نہج البلاغہ

ویکی شیعہ سے
مشخصات
مصنفسید رضی (متوفی 406 ہجری)
زبانعربی
تعداد جلد1
طباعت اور اشاعت
ناشرمرکز افکار اسلامی
اردو ترجمہ
مترجممفتی جعفر حسین


نہج البلاغہ، امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے منتخب حکیمانہ خطبات، خطوط اور اقوال کا مجموعہ ہے۔ جسے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں سید رضی نے جمع و تدوین کیا ہے۔ ادبی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے بعض علماء نے نہج البلاغہ کو "اخ القرآن" کا نام دیا ہے۔ ادبائے عرب نے اس کی فصاحت و بلاغت کا اعتراف کیا ہے۔ یہ کتاب امام علیؑ کے بعض خطبات، خطوط اور کلمات قصار کا مجموعہ ہے۔ امام (ع) نے بہت سے خطبوں میں عوام کو انجام احکام الہی اور ترک محرمات کی دعوت دی ہے اور بعض خطوط جو آپ نے اپنے گورنروں کو تحریر کئے ہیں، ان میں انہیں عوام کے حقوق کی رعایت تلقین کی ہے۔

بعض نے حضرت علی (ع) سے اس کتاب کے انتساب میں شک کا اظہار کیا ہے۔ البتہ اس کے مقابلہ میں بہت سے شیعہ علماء اور بعض اہل سنت علماء جیسے ابن ابی الحدید معتزلی نے امیرالمومنین علی (ع) سے اس کی نسبت کو صحیح قرار دیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ سید رضی نے فقط اس کی جمع آوری کی ہے۔ بعض شیعہ علماء نے نہج البلاغہ کے اقوال و کلمات کے صحیح ہونے کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ جس میں انہوں نے سند اور ثبوت پیش کئے ہیں۔

نہج البلاغہ کا ترجمہ اب تک دنیا کی 18 زبانوں میں ہو چکا ہے اور مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے کی تعداد 100 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کی متعدد شرحیں اور تکملے بھی لکھے گئے ہیں۔ بعض نے ان کی تعداد 300 سے زیادہ ذکر کی ہیں۔

نہج البلاغہ عصر حاضر میں خاص طور پر انقلاب اسلامی کے بعد مورد توجہ قرار پائی اور اس کے بارے میں متعدد کتابیں، مقالات اور تھیسیز لکھی گئیں۔ بعض نے دعوی کیا ہے کہ دور معاصر میں نہج البلاغہ کا شمار ان کتابوں میں ہوتا ہے جو شیعوں کے گھروں میں قرآن کریم کے ساتھ ہمیشہ پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح سے گزشتہ برسوں میں نہج البلاغہ کے سلسلہ میں بہت سی کانفرنسیں اور سیمینار، مختلف اداروں و انجمنوں کی طرف سے منعقد کی گئی ہیں۔ ان سب کے علاوہ نہج البلاغہ کے عنوان سے ایک مضمون ایم اے کے نصاب تعلیم کے لئے تدوین کیا گیا ہے اور اس کتاب کے مفاہیم کی ترویج کے لئے بڑی تعداد میں مربی و معلم نہج البلاغہ تربیت کئے گئے ہیں۔

تاریخ، سبب تألیف اور وجہ تسمیہ

  • تاریخ تألیف

آقا بزرگ تہرانی کے مطابق سید رضی نے سنہ 400 ہجری میں اس کی تالیف مکمل کی ہے۔[1]

  • سبب تألیف

سید رضی نہج‌ البلاغہ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

میں نے عالم شباب کے دوران ایام طراوت اور شجر حیات کی تازگی کے دنوں میں کتاب خصائص الائمہ کی تالیف کا اہتمام کیا جو ائمہؑ کی اخلاقی خصوصیات اور صفات پر مشتمل اور ان سے منقولہ محاسن اخبار اور جواہر کلام پر مبنی تھی .... کتاب کے آخر میں امیرالمؤمنینؑ کے مواعظ، حکمتوں اور امثال و آداب پر مشتمل مختصر، نہایت عمدہ اور فصیح و بلیغ فصل تھی لیکن یہ ان کے تفصیلی خطبوں اور خطوط پر مشتمل نہیں تھی۔ بعض احباب اور برادران نے اس فصل کے مضامین کو پسند کیا اور انہیں تحسین کی نگاہ سے دیکھا جبکہ وہ سب اس قدر بدیع الفاظ اور بلند و تابندہ معانی سے حیرت زدہ تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ ایک کتاب کی تالیف کا آغاز کردوں جو آپؐ کے منتخب کلام کی تمام اقسام خطبات، مکتوبات اور مواعظ حسنہ پر مشتمل ہو۔ لہذا میں نے ان کی اس خواہش کا جواب نہج البلاغہ کی صورت میں دیا۔[2]
  • وجہ تسمیہ

لفظ نَہج (نون پر فتح اور ہا پر سکون) کا معنا "واضح اور آشکار راستہ" ہے۔[3] لہذا نہج البلاغہ بلاغت کے واضح راستے کے معنا میں ہے۔

سید رضی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

میں نے اسے نہج البلاغہ کا نام دیا کیونکہ یہ بلاغت کے دروازے ہر اس شخص پر کھول دیتی ہے جو اس میں نظر کرنا چاہتا ہے اور طالبان بلاغت کو اس کی جانب بلاتی ہے؛ دانشور بھی اس کے محتاج ہیں، طالبان دانش کو بھی اس کی ضرورت ہے، یہ اہل بلاغت کے لئے بھی مطلوب اور پسندیدہ ہے اور اہل زہد و پارسائی کے نزدیک بھی منظور نظر۔ اس کے ضمن میں توحید، عدل اور مخلوقات سے مشابہت سے باری تعالی کی تنزیہ پر مبنی عمدہ اور حیرت انگیز اقوال ہیں ان عبارات کے زمرے میں، جو تشنہ لبوں کو سیراب کرتے ہیں، بیماروں کو شفا دیتے ہیں اور ہر شک و شبہہ کو دلوں سے زائل کر دیتے ہیں۔[4]

مصر کے سابق مفتی اور نہج البلاغہ کے اہل سنت شارح شیخ محمد عبدہ اپنی شرح کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

میں کسی بھی ایسے نام سے واقف نہیں ہوں جو اپنے معنی پر دلالت کرنے کے حوالے سے اس سے زیادہ مناسب ہو۔ یہ میرے بس کی بات نہيں ہے کہ اس کتاب کی اس طرح سے توصیف کروں جس طرح کہ یہ نام اس پر دلالت کرتا اور اس کا تعارف کرواتا ہے ... [5]
امیرالمؤمنینؑ:

إِنَّ أَََمْرَنَا صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ، لاَ يَحْمِلُہُ إِلا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ امْتَحَنَ اللَّہُ قَلْبَہُ لِلْإِيمَانِ، وَلاَ يَعِي حَدِيثَنَا إِلا صُدُورٌ أَمِينَة وَأَحْلاَمٌ رَزِينَة (ترجمہ: ہمارا امر بہت سخت و دشوار ہے اور اسے برداشت کرنا ممکن نہیں ہے سوائے صاحب ایمان بندہ جس کا قلب خدا نے ایمان کے لئے آزما لیا ہے اور ہماری حدیث کو کوئی بھی نہ سیکھے گا سوائے امانتدار سینوں اور بردبار عقول کے۔)

مآخذ، نہج البلاغہ، خطبہ 189۔

مضامین

سید رضی نے نہج البلاغہ میں امام علیؑ کے کلام کو درج ذیل تین حصوں میں مرتب کیا:

  • خطبات و احکامات، وغیرہ
  • مکتوبات و رسائل وغیرہ
  • کلمات قصار (حِکَم و مواعظ)

نہج البلاغہ کے مختلف قلمی نسخوں میں اختلاف کے پیش نظر نہج البلاغہ کے خطبوں، خطوط اور مواعظ کی ترتیب اور نمبروں میں معمولی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کتاب المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ کے مطابق خطبات 241، مکاتیب 79 اور کلمات قصار 480 کی تعداد میں ہیں۔[6] اسی طرح کتاب کے مقدمے میں مذکور ہے کہ مختلف فصول کے درمیان عدم یکسانیت کا لحاظ کئے بغیر ترتیب دیا گیا ہے۔ کلام امیر المومنین میں صرف موجود بلاغت اور پسندیدگی کی بنا پر اسے جمع کیا گیا ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ فصول کے درمیان عدم یکسانیت یا نظم نہیں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض کلمات میں شک و تردید کی وجہ سے انہیں مختلف عناوین کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔[7]

خطبات

نہج البلاغہ اسلامی ثقافت اور تعلیمات کا ایک ایسا اسلامی دائرۃ المعارف ہے جو خدا شناسی توحید، ملائکہ کی دنیا، خلقت کائنات، انسانی فطرت، امتوں، نیکوکار اور ستمگر حکومتوں پر بحث کرتا ہے تاہم اصل نکتہ یہ کہ اس پورے کلام سے امیرالمؤمنین علیہ السلام کا مقصد طبیعیات، حیوانیات، فلسفی یا تاریخی نقاط کی تفہیم اور تدریس مقصود نہیں تھا۔[8]

امام علی علیہ السلام:

رَأْيُ الشَّيْخِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلَامِ
ترجمہ: بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت اور دلیری سے زیادہ پسند ہے۔

مآخذ، نہج البلاغہ، کلمات قصار، حکمت نمبر 86۔

کلام امیر المومنین اس طرح کے موضوعات بیان کرنے میں قرآن کریم کی مانند ہے جس طرح قرآن پاک ان موضوعات کو موعظہ و نصیحت کی زبان میں محسوس یا معقول بیان کے ساتھ روشن اور قابل ادراک نمونوں کی صورت میں پڑھنے والے کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر قدم بقدم اگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ اس منزل یعنی اللہ کی درگاہ کی جانب آستان پروردگار یکتا کی جانب لے جاتا ہے جہاں اسے پہنچنا چاہئے۔

جہاں آسمان، زمین و آفتاب اور چاند، تاروں اور پہاڑوں کی خلقت کی بات آتی ہے، آپؑ نصیحت کی زبان میں سکھا دیتے ہیں کہ جو کچھ خالق نے مخلوقات کو عطا کیا ہے، خیر ہی خیر ہے لیکن ناشکرا انسان اتنی ساری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا اور راہ خدا کو چھوڑ کر راہ شیطان کی طرف بھاگتا ہے اور اللہ کی بخشش و عطاء کو شرانگیزیوں و فتنہ انگیزیوں میں صرف کر دیتا ہے اور چونکہ اس میں گذشتہ قوام و امم کی داستانوں کا تذکرہ ہے، چنانچہ آپ ان کے توسط سے حاضرین کو تعلیم دیتے ہیں کہ زمانہ آئینۂ عبرت ہے جس میں ماضی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ عبرت حاصل کرنے والا کون ہے؟ دیکھو دنیا سے گذرنے والی اور زیر خاک سوجانے والی امتوں کو، کیا دیکھا انھوں نے اور کیا کیا انھوں نے، ان کے نیک کاموں کی تقلید کرو اور ان بھونڈے افعال سے پرہیز کرو جو ان کی نابودی کا سبب ہوئے۔[9]

امام علی علیہ السلام:

النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَہِلُوا
ترجمہ: لوگ دشمن ہیں ان چیزوں کے جنہیں وہ نہیں جانتے۔

مآخذ، نہج البلاغہ، کلمات قصار، حکمت نمبر 172۔

ان نصائح کے ضمن میں کبھی اپنے اصحاب پر نظر ڈالتے ہیں اور ان کے حال اور کردار کے بارے میں متفکر ہو جاتے ہیں؛ اچانک غم و اندوہ اور افسوس کا بھاری بھرکم پہاڑ آ گرتا ہے اور یہ وہ موقع ہے جب آپ اپنی حقیقت بین نگاہیں اپنے منبر تلے بیٹھے سامعین پر سے پلٹا کر دور کے افق پر جما لیتے ہیں، عصر محمدیؐ کے افق پر، جہاں آپؐ کے پاک دل اصحاب خدا اور روز قیامت پر یقین کی بنا پر نصرت دین کو اپنے دنیاوی مفادات پر مقدم رکھتے تھے، ایک بار حاضرین و سامعین کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے اور دیکھتے تھے کہ اس دور سے اب تک 30 سال سے زیادہ مدت نہیں گذری ہے، یہ اچانک کیا ہوا کہ اس مختصر سی مدت میں نام کے مسلمان حقیقی مسلمانوں کے مسند پر براجماں ہوئے ہیں؟ وہ لوگ، جنہوں نے دنیا کو بانہیں اپنی جانب پھیلا کر مسکراتے ہوئے دیکھا تو خدا کو فراموش کرکے اپنے امام کی نافرمانی کر بیٹھے! وہ لوگ ـ جو سر اٹھا کر فخر کرتے اور کہا کرتے تھے کہ "ہم نے خدا کی راہ میں شہیدوں کی قربانی دی ہے اور ہم بھی شہادت کے آرزومند ہیں"، ـ کہاں چلے گئے؟ یہ میرے گرد جمع ہونے والے تن آسانی اور راحت طلبی کو راہ خدا میں مارے جانے پر ترجیح کیوں دینے لگے ہیں؟ اور وہ یہ دینی فریضہ دوسروں پر عائد کرنے کی کوششیں کیوں کرنے لگے ہیں؟ [یہ دیکھ کر] آپ صدر اول کے مسلمانوں کے ایثار اور مساوات [و مواسات] کے مناظر کی جانب پلٹتے ہیں جو دوسروں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے تھے اور مال دنیا کی آلودگیوں پاک رہنے کی تدبیروں میں مگن نظر آتے تھے؛ [اور اپنے آپ سے پوچھتے تھے کہ] یہ سب اس قدر مال اندوز اور دنیا پرست کیوں ہوئے ہیں؟ یہ نمونے اور دسوں دوسرے نمونے امیرالمؤمنینؑ کے خطبات کے مضامین و محتویات کو تشکیل دیتے ہیں۔[10]

مکتوبات

مکتوبات یا خطوط و مراسلات کا مجموعہ زیادہ تر حکام کا دستور العمل ہے کہ وہ عوام کے مختلف طبقوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھیں، قومی خزانے کا کیونکر تحفظ کریں، اخراجات اٹھاتے ہوئے معاشرے کی خیر و صلاح کو کس طرح مد نظر رکھیں؛ تاہم مکتوبات کا مضمون و مواد اس زمانے کی نصف قابل سکونت دنیا کے فرمانروا کا حکم نہیں ہے جو وہ اپنے ماتحت عاملین کو دے رہا ہے بلکہ ایک مہربان، عمر رسیدہ اور زمانے کا تلخ و شیریں چشیدہ باپ کا نوشتہ ہے جو اپنے نورس فرزندوں کو پڑھا رہا ہے کہ وہ زندگی کی جنگ میں مشکلات کا کس انداز سے سامنا کریں۔[11]

کلمات قصار

اس حصے میں امیرالمؤمنینؑ کے منتخب حکمت آمیز اقوال و نصائح، سوالات کے جوابات اور مختصر خطبے نقل ہوئے ہیں۔[12]

تراجم

اردو

دیگر زبانوں کی طرح مختلف زمانوں میں نہج البلاغہ کے اردو زبان میں کئی ترجمے ہوئے۔ ہم یہاں پر اب تک اردو میں ہوئے ترجموں کا مختصر تعارف بیان کر تے ہیں:

غیر موجود تراجم

نمبر شمار نام مترجم خصوصیات
1 نہج البلاغہ (الاشاعۃ) سید اولاد حسن بن محمد حسن سلیم ہندی امروہوی معاصر سید علی نقی نقوی۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں ان کا تذکرہ ہوا ہے۔[13]
2 سلسبیل فصاحت (نہج البلاغہ) سید ظفر مہدی گوہر بن سید وارث حسین جائسی مدیر تحریر مجلہ”سہیل یمن“ ان کی ایک دوسری کتاب بھی ہے جو اللہ اللہ کے نام سے موسوم ہے یہ کتاب انہوں نے اہل سنت کے جواب میں لکھی ہے اور ہندوستان میں دو جلدوں میں شایع ہوئی ہے۔[14]
3 نہج البلاغہ سید علی اظہر کھجوی ہندی متوفی 1352 ھ اس کا ترجمہ سطروں کے درمیان لکھا اور چھپا ہے۔[15] استاد سید عبد العزیر طباطبایی الذریعہ کے تعلیقہ موسوم بہ اضواء علی الذریعہ میں کہتے ہیں: اس کتاب کے مترجم کے متعلق میں نے علامہ سعید اختر رضوی سے پاکستان میں ایک خط لکھ کر معلوم کیا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ ترجمہ سید علی اظہر کا نہیں ہے بلکہ ان کے بیٹے سید علی حیدر کا ہے (1303۔1380ھ) اور غلطی سے ان کے والد کی طرف نسبت دیدی گئی۔[16]
4 نہج البلاغہ سید یوسف حسین ہندی امروہوی، متوفی 1352 ھ یہ ترجمہ 1926 ء میں ہندوستان کے بہترین پریسوں میں چھپ کر منظر عام پر آیا تھا۔[17]
5 نہج البلاغہ یوسف حسین بن نادر حسین صدر الافاضل لکھنوی آپ کی تالیفات کا تذکرہ کرتے ہوئے نہج البلاغہ کے ترجمہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔[18]
6 نہج البلاغہ سید محمد صادق خلیق احمد نظامی نے نہج البلاغہ سے متعلق ایک مقالہ لکھا ہے جس میں اس کے متعلق بیان کیا ہے اور اس ترجمہ کو اپنے مجلہ ”المجمع العلمی الہندی“ کے پہلے شمارہ میں چھاپا ہے۔[19]
7 نہج البلاغہ حسن عسکری ہندی حیدر آبادی یہ ترجمہ 1966 ء میں حیدر آباد دکن میں شائع ہوا۔[20]
8 نہج البلاغہ سید سبط حسن رضوی پاکستانی ہنسوی ان کی سوانح حیات کی تفصیل کتاب ”مطلع الانوار“ کے صفحہ 250 پر بیان ہوئی ہے۔[21]
9 نیرنگ فصاحت (نہج البلاغہ) سید ذاکر حسین اختر بن سید فرزند علی ہندی دہلوی واسطی (1315۔1372ھ) آپ کی سوانح حیات تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔[22]
10 نہج البلاغہ صدر الافاضل سید مرتضی حسین لکھنوی موصوف لاہور کے مشہور عالم گزرے ہیں۔(1341۔1407ھ)
11 نہج البلاغہ یوسف حسین و محمد زکی سرود یہ ترجمہ دو لوگوں نے مل کر انجام دیا جیسے خطبوں کا ترجمہ: میرزا یوسف حسین، خطوط اور کلمات قصار کا ترجمہ: غلام محمد زکی سرود کوئی، یہ ترجمہ ”حمایت اہل بیت“ کی طرف سے 1394ھ میں شائع ہوا۔ اس ترجمہ پر بہت سے علماء نے مقدمے لکھے جیسے سید علی نقی نقوی، سید محمد صادق لکھنوی، محمد بشیر، ظفر حسن، مرتضی حسین اور ظل حسنین۔
12 نہج البلاغہ گروہی ترجمہ اس ترجمہ کو چند حضرات: سید رئیس احمد جعفری، نائب حسین نقوی، عبد الرزاق ملیح آبادی اور مرتضی حسین میں سے ہرایک نے ایک ایک حصہ کے ترجمہ کی ذمہ داری قبول کر رکھی تھی اور یہ ترجمہ پاکستان میں شائع ہوا ہے۔[23]

مذکورہ تراجم کے موجود نہ رہنے کی وجوہات شاید یہ رہی ہوں: کسی میں اغلاط بہت زیادہ تھے اور کسی میں عبارت آرائی نے ترجمہ کے حدود کو باقی نہیں رکھا نیز حواشی میں کبھی خالص مناظرانہ انداز کی بہتات ہوگئی اور کبھی اختصار کی شدت نے ضروری مطالب نظر انداز کر دیئے۔

موجود تراجم

نام مترجم خصوصیات
نہج البلاغہ مفتی جعفر حسین لاہوری یہ ترجمہ 18 رجب 1375 ھ مطابق 1956ء کو مکمل ہوا۔ برصغیر پاک و ہند میں بہت زیادہ مشہور اور رائج ہے۔ اس کے کئی اچھے ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ لاہور کے کتب خانہ مغل حویلی سے بڑے ایڈیشن میں اس کے ایک صفحہ پر عربی متن اور دوسرے صفحہ پر اردو ترجمہ طبع ہوا اور دوسرا ایڈیشن امامیہ پبلیکشنز پاکستان سے 1985ء میں چھپا۔[24] اکثر خطبات اور مکتوبات میں ضروری حواشی کے طور پر مخالفین کے اعتراضات اور جوابات نیز کلمات قصار میں بھی ضروری اور مختصر وضاحت جیسی خصوصیات کی بنا پر اردو ترجموں میں سب سے اچھا ترجمہ شمار کیا جا سکتا ہے۔
نہج البلاغہ سید ذیشان حیدر جوادی مترجم اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: اس کتاب میں ایک طرف الفاظ کا مفہوم درج کیا گیا اور دوسری طرف خطبات و کلمات کے مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔[25]

فارسی

مختلف زبانوں کی طرح فارسی زبان میں بھی نہج البلاغہ کے کئی ترجمے ہو چکے ہیں۔ بعض کے اسما درج ذیل ہیں:

نام مترجم وضاحت
نہج البلاغہ عزیز اللہ جوینی پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کا فارسی ترجمہ جس میں اصطلاحات کی وضاحت، متن کی درستگی اور تقابلی جائزہ شامل ہے۔[26]
شرح نہج البلاغہ غلام رضا لائقی ابن ابی الحدید معتزلی (656ھ) کی شرح نہج البلاغہ کا ترجمہ ہے۔[27]
شرح نہج البلاغہ قربان علی محمدی مقدم، علی اصغر نوائی یحیی زادہ یہ کمال الدین میثم علی بن میثم بحرانی کی شرح کا ترجمہ ہے [28]
نہج البلاغہ سید جعفر شہیدی[29]
نہج البلاغہ امیر المومنین علی علیہ‌السلام عبد المحمد آیتی۔[30]
ترجمہ و شرح نہج البلاغہ علی نقی فیض الاسلام۔[31]
نہج البلاغہ امام علی علیہ‌السلام‏ محمد مہدی فولاد وند[32]
نہج البلاغہ مولا علی بن ابی طالب امیر المومنین ؑ اسد اللہ مبشری۔[33]

شرحیں

نہج البلاغہ پر کثیر شرحیں لکھی گئی ہیں جن میں سے کئی شرحیں آج کے زمانے میں نایاب ہیں۔ فہرست نگاروں نے بہت سی شرحوں کے نام ذکر کئے ہیں۔ "کتابنامہ نہج البلاغہ" میں نہج البلاغہ کو موضوع بنا کر تالیف کردہ آثار اور کاوشوں کی تعداد 300 بتائی گئی ہے جبکہ راقم کے نزدیک یہ فہرست جامع نہیں ہے [اور پورے آثار کا احاطہ نہیں کرسکی ہے]۔[34] ذیل میں نہج البلاغہ کی بعض عربی اور فارسی شرحوں کا حوالہ دیا گيا ہے جو آج بھی دستیاب ہیں:

  • فارسی
نام شارح وضاحت
پیام امام امیر المومنین (ع) آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نئی اور جامع شرح شمار ہوتی ہے
ترجمہ و تفسیر نہج البلاغہ محمد تقی جعفری یہ ایک مبسوط شرح ہے جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے
ترجمہ و شرح نہج البلاغہ ملا محمد صالح قزوینی
شرح نہج البلاغ مرزا محمد باقر نواب لاہیجی
  • عربی
نمبر شمار نام مؤلف وضاحت
1 معارج نہج البلاغہ ظہیر الدین علی بن زید بیہقی (متوفی 565 ھ) اس کی تحقیق و تقدیم کا کام محمد تقی دانش پژوہ نے انجام دیا۔ [35]
2 منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ قطب الدین راوندی (متوفی 573 ھ) تحقیق: عزیز اللہ العطاردی۔[36]
3 حدائق الحقائق فی شرح نہج البلاغہ ‏‫قطب الدین کیذری بیہقی ‏‫تحقیق عزیز اللہ العطاردی۔[37] اس شرح کی تحریر کا کام سنہ 576 ہجری میں مکمل ہوا ہے۔[38]
4 اعلام نہج البلاغہ علی بن ناصر سرخسی (قرن 6 ھ) عزیز اللہ العطاردی نے متن کی تحقیق اور ضبط کا کام انجام دیا۔[39]
5 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید محمد ابو الفضل ابراہیم نے اس کی تحقیق کی ہے۔[40] اہل سنت کے معتزلی عالم کی ایک نہایت مبسوط شرح ہے۔ شیعہ حضرات کے نزدیک اس شرح نے بہت شہرت حاصل کی۔
6 شرح نہج البلاغہ کمال الدین میثم بن علی میثم بحرانی۔[41] چار جلدوں پر مشتمل مختصر اور مفید شرح کہا جا سکتا ہے۔
7 اختیار مصباح السالکین من کلام مولانا و امامنا امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ (شرح نہج البلاغہ الوسیط) میثم بن علی بن میثم البحرانی محمد ہادی امینی نے اسکی تحقیق کی اور اس پر تعلیقے لگائے۔[42]
8 منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ حبیب اللہ ہاشمی خوئی (1268-1324 ش)۔[43] چند جلدوں پر مشتمل ہے۔
9 بہج الصباغہ فی شرح نہج البلاغہ محمد تقی تستری (1374-1282 ش)۔[44]
10 نخبہ الشرحین فی شرح نہج البلاغہ سید عبد اللہ شبر (1826-1774 ء) ابن میثم اور ابن ابی الحدید کی شرحوں سے انتخاب ہے۔[45]
11 نہج البلاغہ شرح محمد عبده (1849-1905 ء) عبد العزیز سید اہل نے تحقیق کے بعد اسے طبع کروایا۔[46]

اسناد

اہل سنت کے بعض علماء نے نہج البلاغہ کی سند میں شک و شبہہ کا اظہار کیا ہے۔ ابن خلکان (متوفٰی 681 ہجری) ان ہی علماء میں سے ہیں۔ ابن خلکان کا کہنا ہے:

"لوگوں کے درمیان امام علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے اقوال و کلمات سے تالیف شدہ کتاب "نہج البلاغہ" کے بارے میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ کیا اس کے مؤلف سید مرتضی ہیں یا ان کے بھائی سید رضی؟ اور ان لوگوں نے کہا ہے کہ یہ کلام علیؑ کا نہیں ہے؛ اور جس نے یہ کلام اکٹھا کیا ہے اس کے تخلیق کار بھی وہی ہیں! واللہ الاعلم"۔[47]

ان کے بعد ذہبی (متوفٰی 748 ہجری) نے یقین کے ساتھ کہا ہے:

سید مرتضی نہج البلاغہ کے مؤلف ہیں، جس کے الفاظ کو امام علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا گیا ہے اور اس نسبت کے لئے کوئی سند موجود نہیں ہے؛ اور ان اقوال و کلمات میں سے بعض باطل ہیں اور بعض صحیح ہیں۔ تاہم اس میں بعض اقوال وہ ہیں کہ دور ہوں امام، انہیں زبان پر لانے سے ۔۔۔؛ اور کہا گیا ہے کہ یہ مجموعہ ان کے بھائی سید رضی نے اکٹھا کیا ہے۔[48]
544 ہجری کے قلمی نہج البلاغہ کا ایک صفحہ

جس طرح کہ ابن خلکان نے "لوگوں کے شک و تردد" کا ذکر کیا ہے ابن ابی الحدید (متوفا 656 ہجری) بھی اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ میں خطبۂ شقشقیہ، کی شرح کے بعد ایک حکایت نقل کرتے ہیں جو عوام کے درمیان نہج البلاغہ کے سلسلے میں شک و تردد پر مبنی ہے؛ تاہم وہ خود اس شک و تردد کا نہایت فیصلہ کن انداز سے جواب دیتے ہیں اور کہتے ہیں:

میں نے سنہ 603 ہجری میں اپنے شیخ (استاد) مصدق بن شبیب واسطی سے سنا جو کہہ رہے تھے: "میں نے یہ خطبہ (یعنی خطبۂ شقشقیہ) عبداللہ بن احمد المعروف ابن خشاب کو پڑھ کر سنایا ... اور ان سے کہا: کیا آپ اس خطبے کی امام علی سے نسبت کو جعلی سمجھتے ہیں؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ یہ امام علی کا کلام ہے جیسا کہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ بھی اس کے مصدق ہیں (یعنی اس کی تصدیق کرنے والے ہیں)۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا: بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خطبہ سید رضی رحمہ اللہ تعالی، کا ہے۔ تو انھوں نے کہا: "رضی کہاں اور رضی جیسے دوسرے کہاں اور یہ اسلوب کلام کہاں!؟" بے شک ہم رضی کے رسائل سے واقف ہیں اور نثری کلام میں ان کا طریقہ اور فن جانتے ہیں، رضی نے اس میں کسی اچھے یا برے کا اضافہ نہيں کیا ہے۔ انھوں نے کہا: خدا کی قسم! میں نے یہ خطبات ان کتابوں میں بھی دیکھے ہیں جو سید رضی کی ولادت کے 200 سال قبل لکھی گئی ہیں؛ میں نے ان خطبات کو ایسے خط میں لکھا ہوا پایا جنہیں میں جانتا ہوں اور جانتا ہوں کہ کن علماء اور ادباء نے یہ خطبات مسطور کئے ہیں قبل اس کے سید رضی کے والد نقیب ابو احمد دنیا میں آ جائیں"۔[49]

ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

میں نے اس خطبے کا بڑا حصہ اپنے استاد اور بغداد کے معتزلہ کے امام ابو القاسم بلخی کی تصانیف میں لکھا ہوا پایا جو رضی کی ولادت سے بہت عرصہ قبل (عباسی بادشاہ) مقتدر عباسی کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیز ان میں سے بہت سے خطبات کو میں نے امامیہ کے متکلم ابو جعفر بن قبہ کی کتاب الانصاف میں دیکھا ہے۔ اور یہ ابو جعفر ہمارے استاد شیخ ابو القاسم بلخی کے شاگردوں میں سے تھے اور اسی دور میں وفات پا چکے ہیں جبکہ ابھی رضی رحمۃ اللہ تعالی علیہ موجود نہ تھے۔[50]

نہج البلاغہ کی شرحوں کے ضمن میں ابن ابی الحدید سمیت بہت سے محققین نے اس کتاب کے تمام اقوال و کلمات کی اسناد کے سلسلے میں مستقبل کتب تالیف کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کتب میں امیرالمؤمنینؑ کا کلام سید رضی سے قبل، ان کے ہم عصر نیز ان کے بعد کی ان کتب سے مستند کیا گیا ہے اور ان اقوال کو سید رضی اور سید مرتضی کے بغیر دوسرے علماء سے نقل کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ کلام علیؑ کی سند میں شک و تردد بالکل بےجا ہے؛ اور اس حقیقت میں بھی شک و شبہہ بے جا ہے کہ یہ کتاب سید رضی نے تالیف کی ہے نہ کہ ان کے بھائی سید مرتضی نے۔ ذیل میں نہج البلاغہ کے اسناد اکٹھا کرنے والے بعض منابع کا حوالہ دیا جاتا ہے:

  1. استناد نہج البلاغہ، تالیف امتیاز علی خان عرشی؛ ترجمہ، تعلیقات اور حواشی از مرتضی آیت اللہ زادہ شیرازی۔[51]
  2. مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ، سید عبد الزہراء الحسینی الخطیب۔[52]

مستدرکات

امیرالمؤمنینؑ:

اتَّقُوا اللَّہَ فِي عِبَادِہِ وَبِلاَدِہِ فَإِنَّكُمْ مَسْئُولُونَ حَتَّى عَنِ الْبِقَاعِ وَالْبَہَائِمِ (ترجمہ: اللہ کا خوف کرو خدا کے بندوں اور حتی کہ شہروں، زمینوں اور چوپایوں کے حق میں۔)

مآخذ، نہج البلاغہ، خطبہ 167۔

نہج البلاغہ اگرچہ امیرالمؤمنینؑ کا منتخب کلام ہے لیکن یہ اسلامی منابع میں منقول پورے کلام علیؑ پر مشتمل نہيں ہے لہذا بعض محققین نے آپ کے دیگر اقوال کو جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ ان تالیفات میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • تمام نہج البلاغہ مما اوردہ الشریف الرضی اثر مولانا الامام امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام: تحقیق و تتمیم و تنسیق صادق موسوی؛ توثیق کتاب: محمد عساف؛ مراجعہ و تصحیح نصوص: فرید السید۔[53]
  • نہج السعادہ فی مستدرک نہج البلاغہ، باب الکتب والرسائل: تالیف محمد باقر محمودی؛ تصحیح عزیز آل طالب۔[54]
  • نہج السعادہ فی مستدرک نہج البلاغہ، باب الخطب والکلم، تالیف محمد باقر محمودی، تصحیح عزیز آل طالب۔[55]
  • مستدرک نہج البلاغہ ...، ہادی کاشف الغطاء۔[56]

عربی ادب پر کلام علیؑ کے اثرات

عرب خطیب اور مترسلین (نامہ نگار و مراسلہ نویس) پہلی صدی ہجری ہی سے کلام کی پختگی اور بات کی حسن و جمال سے آراستگی اور بےجا اصطلاحات سے پاکیزگی اور لفظ کی متانت و سنجیدگی کی خاطر بارہا و بارہا کلامِ امیرالمؤمنینؑ کا مطالعہ کرتے تھے اور اس کے فقروں کو بروئے کار لاتے تھے تا کہ ان کے قول یا ان کی خطابت یا کتابت میں بلاغت کی قوت حاصل ہو اور ان کا کلام سب کے نزدیک مقبول واقع ہو۔[57] ہر گاہ ایک محقق عرب ادیبوں کے کسی خطبے یا رسالے یا حتی کہ طلوع اسلام کے بعد کے عرب شعراء کے کلام کا جائزہ لیتا ہے، دیکھ لیتا ہے کہ کم ہی کوئی شاعر و ادیب ہوگا جس نے کوئی ایک معنی کلام علیؑ سے اخذ نہ کیا ہو یا آپ کا کوئی قول اپنے مکتوب یا قول و کلام یا شاعری میں تضمین نہ کیا ہو۔[58]

عبدالحمید

عبد الحمید بن یحیی عامری (متوفی 132ھ)، آخری اموی/مروانی حکمران مروان بن محمد کا کاتب ہے۔ کہا گیا ہے کہ فن کتابت کا آغاز عبد الحمید سے شروع ہوا ہے۔ عبد الحمید خود کہتا ہے:

میں نے "اصلع"[59] کے ستر خطبے ازبر کئے اور یہ خطبے میرے ذہن میں پے در پے (چشمے کی مانند) پھوٹے۔[60]

جاحظ

امام علی علیہ السلام:

"‌قِیمَةُ كُلُّ امرءٍ مَا یُحسِنُهُ"
ترجمہ: ہر شخص کی قیمت وہ ہنر ہے جس میں وہ خوب مہارت رکھتا ہے۔
سید رضی: یہ ایسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہے اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہو سکتا ہے۔

مآخذ، نہج البلاغہ، کلمات قصار، حکمت نمبر 81۔

ابو عثمان جاحظ (متوفٰی 255 ہجری)، جنہیں عربی ادب کا امام کہا گیا ہے اور مسعودی انہیں سلف کا فصحیح ترین قلمکار سمجھتے ہیں، امیرالمؤمنینؑ کا فقرہ قِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُهُ[61] نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

اگر اس کتاب (بظاہر ان کی اپنی کتاب "البیان والتبیین" مقصود ہے) میں اسی ایک فقرے کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا تو بھی ہم اس کتاب کو کافی و شافی، مکتفی اور بے نیاز کر دینی والی کتاب پاتے۔ بلکہ ہم اسے کفایت کی حد سے بھی بڑھ کر غایت و مراد پر منتج ہونے والی پاتے ہیں اور سب سے احسن کلام وہ ہے جس کا اختصار تجھے کثرت و تفصیل سے بے نیاز کردے اور اس کے معنا اس کے ظاہری لفظ میں ہوں۔[62]

انھوں نے "‌البیان والتبیین" میں امیرالمؤمنینؑ کے کئی خطبے نقل کئے ہیں۔[63]

جاحظ نے سید رضی سے پہلے امیرالمؤمنینؑ کے 100 اقوال منتخب کئے ہیں جن پر رشید وطواط، ابن میثم بحرانی اور دیگر نے شرحیں لکھی ہیں۔ وہ ان اقوال کے بارے میں لکھتے ہیں:

ان میں سے ہر قول ایک ہزار عمدہ عرب اقوال و کلمات کے برابر ہے۔[64] جاحظ کی تالیفات میں ایک کتاب کا عنوان "‌مائۃ من امثال عليؑ"[65] بھی ہے جو بظاہر یہی کتاب ہے۔

ابن نباتہ

سیف الدولہ کے دور میں حلب میں خطابت کے منصب پر فائز اور دنیائے عرب کے مشہور خطیب ابن نباتہ کے نام سے معروف عبد الرحمن بن محمد بن اسمعیل معروف (متوفا سنہ 374 ہجری) کہتے ہیں:

تقاریر کا ایک خزانہ ازبر کر لیا کہ اس میں سے جتنا بھی اٹھاؤں اس میں کمی نہیں بلکہ اضافت آئے گی، اور جو کچھ زیادہ تر ازبر کیا وہ علی بن ابی طالب کے مواعظ کی ایک سو فصلیں ہیں۔[66]

ابو اسحاق صابی

زکی مبارک اپنی کتاب "‌النّثر الفنّی" (فنی نثری) میں ـ جہاں ابو اسحٰق صابی (متوفٰی 380 ہجری) کے اسلوب کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں ـ ابو اسحٰق صابی کا ایک فقرہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اگر ہم اس عبارت کا موازنہ ان عبارتوں سے کریں جو شریف رضی نے کلام علیؑ کو جمع کرتے ہوئے لکھی ہیں تو دیکھیں گے کہ صابی اور شریف رضی ایک ہی گھاٹ سے سیراب ہوئے ہیں۔[67]

ابن ابی الحدید

ابن ابی الحدید امیرالمؤمنینؑ کی فصاحت کے بارے میں کہتے ہیں:

... فہو عليہ السلام إمام الفصحاء، وسيد البلغاء، وفي كلامه قيل: دون كلام الخالق و فوق كلام المخلوقين و منه تعلم الناس الخطابة والكتابة۔
ترجمہ: آپ علیہ السلام فصحاء کے امام اور بلغاء کے سردار ہیں، اور آپؑ کے کلام کے بارے میں کہا گیا: کلام خالق کے بعد اور مخلوقات کے کلام سے بالاتر ہے۔ لوگوں نے خطابت و کتابت آپؑ سے سیکھی ہے۔[68]

فارسی ادب پر اثرات

پورے اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ایرانی ادیبوں، خطیبوں اور مؤلفین و مصنفین نے قرآن کریم کے بعد کسی بھی کلام سے اتنا استفادہ نہیں کیا، جتنا علیؑ کے کلام سے کیا ہے۔ وہ اس کے علاوہ اس قدر عمدہ کلام اور بیش بہا زیور سخن نہیں پا سکے کہ جسے وہ اپنے کلام اور مکتوبات کا معیار اور پیمانہ قرار دے سکیں۔ کسی بھی تعصب کے بغیر اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مکاتیب اور اقوال قرآن کریم کے بعد نثر مصنوع کا عالی ترین نمونہ ہیں۔ فصحا اور بلغا ایک ہزار سال سے زیادہ ہو گیا کہ وہ نہج البلاغہ کا اقرار کرتے آئے ہیں۔[69] اسی طرح دری زبان کے فروغ کے بعد ہم کم ہی کوئی دیوان یا کتاب دیکھ سکتے ہیں جس کے شاعر و مؤلف نے اپنے دیوان و کتاب کو علیؑ کے کسی فقرے یا متعدد فقروں سے مزین نہ کیا ہو۔[70]

فارسی شاعری کے اکابرین میں سے ایک فردوسی ہیں[71] جنہوں نے شاہنامہ میں امیر الکلام حضرت علیؑ کے کلام سے استفادہ کیا ہے۔ ناصر خسرو قبادیانی (متولد 394 متوفا 481 ہجری) اسماعیلیہ مذہب کے بزرگ متکلم، شاعر اور مؤلف تھے اور خاندان رسالت سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ ان کے دیوان میں ایسے بہت سے مضامین اور نصائح دیکھے جا سکتے ہیں جو مولا امیر المؤمنین علیہ السلام کے کلام کا ترجمہ یا اس کلام سے ماخوذ ہیں۔[72] ڈاکٹر سید جعفر شہیدی کہتے ہیں: جہاں تک میں نے ناصر خسرو قبادیانی کے دیوان کا غائرانہ مطالعہ کیا ہے، انھوں نے اپنے پورے دیوان میں 60 سے زائد مقامات پر امیر المؤمنینؑ کا کلام بعینہ شاعری کے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ سنائی غزنوی، عطار نیشابوری اور مولانا جلال الدین بلخی (مولانا روم) جیسے عرفانی شعراء کا حال بھی مختلف نہيں ہے۔[73] بہرام شاہ غزنوی کے منشی خواجہ نصر اللہ بن محمد بن عبد الحمید کی تحریر اور "کلیلۂ و دمنۂ بہرام شاہی" کے نام سے مشہور کلیلہ و دمنہ جو حقیقت میں عربی کلیلہ و دمنہ کا ترجمہ ہے۔ یہ کتاب سنہ 538 تا 540 ہجری میں لکھی گئی ہے۔ اس میں کئی مقام پر نہج البلاغہ و قرآن کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ [74]

سافٹ ویئرز

  • دانشنامۂ جامع نہج البلاغہ: تہران: کمپیوٹرائز ریسرچ سنٹر، حوزہ علمیہ اصفہان۔‏
خصوصیات: 1۔ یہ سافٹ وئر آڈیو اور ویڈیو کی صورت میں رہنمائی۔ 2۔ نہج البلاغہ کی سینکڑوں مجلد شرحیں اور دنیا بھر کی زندہ زبانوں کے تراجم کی عربی متن کے ساتھ تطبیق۔ 3۔ ہزاروں موضوعات کو درخت کی شکل میں رسائی۔ 4۔ متن کے اندر ہی ایک فعال (Active) لغت نامہ (Dictionary) موجود ہے جس میں فعال صورت میں مصادر و امثال کی نمائش ممکن بنائی گئی ہے۔ 5۔ قلمی نسخے کی نمائش بھی ہوتی ہے۔ 6۔... [75]
  • منہج النور: دانشنامۂ علوی، قم: تحقیقاتی کمپیوٹر مرکز برائے اسلامی علوم۔
خصوصیات 1 سافٹ وئر میں پانچ نسخوں کے مطابق نہج البلاغہ کی نمائش اور تقابلی نمائش کا امکان۔ 2۔ مشکل الفاظ، صریح اور مضمر ناموں، کی وضاحت۔ 3۔ عربی اور فارسی میں ضرب الامثال اور نہج البلاغہ کے مصادر کی نمائش، فہرست آیات، اشعار، دعاؤں، امثال، اعلام و مصادر کی فہرست۔ 4۔ نہج البلاغہ کے بارے میں 281 جلدوں پر مشتمل 110 کتب کے کتب خانے ... نیز پروگرام سے متعلق متنوع بازیابیوں (Reoveries) کے قابل تفصیلی کتب خانے پر مشتمل ہے۔ [76]

متعلقہ مآخذ

مزید مطالعہ

  • نہج البلاغہ، ترجمہ مفتی جعفر حسین۔[1]

حوالہ جات

  1. تہرانی، الذریعہ، ۱۳۹۸ق، ج۲۴، ص۴۱۳
  2. نہج البلاغہ، محقق عطاردی قوچانی، مقدمہ سید رضی، ص۱.
  3. دہخدا، لغت نامہ، ذیل واژہ «نہج»
  4. نہج البلاغہ، محقق عطاردی قوچانی، مقدمہ سید رضی، ص۴.
  5. عبدہ، شرح‏ نہج‏ البلاغۃ، ص10
  6. رجوع کریں: محمدی، سید کاظم اور دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: مطبعہ نشر امام علیؑ، 1369۔
  7. نہج البلاغہ، محقق عطاردی قوچانی، مقدمہ سید رضی، ص۳.
  8. شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، ص: ی د۔
  9. وہی ماخذ۔
  10. شہیدی، وہی ماخذ، صص: ی د، ی ہ‍۔
  11. شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، ص: ی ہ ‍۔
  12. شہیدی، نہج البلاغہ، ص361.
  13. الذریعہ ج۴،ص۱۴۴وج۱۴ص۱۱۶
  14. الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۳۰
  15. الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۴۱۔
  16. مجلہ تراثنا، ش۴، سال ۷،شوار۱۴۱۲ھ
  17. مجلہ تراثنا ،ش۴،سال ۷،شوار۱۴۱۲ھ۔
  18. تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان صفحہ نمبر ۳۹۳۔ ۳۹۶۔ آثار الشیعہ ص۱۰۱ بہ نقل تراثنا۔
  19. مجلہ تراثنا، شمارہ ۴۷، سال ۷ص۷۳۔
  20. مجلہ تراثنا، شمارہ ۴۷، سال ۷ص۷۳۔
  21. مجلہ تراثنا، شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔
  22. الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۶۶و ج ۲۴،ص۴۳۵
  23. الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۶۶و ج ۲۴،ص۴۳۵
  24. مجلہ تراثنا، شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳
  25. اقتباس از گفتار مترجم علامہ سید ذیشان حیدر جوادی
  26. ترجمہ عزیزاللہ جوینی۔
  27. نہج البلاغہ، بن ابی الحدید، کا ترجمہ۔
  28. شرح نہج البلاغہ ابن میثم بحرانی کا ترجمہ۔
  29. ترجمہ سید جعفر شہیدی
  30. ت‍رج‍مہ عبدالمحمد آیتی
  31. ترجمہ فیض الاسلام
  32. [http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/1582020%7C ترجمہ محمد مہدی فولاد وند
  33. ترجمہ اسد اللہ مبشری
  34. استادی، رضا، کتابنامہ نہج البلاغہ، صص3-4.
  35. معارج نہج البلاغہ، ظہیر الدین البیہقی، تحقیق: محمد تقی دانش پژوہ۔
  36. منہاج البراعۃ، قطب راوندی۔
  37. حدائق الحقائق، الکیذری البیہقی۔
  38. حسینی خطیب، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، ج1، ص226.
  39. اعلام نہج البلاغۃ، السرخسی۔
  40. شرح النہج، ابن ابی الحدید المعتزلی۔
  41. شرح کمال الدین میثم البحرانی۔
  42. شرح ۔۔۔ الوسیط، میثم البحرانی؛ تحقیق: ہادی الامینی
  43. منہاج البراعۃ حبیب اللہ الہاشمی الخوئی۔
  44. بہج الصباغہ، محمد تقی التستری۔
  45. نخبۃ الشرحین، عبد اللہ شبر۔
  46. شرح محمد عبدہ۔
  47. ابن خلکان، وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، ج3، ص313.
  48. الذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج17، ص589۔
  49. ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج1، ص205۔
  50. ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج1، صص205-206۔
  51. نہج البلاغہ، امتیاز علی خان عرشی۔
  52. نہج البلاغہ عبد الزہرا الخطیب۔
  53. نہج البلاغہ، تحقیق صادق الموسوی، توثیق: عساف، تصحیح: فرید السید۔
  54. المحمودی، نہج السعادہ، باب الکتب والرسائل۔
  55. المحمودی نہج السعادہ، باب الخطب والکلم۔
  56. مستدرک ۔۔۔ کاشف الغطاء۔
  57. شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، صص: ز، ح.
  58. شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، ص: ح. مزید اطلاع کے لئے رجوع کریں: محمد ہادی اللامینی کے مقالے "نہج البلاغۃ وأثرہ علی الادب العربي ص119"۔
  59. اصلع، اس فرد کو کہا جاتا جس کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ ہوں اور یہاں مروانیوں کے کاتب کی مراد امیرالمؤمنین علیہ السلام ہیں۔
  60. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج1، ص24؛ شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، صح.
  61. نہج البلاغہ، کلمات قصار، حکمت 81۔
  62. جاحظ، البیان و التبیین، تصحیح عبدالسلام ہارون، ج1، ص83؛ بحوالہ: شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، ص: ح۔
  63. الجاحظ، البیان والتبیین، (عالمی اہل بیتؑ اسمبلی کے لائبریری سافٹ ویئر، نسخۂ دوئم میں موجود نسخہ) صص240-237، 312۔
  64. شرح ابن میثم علی المائۃ کلمۃ لامیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ‌السلام، المصحح: میر جلال الدین الحسینی الارموی المحدّث، تہران: سازمان چاپ دانشگاہ تہران، 1349 شمسی، ص2. نیز یہی جلد: رجوع کریں: وطواط، رشید، مطلوب کل طالب من کلام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، مصحح: میر جلال الدین حسینی ارموی محدّث، تہران: چاپخانہ دانشگاہ تہران، 1342 شمسی، ص2۔
  65. ر.ک: دانشنامہ جہان اسلام، مدخل «‌جاحظ، ابو عثمان عمروبن بحر ».
  66. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج1، ص24؛ شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، صح.
  67. النثر الفنی، ج2، ص296؛ بہ نقل شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، صح.
  68. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج1، ص24۔
  69. شہیدی، بہرہ ادبیات از سخنان علی علیہ‌السلام، ص202۔
  70. شہیدی، بہرہ ادبیات از سخنان علی علیہ‌السلام، ص205۔
  71. رجوع کریں: شہیدی، بہرہ ادبیات از سخنان علی علیہ‌السلام، صص206-209.
  72. شہیدی، بہرہ ادبیات از سخنان علی علیہ‌السلام، ص209۔
  73. شہیدی، سیدجعفر، بہرہ ‏گیری ادبیات فارسی از نہج البلاغہ، ص185۔
  74. شہیدی، بہرہ ادبیات از سخنان علی علیہ‌السلام، ص210.
  75. نہج البلاغہ کا جامع دانشنامہ [برقی مآخذ۔
  76. دانشنامہ علوی۔

مآخذ

  • نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، تہران: علمی و فرہنگی، 1377 ہجری شمسی۔
  • نہج البلاغۃ، ترجمہ عبد المحمد آیتی، بی‌جا: دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1377 ہجری شمسی۔ (کتب خانہ اہل بیتؑ برقی کتب خانے کی دوسری ایڈیشن میں موجودہ نسخہ)۔
  • ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج1، تحقیق: محمد أبو الفضل إبراہیم، دار إحیاء الکتب العربیۃ - عیسی البابی الحلبی و شرکاہ، 1378 ہجری/1959ء۔
  • استادی، رضا، کتابنامہ نہج البلاغہ، تہران: بنیاد نہج البلاغہ، 1359 ہجری شمسی۔
  • الحسینی الخطیب، السید عبد الزہراء، مصادر نہج البلاغۃ و أسانیدہ، ج1، بیروت: دار الزہراء، 1409 ہجری۔ 1988ء۔
  • ابن خلکان، وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، ج3، تحقیق: إحسان عباس، لبنان: دار الثقافۃ، بی‌تا.
  • الذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج17، تحقیق و تخریج وتعلیق: شعیب الأرنؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ، 1406ہجری/1986ء۔
  • شہیدی، سید جعفر، بہرہ ادبیات از سخنان امام علی علیہ السلام|علی علیہ‌السلام، در یادنامہ ‏کنگرہ ‏ہزارہ نہج‏ البلاغہ، بی‌جا: بنیاد نہج البلاغہ، 1360 ہجری شمسی۔
  • شہیدی، سید جعفر، بہرہ ‏گیری ادبیات فارسی از نہج البلاغہ، در یادنامہ ‏دومین‏ کنگرہ ‏نہج ‏البلاغہ، تہران: وزارت ارشاد اسلامی و بنیاد نہج البلاغہ، 1363 ہجری شمسی۔
  • الجاحظ، البیان والتبیین، مصر: المکتبۃ التجاریۃ الکبری لصاحبہا مصطفی محمد، 1345 ہجری۔/1926 ء۔ (کتب خانہ اہل بیتؑ برقی کتب خانے کی دوسری ایڈیشن میں موجودہ نسخہ)۔
  • عبدہ، محمد، شرح نہج البلاغۃ، تصحیح: محمد محیی الدین عبد الحمید، قاہرہ: مطبعۃ الاستقامہ‍. (دانشنامۂ علوی کے سافٹ ویئر دانشنامۂ علوی "منہج النور"، میں موجودہ نسخہ)۔
  • محمدی، سید کاظم، دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: نشر امام علیؑ، 1369 ہجری شمسی۔