعقوبی کا کہنا ہے کہ قصی نے مذکورہ مناصب کو عبدالدار اور عبدمناف کے درمیان تقسیم کیا اور وہ یوں کہ کعبہ کی پردہ داری، دارالندوہ کی ریاست اور پرچم داری کے مناصب عبدالدار کو سونپ دیئے اور سقایت، رفادت اور قریش کی زعامت جیسے مناصب کو عبدمناف کے سپرد کیا۔[11]

بہرحال عبد مناف بن قصی کعبہ کے پردہ دار، قریش کے سید وزعیم اور شہر مکہ کے رئیس ہوئے اور بنو عبد مناف نے صدیوں تک حکمرانی کی۔ آل ابی طالب اور ائمۂ معصومین علیہم السلام، بنو امیہ اور بنو عباس عبد مناف کی نسل سے ہیں۔[12]

بنو عبد مناف اور دعوت ذوالعشیرہ

ابن سعد لکھتے ہیں: ہشام بن محمد سائب کلبی نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب قصی بن کلاب نے وفات پائی تو عبد مناف بن قصی نے والد کے معاملات کا انتظام سنبھالا، قریش کی سیادت و زعامت سنبھالی اور قصی کی طرف سے مختص کردہ زمینوں کے علاوہ کچھ مزید زمینیں اپنی قوم کے لئے معین کردیں اور جب خداوند متعال نے یہ آیت نازل فرمائی: "وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (ترجمہ: اور ڈرا دیجئے اپنے قریبی خاندان والوں کو)[؟–214]" تو آپ(ص) نے صرف اولاد عبد مناف کو اپنے قریبی خاندان والوں کے زمرے میں دعوت دی اور جب ابو لہب نے مخالفت کی تو سورہ مسد نازل ہوئی۔[13]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج1، ص1۔
  2. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج1، ص70۔
  3. جعفر سبحانی، فروغ ابدیت، ج1، ص111-112۔
  4. الحموی، معجم البلدان، ج2، ص225۔
  5. آیتی، تاریخ پیغمبر اسلام، ص41۔
  6. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج1، ص70۔
  7. آیتی، تاریخ پیغمبر اسلام، ص:41۔
  8. ابن سعد، الطبقات الکبرى، ج1، ص74-75۔
  9. جعفر سبحانی، وہی ماخذ۔
  10. ابن سعد، الطبات الکبری، ج1، ص73 و دیگر مآخذ سیرت و تاریخ۔
  11. اليعقوبي، تاريخ اليعقوبي، ج1، ص241۔
  12. رسولی محلاتی، زندگانی حضرت محمد(ص)، ذیل "عبد مناف"۔
  13. ابن سعد، الطبقات الکبرى، ج1، ص74-75۔

مآخذ

  • آیتی، محمد ابراہیم (۱۳۴۳ - ۱۲۹۴)، تاریخ پیغمبر اسلام، تجدیدنظر و اضافات و کوشش ابوالقاسم گرجی، دانشگاه تہران، موسسہ انتشارات و چاپ، 1378 ه‍
  • ابن سعد، أبو عبد الله محمد بن سعد، البصري، البغدادي (المتوفى: 230هـ)، المحقق: إحسان عباس، الناشر: دار صادر - بيروت الطبعۃ: الأولى، 1968عیسوی۔
  • ابن ہشام، عبد الملك، السيرة النبويۃ، [سيرة النبي صلى الله عليہ وآلہ ألفہا إبن إسحاق وہذبہا إبن ہشام]، تحقیق: محمد محيى الدين عبد الحميد، مكتبۃ محمد على صبيح وأولاده، مصر 1356 ه‍ / 1937 ع‍
  • الحموی، یاقوت بن عبد الله الرومی البغدادی، معجم البلدان، دار إحیاء الثراث العربی بیروت - لبنان ـ 1399 ه‍ / 1979 ع‍
  • رسولی محلاتی، سید ہاشم، زندگانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ، چاپ اول سال 1397 ه‍
  • سبحانی تبریزی، جعفر، فروغ ابدیت، قم: بوستان کتاب قم، چاپ بیست و یکم، 1385 ه‍ ش
  • اليعقوبي، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر، تاريخ اليعقوبي، مؤسسہ ونشر فرہنگ اہل بيت(ع) - قم ۔ دار صادر بيروت 1379 ه‍ / 1960 ع‍