نجمہ خاتون

ویکی شیعہ سے
نجمہ خاتون
امام کاظمؑ کی زوجہ، امام رضاؑ کی والدہ
مشربہ ام‌ابراہیم میں نجمہ خاتون کا مقبرہ تخریب سے پہلے[1]
مشربہ ام‌ابراہیم میں نجمہ خاتون کا مقبرہ تخریب سے پہلے[1]
کوائف
نام:نجمہ خاتون
مشہور اقاربامام علی رضاؑ، فاطمہ معصومہؑ اور امام موسی کاظمؑ (شوہر)
جائے پیدائششمالی افریقہ کا شہر نوبہ یا جنوبی فرانس کے جنوب میں جزیرہ مارسی
مقام سکونتمدینہ
مقام دفنامام صادقؑ کی زوجہ حمیدہ خاتون کے جوار میں، مشربہ ام ابراہیم، مدینہ کا العوالی علاقہ، قبرستان بقیع کے مشرق میں
اصحابامام صادقؑ • امام کاظمؑ • امام رضاؑ


نجمہ خاتون، امام موسی کاظم علیہ السلام کی زوجہ اور امام علی رضا علیہ السلام اور فاطمہ معصومہ کی والدہ ہیں۔ یہ ایک کنیز تھیں جنہیں حمیدہ زوجہ امام صادقؑ نے خرید کر امام موسی کاظمؑ کو بخش دیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق جناب حمیدہ نے ایک خواب دیکھا اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے جناب نجمہ امام کاظمؑ کو دیدیا۔ نجمہ خاتون کی قبر مدینہ کے مَشرَبہ اُمِّ ابراہیم میں واقع ہے۔

حسب و نسب

نجمہ خاتون ایک کنیز تھی جسے امام صادقؑ کی شریک حیات نے خریدا اور امام کاظمؑ کو دیدیا۔ اور ان کے بطن سے امام رضاؑ متولد ہوئے۔[2] بعض آپ کو شمالی آفریقہ کے شہر نوبہ کی اور بعض آپ کو فرانس کے جنوب میں واقع جزیرہ مارسی کی قرار دیتے ہیں۔[3]اس لحاظ سے خَیزُران مَرسِیہ و شَقْرَاء نُوبِیہ کے ناموں سے بھی جانی جاتی ہیں۔[4]

نام اور القاب

آپ کا معروف ترین نام نجمہ خاتون ہے لیکن سَکَن نُوبیہ[5] رویٰ، سمانہ، تُکتَم اور خَیزُران[6] بھی ذکر ہوئے ہیں۔ شیخ صدوق کی روایت کے مطابق جب نجمہ خاتون امام موسی کاظم سے متعلق ہوئیں تو آپ کا نام تُکتَم[7] رکھا گیا اور جب امام رضا کی ولادت ہوئی تو طاہرہ نام رکھا گیا۔[8] ان کا لقب شَقْراء اور کنیت ام‌ البنین تھی۔[9]

مقام و منزلت

امام جعفر صادقؑ کی زوجہ، امام موسی کاظم سے خطاب کرتے ہوئے کہتی ہیں: میں نے اس سے زیادہ مرتبے کی حامل کسی کنیز کو نہیں دیکھا۔[10] شیخ صدوق سے منقول ایک روایت میں آیا ہے کہ حمیدہ خاتون نے خواب میں رسول اللہ کو دیکھا جس میں رسول اللہ نے حمیدہ سے درخواست کی کہ یہ کنیز نجمہ موسی کاظم کو بخش دے کیونکہ جلد ہی اس سے دنیا کے افضل ترین مولود کی پیدائش ہوگی لہذا وہ انہیں امام موسی کاظم کو بخش دیتی ہیں اس وقت وہ دو شیزہ تھیں۔[11] امام موسی کاظم نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول خداؐ کے حکم سے نجمہ کو خریدا ہے۔[12]

نجمہ خاتون سے منقول ہے کہ امام رضاؑ سے حمل کے دوران سنگینی کا احساس نہیں کرتی تھی۔ اور خواب میں حمل سے تسبیح اور تہلیل کی آواز سنتی تھی لیکن جب بیدار ہوتی تھی تو آواز نہیں آتی تھی۔[13]

ایک روایت کے مطابق جناب نجمہ خاتون نے امام رضاؑ سے ایک دایہ مطالبہ کیا تاکہ وہ نماز اور عبادت میں مشغول رہ سکیں۔[14]

مدفن

محمد باقر حسینی جلالی کے مطابق نجمہ خاتون کی قبر جنت البقیع کے مشرقی علاقہ العوالی میں واقع مشربہ ام ابراہیم[یادداشت 1] میں حمیدہ زوجہ امام صادق کے پہلو میں ذکر ہوا ہے۔[15]

حوالہ جات

  1. «تصاویری از مزار مادر امام رضا(ع) در مدینه»، همشهری آنلاین.
  2. صدوھ، عیون اخبارالرضا، 1378ھ، ج1، ص14.
  3. قائمی، در مکتب عالم آل محمد، 1378ش، ص30.
  4. اربلی، کشف الغمۃ، 1381ھ، ج2، ص259.
  5. کلینی، الکافی، 13۶7ش، ج1، ص48۶؛ مجمل التواریخ والقصص، تهران، ص457.
  6. مجمل التواریخ والقصص، تهران، ص457.
  7. صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص14.
  8. صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص15.
  9. قمی، تاریخ قم، 13۶1ش، ص199.
  10. صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص15.
  11. صدوق، امالی، ص2۶؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 24
  12. مسعودی، إثبات الوصیۃ، 142۶ھ، ص202.
  13. صدوق، عیون اخبارالرضا، 1378ھ، ج1، ص20.
  14. صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص15.
  15. فدك و العوالی، الحسینی الجلالی ،ص:55

نوٹ

  1. مشربہ ام ابراہیم مَشْربہ کے معنی اس باغ یا زرخیز جگہ کے ہیں جہاں سبزہ آسانی سے اگ آتے ہیں اور جس کے درمیان ٹیلے ہوں یا مکان ہوں۔ مشربہ ایک باغ تھا جس کے درمیان میں صُفہ (سیڑھی) یا کوئی کمرہ تھا جہاں پیغمبر اکرمؐ کی بیوی ماریہ قبطیہ کا بیٹا ابراہیم بن رسول اللہؐ متولد ہوئے۔ یہ مشربہ بنی قریظہ کے شمال میں شرقی حرہ میں واقع ہے جسے صحرا بھی کہا گیا ہے۔ کتاب وفاء الوفاء بأخبار دارالمصطفىؐ، ج3، ص 825.

مآخذ

  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، مصحح رسولی محلاتی، تبریز، انتشارات بنی ہاشمی، چاپ اول، 1381ھ۔
  • «تصاویری از مزار مادر امام رضاؑ در مدینہ»، ہمشہری آنلاین، درج مطلب 7 مہر 1391ش، مشاہدہ 18 مہر 1400شمسی ہجری۔
  • حسینی جلالی، محمد باقر، فدک و العوالی او الحوایط السبعۃ فی الکتاب و السنۃ و التاریخ و الأدب، مشہد، دبیرخانہ کنگرہ میراث علمی و معنوی حضرت فاطمہ زہرا، 142۶ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، تصحیح مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔
  • قائمی، علی، درمکتب عالم آل محمد، تہران، انتشارات امیری، 1378 شمسی ہجری۔
  • قمی، حسین بن محمد بن حسن، تاریخ قم، ترجمہ حسن بن علی بن حسن عبد الملک قمی، تحقیق سید جلال الدین تہرانی، تہران، انتشارات توس، 13۶1 شمسی ہجری۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، علی‌اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ سوم، 13۶7 شمسی ہجری۔
  • مجمل التواریخ و القصص، مؤلف مجہول، تحقیق ملک الشعراء بہار، تہران، کلالہ خاور، بی‌تا.
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ، قم، انتشارات انصاریان، چاپ سوم، 142۶ھ۔