امام علی کا بے نقطہ خطبہ

ویکی شیعہ سے
امام علی کا بے نقطہ خطبہ
امام علیؑ کا بے نقطہ خطبہ
حدیث کے کوائف
صادر ازامام علیؑ
شیعہ مآخذتمام نہج البلاغہ - نہج السعادہ
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


بے نقطہ خطبہ حضرت علیؑ کی ایک تقریر ہے جس میں نقطہ والے حروف کا استعمال نہیں فرمایا ہے۔ یہ خطبہ اصحاب پیغمبر کے ایک گروہ کے سامنے گفتگو میں حروف کے کردار کے موضوع پر ارشاد فرمایا ہے۔

اس خطبے کا متن نہج السعادہ اور تمام نہج البلاغہ میں نقل ہوا ہے۔ خدا کی حمد و ثنا، بعض نعمتوں تذکرہ، اہل‌ بیتؑ کا مقام اور پیغمبر اکرمؐ کی پیروی ان مباحث میں سے ہیں جن پر اس خطبے میں اشارہ فرمایا ہے۔ کتاب "دو شاہکار علوی" اسی خطبے اور امام علیؑ کا بغیر الف خطبہ کی شرح میں لکھی گئی ہے۔

بعض منابع میں ایک اور خطبے کو بے نقطہ خطبہ کے عنوان سے امام علیؑ کی طرف نسبت دی گئی ہے جو مذکورہ خطبے کی بنسبت معتبر نہیں ہے۔

پس منظر

یہ خطبہ امام علیؑ کی ایک تقریر ہے جس میں آپ نے نقطہ والے حروف کا استعمال کئے بغیر ارشاد فرمایا ہے۔ کتاب مناقب میں امام رضاؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق اس خطبے کا پس منظر یہ ہے کہ ایک دن پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب کا ایک گروہ گفتگو میں حروف کے کردار پر بحث کر رہے تھے۔ اس گفتگو میں انہوں نے "الف" کو سب سے زیادہ استعمال ہونے والا حرف قرار دیا۔ اس وقت امام علیؑ نے بغیر الف اور بغیر نقطہ کے خطبہ ارشاد فرمایا۔[یادداشت 1] [1] ان خطبوں کا فی‌البداہہ ہونا، قرآن سے مستند ہونا اور ان کی فصاحت و بلاغت کی تعریف کی گئی ہے۔[2]

مضامین

یہ خطبہ خدا کی حمد و ستایش اور بعض نعمتوں کے تذکرے سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ اور آپ کی اہل بیتؑ کے مقام و منزلت کو مد نظر رکھتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کی سنت کی پیروی کرنے اور آپ کے حکم کی تعمیل کی سفارش کرتے ہیں۔ اسی طرح اس خطبے میں بعض مواعظ کے ضمن میں سلامتی، گناہ سے دوری، اسلامی احکام کی پیروی، استجابت دعا اور حاضرین کی سعادتمندی کے لئے دعا کی گئی ہے۔[3]

سند

محمد باقر محمودی نے مستدرک نہج البلاغہ میں مختلف اسناد کے ساتھ اس خطبے کو ذکر کیا ہے۔[4] ان کے بقول اس خطبے کو انہوں نے محمد بن عبدالقاہر شہرزوری موصلی(متوفی 8 صدی ہجری) کی کتاب "مجموعۃ اَدبیَّہ" سے نقل کیا ہے؛[5] لیکن سید رضی نے نہج البلاغہ میں اس خطبے کو ذکر نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود یہ خطبہ تمام نہج‌البلاغہ میں بھی نقل ہوا ہے۔[6]

کتاب دو شاہکار علوی کے مصنف احسانی‌ فر کے مطابق مناقب، الصراط المستقیم، منہاج البراعہ، بحار الانوار اور نہج‌الایمان میں بھی مذکورہ خطبے کا عنوان یا ایک کچھ حصہ نقل ہوا ہے۔[7]

متن اور ترجمہ

  • سید احمد سجادی نے اس خطبے پر کافی تحقیق کے بعد اس کا متن یوں پیش کیا ہے:[8]


خطبہ کا متنترجمہ
اَلْحَمْدُ للَّـهِ أَهْلِ الْحَمْدِ وَ مَأْوَاهُ، وَ لَهُ أَوْكَدُ الْحَمْدِ وَ أَحْلَاهُ، وَ أسعَدُ الْحَمْدِ وَ أَسْرَاهُ، وَ أَطْهَرُ الْحَمْدِ وَ أَسْمَاهُ، وَ أَکْرَمُ الْحَمْدِ وَ أَوْلَاهُ. الْوَاحِدِ الأَحَدِ الصَّمَدِ، لاوَالِدَ لَهُ وَ لاوَلَدَ.حمد کر تا ہوں میں اس کی جو ستایش اور حمد کا لایق ہے اور اسی کے لئے ہی سزاوار ہے واضح ترین اور شیرین ترین حمد، سعادتمند ترین اور سخاوت مند ترین حمد، سب سے پاک اور عالی حمد، بےنظیر اور شایستہ حمد، اس اللہ کے لیے جو یکتا اور بے نیاز ہے، اور نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا۔
سَلَّطَ الْمُلُوكَ وَ أَعْدَاهَا، وَ أَهْلَكَ الْعُدَاةَ وَ أَدْحَاهَا. وَ أَوْصَلَ الْمَكَارِمَ وَ أَسْرَاهَا. وَ سَمَكَ السَّمَاءَ وَ عَلَّاهَا، وَ سَطَحَ الْمِهَادَ وَ طَحَاهَا، وَ وَطَّدَهَا وَ دَحَاهَا، وَ مَدَّهَا وَ سَوَّاهَا، وَ مَهَّدَهَا وَ وَطَّاهَا، وَ أَعْطَاكُمْ مَاءَهَا وَ مَرْعَاهَا، وَ أَحْكَمَ عَدَّ الأُمَمِ وَ أَحْصَاهَا، وَ عَدَّلَ الأَعْلَامَ وَ أَرْسَاهَا.ابادشاہوں کو مسلط کیا دشمنی کرنے پر آمادہ کیا، دشمنوں کو ہلاک کر کے کنارے لگا لیا۔ مکارم کو لوگوں تک پہنچایا اور انہیں شرف بخشا۔ آسمان کو اوپر لے گیا اور بلند کیا۔ زمین کو مسطح کیا اور پھیلایا، اسے پھیلا کر زندگی کے لیے ہموار کردیا اور تمہیں پانی اور سبزہ زار دیا۔ اور قوموں کو اس پر بسنے کے لیے معین کیا اور ان کی تعداد پر احاطہ کیا اور ہدایت کی بلند نشانیوں کو مقرر اور استوار کیا
اَلإلَهُ الأَوَّلُ لامُعَادِلَ لَهُ، وَ لارَادَّ لِحُکْمِهِ. لاإِلهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ السَّلامُ، الْمُصَوِّرُ الْعَلّامُ، الْحَاكِمُ الْوَدُودُ، الْمُطَهِّرُ الطَّاهِرُ، الْمَحْمُودُ أَمْرُهُ، الْمَعْمُورُ حَرَمُهُ، الْمَأْمُولُ كَرَمُهُ.وہ معبود ہے جس کا برابر کوئی نہیں اور نہ ان کے حکم ٹھکرانے والا کوئی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور خدا نہیں، وہ بادشاہ، سلام، مصور، زیادہ عالم، مہربان حاکم، پاک اور پاک کرنے والا، جس کا حکم قابل ستایش، جس کی حرمت آباد اور جس کی سخاوت امیدوارکنندہ۔
عَلَّمَكُمْ كَلَامَهُ، وَ أَرَاكُمْ أَعْلَامَهُ، وَ حَصَّلَ لَكُمْ أَحْكَامَهُ، وَ حَلَّلَ حَلَالَهُ، وَ حَرَّمَ حَرَامَهُ.اس کا کلام (قرآن) تمہیں سکھایا اور اس کی نشانیاں تمہیں دکھایا، اس کے احکام تمہارے دسترس میں رکھا، جو روا تھا اسے حلال کردیا، جو ناروا تھا اسے حرام قرار دیا۔
وَ حَمَّلَ مُحَمَّداً الرِّسَالَة َ، رَسُولَهُ الْمُكَرَّمَ، الْمُسَوَّدَ الْمُسَدَّدَ، الطّـُهْرَ الْمُطَهَّرَ. أَسْعَدَ اللَّـهُ الأُمَّةَ لِعُلُوِّ مَحَلِّهِ، وَ سُمُوِّ سُؤْدَدِهِ، وَ سَدَادِ أَمْرِهِ، وَ كَمَالِ مُرَادِهِ. أَطْهَرُ وُلْدِ آدَمَ مَوْلُوداً، وَ أَسْطَعُهُمْ سُعُوداً، وَ أَطْوَلُهُمْ عَمُوداً، وَ أَرْوَاهُمْ عُوداً، وَ أَصَحُّهُمْ عُهُوداً، وَ أَکْرَمُهُمْ مُرْداً وَ كُهُولاً.رسالت کو بوجھ کو حضرت محمدؐ کے کاندھے پر رکھا وہی رسول قابل احترام ہے، پاک اور پاک کرنے والا ہے، اللہ نے اس امت کو ان کے بلند مرتبہ، دین کی استواری اور ان کی آرزو کامل ہونے کے ذریعے سے سعادت بخشا۔ وہ انسانوں میں پاکیزہ ترین ولادت والا اور درخشندہ ترین خوشبختی اور سعادت کا ستارہ ہے۔ وہ اپنوں میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ اور اپنی نسل میں سب سے زیادہ حسین، وعدے کا سب سے پکا، نوجوانی اور بڑھاپے میں سب سے زیادہ کریم ہے۔
صَلاةُ اللَّـهِ لَهُ وَ لِآلِهِ الأَطْهَارِ، مُسَلَّمَةً وَ مُكَرَّرَةً مَعْدُودَةً، وَ لِآلِ وُدِّهِمُ الْكِرَامِ مُحَصَّلَةً مْرَدَّدَةً، مَا دَامَ لِلسَّمَاءِ أَمْرٌ مَرْسُومٌ، وَ حَدُّ مَعْلُومٌ.اللہ کا درود اور صلوات اس پر اس کی پاکیزہ آل پر ہو، خالص،اور مسلسل اور مکرر درود ان پر اور ان کی محبوب اور بزرگوار آل پر ، ایسا درود جو جاوید اور ہمیشہ کے لیے ہوجب تک کہ آسمان کے لیے کوئی حکم مرقوم ہو اور اس کی حد معلوم ہو۔
أَرْسَلَهُ رَحْمَةً لَكُمْ، وَ طَهَارَةً لأَعْمَالِكُمْ، وَ هُدُوءَ دَارِكُمْ، وَ دُحُورَ عَارِكُمْ، وَ صَلَاحَ أَحْوَالِكُمْ، وَ طَاعَةً للَّـهِ وَ رُسُلِهِ، وَ عِصْمَةً لَكُمْ وَ رَحْمَةً.اس کو بھیجا تاکہ تمہارے لیے رحمت ہو، تمہارے اعمال کی پاکیزگی، زندگی کی آرامش کا باعث بنے اور تمہارے کاموں کے ننگ و عار برطرف ہوجائے، تمہارے حال کی اصلاح، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور تم اور رحمت کی حفاظت کا باعث بنے۔
إِسْمَعُوا لَهُ، وَ رَاعُوا أَمْرَهُ، وَ حَلِّلُوا مَا حَلَّلَ، وَ حَرِّمُوا مَا حَرَّمَ.ان کی بات کو سنو، اور حکم کی اطاعت کرو، جسے اس نے حلال کہا ہے اسے حلال جانو، اور جس چیز کو حرام کہا ہے اسے حرام جانو۔
وَ اعْمَدُوا - رَحِمَكُمُ اللَّـهُ - لِدَوَامِ الْعَمَلِ، وَ ادْحَرُوا الْحِرْصَ وَ اعْدِمُوا الْكَسَلَ. وَ ادْرُوا السَّلَامَةَ، وَ حِرَاسَةَ الْمُلْكِ وَ رَوْعَهَا، وَ هَلَعَ الصّدُورِ وَ حُلُولَ كَلِّهَا وَ هَمِّهَا.اللہ تم پر رحمت کرے! پیوستہ عمل کی کوشش کرو، لالچ کو اپنے سے دور کرو، سستی کو اپنے سے ختم کرو، سلامتی کا راز، حاکمیت کی حفاظت اور رعایت، اور جو دلوں کو تشویش پہنچاتا ہے اور پریشانی اور بےبسبی کا سبب بنتا ہے ان کو پہچان لو۔
هَلَكَ - وَ اللَّـهِ - أَهْلُ الإِصْرَارِ، وَ مَا وَلَدَ وَالِدٌ لِلإِسْرَارِ. كَمْ مُؤَمِّلٍ أَمَّلَ مَا أَهْلَكَهُ! وَ كَمْ مَالٍ وَ سِلَاحٍ أُعِدَّ صَارَ لِلأَعْدَاءِ عَدّ ُهُ وَ عَمَدُهُ!خدا کی قسم جو حرص اور طمع پر اصرار کرتے ہیں وہ ہلاک ہوگیے، کسی بھی باپ کو بیٹا پیدا ہوجائے تو وہ اسے نہیں چھپا سکتا ہے! کتنے آرزو رکھنے والوں کے لیے ان کی آروز ہلاک کا باعث بنی ہو، اور کتنے اسلحے اور مال جو تیار کیا تھا وہ دشمن کے ہوئے ہیں اور وہ اس مال اور اسلحے سے استفادہ نہیں کر سکا ہے۔
اَللَّـهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ وَ دَوَامُهُ، وَ الْمُلْكُ وَ كَمَالُهُ. لاإِلهَ إِلَّا هُوَ، وَسِعَ كُلَّ حِلْمٍ حِلْمُهُ، وَ سَدَّدَ كُلَّ حُکْمٍ حُکْمُهُ، وَ حَدَرَ كُلَّ عِلْمٍ عِلْمُهُ.اے اللہ ہمیشہ تمہارا حمد ہو، کامل بادشاہی تمہارے لیے ہے، تیرے سوا کوئی اللہ نہیں ہے، اس کی بردباری ہر کسی کی بردباری سے زیادہ وسیع اور اس کا حکم ہر کسی کے حکم سے مستحکم اور سچا، اس کا علم ہر صاحب علم کو زیر کرتا ہے۔
عَصَمَكُمْ وَ لَوَّاكُمْ، وَ دَوَامَ السَّلَامَةِ أَوْلَاكُمْ، وَ لِلطَّاعَةِ سَدَّدَكُمْ، وَ لِلإِسْلَامِ هَدَاكُمْ، وَ رَحِمَكُمْ وَ سَمِعَ دُعَاءَكُمْ، وَ طَهَّرَ أَعْمَالَكُمْ، وَ أَصْلَحَ أَحْوَالَكُمْ. اللہ تمہیں خطاوں سے حفاظت کرے اور گناہوں سے دور رکھے، ہمیشہ تمہیں سلامتی عطا کرے، اور اپنی اطاعت میں تمہیں ثابت قدم رکھے، اور اسلام کے احکام کی پیروی کی ہدایت کرے، اپنی رحمت میں ہمیں بھی شامل کرے، تمہاری دعا مستجاب، تمہارے اعمال پاکیزہ اور تمہاری حالات کو نیک قرار دے۔
وَ أَسْأَلُهُ لَكُمْ دَوَامَ السَّلَامَةِ، وَ كَمَالَ السَّعَادَةِ، وَ الآلَاءَ الدَّارَّةِ، وَ الأَحْوَالَ السَّارَّةِ؛ وَ الْحَمْدُ للَّـهِ وَحْدَهُ.ایک بار پھر اس سے تمہارے لیے ہمیشہ کی سلامتی، اور عالیترین سعادت مانگتا ہوں۔ اور اپنی نعمتوں کو تم پر ہمیشہ نازل کرے، تمہاری حالات کو خوشحالی کا باعث بنادے۔ اور حمد صرف اللہ کے لیے ہے۔

مشابہ ایک اور خطبہ

کتاب دو شاہکار علوی

کتاب نہج السعادۃ فی مستدرک نہج البلاغۃ کے مصنف محمدباقر محمودی کے مطابق بعض متأخر منابع میں بغیر نقطہ کے ایک اور خطبہ بھی امام علیؑ سے منسوب کیا جاتا ہے جسے ملافتح اللہ کاشانی نے نہج‌البلاغہ کے ترجمے کے آخر میں ذکر کیا ہے۔[9] محمودی نے اس خطبے کے متن کو کتاب نہج‌السعادہ میں نقل نہیں کیا ہے اور اس کی دلیل معتبر اور قابل اعتماد منبع کا نہ ہونا ذکر کیا ہے۔[10]

احسانی‌ فر کے مطابق ملافتح اللہ کاشانی نے اس خطبے کو نہج البلاغہ کے ترجمہ میں نہیں لایا ہے۔ یہ خطبہ بنی‌ ہاشم کے کسی فرد کی منگنی کے موقع پر ارشاد فرمایا ہے اور دوسروں نے اسے ان کی کتاب میں اضافہ کیا ہے[11]

مونوگرافی

محمد احسانی‌فر لنگرودی کی کتاب "دو شاہکار علوی" بے الف اور بے نقطہ خطبے کی شرح میں فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کا خلاصہ ایک مقالے کی صورت میں "یک کتاب در یک مقالہ (دو شاہکار علوی) پژوہشی دربارہ خطبہ ہای «بی‌الف» و «بی‌نقطہ» امیرالمؤمنین" کے عنوان سے شایع ہوا ہے۔[12]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. عربی زبان 28 حروف پر مشتمل ہے جس میں سے 15 حروف نقطہ والے اور 15 حروف بغیر نقطہ کے ہیں۔

حوالہ جات

  1. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۴۸۔
  2. احسانی‌فر، دو شاہکار علوی، بی‌تا، ص۱۹۔
  3. احسانی‌فر، «یک کتاب در یک مقالہ (دو شاہکار علوی) پژوہشی دربارہ خطبہ ہای «بی‌الف» و «بی‌نقطہ» امیرالمؤمنین»، ص۱۲۰۔
  4. محمودی، محمد باقر، نہج السعادۃ فی مستدرک نہج البلاغۃ، مصحح: آل طالب، عزیز، ج۱، ص۱۰۹ –۱۱۱، انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی‌، تہران، چاپ اول، ۱۳۷۶ش۔
  5. محمودی، نہج‌السعادۃ، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۱۱۱-۱۱۲۔
  6. موسوی، تمام نہج‌البلاغۃ، ۱۳۷۶ش، ص۳۳۵-۳۳۶۔
  7. احسانی‌فر، «یک کتاب در یک مقالہ (دو شاہکار علوی) پژوہشی دربارہ خطبہ ہای «بی‌الف» و «بی‌نقطہ» امیرالمؤمنین»، ص۱۲۶۔
  8. نہج السّعادۃ (در تکمیل و استدراک نہج البلاغہ)، محمد باقر محمودی، چاپ ۱۴۱۸ق: ج۱/ص۱۰۹-۱۱۱، منقول از کتاب “مجموعۃ ادبیۃ”، محمد بن عبد القاہر بن المَوصِلی الشَّہرزُوری؛ اسی طرح کتاب “دو شاہکار علوی”، محمد احسانی فر لنگرودی؛ و کتاب “تمامُ نہجِ البلاغۃ”، سید صادق موسوی، چاپ ۱۴۱۸ق: ص۳۳۵و۳۳۶. تحقیق، تطبیق متن و تصحیح ترجمہ، از سید احمد سجادی، ۲۱ رمضان ۱۴۳۴ق/ مرداد۱۳۹۲
  9. محمودی، نہج السعادہ، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۱۱۳ (پانویس۲)۔
  10. محمودی، نہج‌السعادہ، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۱۱۳ (پانویس ۲)۔
  11. احسانی‌فر، «یک کتاب در یک مقالہ (دو شاہکار علوی) پژوہشی دربارہ خطبہ ہای «بی‌الف» و «بی‌نقطہ» امیرالمؤمنین»، ص۱۲۸۔
  12. احسانی‌فر، «یک کتاب در یک مقالہ (دو شاہکار علوی) پژوہشی دربارہ خطبہ ہای «بی‌الف» و «بی‎نقطہ» امیرالمؤمنین»، ص۱۰۶۔

مآخذ

  • ابن‌شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل‌ابی‌طالب علیہم‌السلام، قم، علامہ، ۱۳۷۹ق.
  • احسانی‌فر لنگرودی، محمد، «یک کتاب در یک مقالہ (دو شاہکار علوی) پژوہشی دربارہ خطبہ‌ہای بی‌الف و بی‌نقطہ امیرالمؤمنین»، علوم حدیث، شمارہ ۲۹، پاییز ۱۳۸۲ش۔
  • احسانی‌فر لنگرودی، محمد، دوشاہکار علوی، بی‌جا، بی‌تا۔
  • محمودی، محمدباقر، نہج السعادۃ فی مستدرک نہج البلاغۃ، تصحیح عزیز آل‌طالب، تہران، انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۶ش۔
  • موسوی، سیدصادق، تمام نہج‌البلاغہ، تصحیح عساف محمد و فرید سید، مشہد، مؤسسۃ الامام صاحب الزمان(عج)، ۱۳۷۶ش۔