زینب بنت جحش

ویکی شیعہ سے
زینب بنت جحش
کوائف
مکمل نامزینب بنت جحش
لقبام المؤمنین
تاریخ پیدائشبعثت سے ۱۰ سال پہلے
محل زندگیمکہ، مدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
اقاربزید بن حارثہ، اسامہ بن زید
مدفنجنت البقیع
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتغزوہ حنین
ہجرتمدینہ
وجہ شہرتزوجۂ رسول خدا

زینب بنت جَحْش (متوفا۲۰ ہجری قمری) رسول اللہ کی ازواج میں سے ہیں۔ ان کی پہلی شادی رسول خدا کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ سے ہوئی۔ لیکن کچھ مدت بعد ہی ان سے جدائی ہو گئی۔ پھر رسول اللہ نے جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھنے کی رسم توڑنے کیلئے زینب سے ازدواج کی۔

اس شادی کی وجہ سے بعض صحابہ کی طرف سے رسول اللہ کو اذیت پہنچی لہذااس مورد میں حجاب سے متعلق آیات اور رسول خدا کی بعض بیویوں کے زینب سے حسد کرنے کی وجہ سے سورہ تحریم کی کچھ آیات نازل ہوئیں۔ وہ ایسی سخاوتمند خاتون تھیں کہ موت کے بعد بھی کوئی درہم و دینار نہیں چھوڑا اور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

نام و نسب

آپ کا مکمل نام زینب بنت جحش تھا۔ والد کا نام جحش بن ریاب تھا جو بنی اسد کے خاندان کی ایک شاخ خاندان غَنْم میں سے تھا اور اسد بن خُزَیمَہ کا شجاع شخص مانا جاتا تھا[1] وہ مکہ آنے کے بعد قریش میں سے بنی امیہ کا ہم پیمان ہوا۔[2] زینب کی والدہ کا نام اُمیمہ بنت عبدالمطلب تھا جو رسول خدا(ص) کی پھوپھی تھی۔[3]

زینب کا پہلا نام بَرَّہ تھا رسول اللہ نے اس سے شادی کے بعد نام تبدیل کر کے زینب رکھا۔[4]

ولادت

زینب کی تاریخ پیدایش کا دقیق علم نہیں ہے۔ لیکن خلافت عمر بن خطاب کے زمانے کے ۲۰ق میں فوت ہونا مذکور ہے اور اکثر نے وفات کے وقت ۵۳ سال کا سن لکھا ہے[5] احتمال ہے کہ ہجرت سے ۳۳ سال اور بعثت سے ۱۰ سال پہلے پیدا ہوئیں۔ ابن حجر نے وفات کے وقت اس کا سن ۵۰ سال کہا ہے مزید اضافہ کیا کہ بعض اس کا سن ۵۳ سال بھی لکھتے ہیں ۔[6]

ابن سعد[7] کی منقول خبر کے مطابق زینب رسول سے شادی کے وقت ۳۵ سالہ تھیں[8] اس تاریخ کو واقدی نے نقل کیا ۔اس خبر کے صحیح ہونے کی صورت میں احتمال ہے کہ وہ ۲۹ یا ۳۰ قبل سال ہجرت سے پہلے پیدا ہوئیں جبکہ عکاشۃ بن محصن کی والدہ نیز مدینہ ہجرت کے موقع پر تیس سے کچھ اوپر سال سمجھتی ہے۔[9] یہ بات پہلی خبر کی تائید کرتی ہے۔

ہجرت

زینب اور اس کے باپ جحش کے خاندان کے افراد نے پہلی ہجرت مدینہ کی۔[10] ابوسفیان نے ان کے مکہ میں موجود خالی گھروں کو تصرف عدوانی[یادداشت 1]کی بنا پر عمرو بن عَلقَمہ کو بیچ دیا۔[11]

خصوصیات

وہ بہت سخی تھیں یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد کوئی درہم و دینار ان کی ارث کے طور پر نہیں تھے۔ سارا کچھ اپنی زندگی میں ہی ضرورت مندوں اور حاجتمندوں میں تقسیم کر دیا تھا۔[12] پیامبر(ص) اس سخاوتمندی کی بنا پر اسے لطیف کنایہ کے ساتھ یاد کرتے تھے اور دوسری ازدواج سے فرماتے میرے چلے جانے کے بعد سب سے پہلے وہ مجھ سے ملے گا جس کا ہاتھ سب سے زیادہ سخی ہو گا۔[13]

زینب نے چند ہی گھنٹوں میں اپنے سال کے تمام: ۱۲۰۰۰ درہم خدمتکار کے ہاتھوں یتیموں اور بیواؤں کے گھروں میں بھجوا دئے۔ آپ کے اس عمل کی تفصیل اکثر مؤرخین نے ذکر کی ہے۔[14]

حضرت عائشہ کے مطابق دینداری، پرہیزگاری، راستگوئی، صدقہ دینے اور اپنے عزیز و اقارب کا خیال رکھنے میں کوئی اس سے برتر نہیں تھا اور وہ یتیموں اور بیواؤں کا بہت خیال رکھنے والی خاتون تھیں۔[15]

ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہ نے اپنے بعد اسے رسول خدا کی محبوب ترین زوجہ شمار کیا ہے۔[16]

ابن عبدالبر اور ابن جوزی نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے کہ زینب رسول اللہ کے ساتھ مقام و شان میں اس کی برابری کی دعویدار تھی۔[17][18]

روایت

زینب رسول سے حدیث کی راوی بھی ہیں اور رسول سے چند احادیث ان سے منقول ہیں۔[19] ان احادیث میں دو حدیثیں مسلم اور بخاری نے اپنی صحاح میں ذکر کی ہیں۔[20]

قاسم بن محمد بن ابی بکر، ام حبیبہ اور محمد بن عبداللہ بن جحش ان سے روایت نقل کرنے والوں میں سے ہیں۔[21]

طبری نے مرسل اور حجاز کے فقہا سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا کا وصال زینب کے گھر میں ہوا تھا۔[22]

پیغمبر سے ازدواج

ازواج رسول خدا
خدیجہ بنت خویلد (ازدواج: 25 عام الفیل)
سودہ بنت زمعہ (ازدواج: قبل از ہجرت)
عائشہ بنت ابوبکر (ازدواج: 1 یا 2 یا 4 ہجری)
حفصہ بنت عمر (ازدواج: 3 ہجری)
زینب بنت خزیمہ (ازدواج: 3 ہجری)
ام سلمہ بنت ابوامیہ (ازدواج: 4 ہجری)
زینب بنت جحش (ازدواج: 5 ہجری)
جویریہ بنت حارث (ازدواج: 5 یا 6 ہجری)
رملہ بنت ابوسفیان (ازدواج: 6 یا 7 ہجری)
ماریہ بنت شمعون (ازدواج: 7 ہجری)
صفیہ بنت حیی (ازدواج: 7 ہجری)
میمونہ بنت حارث (ازدواج: 7 ہجری)

دشمنوں کی ہرزہ سرائی

رسول اللہ اور زینب کی شادی کا موضوع منافقین اور مشرکین کے درمیان کذب و افترا وغیرہ کا عنوان بننے کی وجہ سے رسول اللہ رنجیدہ خاطر ہوئے۔

کچھ منافقین نے رسول اللہ کی شخصیت کو خراب کرنے کیلئے زید اور زینب کے درمیان جدائی کا سبب زینب میں رسول اللہ کی دلچسپی کو قرار دیا اور اس معاملے میں ایک داستان کو مشہور کیا[23] کہ جس میں مختلف بیانات مذکور تھے۔

مشہورترین داستان یہ ہے کہ جب رسول اللہ زید کو دیکھنے اس کے گھر تشریف لے گئے تو وہ گھر پر موجود نہ تھا[24] لیکن ابن حبیب[25] کی روایت کے مطابق زید گھر تھا اور وضو کرنے میں مشغول تھا۔

بعض مفسرین نے بھی ان داستانوں کو سورہ احزاب کی ۳۷ویں[26] آیت کے ذیل میں ذکر کیا ہے۔[27]

اس داستان کو بیان کرنے والی روایات کی چھان بین کرنے سے احتمال قوی کی بنا پر ظاہر ہوتا ہے کہ مفسرین نے پہلی صدی ہجری میں اوریا اور حضرت داؤد کی داستان کو نظر میں رکھتے ہوئے زینب اور زید کی داستان میں بعض مطالب کا اضافہ کیا ہے جو اسوقت ان کے درمیان مشہور تھی۔[28] ابن حجر نے ان داستانوں میں سے بعض کی اسناد کے ضعیف ہونے کی جانب اشارہ کیا ہے۔[29]، لیکن برطانوی مؤرخ Clifford Edmund Bosworth نے انہی مغرضانہ داستانوں کو بنیاد بنا کر رسول خدا کی زینب سے شادی کے واقعے کو بیان کیا ہے۔[30]

مسیحی مکتب کی جانب سے اپنے مخالفین کے خلاف لکھی جانے والی قدیمی کتابوں میں رسول اللہ کی زینب سے شادی ایک جداگانہ عنوان کی حیثیت سے مذکور ہے۔[31] اس سلسلے میں سب سے پہلے مسیحی کتب کے مؤلفین میں یوحنا دمشقی وہ پہلا شخص ہے کہ جس نے چشمہ معرفت نامی کتاب میں اسے ذکر کیا ہے۔[32]اس کے بعد مسیحوں میں اسے ایک مستقل عنوان سے ذکر کیا جانے لگا۔ کبھی اس داستان میں تبدیلی کی گئی اور انہوں نے تقریبا اہل سنت کتابوں میں مروی روایات سے استناد کرتے ہوئے ذکر کیا ہے۔ [33]

جواب

مسلمان علما نے اپنی سمجھ کے مطابق مختلف طرح سے اسکے جوابات دئے ہیں۔قرآن پاک کی سورہ احزاب کی ۳۶ سے لے کر ۳۹ تک کی آیات میں منافقین اور مشرکین کے اس اعتراض کو بیان کیا ہے کہ رسول خدا نے تمام لوگوں کو اپنے بیٹے کی زوجہ سے شادی کرنے سے منع کیا لیکن خود اس نے اپنے بیٹے کی زوجہ سے شادی کی ہے۔[34]

رسول اللہ کا اپنی پھوپھی زاد سے شادی کرنا ایک عادی امر ہے اور زینب کی خوبصورتی کی وجہ سے رسول خدا کے شادی کرنے کا اعتراض کرنے والوں[35] کے جواب میں یہ کہنا چاہئے کہ رسول خدا زید اور زینب کی شادی سے پہلے بھی زینب کی خوبصورتی سے آگاہ تھے۔

پیغمبر زید بن حارثہ سے محبت رکھتے تھے۔[36] آپؐ نے بعثت کے ایک دو سال بعد اپنی آزاد کردہ کنیز ام ایمن سے اس کی شادی کی اور اس سے اسامۃ بن زید پیدا ہوا[37]

پیغمبر کی خواستگاری

زینب کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد پیامبر(ص) نے زید کیلئے اسے شادی کرنے کرنے کا پیغام دیا۔ زینب اس سے پہلے یہ سمجھ رہی تھی کہ رسول خدا اپنے لئے اس بات کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن جب پیغمبر نے زید کیلئے اس سے شادی کرنے کا عندیہ پوچھا تو اس نے شروع میں مخالفت کی لیکن بعد میں رسول اللہ کی رضا کو دیکھتے ہوئے اس نے زید سے ازدواج کی موافقت کر دی۔[38]

اکثر مفسرین سورہ احزاب کی ۳۶ویں[39] آیت کے شان نزول کو زید و زینب کی باہمی ازدواج کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں اس آیت کے نازل ہونے کے بعد زینب نے زید سے شادی پر رضایت مندی ظاہر کی۔[40]

زید سے جدائی

ازدواج کے بعد زید اور زینب کے درمیان زندگی تناؤ کا شکار رہی[41] اور زید رسول خدا کے پاس زینب کی بد خلقی کی شکایت کرتا رہتا جبکہ رسول اللہ اسے اپنی ہمسر کے اس رویے پر صبر و تحمل کی تلقین کرتے تھے۔[42] یہانتک کہ رسول اکرم نے فرمان خدا کے مطابق ان کے درمیان جدائی کا حکم صادر کیا۔

اکثر سیرت نگاروں اور مؤرخین کے نزدیک زید اور زینب کی باہمی جدائی کا واقعہ ہجرت کے پانچویں سال غزوہ مُرَیسع کے بعد شعبان کے مہینے میں پیش آیا۔[43]

رسول خدا سے ازدواج

پیامبر نے حکم الہی زینب سے ازدواج کی اور یوں جاہلی میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھے جانے کی رسم کا خاتمہ کیا۔ [44]

مروی ہے کہ زینب نے رسول خدا سے ازدواج کے موقعہ پر کسی قسم کا مہر مقرر نہیں کیا اور رسول خدا نے زید کو اپنا فرزند اور وارث مقرر کیا۔[45]

ازدواج کے بعد زینب اپنا عقد آسمانوں میں رسول خدا سے مقرر ہونے کی بدولت دوسری ازواج پر برتری جتلاتی تھی۔[46] رسول خدا نے اس ازدواج میں ولیمے کا انعقاد کیااور گوسفند ذبح کیا۔ [47] مہمانوں کی تواضع روٹی اور گوشت سے کی گئی۔[48] رسول خدا کی زینب سے ازدواج ہجرت کے پانچویں سال ذیقعدہ کے مہینے میں انجام پائی۔ اس وقت زینب کا سن ۳۵ سال تھا۔[49]

آیات حجاب

اس ازدواج کے بعد صحابہ کی جانب سے رسول اللہ کیلئے تکلیف کا باعث بننے کی وجہ سے آیات حجاب نازل ہوئیں۔ ان آیات کے نزول کی تفصیلات ابن سعد[50] اور طبرانی[51] نے نقل کی ہیں نیز مفسرین نے سورہ احزاب کی آیات ۵۸ و ۵۹[52] کے ذیل میں بھی انکی جانب اشارہ کیا ہے۔[53]

رسول اللہ کے نزدیک زینب بنت جحش کی زیادہ مقام و منزلت کی وجہ سے بعض ازواج ان سے حسادت برتنے لگیں اور آخر کار سورہ تحریم کی آیات اسی سلسلے میں نازل ہوئیں۔ [54] اگرچہ خود زینب بھی صفیہ بنت حیی بن اخطب سے رنجش کا باعث بنی تھی۔ [55]

زینب جنگ حنین میں پیامبر کے ہمراہ تھی[56] رسول خدا کی رحلت کے بعد وہ کہتی تھی کہ وہ اس کے بعد کسی جانور پر سواری نہیں کرے گی اگرچہ اسے حج کیلئے ہی جانا ہو۔[57]

عمر کی زینب سے عداوت رکھنے کی بنا پر پیغمبر نے انہیں مخاطب ہو کر کہا:آگاہ رہو! زینب اَوّاہہ ہے۔ اَوّاہ اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو خدا کے حضور فروتن ہو اور اسکی بارگاہ میں بہت زیادہ گریہ کرنے والا ہو۔ حضرت حضرت ابراہیم کی یہ صفت بیان ہوئی ہے۔[58]

دوسری خلافت کا زمانہ

حضرت عمر بن خطاب نے دیوان خانے کے قیام کے بعد بعض دوسری ازواج کی مانند زینب کا سالانہ وظیفہ ۱۲۰۰۰ درہم مقرر کیا۔ زینب نے صرف ایک سال یہ وظیفہ لیا اور دوسرے سال ان کا انتقال ہو گیا۔ زینب اس رقم کے لینے کو فتنے سے تعبیر کرتی تھیں اور خدا سے دعا کی تھی کہ خدایا! کسی طرح مجھے اس مبلغ کے لینے سے رہائی نصیب فرما۔[59]

وفات

پیغمبر(ص) کی رحلت کے بعد وہ پہلی زوجہ ہیں کہ جن کا انتقال ہوا۔[60] زینب ۲۰ہجری قمری میں فوت ہوئیں۔[61] حضرت عمر بن خطاب نے انکی نماز جنازہ پڑھائی۔[62]

ابن سعد[63] اور ذہبی[64] روایت نقل کرتے ہیں کہ خلیفہ دوم نے انکے جسد کے مکمل پوشیدہ نہ ہونے کی بنا پر حکم دیا تھا کہ ان کے تشییع جنازہ میں صرف محرم حاضر ہوں اس دوران اسماء بنت عمیس نے تابوت استعمال کرنے کی تجویز حضرت عمر کو دی پس اس کے بعد زینب کے جنازے میں عمومی شرکت کی اجازت دے دی گئی۔[65]

حضرت عمر تابوت کے آگے آگے اسکا کپڑا تھامے چل رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کس قدر بہتر پردہ ہے کہ جس کی بدولت خواتین کے بدن غیر مردوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔[66]

تشییع جنازہ

زینب بنت جحش کی میت کو تابوت میں رکھ کر تشییع جنازہ کرنے سے پہلے حضرت زہرا نے اپنے لئے اس عمل کے اختیار کرنے کی وصیت کی تھی اور یہ بات اسماء بنت عمیس سے کہی۔ اسما نے کہا اس نے تابوت میں رکھ کر تشییع جنازہ کرنے کی سنت اہل حبشہ کے ہاں دیکھی اور وہ اسے بجا لائے گی۔[67] لیکن چونکہ جناب زہرا کی تشییع عمومی طور پر انجام نہیں دی گئی تھی اس بنا پر حضرت خدیجہ کے بعد ازواج نبی اکرم میں سے سب سے زیادہ صاحب عظمت زوجہ زینب بنت جحش کی تشییع اس طرح انجام دی گئی۔[68]

دفن

زینب کو قبرستان بقیع میں عقیل اور محمد بن حنفیہ کے گھر کے پاس دفن کیا گیا۔[69] اسامہ بن زید، زینب کے بھائی اور بہن کی اولاد کہ جو انکی محرم تھی، نے قبر میں اتر کر انہیں دفن کیا۔ [70]

زینب بنت جحش کی تدفین کے روز شدید گرمی کی وجہ سے خلیفہ کے دستور پر ان کی قبر پر خیمہ نصب کیا گیا۔ اس لحاظ سے اسلام میں سب سے پہلے زینب کی قبر پر خیمہ نصب ہوا۔[71]

میراث

زینب کی تنہا میراث ان کا گھر تھا جسے ولید بن عبدالملک کے زمانے میں حرم نبوی کو وسیع کرتے ہوئے ان کے وارثوں سے ۵۰۰۰۰ درہم کے بدلے میں خریدا گیا۔[72]

نوٹ

  1. ایسی غیر منقولہ مِلک و جائیداد جو کسی کے اختیار میں ہو اور کوئی دوسرا شخص اس کی رضایت اور اجازت کے بغیر کسی کو بیچ دے۔

حوالہ جات

  1. ابن سعد،الطبقات الکبری ج ۸، ص۱۰۱؛ ابن عبدالبر، ج ۴، ص۱۸۴۹؛ ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ، ج ۹، ص۲۴۲
  2. نک: بلاذری،انساب الاشراف، ج ۱، ص۵۲۱ـ ۵۲۲
  3. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج ۸، ص۱۰۱؛ابن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۴، ص۱۸۴۹؛ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ، ج ۹، ص۲۴۲
  4. محب الدین طبری،السمط الثمین فی مناقب امہات المؤمنین، ص۱۶۱؛ ابن حجر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج ۷، ص۶۶۸
  5. نک: ابن سعد، ج ۸، ص۱۱۵؛ ابن جوزی،صفۃالصفوۃ، ج ۲، ص۴۹
  6. ابن حجر،الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج ۷، ص۶۷۰
  7. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج ۸، ص۱۱۴
  8. نک: ابن حجر،الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج ۷، ص۶۷۰
  9. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج ۱، ص۱۱۵
  10. ابن ہشام،السیرۃالنبویۃ، ج ۲، ص۱۱۴؛ ابن سعد،الطبقات الکبری، ج ۸، ص۱۰۱؛ ذہبی، ج ۲، ص۲۱۱
  11. ابن ہشام،السیرۃالنبویۃ، ج ۲، ص۱۱۴ـ ۱۱۵، ۱۴۵
  12. ابن سعد، ج ۸، ص۱۱۴
  13. ابن سعد، ج ۸، ص۱۰۸؛ ابونعیم اصفہانی،حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ج ۲، ص۵۴؛ ابن عبدالبر، ج ۴، ص۱۸۵۰ـ ۱۸۵۱
  14. نک: ابن سعد،الطبقات الکبری، ج ۸، ص۱۰۳، ۱۱۰؛ ابن حجر،الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج ۷، ص۶۷۰
  15. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۰۸، ۱۱۰؛ ابن عبدالبر، ج ۴، ص۱۸۵۱؛ ابن حجر،الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج ۷، ص۶۷۱
  16. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج ۸، ص۱۱۴
  17. ابن عبدالبر ج۴، ص۱۸۵۱
  18. ابن جوزی، صفۃالصفوۃ،، ج۲، ص۴۸
  19. نک: طبرانی، ج۲۴، ص۵۱ـ۵۷
  20. ذہبی، ج۲، ص۲۱۸
  21. نک: مزی، ج۳۵، ص۱۸۴
  22. طبری تاریخ، ج۳، ص۱۸۷
  23. نک: ابن سعد، ج۸، ص۱۰۱ـ۱۰۲؛ بلاذری، ج۱، ص۵۲۲؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۸۴۹ـ۱۸۵۰
  24. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۰۱ـ۱۰۲؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۵۶۲ـ۵۶۴؛ طبرانی، ج۲۴، ص۴۴
  25. ابن حبیب،کتاب المحبر، ص۸۵
  26. وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّـهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّـهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا ﴿٣٧﴾(اے رسول! وہ وقت یاد کرو) جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے (اسے نہ چھوڑ) اور اللہ سے ڈر۔ اور آپ (اس وقت) وہ بات اپنے دل میں چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں (کی طعن و تشنیع) سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں (بہرحال) جب زید نے اس عورت (زینب) سے اپنی حاجت پوری کر لی (اسے طلاق دے دی) تو ہم نے اس خاتون کی شادی آپ سے کر دی تاکہ اہلِ ایمان پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے (نکاح کرنے) کے معاملے میں کوئی تنگی نہ رہ جائے جب وہ ان سے (اپنی) حاجت پوری کر چکے ہوں (اور انہیں طلاق دے کر فارغ کر چکے ہوں) اور اللہ کا حکم تو بہرحال ہوکر رہتا ہے۔
  27. نک: طبری، تفسیر؛ ابن ابی زَمِنین، ذیل آیہ
  28. نک: طبرانی، ج۲۴، ص۴۴
  29. ابن حجر،الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج۷، ص۶۶۸
  30. دایرۃ المعارف اسلام، ذیل مادّہ
  31. د. اسلام، ذیل مادّہ
  32. نک: ساہاس، ص۹۱؛ ہویلند، ص۲۷۶، پانویس۲
  33. نک: کندی، ص۵۸؛ ساہاس، ص۹۱، پانویس۳؛ دانیل، ص۳۰ـ۳۱، ۱۱۹ـ۱۲۵، ۳۱۳
  34. نک: سید مرتضی علم الہدی،تنزیہ الأنبیاء، ص۱۷۵ـ۱۷۷
  35. ابن سعد، ج۸، ص۱۰۱ـ۱۰۲؛ قمی، ج۲، ص۱۷۲ـ۱۷۳
  36. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۳، ص۴۰، ۴۲-۴۴؛ ابن عبدالبر، ج۲، ص۵۴۳،۵۴۶
  37. نک: ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۳، ص۴۵؛ ابن عبدالبر، ج۲، ص۵۴۶
  38. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۰۱؛ طبرانی، ج۲۴، ص۳۹ـ۴۰، ۴۵؛ ابونعیم اصفہانی،حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ج۲، ص۵۱ـ۵۲
  39. {{حدیث|وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴿٣٦﴾کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا
  40. نک: مقاتل بن سلیمان؛ طبری، تفسیر، ذیل آیہ؛ قس طبری، تفسیر؛ ابن ابی زَمِنین نے اس آیت کے ذیل میں ایک خبر کی بنا پر کہا ہے کہ یہ آیت امّ کلثوم بنت عُقبۃ بن ابی معیط اور زید بن حارثہ کی ازدواج کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
  41. ابوعبیدہ، ص۶۲؛ ابونعیم اصفہانی،حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ج۲، ص۵۲
  42. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۰۳؛ بلاذری، ج۱، ص۵۲۲؛ طبرانی، ج۲۴، ص۴۱
  43. نک: ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۱۴؛ بلاذری، ج۱، ص۵۲۱؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۸۴۹، اسے قِتادہ کا عقیدہ سمجھتا ہے؛ قس ابوعبیدہ، ص۶۱؛ بلاذری، ج۱، ص۵۲۱؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۸۴۹، ایک نقل کے مطابق زینب اور زید کی باہمی جدائی کا زمان ہجرت کا تیسرا سال ہے ہرچند بلاذری کے نزدیک یہ قول ثابت نہیں ہے۔
  44. نک: احزاب/۳۷؛ ابن حجر،الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج۷، ص۶۶۷؛ قس ابن ہشام،السیرۃالنبویۃ، ج۲، ص۶۴۶
  45. ابن سعد، ج۳، ص۴۲؛ ابن عبدالبر، ج۲، ص۵۴۳؛ ابن حجر،الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج۲، ص۵۹۹
  46. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۰۳؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۸۵۰
  47. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۰۳
  48. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۰۵، ۱۰۶، ۱۰۷؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۸۴۹
  49. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۱۴؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۸۴۹
  50. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۰۵ـ۱۰۷
  51. طبرانی ج۲۴، ص۴۶ـ۵۰
  52. وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ﴿٥٨﴾اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو اذیت پہنچاتے ہیں بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی (جرم) کیا ہو۔ بے شک وہ ایک بڑے بہتان اور کھلے ہوئے گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥٩﴾اے نبی(ص)! آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور (عام) اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ (باہر نکلتے وقت) اپنے اوپر چادر (بطور گھونگھٹ) لٹکا لیا کریں یہ طریقہ قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
  53. نک: مقاتل بن سلیمان؛ طبری، تفسیر، ذیل آیہ؛ قس طبری، تفسیر؛ ابن ابی زَمِنین نے ان آیات کے حضرت ام سلمہ اور حضرت عائشہ سے مخصوص ہونے کی روایات ذکر کی ہیں۔
  54. نک: ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۰۷؛ بخاری، ج۶، ص۱۶۶ـ۱۶۷، ج۷، ص۲۳۲؛ مسلم، ج۴، ص۱۸۴ـ۱۸۵
  55. ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۸۵۰
  56. واقدی، ج۳، ص۹۲۶؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۸۳
  57. واقدی، ج۳، ص۱۱۱۵
  58. ابونعیم اصفہانی،حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ج۲، ص۵۳ـ۵۴؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۸۵۲؛ ابن حجر،الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج۷، ص۶۶۹
  59. ابن سعد، ج۸، ص۱۱۰؛ نک: ذہبی،سير أعلام النبلاء، ج۲، ص۲۱۴، تحریر ہوا ہے کہ صفیہ اور جُوَیریہ نیز دیگر ازواج کیلئے اس مقدار کا آدھا مقرر ہوا تھا
  60. ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۸۵۰
  61. نک: ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۱۵؛ طبرانی، ج۲۴، ص۳۸؛ ابن عبدالبر، ج۴، ص۱۸۵۲
  62. ابن حبیب،کتاب المحبر، ص۸۸؛ مزی، ج۳۵، ص۱۸۵
  63. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۱۱
  64. ذہبی،سير أعلام النبلاء، ج۲، ص۲۱۲ـ۲۱۳
  65. ابن قتیبہ،المعارف، ص۵۵۵
  66. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۱۲؛ ابن قتیبہ،المعارف، ص۵۵۵
  67. کلینی،الکافی، ج۳، ص۲۵۱؛ ابن بابویہ،من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۱۹۴؛ ابونعیم اصفہانی،حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ج۲، ص۴۳
  68. نک: ابن قتیبہ،المعارف، ص۵۵۵؛ طبرسی، ج۱، ص۲۷۸؛ محب الدین طبری،السمط الثمین فی مناقب امهات المؤمنین، ص۱۶۶
  69. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۰۹؛ بلاذری، ج۱، ص۵۲۴
  70. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۱۱ـ۱۱۲، ۱۱۳ـ۱۱۴؛ بلاذری،انساب الاشراف، ج۱، ص۵۲۴
  71. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۱۲ـ۱۱۳؛ نک: ابن حبیب،کتاب المحبر، ص۸۸؛ بلاذری، ج۱، ص۵۲۴
  72. ابن سعد،الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۱۴؛ ذہبی،سير أعلام النبلاء، ج۲، ص۲۱۸

مآخذ

  • ابوعبیدہ معمربن مثنی بصری، تسمیۀ ازواج النبی صلی اللہ علیہ و سلم و اولادہ، چاپ کمال یوسف حوت، بیروت ۱۴۱۰/ ۱۹۹۰.
  • ابونعیم احمدبن عبداللہ اصفہانی، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء،بیروت ۱۳۸۷/ ۱۹۶۷.
  • محمدبن علی بن حسین مشہور بہ ابن بابویہ قمی، من لایحضرہ الفقیہ، چاپ علی اکبر غفاری،قم ۱۴۱۴.
  • محمدبن حبیب بغدادی، کتاب المحبر، چاپ ایلزہ لیختن شتیتر،بیروت،بی تا.
  • ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲/ ۱۹۹۲.
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ ۱۳۸۷/ ۱۹۶۷.
  • جمال الدین ابوالفرج ابن جوزی، صفۃالصفوۃ، چاپ محمود فاخوری و محمد رواس قلعہ جی،قاہرہ ۱۳۹۰/ ۱۹۷۰.
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، چاپ احسان عباس (اختصارات).
  • محمدبن عبداللہ بن ابی زمنین، تفسیرالقرآن العزیز، چاپ ابوعبداللہ حسین بن عکاشہ و محمدبن مصطفی کنز، قاہر ہ۱۴۲۳/ ۲۰۰۲.
  • عبداللہ بن مسلم مشہور بہ ابن قتیبہ، المعارف، چاپ ثروت عکاشہ،قاہرہ ۱۳۷۹/ ۱۹۶۰.
  • یوسف بن عبداللہ بن محمد مشہور بہ ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃالأصحاب، چاپ علی محمد بجاوی،بیروت ۱۴۱۲/ ۱۹۹۲.
  • عبدالملک بن ہشام مشہور بہ ابن ہشام، السیرۃالنبویۃ، چاپ مصطفی سقا، ابراہیم آبیاری و عبدالحفیظ شلبی،بیروت، بی‌تا.
  • مقاتل بن سلیمان بلخی، تفسیر مقاتل بن سلیمان، چاپ احمد فرید،بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳.
  • محمدبن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱.
  • احمدبن یحیی بلاذری، أنساب الأشراف، چاپ محمود فردوس عظم،دمشق ۱۹۹۷/۱۴۱۸.
  • شمس الدین محمدبن احمد ذہبی، سیر اعلام النبلاء، (چاپ اختصارات).
  • سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، چاپ حمدی عبدالمجید سلفی،موصل ۱۴۰۵/ ۱۹۸۴.
  • فضل بن حسن طبرسی، اعلام الموری بأعلام الہدی، قم ۱۴۱۷.
  • محمدبن جریر طبری، تاریخ الطبری، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم (اختصارات).
  • محمدبن جریر طبری، جامع البیان فی تفسیرآی القرآن (چاپ اختصارات).
  • محب الدین احمدبن عبداللہ طبری، السمط الثمین فی مناقب امہات المؤمنین، چاپ محمدبن فرید، بی‌جا، بی‌تا.
  • علی بن حسین مشہور بہ علم الہدی، تنزیہ الأنبیاء، چاپ فاطمہ قاضی شعار،تہران ۱۳۸۰ش.
  • محمدبن یعقوب کلینی، الکافی (چاپ اختصارات).
  • عبدالمسیح بن اسحق کندی (؟)، رسالۃ عبداللہ بن اسماعیل الہاشمی الی عبدالمسیح بن اسحق الکندی یدعوہ الی الاسلام و رسالۃ الکندی الی الہاشمی یرد بہا علیہ و یدعوہ الی النصرانیۃ،دمشق ۲۰۰۵.
  • علی بن ابراہیم قمی، تفسیرالقمی، چاپ سید طیب موسوی جزائری، قم ۱۴۰۴.
  • مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح، بیروت، بی‌تا.
  • جمال الدین بن عبدالرحمن مزی، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، چاپ بشّار عوّاد معروف،بیروت ۱۴۲۲/ ۲۰۰۲.
  • محمدبن عمر واقدی، کتاب المغازی الواقدی، چاپ مارسدن جونز،لندن ۱۹۶۶.
  • EI۲, s. v. ,"Zaynab BT. DJahash" (by. C. E. Bosworth).
  • Robert G. Hoyland, "The Earliest Christian writings on Muhammad: An Appraisal" in: The Biography of Muhammad: The Issue of Sources, ed., Harald Motzki (Leiden, Boston and Köln, ۲۰۰۰).
  • Norman Daniel, Islam and the West: the making of an image (Oneword, Oford ۱۹۹۳).
  • Daniel J. Sahas, John of Damascus on Islam: The "Heresy of the Ishmaeites,Leiden ۱۹۷۲.

بیرونی رابط