رد الشمس

ویکی شیعہ سے

رد الشمس (سورج کے پلٹنے یا پلٹانے کے معنی میں ہے) پیغمبر اکرمؐ کے معجزات اور امام علیؑ کے کرامات میں سے ہے۔ اس واقعہ میں، سورج غروب ہو رہا تھا لیکن پیغمبر اسلام کی دعا سے واپس آ گیا اور حضرت علی نے اپنی عصر کی نماز پڑھی۔ بعض منابع کے مطابق، اس طرح کا ایک واقعہ امام علی کی خلافت کے وقت بھی پیش آیا تھا۔ عہد عتیق اور بعض دوسرے اسلامی منابع میں ذکر ہوا ہے کہ رد الشمس بنی اسرائیل کے تین پیغمبروں منجملہ حضرت یوشع کے ساتھ پیش آیا ہے۔

اسلام سے پہلے

رد الشمس سورج کے واپس پلٹنے یا واپس پلٹانے کے معنی میں ہے۔ عہد عتیق میں رد الشمس کے واقعہ کا بنی اسرائیل کے بعض پیغمبروں کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[1] بعض اسلامی منابع میں آیا ہے کہ یہ واقعہ اسلام سے پہلے حضرت یوشع،[2] حضرت داوود[3] اور حضرت سلیمان[4] کے زمانے میں پیش آیا ہے۔

بعض منابع میں سورہ ص کی آیات 30۔33 کے ذیل میں آیا ہے۔ یہ حضرت سلیمان کے بارے میں ہے کہ ایک دن آپؑ عصر کے وقت گھوڑوں کو دیکھنے میں مصروف ہو گئے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ سلیمانؑ نے فرشتوں سے کہا کہ سورج کو واپس پلٹاؤ تا کہ میں نماز کو اس کے وقت میں پڑھ سکوں۔ فرشتوں نے سورج کو واپس پلٹایا، آپ کھڑے ہوئے اپنی ٹانگوں اور گردن کو مسح کیا اپنے دوستوں میں سے بھی جن کی نماز قضا ہو چکی تھی ان کو یہی کام کرنے کا حکم دیا۔ آپؑ نے نماز پڑھی، اور جب نماز ختم ہو گئی، تو سورج غروب ہو گیا اور ستارے ظاہر ہوگئے۔[5] اگرچہ مفسرین نے کہا ہے کہ یہ داستان پیغمبروں کی عصمت سے مطابقت نہیں رکھتی اور اس کے لئے دوسری تفسیر بیان کی ہے۔ کتاب مقدس میں آیا ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک جنگ میں، یوشعؑ نے سورج کو حکم دیا کہ غروب نہ کرے اور آسمان پر ثابت قدم رہے یہاں تک کہ بنی اسرائیل اپنے دشمنوں سے انتقام لے لیں۔[6]

پیغمبرؐ کے زمانے میں

شیخ مفید نے اسماء بنت عمیس، پیغمبر اسلامؐ کی زوجہ ام سلمہ، جابر بن عبداللہ انصاری، ابو سعید خدری اور پیغمبرؐ کے بعض دیگر اصحاب سے نقل کیا ہے: ایک دن پیغمبرؐ نے علیؑ کو ایک کام کے لئے بھیجا۔ جب آپؑ واپس لوٹے، تو عصر کی نماز کا وقت تھا۔ پیغمبرؐ کو معلوم نہیں تھا کہ آپؑ نے عصر کی نماز نہیں پڑھی، اس لئے پیغمبرؐ نے اپنے سر کو امام علیؑ کی ٹانگوں پر رکھا اور سو گئے۔ اسی وقت وحی الہیٰ نازل ہوئی اور پیغمرؐ وحی الہیٰ کو دریافت کرنے میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہو گیا. جب پیغمبرؐ وحی الہیٰ دریافت کر کے فارغ ہوئے تو امام علیؑ سے پوچھا کہ آیا عصر کی نماز پڑھی ہے؟ جب امام علیؑ نے جواب میں فرمایا کہ چونکہ آپؐ کا سرمبارک میری ٹانگوں پر تھا اور میں آپ کو بیدار نہ کر سکا، پیغمبرؐ نے خدا سے چاہا کہ سورج کو واپس پلٹایا جائے تا کہ علیؑ اپنی عصر کی نماز پڑھ سکیں اور اس وقت سورج اتنی مقدار میں واپس آیا کہ نماز عصر کی فضیلت کا وقت ہوا اور حضرت علیؑ نے اپنی نماز ادا کی۔[7] یہ واقعہ اکثر شیعہ منابع میں نقل ہوا ہے۔[8] اور اس مکان جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہاں مسجد تعمیر کی گئی جس کا نام رد الشمس رکھا گیا ہے۔

اہل سنت کے منابع

علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں بہت سے اہل سنت کے علماء کے نام لکھے ہیں کہ جنہوں نے حدیث رد الشمس کے بارے میں مستقل کتاب لکھی ہے یا اسے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے،[9] جو درج ذیل ہیں:

  • ابوبکر وراق: حدیث رد الشمس کے راویوں کے بارے میں اس کی کتاب ہے۔
  • ابو الحسن شاذان فضلی: طرق حدیث کے بارے میں اس کا رسالہ ہے۔
  • ابو الفتح محمد بن حسین موصلی: خاص طور پر اس حدیث میں بارے میں کتاب ہے۔
  • ابو القاسم حاکم ابن حذاء حسکانی نیشا پوری: مسالہ فی تصحیح رد الشمس و ترغیم النواصب الشمس نام کی کتاب ہے۔
  • ابو عبداللہ حسین بن علی البصریی: جواز رد الشمس نام کی کتاب ہے۔
  • ابو المؤید موفق بن احمد: رد الشمس لامیرالمومنین نام کی کتاب ہے۔
  • جلال الدین سیوطی: کشف اللبس عن حدیث رد الشمس نام کی کتاب ہے اور کتاب اللالی المصنوعہ میں بھی اس حدیث کی تحقیق اور تصحیح کی ہے۔

مسعودی نے بھی کتاب اثبات الوصیہ میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔[10]

امام علیؑ کے زمانے میں

مشھدالشمس: کہا جاتا ہے ردالشمس امام علی کے زمانے میں یھاں پر واقع ہوا تہا۔

مشہد الشمس، حلہ شہر کے شمال کی طرف ایک زیارت گاہ ہے کہا جاتا ہے امام علیؑ کے زمانے میں اس جگہ پر رد الشمس کا واقعہ پیش آیا ہے۔ شیعہ منابع کے مطابق، امام علیؑ کی خلافت کے زمانے میں بھی آپؑ کی دعا سے ایک بار رد الشمس کا واقعہ پیش آیا ہے. اس نقل کے مطابق، جب حضرت علیؑ اپنے اصحاب کے ہمراہ فرات سے بابل کی طرف حرکت کرنا چاہتے تھے، آپؑ نے عصر کی نماز اپنے بعض اصحاب کے ساتھ ادا فرمائی، لیکن بعض اصحاب جو گھوڑوں کو فرات کے پار لے جانے میں مصروف تھے وہ نماز کو اپنے وقت میں ادا نہ کر سکے۔ اس وقت امام علیؑ نے خدا سے دعا کی کہ سورج کو واپس پلٹایا جائے تا کہ وہ اصحاب اپنی نماز ادا کر سکیں۔[11] بعض اہل سنت کے عالم جیسے طحاوی، قاضی عیاض اور ابن حجر عسقلانی[12] نے امام علیؑ کی خلافت میں رد الشمس کا جو واقعہ پیش آیا ہے اسے صحیح کہا ہے، لیکن بعض دیگر نے اسے ٹھیک نہیں سمجھا۔ ابن تیمیہ نے منہاج السنۃ [13] اور ابن جوزی نے کتاب الموضوعات میں اس واقعہ کو جعلی کہا اور اس کا انکار کیا۔ عراق کے شہر حلہ کے شمال کی سمت ایک زیارت گاہ جس کا نام مشہد الشمس یا مشہد رد الشمس ہے۔ اہل تشیع کے عقیدے کے مطابق یہ زیارت گاہ اس مقام پر بنائی گئی ہے جہاں حضرت علیؑ کے زمانے میں رد الشمس کا واقعہ پیش آیا تھا۔[14] بعض اوقات اسے مسجد یا حضرت علیؑ کے مقام یا مسجد رد الشمس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[15]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. کتاب یوشع 10: 12-14
  2. صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ص۲۰۳
  3. ملا حويش آل غازى، بیان المعانی، ج۶، ص۳۱۸.
  4. مکارم شیرازی، الامثل فی تفسیر کتاب الله المنزل، ج۱۴، ص۵۰۱
  5. بحرانى، سید هاشم، البرهان فى تفسیر القرآن، ج ‏۴، ص ۶۵۳-۶۵۴؛ نیز ببینید: طباطبایى سید محمد حسین، المیزان فى تفسیر القرآن، ج ‏۱۷، ص۲۰۳-۲۰۴؛ سبزوارى نجفى، ارشاد الاذهان الى تفسیر القرآن، ص ۴۶۰
  6. تاب مقدس، کتاب یوشع، باب 10، آیات 11-12
  7. شیخ مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج۱، ص۳۴۶
  8. کلینی، کافی، ج۴، ص۵۶۲؛ صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ص۲۰۳
  9. ميني، الغدير، ج۳، ص۱۸۳-۱۸۸
  10. مسعودی، إثبات الوصیة للإمام علی بن ابی طالبؑ، ص۱۵۳
  11. مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج۱، ص۳۴۷
  12. ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۶، ص۲۲۱و ۲۲۲
  13. ابن تیمیہ، منهاج السنة، ج۴، ص۱۸۶
  14. http://islamicshrines.net/?p=552
  15. http://hajj.ir/38/12288

مآخذ

  • ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحیم، منهاج السنہ، ریاض، جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ، ۱۴۰۶ق.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، بیروت، دار المعرفة، بی تا.
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق احسان عباس، بیروت، دار صادر، چاپ اول، ۱۹۶۸ء.
  • ابن عطیہ، جمیل حمود، أبهی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، بیروت، موسسہ الاعلمی، ۱۴۲۳ق.
  • امینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیه، ۱۴۱۶ق.
  • بحرانی، سید هاشم، البرهان فی تفسیر القرآن، تهران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ق.
  • روحانی، محمد یحیی، «تمام شبهات رد الشمس»،‌ مجلہ دیدار آشنا، آذرماه سال ۱۳۸۹، شماره۱۲۲.
  • سبزواری نجفی، محمد بن حبیب الله، ارشاد الاذهان الی تفسیر القرآن،‌ بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۱۹ق.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، ۱۴۱۳ق.
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیہ، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، نشر اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق.
  • طباطبایی سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات جامعہ مدرسین حوزه علمیہ، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق.
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیة للإمام علی بن ابی طالبؑ، قم، انصاریان، چاپ سوم، ۱۴۲۳ق.
  • ملا حویش آل غازی، عبد القادر، بیان المعانی، دمشق، المطبعة الترقی، ۱۳۸۲ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، الامثل فی تفسیر کتاب الله المنزل، مدرسہ امام علی، قم، ۱۴۲۱ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تهران، دار الکتب الإسلامیة، ۱۳۷۴ش.