غزوہ فتح مکہ

ویکی شیعہ سے
(فتح مکہ سے رجوع مکرر)
غزوه فتح مکہ
رسول خدا(ص) کے غزوات
کتاب سیرت النبی میں سپاہ اسلامی کی فتح مکہ سے پہلی کی تصویر جو 11ویں صدی ہجری میں عثمانی تیسرا حاکم سلطان مراد کے حکم سے سید سلیمان کسی پاشا نے تیار کی
تاریخذی القعدہ سنہ 8 ہجری۔ جنوری 630ء
مقاممکہ
مختصاتطریق ہجرت سے 420 کلومیٹر اور طریق قدیم سے 460 کلومیٹر
علل و اسبابقریش کی عہد شکنی اور رسول اللہ (ص) کے حلیف خزاعہ پر حملہ
قلمروحجاز
نتیجہمسلمانوں کی فیصلہ کن فتح
فریق 1مسلمین
فریق 2مشرکین قریش اور بنو بکر
سپہ سالار 1حضرت محمد(ص)
سپہ سالار 2ابو سفیان
فوج 110000 افراد پر مشتمل سپاہ اسلام
فوج 2قریش اور بنو بکر
نقصان 12 افراد شہید
نقصان 225 مشرکین مارے گئے اور مکہ پر شرک کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا


پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

غزوہ فتح مکہ، جس کو فتح اعظم اور فتح مکہ بھی کہا گیا ہے۔ 20 رمضان سنہ 8 ہجری (10 جنوری سنہ 630 ء) کو انجام پایا۔ مسلمانوں نے اس مہم کے نتیجے میں مکہ کو فتح کرکے اسلامی حکومت کے قلمرو میں شامل کیا۔ اس غزوے کا سبب یہ تھا کہ قبیلۂ قریش نے اس جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جو صلح حدیبیہ کے تحت مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان قائم تھی۔ وہ یوں کہ قریشیوں نے اپنے حلیف قبیلے بنو الدئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (بالخصوص اس کی ذیلی شاخ بنو نفاثہ) کی مدد کرتے ہوئے مسلمانوں کے حلیف قبیلے خزاعہ پر حملہ کیا اور ان کے متعدد افراد کو جن میں خواتین، بچے اور کمزور افراد شامل تھے، قتل کیا؛ اور یوں قریش نے اس اقدام کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ اپنے معاہدے کو توڑ دیا جس کو میثاق حدیبیہ کہا جاتا تھا۔

قریش کی اس گستاخی کے جواب میں پیغمبر اسلام (ص) نے 10000 افراد پر مشتمل سپاہ کو مسلح کیا۔ سپاہ اسلام نے مدینہ سے مکہ کی جانب عزیمت کی، مکہ پہنچی اور پرامن انداز سے شہر میں داخل ہوئی؛ گو کہ خالد بن ولید کو عکرمہ بن جہل کی سرکردگی میں کچھ قریشی افراد کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جھڑپ میں 25 مشرکین ہلاک اور باقی فرار ہوئے جبکہ 2 مسلمان شہید ہوئے۔

رسول اللہ(ص) مکہ میں اترے اور لوگ مطمئن ہوئے تو آپ (ص) کعبہ پہنچے، طواف کیا؛ اور اپنی کمان سے وہاں موجود بتوں کو نشانہ بنانے لگے اور آیات کریمہ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (ترجمہ: کہئے کہ حق آگیا اور جو خود غلط ہے، وہ نہ پہلے پہل پیدا کر سکتا ہے اور نہ دوسری دفعہ پلٹا سکتا ہے۔)[؟–49]،[1] اور کعبہ میں بتوں اور مجسموں کو دیکھا اور ان کے توڑنے کا حکم دیا۔

بنی ہاشم اور خزاعہ کا معاہدہ

عبد المطلب بن ہاشم نے طلوع اسلام سے قبل قبیلہ خزاعہ کے ساتھ بنو ہاشم کا پرانا معاہدہ مستحکم کیا تھا جس کا متن الواقدی نے نقل کیا ہے اور رسول خدا(ص) بھی اسی متن کی تائید فرمائی اور اسی کو خزاعہ کے ساتھ اپنے معاہدے کی بنیاد قرار دیا۔[2] اسی بنا پر خزاعہ کے افراد ہمیشہ مکہ کے اطراف میں رسول خدا(ص) کی آنکھوں اور کانوں کا کردار ادا کرتے تھے۔

دوسری طرف سے خزاعہ اور بنو بکر بن عبد منات کے درمیان دشمنی تھی اور قبل از اسلام ان کے درمیان تنازعات گذرے تھے۔ ظہور اسلام کے بعد وہ اپنے جھگڑے بھول گئے یہاں تک کہ میثاق حدیبیہ کا زمانہ آیا۔ معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ "قبائل کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ قریش کے ساتھ معاہدے منعقد کریں یا مسلمانوں کے ساتھ"، چنانچہ خزاعہ ـ جو عشروں سے بنو ہاشم کے حلیف تھے ـ نے رسول اللہ(ص) کے ساتھ اپنے پرانے معاہدے کی توسیع کا اہتمام کیا اور بنو بکر نے بھی قریش کے ساتھ ایک معاہدہ منعقد کیا۔

صلح حدیبیہ کا واضح مفہوم یہ تھا کہ اگر قریش یا رسول خدا(ص) کے حلیف آپس میں لڑ پڑیں تو فریقین کو اپنے حلیفوں کو کمک دینے کا حق حاصل نہیں ہوگا کیونکہ اگر صلح کا ایک فریق دوسرے فریق کے حلیف کے خلاف لڑائی میں حصہ لے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ دوسرے فریق کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ ادھر دوران جاہلیت قبائل کے درمیان جنگوں کی رسم یہ تھی کہ حلیف قبائل ایک صف میں قرار پاتے تھے۔ فطری امر تھا کہ اگر قریش یا رسول خدا(ص) بنو بکر کے ساتھ خزاعہ کی جنگ میں مداخلت کرتے تو یہ مداخلت صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی سمجھی جاتی۔

غزوہ فتح مکہ کا سبب

صلح حدیبیہ کے 22 مہینے بعد قریش نے معاہدے کی خلاف ورزی کی چنانچہ رسول خدا(ص) نے مکہ پر شرک کی حاکمیت کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔

قریش کی عہد شکنی

حالات پرسکون ہوئے تو بنو بکر کے بعض خاندانوں خزاعہ کے ایک گروہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور بعض قریشیوں نے بنو بکر کو ہتھیار دیئے اور بعض نقاب پوش قریشی افراد نے خفیہ طور پر رات کے وقت جنگ میں شرکت کی۔[3]۔[4] یہ بھی روایت ہے کہ فتنہ ظاہر ہونے کا سبب یہ تھا کہ بنو بکر کے ایک شخص "اَنَس بن زُنَيم" نے شعر کی زبان میں رسول اللہ(ص) کی ہجو گوئی کی تو خزاعہ کے ایک نو عمر لڑکے نے اعتراض کیا اور انس نے اس کا سر پھوڑ دیا۔[5] انس کی ہجو گوئی کی خبر رسول خدا(ص) کو پہنچی تو آپ(ص) نے اس کو واجب القتل قرار دیا؛ انس خفیہ طور پر مدینہ آیا اور آپ(ص) کی مدح میں اشعار کہے اور اپنی ہجوگوئی کی خبر کی تردید کی۔[6]

خزاعہ کے افراد پر بنو بکر نے حملہ کیا تو خزاعہ کو اس کی خبر نہیں تھی۔ خزاعہ کے افراد نے حملے کے بعد حرم کا رخ کیا لیکن بنو بکر نے حرم کی حرمت کا پاس نہیں رکھا اور ان کا تعاقب کیا۔ خزاعہ شہر مکہ تک بھاگے اور بدیل بن ورقا‏ء خزا‏عی نیز اپنے قبیلے کے ایک حلیف "رافع" کے گھروں میں داخل ہوئے۔[7]۔[8] اس جنگ میں خزاعہ کے 23 افراد قتل ہوئے۔[9]

عمرو بن خزاعہ مدینہ میں

ابو سفیان کے مدینہ جانے سے قبل عمرو بن سالم خزاعی خزاعہ کے 40 رکنی وفد کے ہمراہ مدینہ پہنچے اور رسول اللہ(ص) کے حضور قریش کی جارحیت کی شکایت کی۔ عمرو مسجد میں مسلمانوں کے درمیان اٹھ کھڑے ہوئے اور رسول خدا(ص) کی اجازت سے اشعار پڑھے جن کا مضمون پرانے حلیف سے استغاثے اور طلب امداد اور قریش پر بنو بکر کے شبخون سے عبارت تھا:


إنّ قريشاً اخلفوك مَوْعدا
ونقضوا ميثاقك المؤكّدا
هم بيتونا بالوتير هجدا
وقتلونا ركعاً وسجدا۔

ترجمہ:
قریش نے آپ(ص) کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کی
اور آپ کے ساتھ کی ہوئی میثاق مؤکد کو توڑ دیا
انھوں نے پانی کے کنارے ہم پر حملہ کیا
اور ہمیں رکوع اور سجود کی حالت میں قتل کردیا۔[10]۔[11]۔[12]

رسول اللہ(ص) نے غضب کی حالت میں فرمایا کہ اگر میں بنو کعب (جو خزاعی تھے) اور خزاعہ کی مدد نہ کروں تو خدا میری مدد نہ کرے۔[13]۔[14] بعد ازاں بدیل بن ورقاء بھی بعض خزاعیوں کے ساتھ رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ(ص) نے اس کو بھی خزاعہ کی مدد کا وعدہ دیا۔[15] یوں آپ(ص) نے قریش کے ساتھ آخری جنگ کا فیصلہ کیا۔ آپ(ص) نے قریش کی عہد شکنی کو اللہ کی مشیت سے تعبیر کیا جو خدا نے اسی امر عظیم کے لئے مقدر فرمایا تھا جو وہ خود چاہتا تھا اور اللہ کی مشیت فتح مکہ کے سوا کچھ نہ تھی۔

قریش کی ندامت

اس واقعے کے نتائج کا ادراک قریش کے سفیہوں اور نادانوں کے لئے ممکن نہ تھا لیکن ابو سفیان نے بھانپ لیا کہ رسول خدا(ص) اس واقعے کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ دوسری طرف سے یقینی امر تھا کہ رسول اکرم(ص) بھی موقع تلاش کررہے تھے اور معاہدے کے تقریبا دو سال گذرنے کے بعد ـ جبکہ کثیر تعداد میں عرب مسلمان ہوچکے تھے اور قریش کے اہم افراد خالد بن ولید اور عمرو بن عاص بھی اسلام قبول کرچکے تھے، غزوہ خیبر کے بعد یہودی بھی اپنی قوت کھو چکے تھے ـ آپ(ص) مکہ کو بآسانی فتح کرسکتے تھے۔

قریش کا خیال تھا کہ رسول خدا(ص) خزاعہ کے مقتولین کی خون بہاء وصول کرنے یا قریش بنو بکر کے ذیلی قبیلے بنو نفاثہ کی حمایت ترک کئے جانے کا مطالبہ کریں گے! (اور یوں رسول خدا(ص) بنو نفاثہ کے خلاف جنگ کا انتظام کریں گے)۔ یہ بھی ایک خیال تھا کہ قریش یکطرفہ طور پر صلح حدیبیہ کی منسوخی کا اعلان کیا۔ ان کے درمیان اس موضوع پر مباحثہ ہوا اور ہر کسی نے تجویز دی تاہم ابو سفیان کا منصوبہ یہ تھا کہ بنوبکر کے ساتھ قریش کے تعاون کا مکمل طور پر انکار کردے اور میثاق حدیبیہ کی تجدید کا اہتمام کرے۔[16]

ابو سفیان مدینہ میں

ابو سفیان نے خزاعہ کے عمائدین کے مدینہ پہنچنے سے پہلے مدینہ جانے کا فیصلہ کیا تاکہ رسول خدا(ص) کے ساتھ معاہدے کی توسیع کرے اور آپ(ص) کو مکہ کی طرف عزیمت کرنے سے باز رکھے۔

ابو سفیان بن حرب اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ اس نے عسفان کے علاقے میں بعض خزاعیوں کو دیکھا اور سمجھ گیا کہ قریش کی عہدشکنی کی خبر رسول خدا(ص) کو مل چکی ہے۔ بہرحال وہ [[مدینہ آیا اور آپ(ص) سے ملاقات کی اور کہا: میں صلح حدیبیہ میں موجود نہ تھا لہذا صلح کے عہدنامے کی توسیع اور تحکیم کے لئے آیا ہوں۔ رسول اکرم(ص) نے پوچھا: کیا کوئی واقعہ پیش آیا ہے؟ ابو سفیان نے کسی واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ آپ(ص) نے فرمایا: ہم اپنے عہد پر قائم ہیں اور اس میں کوئی تغیر اور تبدیلی نہیں چاہتے۔ رسول خدا(ص) درحقیقت معاہدے کی توسیع و تجدید کے لئے تیار نہیں ہوئے۔

دلچسپ امر یہ تھا کہ ابو سفیان اپنی بیٹی زوجۂ رسول(ص) ام حبیبہ کے گھر پہنچا تو انھوں نے ـ یہ کہہ کر کہ تم مشرک اور نجس ہو ـ اپنے باپ کو رسول اللہ(ص) کے بچھونے پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔ بعد ازاں ام حبیبہ نے ابو سفیان پر بت پرستی کی وجہ سے ملامت کی اور ابو سفیان ابھی وہی پرانی دلیل پیش کررہا تھا کہ "کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اپنے باپ دادا کا دین ترک کردوں اور دین محمد(ص) کو قبول کروں؟![17]۔[18]۔[19]

ابو سفیان کئی صحابیوں کے پاس گیا اور ان سے وساطت کی درخواست کی لیکن کسی نے مثبت اشارہ نہیں دیا یہاں تک کہ علی(ع) کے پاس پہنچا جبکہ فاطمہ(س) سے بھی موجود تھیں۔ اس نے سیدہ(س) سے درخواست کہ اس کو پناہ دیں تو بی بی نے فرمایا: اس کا اختیار صرف رسول اللہ(ص) کے ہاتھ میں ہے۔ ابو سفیان نے کہا: اپنے ایک بچے سے کہہ دیں کہ مجھے اپنی پناہ میں لیں۔ سیدہ(س) نے فرمایا یہ ابھی بچے ہیں اور یہ کام نہیں کرسکتے۔ بعد ازاں ابو سفیان نے علی(ع) سے درخواست کی اور کہا "آپ نسب کے لحاظ سے اس قوم میرے قریب ترین ہیں؛ میری حمایت کریں اور رسول خدا(ص) سے کہہ دیں کہ معاہدے کی مدت میں توسیع کریں۔ علی(ع) نے فرمایا: جب رسول اللہ(ص) کوئی فیصلہ کرتے ہیں کوئی بھی اس کے بارے میں آپ(ص) سے بات نہیں کرسکتا۔ تمہارے لئے چارہ کار یہ ہے کہ لوگوں کے اجتماع میں اٹھ کر حمایت کی درخواست کرو اور پھر مکہ پلٹ جاؤ؛ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ یہ کام بھی زیادہ مفید واقع نہیں ہوسکے گا۔

ابو سفیان لوگوں کے درمیان اٹھا اور کہا: میں حمایت کی درخواست کررہا ہوں اور میں تصور نہیں کرتا کہ محمد(ص) مجھے ذلیل کریں گے۔ لیکن وہاں سے بھی اسے خالی ہاتھ نکلنا پڑا۔ وہ بعدازاں سعد بن عبادہ کے پاس گیا اور ان کے ساتھ قبل از اسلام کے تعلقات کی یادآوری کرائی اور کہا: تم مدینہ کے عوام کے نمائندے کی حیثیت سے معاہدے میں توسیع کرو۔ سعد نے کہا: رسول خدا(ص) کے ہوتے ہوئے کوئی بھی تمہاری حمایت کے لئے تیار نہیں ہوگا۔[20]۔[21] ابو سفیان خالی ہاتھ مکہ واپس چلا گیا اور قریش ـ جو کسی قسم کا فیصلہ کرنے سے قاصر تھے ـ "سپاہ اسلام کے حملے" کے سوا کسی بھی نئی خبر کے انتظار میں بیٹھ گئے۔

فرمان عزیمت

رسول خدا (ص) نے ابوذر غفاری [22]۔[23] یا ابن ام مکتوم[24] کو مدینہ میں بطور جانشین مقرر کیا اور لوگوں کو عزیمت کا حکم دیا تاہم آپ (ص) نے منزل مقصود کو واضح نہیں کیا۔ بظاہر کئی اہداف اس عزیمت کے لئے تصور کئے جا سکتے تھے: شام، طائف، ہوازن یا مکہ کی جانب عزیمت۔

آپ (ص) نے مکہ سے نکلنے والے راستوں کی نگرانی کا حکم بھی دیا تاکہ مشکوک افراد مکہ سے نہ نکل سکیں۔ آپ (ص) نے ایک سریہ بطن إضَم کی طرف روانہ کیا تاکہ لوگ تصور کریں کہ آپ (ص) مکہ کے سوا کہیں اور جا رہے ہیں۔

حاطب بن بلتعہ کا خط

حاطب بن بلتعہ جو اتفاق سے اصحاب بدر میں سے بھی تھا، نے خط لکھ کر ایک عورت کے ہاتھوں قریش کے لئے بھجوایا جو سپاہ اسلام کی عزیمت کی خبر پر مشتمل تھا۔ رسول خدا(ص) نے علی(ع)، عمار مقداد بن اسود اور بقول ابن ہشام علی(ع) اور زبیر کو اس عورت کے تعاقب میں روانہ کیا۔ عورت کی تلاشی لی گئی خط نہ ملا اور ساتھیوں نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا لیکن علی(ع) نے فرمایا: خدا کی قسم! رسول اللہ (ص) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اپنی تلوار نیام سے نکال لی اور کہا: ابن بلتعہ کا خط نکال کر دے دو۔ عورت نے اس سنجیدگی کا مشاہدہ کیا تو خط علی(ع) کے سپرد کیا۔ عورت کا نام سارہ تھا اور غربت و افلاس کی وجہ سے مکہ چھوڑ کر مدینہ آئی تھی اور رسول خدا(ص) نے اس کی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کا حکم دیا تھا۔

خط کا متن یہ تھا: "رسول خدا(ص) نے مسلمانوں کے لئے جنگی تیاری کا اعلان کیا ہے؛ میں نہیں سمجھتا کہ آپ (ص) کا نشانہ تمہارے سوا کوئی اور ہو سکتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس خط کا اجر میرے لئے محفوظ رکھو؛[25]

بہرحال خط مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ رسول خدا(ص) نے حاطب سے پوچھا کہ اس نے کیوں ایسا کیا ہے تو اس نے جواب دیا: میں ابھی تک اپنے ایمان پر باقی ہوں اور میں نے یہ کام ارتداد کی رو سے انجام نہیں دیا؛ سوا اس کے کہ میرا کنبہ مکہ میں ہے اور میرا خیال تھا کہ اس کام کے ذریعے اپنے اہل خاندان کے لئے کچھ کروں۔

عمر اس قسم کے مواقع میں اپنے معمول کے مطابق رسول خدا(ص) سے درخواست کی کہ "اجازت دیں میں حاطب کا سر قلم کردوں"، لیکن آپ(ص) نے قبول نہ کیا۔ مروی ہے کہ خداوند متعال نے سورہ ممتحنہ کی پہلی تین اور بقول ابن ہشام پہلی چار آیات کریمہ کو اس واقعے کے سلسلے میں نازل فرمایا ہے۔[26]۔[27]۔[28]

اے ایمان لانے والو! میرے اور اپنے دشمن کو اپنے حوالی موالی کی حیثیت نہ دو، تم ان کے ساتھ محبت کی پینگ بڑھاتے ہو، حالانکہ انہوں نے کفر اختیار کیا اس کے ساتھ جو تمہارے پاس حق آیا اور ان کا عالم یہ ہے کہ وہ گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہیں پیغمبر کو اور تمہیں اس جرم میں کہ تم ایمان لاتے ہو اللہ پر جو تمہارا پروردگار ہے اگر تم نکلے تھے میری راہ میں جدوجہد کے لئے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لئے، تم خفیہ طور پر ان سے محبت کی پینگ بڑھاتے ہو اور میں خوب جانتا ہوں اسے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم میں سے ایسا کرے گا اس نے سیدھے راستے کو گم کر دیا (1) اگر وہ تمہیں پا جائیں تو تمہارے دشمن ہی ثابت ہوں گے، اپنے ہاتھوں اور اپنی زبانوں کو تمہاری طرف دراز کریں گے برائی کے ساتھ اور ان کی خواہش یہ ہو گی کہ کاش تم بھی کافر ہو جاؤ (2)[؟؟]۔ شاید اگلی آیت حاطب اور اس کے اہل و عیال کی توجیہ کے لئے نازل ہوئی ہے: تمہیں تمہارے قرابت دار اور نہ تمہاری اولاد کام دے گی قیامت کے دن وہ تم سے ان کو دور کر دے گا اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو، اس کا دیکھنے والا ہے (3)[؟–1 تا 3]۔[29]

سپاہ اسلام کا امتزاج

رسول خدا(ص) نے بادیہ نشینوں کو پیغام بھجوایا کہ جو اگر کوئی خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے مہینے میں شہر مدینہ میں حاضر ہو؛ بعد از آں آپ (ص) نے اپنے نمائندے مختلف قبائل کی طرف روانہ کئے تا کہ انہیں جنگ میں حصہ لینے کے لئے آمادہ کریں۔ الواقدی نے ان افراد کی فہرست اپنی کتاب میں درج کی ہے۔[30]

سپاہ اسلام میں 700 مہاجرین، 4000 انصار، مُزَينہ کے 1000 افراد، هزار نفر، جُہَينہ اے 800 افراد، بنو کعب بن عمرو کے 500 افراد نیز بعض دیگر افراد شامل تھے اور سپاہ میں شامل افراد کی کل تعداد 10000 تک پہنچتی تھی۔[31] بنو سلیم کے 900 افراد قُديد کے مقام پر رسول خدا(ص) سے جا ملے۔[32]

کسی وقت قریش 10000 افراد جنگ احزاب کے لئے مدینہ لے کر آئے تھے اور پیغمبر خدا(ص) نے علی(ع) کے ہاتھوں عمرو بن عبدود کے مارے جانے کے بعد، یا مشرکین کی ہزیمت کے دو یا تین دن کے بعد، فرمایا تھا: الآن نغزوهم ولا يغزونا؛ یعنی آج کے بعد ہم ان سے لڑیں گے اور وہ ہمارے ساتھ لڑیں گے؛ اور ایسا ہی ہوا یہاں تک کہ خداوند متعال نے رسول اللہ(ص) کے ہاتھوں فتح مکہ کے اسباب فراہم کردیئے۔[33]۔[34]۔[35]۔[36] فتح مکہ میں سپاہ اسلام کی تعداد اتنی ہی تھی سوا اس کے کہ (مدینہ نے مزاحمت کی اور احزاب کے 10000 سپاہیوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی جبکہ) مکہ میں کسی قسم کی مزاحمت کی قوت نہیں تھی۔ سپاہ اسلام مکہ سے دسوں کلومیٹر واقع "مر الظہران" تک پہنچی جبکہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ منزل مقصود کہاں ہے اور نشانہ کون ہے؛[37] ہوازن، ثقیف یا قریش! کعب بن مالک نے رسول خدا(ص) کی خدمت میں اشعار کہے اور کہا: ہم نے اپنی تلوار کے ذریعے تہامہ اور خیبر سے تمام شکوک و شبہات دور کردیئے اور اس کے بعد تلواروں کو آسودہ چھوڑ کر رکھ دیا اور اس وقت تیار ہیں کہ ثقیف کے خیموں اور چھتوں کو بنیادوں سے اکھاڑ پھینکیں۔ کعب چاہتے تھے کہ آپ(ص) کی زبان مبارک سے کچھ سن لیں مگر آپ(ص) نے تبسم فرمایا اور کعب کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔[38]

غطفان کے عمائدین میں سے عُيَيْنہ بن حصن فزاری،(رجوع کریں: غزوہ ذی قرد) ـ جو کئی بار رسول خدا(ص) کے مد مقابل آیا تھا ـ رسول اللہ(ص) کی عزیمت کی خبر سن کر مدینہ پہنچا لیکن آپ(ص) جاچکے تھے چنانچہ وہ راستے میں رسول خدا(ص) سے ملا اور پوچھا کہ آپ(ص) کہاں کا ارادہ رکھتے ہیں؟ مگر آپ(ص) نے کوئی جواب نہیں دیا۔[39] عیینہ بدو عربوں میں سے تھا اس نے غزوہ فتح مکہ میں اجازت کے بغیر شرکت کی؛ نہایت گستاخ اور بےادب شخص تھا؛ رسول اللہ(ص) کی رحلت کے بعد مرتد ہوا اور دوبارہ مسلمان ہوا۔[40] مکہ سے 120 کلومیٹر دور قدید کے علاقے تک سپاہ اسلام کے پاس کوئی پرچم نہ تھا اور بنیادی طور سپاہ کی ظاہری شکل و صورت ایک فوج کی سی نہیں تھی۔ قدید کے بعد پرچم لہرائے گئے اور مہاجرین کے تین پرچم تھے جن میں سے ایک علی بن ابی طالب(ع)، دوسرا زبیر بن عوام اور تیسرا سعد بن ابی وقاص کے سپرد کیا گیا تھا۔[41] منزل مقصود کے تعین میں ابہام کے بموجب، ہوازن اور ثقیف نے دفاعی تیاریاں کی تھیں ان کے درمیان باہمی رابطہ قائم تھا۔ یہ بات ثقیف کے جاسوس نے ـ جس کو مسلمانوں نے گرفتار کیا تھا ـ بتائی تھی۔[42]

اس زمانے میں حجاز میں قریش، ہوازن اور ثقیف مشرکین کے تین گروہ تھے جن میں قریش کی جماعت سب سے زیادہ کمزور تھی۔ یہ جماعت بدر میں ہی نابود ہوچکی تھی اور احد میں کامیابی کے باوجود بھی اپنی کمر کو سیدھا نہیں کرسکی تھی۔ مشرکین کی اس جماعت کے عمائدین رسول خدا(ص) کے ساتھ طویل المدت دشمنی کے بعد اب نہ مزاحمت کا شوق رکھتے تھے اور نہ ہی ان میں اس کی قوت تھی۔[43]

ابو سفیان بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب

ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب ـ جو رسول خدا(ص) کا چچا زاد تھا ـ آپ (ص) کے چچا ابو لہب کے ساتھ مل کر طویل عرصے سے آپ (ص) اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کر چکا تھا اور اسلام اور مسلمانوں کی ہجو گوئی کرتا رہا تھا۔ ابو سفیان کی دشمنی اس حد تک پہنچی تھی کہ آپ (ص) نے اس کو واجب القتل قرار دیا تھا۔ اب جبکہ رسول اللہ(ص) سپاہ اسلام کی قیادت کرتے ہوئے مکہ کے قریب پہنچ رہے تھے، ابو سفیان آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا؛ اور اس کے باوجود کہ رسول خدا(ص) نے اس کو لائق اعتنا نہیں سمجھا تھا، غزوہ حنین تک یہی حالت برداشت کرنے پر مجبور ہوا اور آخر کار آپ (ص) اس سے راضي ہوئے۔ اس کے اسلام لانے کی داستان دو صورتوں میں نقل ہوئی ہے۔[44]

عباس بن عبد المطلب نے اگرچہ رسول خدا(ص) کے ساتھ دشمنی نہیں کی تھی اور شعب ابی طالب کے دشوار ایام میں آپ(ص) اور بنو ہاشم کے دوسرے افراد کے ساتھ محاصرے کی صعوبتیں جھیل چکے تھے، فتح کے ایام تک مکہ میں رہے اور جب آپ(ص) مکہ کے قریب پہنچے تو عباس بھی جحفہ کے راستے میں آپ(ص) سے جاملے۔[45] یہ روایت ـ کہ عباس قبل ازاں خفیہ طور پر اسلام قبول کرچکے تھے ـ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ کسی بھی مؤرخ نے اس بات کا تذکرہ نہیں کیا ہے کہ عباس رسول خدا(ص) کی ہدایت پر مکہ میں رہے تھے۔

قریش جان گئے کہ رسول خدا(ص) مکہ آرہے ہیں

قریش کو معلوم نہیں تھا کہ سپاہ اسلام کی منزل مقصود کہاں ہے یہاں تک کہ مسلمین مرالظہران کے مقام پر پہنچے۔ آپ(ص) نے رات کے وقت مرالظہران کے مقام پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ 10000 مقامات پر بڑی آگ جلائیں۔[46] ابو سفیان، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء جو معلومات حاصل کرنے کے لئے آئے تھے، آگ دیکھ کر خوفزدہ ہوئے اور انھوں نے گمان کیا کہ گویا قبیلہ ہوازن ان پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ابو سفیان آگے بڑھا اور اس کو سپاہ اسلام کو سامنا کرنا پڑا اور اس نے عباس بن عبد المطلب کو دیکھا (یا عباس کو بلوایا یا مسلمانوں نے اس کو قید کرلیا اور بعد میں عباس نے اس کو چھڑایا)۔ عباس نے اس موقع پر اس کو قبول اسلام کی دعوت دی۔ عمر بن خطاب نے ابو سفیان کو دیکھا تو اپنے معمول کے مطابق رسول خدا(ص) سے کہا کہ "اس دشمن خدا کا سر قلم کریں"، عباس بن عبد المطلب نے عمر سے کہا: "اگر یہ شخص بنو عدی سے تعلق رکھتا تو تم یہ بات نہ کرتے!"۔[47]

اسلامِ ابو سفیان اور کردارِ عباس

ابو سفیان نے ابتداء میں اللہ کی یکتائی کی گواہی دی اور جب نبوت رسول اللہ(ص) پر گواہی کی نوبت آئی تو سوچ میں پڑ گیا اور کہا: میرے دل میں ابھی تک کچھ ہے، صبح تک مہلت دیں۔ رات گذری اور صبح کے وقت اذان کی صدا سنائی دی تو ابو سفیان نے کہا: یہ کیا ہے؟ کہا گیا: نماز کا وقت ہے۔ کہا: شب و روز میں کتنی مرتبہ نماز ادا کرنا پڑتی ہے؟ کہا گیا: پانچ مرتبہ۔ کہنے لگا: خدا کی قسم! یہ بہت زیادہ ہے! بعد ازاں رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ(ص) کی نبوت پر گواہی دی۔

وہ مسلمان ہوچکا لیکن اس کا وجود ابھی تک مکمل طور پر جاہلی رسوم کا مجموعہ تھا، اعتراض کرنے لگا اور کہا: آپ چند پست افراد کو لے کر اپنی قوم کے خلاف جنگ کے لئے کیوں آئے ہیں؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: تم زیادہ پست اور زیادہ ظالم و فاجر ہو، تم نے اپنا پیمان توڑ دیا اور خزاعہ کو حرم الہی میں قتل کردیا۔ ابو سفیان نے کہا: کیا بہتر نہیں ہے کہ آپ ہوازن کے خلاف جنگ لڑیں جو نسب اور قرابت میں آپ سے دور ہیں؟ فرمایا: مجھے امید ہے کہ یہ تمام مقاصد فتح مکہ کے ذریعے حاصل ہوجائیں۔[48]ابن عباس کی روایت کے مطابق ابو سفیان نے نماز میں شرکت کرنے کے بعد کہا:
ما رأيت كاليوم طاعة قوم جمعهم من ههنا ومن ههنا ولا فارس الاكارم ولا الروم ذات القرون بأطوع منهم له۔[49]۔[50]

ابن ہشام کی روایت کچھ یوں ہے کہ کچھ مسلمانوں نے ابو سفیان کو مارنا چاہا لیکن عباس بن عبدالمطلب نے اس کو پناہ دے رکھی تھی اس لیے باز آئے۔ رات کو قید میں رکھ کر صبح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ(ص) نے ابو سفیان سے مخاطب ہوکر فرمایا "کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ تو یہ سمجھے کہ ایک خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے؟" ابوسفیان نے کہا کہ اگر خدائے واحد کے علاوہ کوئی خدا ہوتا تو ہماری مدد کرتا۔ چنانچہ آپ(ص) نے فرمایا: "کیا وہ وقت نہیں آیا کہ تم جان لو کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں؟"، کہا: "مجھے آپ کی رسالت میں تردد ہے"۔ یہ سن کر عباس سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ "اے ابوسفیان اگر تو اسلام نہ لایا تو تمہاری جان کی کوئی ضمانت نہیں"؛ چنانچہ ابوسفیان نے اسلام قبول کر لیا۔[51] ابن ابی شیبہ کی روایت کے مطابق عباس نے کہا: "اے ابو سفیان زندہ بچنے کے لئے اسلام قبول کرو"، اور ابو سفیان نے تاسف کے ساتھ کہا: "میں لات اور عزی کے ساتھ کیا کروں؟!"۔[52]


جس طرح کہ رسول خدا(ص) کو توقع تھی فتح مکہ حجاز پر اسلام کے تصرف و تسلط کے اسباب فراہم کرسکتی تھی خواہ بعض قبائل مختصر سی مزاحمت ہی کیوں نہ کرتے۔ آپ(ص) نے عباس کو ہدایت کی کہ ابو سفیان کو درے کے دہانے پر کھڑا کرے تا کہ وہ سپاہ اسلام کی عظمت کا مشاہدہ کرسکے۔ بعدازاں مختلف قبائل کے مسلح دستے اس کے سامنے سے گذارے گئے۔ عباس ان دستوں کا تعارف کراتے رہے اور ابو سفیان ہر قبیلے کے بارے میں کچھ کہہ دیتا تھا۔ بالآخر رسول خدا(ص) مہاجرین اور انصار کے ایک دستے کے ہمراہ ابو سفیان کے سامنے سے گذرے تو کہنے لگا: میں نے آج تک اتنا بڑا لشکر نہیں دیکھا اور کوئی بھی اس لشکر کے سامنے استقامت کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اور پھر عباس سے کہا: "اے عباس تمہارے بھتیجے کی سلطنت (بادشاہت) کتنی عظیم ہوچکی ہے!"۔ عباس نے کہا کہ "اے ابوسفیان یہ سلطنت نہیں بلکہ نبوت ہے"۔[53]۔[54]

قریش اور ابو سفیان کا تجزیہ یہ تھا کہ بنو ہاشم نبوت کا دعوی کرکے سلطنت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ابو سفیان اس لمحے تک یا شاید آخر عمر تک اسی نظریئے پر قائم تھا؛ بہرحال اس نے اسلام کا اظہار کیا اور اس بارے میں اشعار بھی کہے؛ جیسے: "مجھے ایسے شخص نے مجھے ہدایت عطا کی جس کو میں اِس طرف اور اُس طرف جلاوطن کیا۔[55] عباس کی کوشش تھی کہ قریش کے عمائدین جلدی سے اسلام قبول کریں کیونکہ ان کا تصور یہ تھا کہ اگر رسول اللہ(ص) جنگ کی حالت میں مکہ میں داخل ہوجاغیں تو قریش ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہوجائیں گے۔[56]۔[57] عباس کو یہ بھی خدشہ تھا کہ جنگ کی صورت میں مکہ کی تجارت اور ان کے اپنے کاروبار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

سہیل اور عکرمہ کی ہٹ دھرمی

دوسری طرف سے سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جہل نے مکیوں کو رسول خدا(ص) کے خلاف جنگ اور مزاحمت کی دعوت دی۔ بنو بکر اور بنو ہذیل کے بعض افراد نے ان کی دعوت قبول کی اور قسم اٹھائی کہ "محمد(ص) کو زبردستی مکہ میں نہیں داخل ہونے دیں گے"۔

رسول خدا(ص) مکہ میں

رسول خدا(ص) نے ـ جو اب ذی طوی کے مقام پر پہنچے تھے (جو حال حاضر میں مکہ کی حدود میں واقع ہے) ـ اپنی سپاہ کو تقسیم کیا اور ہر دستے کو ایک خاص راستے سے مکہ میں روانہ کیا۔ اس اثناء صرف خالد بن ولید کی قیادت میں مکہ جانے والے دستوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لڑائی میں 25 مشرکین مارے گئے جن میں سے 24 کا تعلق قریش سے اور ایک کا تعلق ہذیل سے تھا، اور باقی مشرکین فرار ہوگئے۔[58] فتح مکہ میں صرف 2 مسلمان شہید ہوئے جو بھٹک کر غلط راستے سے مکہ میں داخل ہوئے تھے۔[59] آپ(ص) فاتح بادشاہوں کی روایت کے برعکس شفقت اور عفو و درگذر کے راستے پر گامزن ہوئے۔

رسول اللہ کا اعلان اور مزاحمتوں کا خاتمہ

ابو سفیان کے قبول اسلام کے واقعے میں عباس نے رسول خدا(ص) سے عرض کیا: ابو سفیان منصب پرست شخص ہے لہذا آپ اس کو کوئی منصب عطا کریں" چنانچہ آپ(ص) نے فرمایا کہ "جو شخص اس کی پناہ میں آجائے گا یا اس کے گھر میں داخل ہوگا وہ محفوظ ہوگا"[60] اور جب آپ(ص) مکہ میں داخل ہوئے تو ہدایت کی کہ منادی ندا دے کہ "جو شخص اپنے گھر میں رہے گا یا مسجد میں داخل ہوگا یا پھر ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگا اس کو امان حاصل ہوگی۔ اس اعلان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ مشرکین کی جماعت شکست و ریخت کا شکار ہو اور مزاحمت کا خاتمہ ہو۔ ابو سفیان بھی چلّا چلّا اعلان کررہا تھا کہ لوگ ہتھیار اٹھانے سے پرہیز کریں۔

کہا جاسکتا ہے کہ رسول خدا(ص) کے مکہ میں داخلے سے قبل ہی ابو سفیان کی مزاحمت اور شخصیت کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے قریش کی آدھی سے زیادہ مزاحمت برباد ہوگئی۔

مسجد الحرام میں داخلہ

رسول خدا(ص) پہلی بار مسجد الحرام میں داخل ہوئے تو تکبیر کہہ رہے تھے اور مسلمان بھی آپ(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تکبیر کہہ رہے تھے۔ بعض مشرکین اطراف کی پہاڑیوں کے اوپر سے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ آپ(ص) نے طواف بجا لایا اور پھر بتوں کی جانب گئے۔ اس وقت کعبہ میں 360 بت تھے اور سب سے بڑے بت کا نام "ہُبل" تھا۔ آپ(ص) نے ہر بت پر اپنی عصا سے ضربت مارتے اور ساتھ ساتھ آیت شریفہ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ترجمہ:اور کہئے کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا یقیناً باطل تو مٹنے والا ہی ہے،[61] کی تلاوت فرماتے رہے اور بت یکے بعد دیگرے گرتے رہے۔[62] رسول اللہ کعبہ میں داخل ہوئے تو دیواروں پر کھینچی گئی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ملائکہ اور حضرت مریم کی تصویریں مٹا دیں۔[63]۔[64] آنحضرت(ص)

پیغمبر(ص) اور علی(ع) کی بت شکنی

ابن ابی شیبہ اور حاکم نیسابوری نے امام علی(ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا: "(اس دن) رسول خدا(ص) نے مجھے اٹھایا اور کعبہ کے قریب لے گئے اور فرمایا: بیٹھو! میں بیٹھ گیا اور آپ(ص) میرے کاندھوں پر کھڑے ہوئے اور جب آپ(ص) نے میرے اٹھنے میں ضعف محسوس کیا تو آپ میرے کاندھوں سے اترے اور خود بیٹھ گئے اور مجھے حکم دیا کہ آپ(ص) کے شانوں پر چڑھ جاؤں اور فرمایا: قریش کا سب سے بڑا بت گرا دو۔ وہ بت تانبے کا بنا ہوا تھا اور بڑی بڑی کیلوں کے ذریعے زمین میں پیوست تھا۔ رسول اکرم(ص) نے فرمایا: اس بت کو ہلا دو اور زمین پر گرا دو اور میں نے ایسا ہی کیا۔[65]۔[66]

مروی ہے کہ مسجد الحرام میں شرک کے تمام آثار کو دھولیا گیا یا مٹا دیا گیا۔[67]

کعبہ کے اندر موجود بتوں کو رسول اللہ(ص) اور علی(ع) نے توڑ دیا اور بعدازاں آپ(ص) نے بعض گروہوں کو اطراف میں روانہ کیا تاکہ قبائل کے بتوں کو توڑ دیں۔ عمرو بن عاص کو ہذیل کے "سواع" نامی بت کے توڑنے کے لئے روانہ کیا۔ بت کے پردہ دار نے کہا: تو اس کو نہیں توڑ سکتا لیکن اس نے بت کو توڑ دیا اور اس سے متعلق خزینے کو بھی توڑ دیا۔ پردہ دار نے دیکھا کہ کوئی غیر متوقعہ واقعہ رو نما نہیں ہوا تو کہا: "اسلمتُ للہ"۔[68] توڑے گئے دیگر بتوں میں قبیلہ عمرو بن حممہ کا بت "ذو الکفین" اور مشلل میں موجود بت "مناۃ" شامل تھا۔ مکہ کے گھروں میں بھی بت رکھے ہوئے تھے چنانچہ آپ(ص) نے اعلان کیا کہ جو بھی خدا اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہے اگر اس کے گھر میں بت ہے تو اس کو توڑ دے یا نذر آتش کرے۔[69]

پانی کے قطروں سے تبرک

رسول خدا(ص) نے طواف کیا اور اپنا سر زمزم کے پانی سے دھو لیا۔ جو مسلمان آپ(ص) کے ارد گرد موجود تھے آپ(ص) کے سر سے گرتے ہوئے پانی کے قطروں کو تبرک کی نیت سے اٹھاتے تھے اور اپنے چہرے پر مل لیتے تھے جبکہ مشرکین یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔[70]

رسول اللہ(ص) کا خطبہ

رسول خدا(ص) نے مکہ میں ایک خطبہ دیا جو اخلاقی نصائح، شرعی احکام، اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد لوگوں کے حقوق میں میں فرق سے متعلق نکات پر مشتمل تھا۔ آپ(ص) نے فرمایا:

  • لوگ اپنا ماضی بھول جائیں اور نئی زندگی کا آغاز کریں؛ اگر سودی قرضے کی بنیاد پر کسی کا سود کسی کے ذمے باقی ہے، جو بھی خون یا مال جاہلیت کے دور سے کسی کا کسی کے ذمے باقی ہے، اور تمام سابقہ اور جاہلی اعزازات، کو میں نے پاؤں تلے روند لیا، سوائے خانہ کعبہ کی پردہ داری اور حجاج کو پانی پلانے جیسے اعزازات کے۔
  • غلطی سے قتل ہونے والے شخص (قتل خطا) کی دیت 100 اونٹنیوں پر مشتمل ہوگی جن میں سے 40 کو حاملہ ہونا چاہئے۔
  • خداوند متعال نے جاہلی نخوت اور تکبر اور اپنے باپ دادا پر فخر و مباہات کا خاتمہ کردیا ہے؛ تم سب آدم(ع) کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے اور "تم میں سے افضل شخص وہ ہے جو سب سے زيادہ با تقوی اور پرہیزگار ہے"؛[71]
  • مکہ کی حرمت ہمیشہ محفوظ ہے اور مکہ صرف میرے لئے ایک تک حلال ہوا ہے اور اس کے بعد کسی کے لئے حلال ہوا اور نہ ہی حلال ہوگا۔

آپ(ص) نے کنبے کے سلسلے چند احکام بیان کرنے کے بعد فرمایا:

  • مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور مسلمین دوسروں کے مقابلے میں ید واحدہ ہیں؛ ان کا خون محفوظ رہنا چاہئے؛ وہ چاہے دور ہوں چاہے نزدیک، بھائی ہیں اور ان کا خون حرام ہے۔
  • جنگوں سے حاصل ہونے والی غنیمت میں طاقتور اور کمزور کا حصہ برابر ہے۔[72]۔[73]۔[74]۔[75]

کتابت حدیث کا جواز

رسول اکرم(ص) نے خاندانی مسائل کے بارے میں بعض دیگر احکام بھی بیان کئے؛ اور جب آپ(ص) کا خطبہ مکمل ہوا تو ابو شاہ یمانی نامی مسلمان نے درخواست کی کہ خطبے کا متن اس کے لئے تحریر فرمائیں۔ آپ(ص) نے فرمایا کہ خطبہ اس کے لئے لکھ دیا جائے۔[76] ابو شاہ یمانی کے لئے اختصار کے ساتھ تحریر کردہ خطبے کا متن علی احمدی میانجی نے اپنی کتاب مکاتیب الرسول(ص) میں نقل کیا ہے۔[77]۔[78] یہ حدیث درحقیقت کتابت حدیث کے جواز کے دلائل میں سے ایک ہے جس کو صدر اول میں بعض صحابہ نے ممنوع قرار دیا؛ اور کچھ عرصہ بعد بعض افراد نے ان کی نمائندگی میں جعلی احادیث پیش کر دیں کہ رسول اللہ(ص) نے کتابت حدیث سے منع فرمایا تھا۔[79]

اذان، نماز اور مشرکین

رسول خدا(ص) نے بلال کو اذان دینے کا حکم دیا تو بلال نے بام کعبہ پر چڑھ کر اذان کہی۔ قریش نے اپنے گھروں کے اندر سے اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے اذان سنی اور ہر ایک نے کچھ کہہ کر افسوس ظاہر کیا:

  • جویریہ بنت ابی جہل نے کہا: میری جان کی قسم! خدا نے محمد(ص) کا نام بلند کیا؛ ہم بہرحال نماز ادا کریں گے لیکن کبھی بھی ان لوگوں کو پسند نہیں کریں گے جنہوں نے ہمارے عزیزوں کو قتل کیا ہے؛
  • حارث بن ہشام نے کہا: کاش میں مر چکا ہوتا اور یہ دن ہرگز نہ دیکھتا؛
  • ابو سفیان بھی ان کے ساتھ تھا اور اس نے [بظاہر اسلام قبول کرنے کے باوجود] کہا: میں کچھ نہیں کہتا کیونکہ اگر کچھ کہوں تو یہی ریت محمد(ص) کو اطلاع دے گی۔[80]

قرآن کریم گواہ ہے کہ منافقین اور مشرکین کی خفیہ باتیں آیات کریمہ میں بیان اور افشاء ہوئی ہیں؛ مگر رسول خدا(ص) نے اس روز مشرکین میں سے صرف چند افراد کو واجب القتل قرار دیا تھا جن میں سے متعدد افراد بخش دیئے گئے۔

معاف یا فراری واجب القتل افراد

رسول خدا(ص) نے صرف چند مشرک مردوں اور عورتوں کو واجب القتل قرار دیا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ "جہاں بھی دیکھیں انہیں قتل کریں خواہ وہ پردہ کعبہ سے کیوں نہ لٹکے ہوں"۔ مردوں میں سے ایک عکرمہ بن ابی جہل تھا، (جو بعد میں بخشا گیا)، ہبار بن اسود (جو بخشا گیا)، عبداللہ بن سعد بن سرح (جو بخشا گیا)، یہ شخص ایک دفعہ مسلمان اور بعد میں مرتد ہوگیا تھا؛ مقیس بن صبابہ لیثی (جو فتح مکہ میں مارا گیا)، حویرث بن نُقَیذ جس کو امام علی(ع) نے کچھ عرصہ تلاش کرنے کے بعد ہلاک کردیا،[81] عبداللہ بن ہلال ادرمی اور حمزہ سید الشہداء کا قاتل (جو بخشے گئے)، حویرث بن الطلال خزاعی (جو امام علی(ع) کے ہاتھوں مارا گیا)۔[82] عورتوں میں ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ بن ربیعہ (جس کو بخش دیا گیا)؛ عمرو بن ہاشم کی آزاد کردہ کنیز سارہ (جس کو مار دیا گیا)، دو گاین کنیزیں قُرَيبہ (جو ماری گئی) اور قرينا (جو بھاگ گئی اور بعد میں امان حاصل کرچکی)۔[83]۔[84] عبداللہ بن خطل بھی واجب القتل افراد میں سے تھا اور ایسے حال میں مارا گیا جب پردہ کعبہ سے لٹکا ہوا تھا۔ وہ مرتدین میں سے تھا اور اسلام کی ہجو گوئی کرتا رہا تھا؛ اور اپنی کنیزوں کو حکم دیا کرتا تھا کہ اس کے ہجائی اشعار کو گانے کی صورت میں پڑھیں۔ پوری سیرت نبویہ میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آپ(ص) دشمن کے تشہیری اقدامات سے کبھی غافل نہیں رہتے تھے اور جب بھی موقع ملتا تھا تشہیریوں کا قلع قمع کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ کیونکہ مکتب رسالت میں حق و حقیقت کے خلاف عوامی جذبات کو مشتعل کرنا ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا تھا۔ فتح مکہ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا بھی حاضر تھیں۔[85]

جیسا کہ بیان ہوا واجب القتل افراد میں سے بہت سوں کو رسول اللہ(ص) نے بخش دیا؛ مزید وضاحت یہ کہ حمزہ سید الشہداء کا قاتل "وحشی"، ابو سفیان کی بیوی اور حضرت حمزہ کے بدن کا مثلہ کرکے ان کا کلیجہ چبانے والی ہند اور مرتد ہونے والے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ان لوگوں لوگوں میں سے تھے جو رسول خدا(ص) کی شفقت و رأفت سے بہرہ مند ہوئے۔ رسول اللہ(ص) تاکید کے ساتھ مؤخر الذکر عبداللہ بن سعد ہلاکت کے خواہاں تھے لیکن عثمان بن عفان کے شدید اصرار کی وجہ سے اس شخص کو بھی بخش دیا گیا۔[86]

سہیل بن عمرو جیسے افراد بھی جنہوں نے رسول خدا(ص) کے خلاف لڑی جانے والی تمام جنگوں میں حصہ لیا تھا اور حدیبیہ میں آپ(ص) کے ساتھ بدترین بدسلوکی روا رکھی تھی، آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوتے ہی بخش دیئے گئے۔


عکرمہ بن ابی جہل بھی بھاگنے والے افراد میں سے تھا جو یمن بھاگ کر گیا اور کچھ عرصہ بعد مسلمان ہوا۔ عکرمہ رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کیا: آپ کس چیز کی طرف بلاتے ہیں؟ فرمایا: نماز، زکٰوۃ ۔۔۔ کی طرف۔ عکرمہ نے کہا: آپ حق کے سوا کسی چیز کی طرف نہیں بلا رہے جو بہت نیک اور خوبصورت ہے؛ آپ(ص) نے فرمایا: خداوندا! اس شخص نے میرے ساتھ جتنی دشمنیان کی ہیں انہیں اس کے لئے بخش دے۔[87]۔[88]

حتی کہ ہبار بن اسود، جس کا نام جب بھی رسول اللہ(ص) سنتے، غضبناک ہوجاتے تھے، اور فتح مکہ میں ان افراد میں سے تھا جنہیں بخشے جانے سے مستثنٰی قرار دیا گیا تھا، آخر کار بخش دیا گیا۔[89]

بہت سے مشرکین یمن، نجران اور دیگر علاقوں میں فرار ہوئے تھے جو رفتہ بسياري از مشركان نيز به يمن، نجران و نقاط ديگر گريختند كه به تدريج بازگشتند و اظهار اسلام كردند. يكي از فراريان مي‌گويد: ما از ترس جان خويش گريختيم تا آن كه به ما خبر دادند، تنها گفتن شهادتين باعث امنيت جاني و مالي شما مي‌شود. آنگاه ما بازگشتيم و اسلام آورديم. [90]

فتح [[مکہ کے دوران رسول اللہ(ص) کا شعار یہ تھا:

الإسلامُ يَجُبُّ ما قَبلَه. ترجمہ: اسلام سابقہ اعمال سے چشم پوشی کرتا ہے۔ رسول خدا(ص) نے یہ جملہ قریش کے فتنہ انگيز شاعر ابن زبعری کے اظہار اسلام کے وقت بیان کیا۔[91]

عبداللہ بن سعد کا قصہ

مروی ہے کہ عبداللہ بن سعد عثمان بن عفان کا رضاعی بھائی تھی اور ایک قول کے مطابق مسلمان ہوچکا تھا اور رسول خدا(ص) کے لئے وحی لکھتا تھا اور بعد میں مرتد ہوا۔ فتح کے موقع پر عثمان نے اس کو چھپا دیا اور جب حالات پرسکون ہوئے تو عثمان بن عفان نے اس کے لئے امان کے حصول کی غرض سے اس کو رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر کیا؛ اور تین مرتبہ اس کے لئے امان کی درخواست کی۔ رسول خدا(ص) نے دو بار یہ درخواست مسترد کردی اور تیسری مرتبہ اس کی درخواست قبول کرلی؛ اور بعدازاں اپنے ہاں موجود صحابہ سے فرمایا: کیا تم میں ایک بھی عقلمند شخص نہ تھا کہ میری طرف سے امان نامے کی درخواست دو بار مسترد ہوتے وقت اٹھ کر عبداللہ کو ہلاک کردیتا؟ اصحاب نے کہا: اگر آپ آنکھ کے گوشے سے ایک اشارہ کرتے تو ہم اس کو مار ڈالتے! فرمایا: نبی اشاروں سے کسی کو قتل نہیں کرتا۔[92]۔[93]۔[94] مروی ہے کہ وہ بعد میں مسلمان ہوا اور عمر بن خطاب نے اپنے دور خلافت میں بعض ذمہ داریاں سونپ دیں اور بعد میں عثمان نے بھی اس کو حاکم بنایا۔[95]

ام ہانی کا دو افراد کو پناہ دینا

امام علی(ع) کی ہمشیرہ ام ہانی نے دو مشرکین کو ـ جو ان کے گھر میں گھس آئے تھے اور پناہ مانگ رہے تھے ـ پناہ دی۔ امام(ع) نے ان کے گھر میں مشرکوں کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا لیکن ام ہانی نے ایسا نہیں کرنے دیا اور رسول خدا(ص) کی طرف روانہ ہوئیں کہ ان کے لئے پناہ حاصل کی۔ راستے میں انہیں سیدہ فاطمہ زہرا(س) نظر آئیں اور اپنے بھائی کے رویے کا شکوہ کیا۔ ام ہانی کہتی ہیں: حضرت فاطمہ(س) مشرکین کی نسبت میرے بھائی سے زیادہ سخت گیر رویہ رکھتی تھیں اور انھوں نے مجھ سے کہا: کیا تم مشرکین کو پناہ دیتی ہو؟ بہرحال رسول اللہ(ص) نے ام ہانی کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایا: جس کو تم پناہ دوگی میں بھی اس کو پناہ دیتا ہوں۔[96] ابن ہشام کی روایت میں ام ہانی اور حضرت فاطمہ(س) کے درمیان گفتگو کی طرف اشارہ نہیں ہوا ہے گوکہ سیدہ(س) کی فتح مکہ میں شرکت منقول ہے۔[97]

علامہ مجلسی کی روایت

علامہ مجلسی نے ابن شہر آشوب کی کتاب مناقب آل ابی طالب کے حوالے سے روایت کی ہے کہ علی(ع) ـ جنہوں نے فتح مکہ کے دن سر پر کپڑا باندھ رکھا تھا ـ اپنی ہمشیرہ ہانی بنت عبد المطلب کے گھر کی طرف گئے کیونکہ آپ(ع) کو معلوم ہوا تھا کہ دو مخزومی مردوں حارث بن ہشام اور قیس بن سائب نے وہاں پناہ لے رکھی ہے۔ آپ(ع) گھر کے دروازے پر پہنچے تو بلند آواز سے فرمایا: "اس گھر میں کن لوگوں نے پناہ لی ہے"۔ پناہ لینے والے آواز سن کر خوف کے مارے کانپنے لگے۔

ام ہانی ـ جو بھائی کو نہیں پہچان سکی تھیں ـ گھر سے باہر آئیں اور کہنے لگیں: "اے بندہ خدا! میں ہوں ام ہانی، رسول اللہ(ص) کی چچا زاد بہن اور علی بن ابی طالب(ع) کی بہن؛ میرے گھر سے دور ہو جاؤ"۔

علی(ع) سے فرمایا: "خدا کی قسم! میں رسول اللہ(ص) سے تمہاری شکایت کروں گی"۔

اسی اثناء میں علی(ع) نے کپڑا سر سے ہٹایا تو ام ہانی نے آپ(ع) کو دیکھ لیا اور پہچان لیا تو جاکر آپ(ع) کو آغوش میں لے لیا اور کہا: "میں قربان جاؤں آپ پر؛ مگر کیا کروں، میں نے قسم اٹھائی ہے کہ رسول خدا(ص) سے آپ کی شکایت کروں"۔

علی(ع) نے فرمایا: جاؤ اور اپنی قسم کے مطابق عمل کرو۔

ام ہانی رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور قبل اس کے کچھ کہہ دیں آپ(ص) نے فرمایا: اے ام ہانی! کیا علی(ع) کی شکایت لے کر آئی ہو۔ انھوں نے خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کو خوفزدہ کردیا ہے؛ خداوند متعال علی(ع) کو ان کی سعی اور جہاد کا اجر عطا فرمائے؛ اور چونکہ تم علی(ع) کی بہن ہو لہذا جس کو بھی تم نے پناہ دی ہے میں بھی اس کو پناہ دیتا ہوں۔۔[98]۔[99]

رسول خدا(ص) نے فتح مکہ میں کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا؛ جو مسلمان ہوئے اپنی مرضی سے مسلمان ہوئے اگرچہ بہت سے معاند اور ضدی اور برے پس منظر رکھنے والے مشرکین نے اپنے ماضی کے جرائم کی معافی اور جان و مال کے تحفظ کے لئے اسلام قبول کیا؛ اس کے باوجود کئی مشرکین ایسے بھی تھے جو سنہ 9 ہجری تک اور اس کے بعد بھی، اپنے شرک پر باقی رہے۔[100]

ہبیرہ بن ابی وہب

ام ہانی کے قبول اسلام سے قبل ہبیرہ بن ابی وہب مخزمی ان کا شریک حیات تھا وہ مشرکین کے عسکری امراء میں سے تھا۔ ایک روایت کے مطابق جنگ بدر میں عمرو بن عبد ود لشکر مشرکین کے میمنے کا امیر تھا اور ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی میسرے کا۔[101] ہیبرہ نے کبھی اسلام قبول نہیں کیا [102] ابن ابی الحدید کے بقول ہبیرہ فتح مکہ کے دن عبداللہ بن الزبعری کے ساتھ نجران کی طرف بھاگ گیا۔[103] ابن ہشام کے مطابق ابن الزبعری بعد میں مسلمان ہوا اور رسول اللہ(ص) کی شان میں اشعار کہے۔[104] ہبیرہ کے اور ام ہانی کے فرزند کا نام جعدہ بن ہبیرہ ۔[105] تھا جو فتح کے روز اپنی والدہ کے ہمراہ رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے۔ وہ علی(ع) کے بھانجے اور داماد اور قریش کے درمیان فقیہ کے عنوان سے مشہور تھے۔[106]

طلقاء اور مؤلفۃ قلوبہم

ابن ہشام نے روایت کی کہ رسول اللہ(ص) نے خطبے کے آخر میں قریش سے مخاطب ہوکر پوچھا: اے قریشیو! تمہاری رائے کیا ہے کہ میں کس طرح کا برتاؤ تمہارے ساتھ روا رکھوں گا؟ انھوں نے عرض کیا:

خيرا، أخ كريم، وإبن أخ كريم؛ ہم آپ سے خیر اور نیکی کی توقع رکھتے ہیں کیونکہ آپ ہمارے صاحب جود و کرم بھائی ہیں اور ہمارے کریم بھائی کے فرزند ہیں۔ چنانچہ آپ(ص) نے فرمایا: إذهبوا فأنتم الطلقاء۔ جاؤ تم آج سے آزاد کردہ ہو۔ اور بعد ازاں مسجد میں بیٹھ گئے۔[107]

آزاد کردہ افراد وہ تھے جو رسول خدا(ص) کے ہمراہ مدینہ آئے مگر وہ مہاجرین کے زمرے میں نہیں آتے کیونکہ ابن سعد کی روایت کے مطابق "رسول اللہ(ص) نے فرمایا: فتح کے بعد کوئی ہجرت نہیں ہے"۔[108]

طلقاء یا آزاد کردہ افراد کا مصداق وہ قریشی ہیں جو در حقیقت رسول اللہ(ص) کے ہاتھوں میں قید تھے؛ اور یہ جملہ فانتم الطلقاء (پس تم آزاد کردہ ہو) درحقیقت اس احسان کی طرف اشارہ ہے جو آپ(ص) نے انہیں تمام تر غلطیوں اور دشمنیوں کے باوجود، ان پر روا رکھا۔ یہ نام در حقیقت "منفی پس منظر" کی علامت ہے جو مکہ کے ضدی اور ہٹ دھرم مشرکوں کے حالات میں ثبت ہوچکا ہے جو یا بامر مجبوری فتح کے سال ہی یا پھر فتح کے بعد مسلمان ہوئے لیکن یہ علامت مسلم امہ کے ذہن میں ہمیشہ کے لئے کندہ ہوکر رہ گئی۔[109]

شیخ محمود ابو ریہ لکھتے ہیں: "کوئی بھی اس حقیقت کا جزیرہ نمائے عرب بالخصوص فتح مکہ کے بعد کفر و شرک کے بعض سرغنے اور دین اسلام کے ضدی دشمن اپنی جان بخشی کی خاطر بظاہر مسلمان ہوئے جن میں ابو سفیان اور معاویہ جیسے افراد شامل تھے؛ جو طلقاء اور مؤلفۃ قلوبہم میں سے تھے اور اسلام قبول کرنے کے عوض رقم وصول کرتے تھے؛ جنہوں نے خلافت راشدہ کی بنیادیں اکھاڑ پھینکیں"۔[110] ابن سعد کی روایت کے مطابق رسول اللہ(ص) طاقت کے ذریعے مکہ میں داخل ہوئے اور مسلمان ہونے والے کچھ مرضی سے مسلمان ہوئے اور کچھ نے بامر مجبوری اسلام قبول کیا۔[111]

فتح مکہ ہی کے دوران حسان بن ثابت انصاری نے اپنے اشعار کے ضمن میں اشارہ کیا ہے کہ "انصار کی شمشمیروں نے ابو سفیان کو مکہ میں غلاموں کی صورت دی ہے اور بنو عبدالدار کو کنیزوں کی صورت میں تبدیل کیا ہے۔[112]

مؤلفة قلوبهم قرآنی اصطلاح ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: اموال زکوٰة کا استحقاق تو بس فقیروں اور محتاجوں کو ہے اور انہیں کہ جو زکوٰة کے کارندے ہوں اور مولفتہ القلوب کو اور گلو خلاصی میں غلاموں کنیزوں کی اور قرض داروں کو اور راہ خدا میں اور مسافروں کو۔[113] رسول خدا(ص) نے نہ صرف بہت سے محارب مشرکوں کو بخش دیا بلکہ بعض کو مالی امداد بھی دی۔ فتح کے وقت بروئے کار لائے جانے والے عناوین میں سے ایک "مؤلّفةُ قلوبهم" کا قرآنی عنوان تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی دوستی اور اعتماد حاصل کرنے کے لئے، رسول اکرم(ص) نے انہیں مالی امداد عطا فرمائی۔ یہ تعبیر بھی ان لوگوں کی شخصیت کا متعارف کراتی تھی۔ ابو سفیان کی بیوی [اور حمزہ سید الشہداء کی اصل قاتلہ] ہند بنت عتبہ ان لوگوں میں شامل تھی جنہیں رسول اللہ(ص) نے واجب القتل قرار دیا تھا لیکن بہر صورت دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام کا اظہار کیا اور بخش دی گئی۔[114]

ابو سفیان، اس کے دو بیٹوں یزید اور معاویہ، حکیم بن حزام، نصر بن حارث، اسید بن جاریہ ثقفی، علاء بن حارثہ، مخرمہ بن نوفل، حارث بن ہشام، سعید بن یربوع، صفوان بن امیہ، قیس بن عدی، عثمان بن وہب، سہیل بن عمرو، حویطب بن بن عبدالعزی، ہشام بن عمرو عامری، اقرع بن حابس تمیمی، عیینہ بن حصن فزاری، عمیر بن وہب، مالک بن عوف اور عباس بن مرداس کو مؤلفۃ قلوبہم کے تحت مالی امداد دی گئی۔[115]۔[116]

یزید بن معاویہ نے زبعری کے اشعار پڑھ کر امام حسین علیہ السلام کے قتل کو اپنے لئے باعث فخر قرار دیا اور کہا کہ کاش جنگ بدر میں مارے جانے والے میرے اجداد زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے؛ تو زینب بنت علی(س) نے فرمایا:

أَ مِنَ الْعَدْلِ يَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِيرُكَ حَرائِرَكَ وَ إِمائَكَ، وَ سَوْقُكَ بَناتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّم سَبايا؛
ترجمہ: اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے اور رسول زادیوں کو اسیر کرکے پھرا رہا ہے۔[117]

پر امن فتح

یوں شرک کا سیاسی اقتدار زوال پذیر ہوا اور مکہ ـ اسلام کے مقابلے میں 20 سالہ مزاحمت کے بعد ـ اسلام کے زیر نگیں آیا۔ مکہ کی تسخیر بغیر جنگ کی فتح کا نمایاں مصداق، تھی جبکہ یہ ایک عظیم فتح تھی اور مکہ کے مکینوں اور رسول اللہ(ص) کے درمیان طویل اور بہت شدید دشمنی رہی تھی اور بدر و احد جیسے واقعات ان کے درمیان پیش آئے تھے۔ یہ عظیم واقعہ حقیقی مصداق تھا اس آیت کریمہ کا جہاں خداوند متعال نے ارشاد فرمایا[118]

وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِير (ترجمہ: اور وہ وہ ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو روک دیا تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے مکے کے علاقے میں جب کہ تمہیں ان کے مقابلے میں پورا دسترس عطا کر دیا تھا اور اللہ اس کا جو تم کرتے ہو، دیکھنے والا ہے۔)[؟–58]۔[119]

خداوند متعال مکیوں کی عداوتوں کے باوجود مسلمانوں کے ہاتھ ان سے روکے جانے کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مکیوں کے درمیان بہت سے مسلمان تھے جو اپنا ایمان خفیہ رکھتے تھے اور جنگ کی صورت میں ان کو نقصان پہنچنے اور انجانے میں مسلمانوں سے غلطی سرزد ہونے کا خدشہ تھا؛ ارشاد خداوندی ہے:

هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاء مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَؤُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ لِيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاء لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَاباً أَلِيماً[؟–25]۔[120]


ترجمہ:وہ وہی ہیں جنہوں نے کفر اختیار کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور ان قربانی کے جانوروں کو جو کہ ساتھ تھے مانع ہوئے اس سے کہ وہ اپنے محل تک پہنچیں اور اگر نہ ہوتے کچھ باایمان مرد اور کچھ باایمان عورتیں کہ تم نادانستہ ان کی پامالی کا سبب ہو جاتے تو تم پر ان کے سبب سے گناہ ہوتا لاعلمی میں تا کہ اللہ اپنی رحمت میں جسے چاہے داخل کرے۔ اگر وہ الگ ہو جاتے تو ہم سزا دیتے ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں کو دردناک عذاب کے ساتھ۔۔

رسول اللہ کا مسکن اور انصار کی منزلت

رسول خدا(ص) جب تک مکہ میں تھے کسی گھر میں مقیم نہیں ہوئے اور حجون کے مقام پر اپنے خیمے میں سکونت پذیر رہے۔ آپ(ص) نماز کے لئے وہیں سے مسجد الحرام جایا کرتے تھے۔[121] گویا مکہ میں آپ(ص) کے گھر پر عقیل نے قبضہ کر رکھا تھا اور جب آپ(ص) سے درخواست کی گئی کہ اپنے گھر میں تشریف لے جائیں تو آپ(ص) نے فرمایا: "کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی گھر چھوڑا ہے؟"

شاید مکہ میں آپ(ص) کی عدم سکونت یا حتی مکہ کے کسی گھر میں عدم قیام کا سبب یہ تھا کہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ انصار اس توہم میں مبتلا ہوجائیں کہ آپ(ص) انہیں ترک کررہے ہیں۔

مروی ہے کہ انصار ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ "کیا رسول اللہ(ص) کو اپنی قرابت داری اور خاندان کی طرف رغبت نے مکہ کی طرف مائل نہیں کیا؟ تو آپ(ص) نے فرمایا: اے جماعت انصار! بے شک میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے خدا کی طرف اور تمہاری جانب ہجرت کی ہے میری زندگی تمہارے ساتھ ہے اور میری موت تمہارے ساتھ ہے۔[122]۔[123]۔[124]

انصار کی منزلت اور قریش کی ریشہ دوانیاں

یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ کہ رسول خدا(ص) نے انصار کی حیثیت کو تقویت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ـ جیسا کہ توقع کی جاتی تھی ـ قریش کی ریشہ دوانیوں نے حالات کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ قریش نے مکہ کے واقعات کے ضمن میں دو مرتبہ سعد بن عبادہ کی شخصیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ سعد انصار کو انصار کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا اور دوسری طرف سے سقیفہ میں ان کا موقف قریش کے نمائندے کہلوانے والوں سے مختلف تھا۔ مثال کے طور پر روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فتح کے دن پرچم ان سے لے لیا اور ان کے بیٹے کو دیا۔[125] بروایت دیگر انھوں نے پرچم خود اپنے بیٹے کو دیا؛[126] ابن اسحق،[127] نے مذکور روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "رسول اللہ(ص) نے علی(ع) سے فرمایا کہ جاؤ اور سعد بن عبادہ سے پرچم لے لو۔ دوسری روایات میں منقول ہے کہ پرچم سعد سے لیا گیا اور زبیر بن عوام کو دیا گیا۔[128] صالحی شامی نے اس حوالے سے متضاد روایات نقل کی ہیں۔[129] سعد بن عبادہ کو بدنام کرنے کے حوالے سے روایت کیا کیا ہے کہ انھوں نے عبدالرحمن بن عوف کے سامنے مہاجر خواتین کے بارے میں بعض نازیبا کلمات کہے جس کی وجہ سے عبدالرحمن ان پر غضبناک ہوئے اور سعد بھاگ گئے الی آخر۔۔۔۔[130]

فتح مکہ سے پہلے اور فتح کے بعد قبول اسلام

فتح مکہ کے بہت سے نتائج مضمون کے مختلف حصوں میں ضمنی طور پر بیان کئے گئے؛ اور اس فتح کا ایک ثمرہ یہ تھا کہ تقریبا 2000 مکی سپاہ اسلام میں شامل ہوئے جو گوکہ مسلمان نہیں تھے مگر واضح تھا کہ بہت جلد اسلام قبول کریں گے لیکن یہ قبول اسلام، فتح مکہ سے پہلے قبول اسلام کی مانند قابل قدر نہ تھا؛ خداوند متعال نے یہ حقیقت بوضوح بیا فرمائی ہے:

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلّاً وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (ترجمہ: اور تمہیں کیا ہے کہ تم خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں حالانکہ ترکہ آسمانوں اور زمین کا صرف اللہ کے لیے ہے، برابر نہیں ہیں تم میں سے وہ جنہوں نے جرأت کی فتح سے پہلے اور جنگ کی ہو، یہ درجے میں زیادہ بڑے ہیں ان سے جنہوں نے اس کے بعد خیرات کی ہے اور جنگ کی ہے اور یوں تو ہر ایک کے لیے اللہ کا وعدہ بھلائی کا اور اللہ جو تم کرتے ہو، اس کا جاننے والا ہے۔)[؟–10][131]

سابقہ مسلمانوں کی اس برتری اور فضیلت کا سبب واضح تھا؛ فتح مکہ کے بموجب نووارد مسلمان ایک امتیازی خصوصیت سے محروم ہوگئے اور وہ خصوصیت "ہجرت" سے عبارت تھی۔ قبل ازیں قول رسول خدا(ص) کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ: "لاهجرة بعد الفتح۔[132].[133]۔[134]

فتح مکہ اور اسلام کا فروغ

فتح مکہ جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے بڑھتے ہوئے فروغ کا آغاز ثابت ہوئی۔ عرب سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ رسول اللہ(ص) مکہ کو زیر نگیں لا سکتے ہیں۔ قریش کو بہت سے قبائل کی حمایت حاصل تھی اور یہ حمایت ان کی شکست ناپذیری ظاہر کررہی تھی اور پھر قریش "تقدس" کا عنوان بھی گلے میں لٹکائے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو صاحب حرم سمجھتے تھے! چنانچہ ان کا خیال تھا کہ خداوند متعال اور ان کے بناوٹی خداؤں کو ان کا دفاع و تحفظ کرنا چاہئے؛ لیکن دیکھنے والی آنکھوں نے دیکھا اور سننے والے کانوں نے سنا کہ ان کا دفاع نہ ہوا۔ مروی ہے کہ عرب فتح مکہ کے وقت کہتے تھے: دیکھیں، اگر محمد(ص) قریش پر غلبہ پائیں تو ہم سمجھیں گے کہ وہ سچے ہیں، چنانچہ جب قبائل کو آپ(ص) کے مکہ پر غلبے کی خبر ملی تو جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔[135]

بہت سے عرب قبائل نے قبول اسلام کو فتح مکہ سے مشروط کررکھا تھا چنانچہ وہ فتح کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے؛ حتی جب رسول اللہ(ص) نے فتح مکہ سے بہت پہلے ذوالجوشن ضبابی (کلابی) کو قبول اسلام کی دعوت دی تو اس نے جواب دیا: اگر آپ نے کعبہ پر غلبہ پایا تو میں آپ پر ایمان لاؤں گا۔[136]۔[137]

فتح مکہ سے قبل بنو عبد بن عدی نامی قبیلے کے افراد اسلام قبول کرنے کی غرض سے رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کہنے لگے: ولو قاتلت غير قريش قاتلنا معك ولكنا لا نقاتل قريشًا اگر آپ قریش کے سوا کسی اور کے خلاف لڑنا چاہیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکں ہم قریش کے ساتھ نہیں لڑیں گے۔[138]

مسعودی نے اس حقیقت کو زیادہ واضح الفاظ میں بیان کیا ہے: فلما فتح رسول الله صلّى الله عليه وآله مكة ودانت له قريش، انقادت له العرب الى الإسلام جب رسول اللہ(ص) نے مکہ فتح کرلیا اور قریش آپ(ص) کے پیرو ہوئے، تو عربوں نے سر تسلیم خم کیا؛[139] نیز کہا گیا ہے کہ:لا تذلُّ العرب حتی يذل اهل مكة ترجمہ: عرب اس وقت تک سرتسلیم خم نہیں کریں گے جب تک کہ مکہ پر زیر تسلط نہ آیا ہو۔[140]

فتح مکہ کے روز مسلمان ہونے والا شاعر فضالہ کہتا ہے:

لو ما رأيت محمدا وقبيله
بالفتح يوم تكسر الاصنام
لرأيت دين الله أضحى بينا
والشرك يغشى وجهه الاظلام
اگر تم محمد(ص) اور آپ(ص) جیسوں کے دیکھتے
فتح کے روز، جب بت ٹوٹ رہے تھے
اچھی طرح دیکھ لیتے کہ دین خدا روشن ہوا ہے
اور شرک کے چہرے کو تاریکیاں ڈھانپ رہی ہیں۔[141]

ابن اسحق نے فتح مکہ کے بارے میں متعدد شعراء کا کلام نقل کیا جن میں سے بعض اشعار بہت دلچسپ ہیں۔ ابن اسحق نے خود بھی وضاحتیں کی ہیں۔[142]

نتائج

  • مکہ پر مسلمانوں نے غلبہ پایا اور مشرکین ہمیشہ کے لئے شکست کھا گئے؛
  • حنین، طائف اور دیگر شہروں ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں شرک کی بساط لیپٹنے کی راہ ہموار ہوئی؛
  • فتح مکہ کے ساتھ ہی جزیرہ نمائے عرب میں ایک عظیم عسکری قوت تشکیل پائی جس کا راستہ روکنا کسی بھی قبیلے یا قبائل کی متحدہ قوت کے لئے ممکن نہ تھا؛
  • اس فتح عظیم نے مکہ پر بھی عظیم دینی، سیاسی اور سماجی اثرات مرتب کیا اور مذکورہ بالا نتائج کو ان ہی اثرات کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے؛
  • فتح مکہ کے ساتھ اللہ تعالی کا یہ وعدہ عملی صورت اپنائی کہ مسلمان طاقتور ہونگے اور لوگ ان کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سوره سبأ، آیہ 49۔
  2. الواقدي،الواقدي، المغازي، ج2، ص781۔
  3. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص30۔
  4. الواقدي، المغازي، ج2، ص783۔
  5. الواقدي، المغازي، ج2، ص782۔
  6. الواقدي، المغازي، ج2، صص 789 - 790۔
  7. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص31۔
  8. الواقدي، المغازي، ج2، ص783۔
  9. الواقدي، المغازي، ج2، ص787۔
  10. الصالحي الشامي، سبل الهدى والرشاد، ج5، ص202-203۔
  11. الواقدي، المغازي، ج2، ص789۔
  12. ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج4، ص34-35۔
  13. الہيثمى، مجمع الزوائد، ج6، ص161۔
  14. الصالحي الشامي، سبل الہدی والرشاد، ج5، ص212۔
  15. ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج4، ص34-35۔
  16. الواقدي، المغازي، ج2، صص787 - 788۔
  17. الواقدي، المغازي، ج2، صص 792-793۔
  18. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص206۔
  19. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص396۔
  20. الواقدي، المغازي، ج2، صص 794-795۔
  21. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص36۔
  22. الطباطبائي، تفسير الميزان، ج20، ص380۔
  23. الطبرسي، مجمع البيان، ج10، ص469۔
  24. ابن سعد، الطبقات، ج2، ص125۔
  25. الواقدي، المغازي، ج2، ص798۔
  26. مجمع‌ البيان، ج10، ص269۔
  27. ابن ہشام، السيرة النبوية، ج4، ص39-40۔
  28. الصالحي الشامي، سبل الہدی والرشاد، ج5، ص318 - 319۔
  29. سوره ممتحنہ، آیات 1-3۔
  30. الواقدي، المغازي، ج2، ص799۔
  31. الواقدي، المغازي، ج2، صص 799 - 801۔
  32. الواقدي، وہی ماخذ، ص812۔
  33. رجوع کریں: مفید، الارشاد، ج1، ص106 ـ 105۔
  34. ابن اثیر، الکامل، ج2، ص74۔
  35. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج19، ص62۔
  36. العاملی، الصحيح من سيرة النبي الاعظم (ص)، ج11، ص292۔
  37. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص40۔
  38. الواقدي، المغازي، ج2، ص802:
    قضينا من تهامة كلَّ رَيْب و خَيْبر ثم أجْمَمْنا السيّوفا۔
  39. الواقدي، المغازي، ج2، ص803 - 804۔
  40. رجوع کریں: ابن اثیر، اسد الغابة، ج4، صص166-167۔
  41. الواقدي، المغازي، ج2، ص800۔
  42. الواقدي، المغازي، ج2، ص805۔
  43. الواقدي، وہی ماخذ، صص807-810۔
  44. رجوع کریں: الواقدي، وہی ماخذ۔
  45. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص40۔
  46. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص324۔
  47. الهيثمى، مجمع الزوائد، ج6، ص166۔
  48. الواقدي، المغازي، ج2، صص 518 ،815 - 816۔
  49. الصالحي الشامي، سبل الهدى والرشاد، ج5، ص217۔
  50. المتقي الهندي، کنز العمال، ج10، ص527-528۔
  51. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص45-46۔
  52. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، ص143۔
  53. الواقدي، المغازي، ج2، ص822۔
  54. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص45-46۔
  55. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص41-42۔
  56. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص42۔
  57. الهيثمي، مجمع الزوائد، ج6، ص165۔
  58. الواقدي، المغازي، ج2، صص825-826۔
  59. الواقدي، وہی ماحذ، ص828۔
  60. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص45-46۔
  61. سوره اسراء، آیه 81۔
  62. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، صص135 اور بعد کے صفحات۔
  63. الواقدي، المغازي، ج2، ص834۔
  64. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، ص146-147
  65. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، صص43-44، ش36907۔
  66. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، صص 356 - 357، بحوالہ از: حاكم نيشابوري، اسباب النزول، اور ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، ص146-147
  67. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، ص146۔
  68. الواقدي، المغازي، ج2، ص870۔
  69. الواقدي، المغازي، ج2، ص870 - 871۔
  70. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، ص50۔
  71. سوره حجرات، آیه 13۔
  72. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص364-365۔
  73. الواقدي، المغازي، ج2، ص836۔
  74. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، ص147 و 150۔
  75. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص42۔
  76. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، ص151۔
  77. مكاتيب الرسول، ج1، ص521۔
  78. سبل الهدی، ج5، ص366۔
  79. تفصیل کے لئے رجوع کریں: جعل حدیث۔۔
  80. الواقدي، المغازي، ج2، صص 846 - 847۔
  81. الواقدي، المغازي، ج2، ص857۔
  82. الصالحي الشامي، سبل الهدی الهدي والرشاد، ج5، ص340۔
  83. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص41۔
  84. صالحی شامی کی روایت کے مطابق ایک نام قریبہ اور دوسری کا نام فرتنی تھا؛ فرتنی مسلمان ہوئی اور اس کا تعلق عبداللہ بن خطل نامی شخص سے تھا؛ رجوع کریں، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص225۔
  85. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص224۔
  86. الواقدي، المغازي، ج2، ص855۔
  87. الواقدي، المغازي، ج2، ص852۔
  88. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص379۔
  89. الواقدي، المغازي، ج2، ص858۔
  90. طبقات‌الكبري، ج7، صص 138 - 139۔
  91. الواقدي، المغازي، ج2، ص849۔
  92. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، ص149۔
  93. الواقدي، المغازي، ج2، صص 756 - 857۔
  94. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص51۔
  95. ابن هشام، وہی ماخذ۔
  96. الواقدي، المغازي، ج2، ص830۔
  97. ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج4، ص53۔
  98. المجلسي، بحار الانوار، ج41، ص10۔
  99. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابى طالب، ج2، 376۔
  100. الصالحي الشامي، سبل الہدی والرشاد، ج5، ص349۔
  101. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج14، ص120۔
  102. ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج4، ص62۔
  103. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج10، ص77۔
  104. ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج4، ص61۔
  105. جعدہ بن ہبیرہ بن وہب القرشی المخزومی۔
  106. التستری، محمد تقی، قاموس الرجال، ج2، ص593-594۔
  107. ابن هشام، صص54-55۔
  108. ابن سعد، الطبقات، ج2، ص132۔
  109. جعفریان، تاريخ تحول دولت و خلافت، صص116 ،136 و 193۔
  110. ابو ریة، اضواء علی السنة المحمدية، ص100-101۔
  111. ابن سعد، الطبقات، ج2، ص136۔
  112. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص65۔
  113. سوره توبه، آیه 60۔
  114. طبقات‌الكبري، ج2، صص 138 - 139۔
  115. ابن سعد، طبقات الکبری، ج2، صص152-153۔
  116. ابن هشام، السيرة النبویة، ج4، صص929-930۔
  117. المجلسی، بحار الانوار، ج45 ص135۔
  118. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، ص149۔
  119. سوره فتح، آیه 24۔
  120. سوره فتح، آیه 25۔
  121. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص349۔
  122. ابن ابي شيبة، المصنف، ج113، ص136۔
  123. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص223۔
  124. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص48۔
  125. الواقدی، المغازي، ج2، ص821-822۔
  126. المصنف، ابن ابي شيبة، ج13، ص138۔
  127. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص48۔
  128. الصالحي الشامي، سبل الهدی، ج5، ص323۔
  129. الصالحي الشامي، وہی ماخذ۔
  130. رجوع کریں: الواقدي، المغازي، ج2، صص866-867۔
  131. سوره حدید، آیه 10۔
  132. ابن سعد، الطبقات، ج2، ص132۔
  133. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، صص154 و 158۔
  134. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص261-261۔
  135. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج6، ص256۔
  136. الهيثمى، مجمع الزوائد، ج6، ص162۔
  137. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص261۔
  138. ابن سعد، الطبقات، ج1، ص306۔
  139. التنبيه والاشراف، ص275۔
  140. ابن ابي شيبة، المصنف، ج13، ص159۔
  141. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص60۔
  142. ابن هشام، ج4، ص61 اور بعد کے صفحات۔


مآخذ

  • قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)۔
  • ابن اثير، على بن محمد الجزري الشيباني، اسد الغابة في معرفۃ الصحابہ، انتشارات اسماعيليان تہران - ناصر خسرو۔ابن اثیر الجزری، علی بن ابی الکرم محمد بن محمد، الكامل في التاريخ، دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان ۔ 1407 ہجری قمری / 1987 عیسوی۔
  • ابن أبی الحدید، عبد الحمید بن ہبة الله معتزلی، شرح نهج البلاغة، عيسى البابي الحلبي، دار احياء الكتب العربية مصر، الطبعہ الثانيہ (1967 عیسوی - 1387 ہجری قمری) منشورات مكتبة آية الله العظمى المرعشي النجفي قم - ايران 1404 ہجری قمری۔
  • ابن ابي شيبة، ابو بکر عبد الله بن محمد بن ابراهيم العبسي، المصنف لإبن أبي شيبة، المحقق: أسامة بن إبراهيم بن محمد، الفاروق الحديثة، الطبعة الأولی، القاهرة 1429 هجری قمری / 2008 عیسوی۔
  • ابن شہر اشوب، محمد بن على السروى المازندرانى، مناقب آل أبى طالب، تصحيح وشرح: لجنة من أساتذة النجف الاشرف، المكتبہ والمطبعہ الحيدريہ في النجف، 1376 ه‍ 1956 م
  • ابن قيم الجوزيہ، محمد بن أبي بكر بن أيوب، زاد المعاد في هدي خير العباد، المحقق: شعيب الأرناؤوط - عبد القادر الأرناؤوط، الناشر: مؤسسہ الرسالہ بيروت ـ لبنان 1418 هجری قمری / 1998 عیسوی۔
  • ابن ہشام، عبد الملك، أبو محمد، السيرة النبويہ، عمر عبد السلام تدمري، دار الكتاب العربي، الطبعہ الثالثہ ـ بيروت، 1410 ہجری قمری / 1990 عیسوی۔
  • ابو رية، الشيخ محمود (1889 - 1970 ع‍)، أضواء على السنة المحمدية أو دفاع عن الحديث، (سنة التأليف: 1957 ع‍ 1377 ه‍)، الطبعہ السادسہ، دار المعارف، القاہرة 1994 عیسوی۔
  • الاحمدي الميانجي، علي بن حسين علي، مكاتيب الرسول صلی الله عليه وآله، دار صعب، بيروت۔
  • التستری، الشيخ محمد تقي، قاموس الرجال، تحقيق ونشر: مؤسسة النشر الاسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفہ، الطبعہ الاولى 1410 ہجری قمری۔
  • جعفریان، رسول، تاریخ تحول دولت و خلافت ‌از بر‌آمدن‌ ‌اسلام‌ تا بر‌افتادن‌ سفیانیان‌، حوزه علمیہ قم، مرکز مطالعات و تحقیقات اسلامی، چاپ اول، قم، 1372 ہجری شمسی۔
  • الصالحي الشامي، محمد بن يوسف، سبل الہدى والرشاد في سيرة خير العباد، المحقق: الشيخ عادل احمد عبد الموجود الشيخ علي محمد معوض الناشر: دار الكتب العلميہ بيروت - لبنان الطبعہ الأولى 1414 ه‍ - 1993 م
  • الطباطبائي، العلامہ السيد محمد حسين، الميزان في تفسير القران، منشورات جماعة المدرسين في الحوزة العلميہ في قم المقدسہ۔
  • الطبرسي، امين الاسلام أبي على الفضل بن الحسن، مجمع البيان في تفسير القران، تحقیق: قدم له: السيد محسن الامين
  • العاملي، منشورات مؤسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت - لبنان 1415 ه‍جري شمسي / 1995 عیسوی۔
  • العاملي، السيد جعفر مرتضي، الصحيح من سيرة النبي الاعظم (ص)، دار الهادي للطباعة ـ دار السيرة - بيروت لبنان - الطبعة الرابعة 1415 هجری قمری / 1995 عیسوی۔
  • المباركفوري، صفی الرحمن، الرحيق المختوم، دار احیاء التراث ـ 1396 هجری قمری / 1976 عیسوی۔
  • المتقي الهندي، علاء الدين علي بن حسام الدين (المتوفى سنة 975ه‍)، كنز العمال في سنين الاقوال والافعال، ضبط و تفسیر: الشيخ بكري حياني، تصحيح: صفوة السقا، مؤسسة الرسالة، بيروت، 1409 ه‍ - 1989 م .
  • المجلسي، العلامة الحجة محمد باقر، بحار الانوار الجامعة لدرر أخبار الائمة الاطهار، مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان - الطبعة الثانية المصححة 1403 هجری قمری / 1983 عیسوی۔
  • المحمودى، الشيخ محمد باقر، نهج السعادة في مستدرك نهج البلاغة باب الخطب والكلم، تصحيح: عزيز آل طالب، ناشر: وزارة الثقافة والارشاد الاسلامي، مؤسسة الطباعة والنشر، تهران، 1418ق / 1376 ش
  • مسعودی، علی بن حسین بن علی، التنبیه والاشراف، لیدن، بمطیعة بريل، 1894 عیسوی۔ افيست دار صادر بیروت۔ لبنان۔
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، 1413 هجری قمری۔
  • الهيثمي، نور الدين علي بن أبي بكر، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، دار الكتب العلمية بيروت - لبنان 1408 ه‍ . - 1988 م
  • الواقدی، محمد بن عمر، المغازی، محقق: Marsden Jones مطبعة: Oxford University Press, London سنة الطبع: 1966 عیسوی۔ الطبعة الثالثة افست 1404 هجری قمری / 1984 عیسوی۔
  • Encyclopædia Britannica: [1]
  • Becker, C.H. Encyclopaedia of Islam, Second Edition. Edited by: P. Bearman, Th. Bianquis, C.E. Bosworth, E. van Donzel, W.P. Heinrichs. Brill Online, 2015.

بیرونی روابط

پچھلا غزوہ:
عمرۃ القضاء
رسول خدا(ص) کے غزوات
غزوہ فتح مکہ
اگلا غزوہ:
حنین