غسل

ویکی شیعہ سے

غُسل اسلامی تعلیمات میں ایک عبادت ہے جس کے معنی سر، اور سارے بدن کو ایک مخصوص طریقے کے مطابق دھونا ہے۔ اس کی دو اقسام واجب اور مستحب ہیں۔ جنابت، میت، مَسِ میت، غسل حیض، نفاس اور استحاضہ کے غسل واجب غسل ہیں۔ مستحب غسل کی کئی اقسام ہیں جیسے غسل جمعہ، عید فطر، عید قربان، .... وغیرہ ہیں۔ یہ تمام غسل ترتیبی یا ارتماسی صورت میں انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ غسل جنابت کے بعد وضو کے بغیر نماز پڑھی جا سکتی ہے لیکن دوسرے غسلوں میں مجتہدین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے ۔

اجمالی تعارف

لغوی اعتبار سے غَسَل مصدر ہے اور اس کا لغوی معنی دھونا ہے۔ غُسْل اسم مصدر ہے۔[1] فقہ کی اصطلاح میں شریعت کے بتائے گئے طریقے کے مطابق تقرب الہی کیلئے انجام دینا غسل کہلاتا ہے۔ کسی بھی طرح سے پانی کو جسم کے سارے حصے تک پہچانا لازمی ہے لہذا ہاتھ کھینچنا ضروری نہیں ہے۔ اس کی تفصیل مراجع عظام کی توضیح المسائل میں بیان ہوئی ہے۔ قرآن کریم کی سورہ مائدہ کی چھٹی آیت وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا(ترجمہ:اگر تم جنب کی حالت میں تو اپنے کو پاک کرو۔)اور نساء کی 43ویں آیت وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا (ترجمہ: .... جنب کی حالت میں بھی نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم غسل کر لو مگر یہ کہ تم راستے سے گزر رہے ہو ...) میں اسے بیان کیا گیا ہے نیز احادیث کی کتب میں 2400 کے لگ بھگ احادیث اس کے بارے میں بیان ہوئی ہیں۔ غسل کے آثار میں سے ایک اثر پاک ہونا، طراوت روح اور اس کا خدا کی نزدیکی اور عبادت کیلئے تیار ہونا ہے۔

واجب غسل

شیعہ فقہ میں درج ذیل واجب غسلوں کی تعداد سات یا چھ بیان ہوئی ہے:

اکثر فقہا کے نزدیک یہ غسل واجب نہیں ہیں بلکہ کسی دوسری ایسی عبادت کو انجام دینے کیلئے واجب ہو جاتے ہیں جن میں طہارت کا ہونا ضروری ہوتا ہے ؛ جیسے روزانہ کی واجب نمازیں۔ اسے واجب غیری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔[3]

مستحبی غسل

مستحبی غسلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی تعداد بعض نے 47،50،87،100 تک ذکر کی ہے۔ ان میں سے اہم ترین یہ ہیں:

  • غسل جمعہ
  • غسل زیارت
  • رمضان کی راتوں کے غسل
  • عید فطر
  • عید قربان ... [4]

غسل کرنے کا طریقہ

غسل انجام دینے کے دو طریقے غسل ترتیبی اور غسل ارتماسی بیان ہوئے ہیں:

غسل ترتیبی

غسل کی نیت سے پہلے سر اور گردن ،پھر جسم کا دایاں حصہ اور پھر جسم کا بایاں حصہ دھویا جاتا ہے ۔بعض فقہاء نے اس ترتیب پر اجماع ِعلماء کا ادعا کیا ہے جبکہ بعض فقہاء سر اور گردن کے بدن دھونے میں ترتیب کے وجوب کے قائل نہیں ہیں ۔[5]

نیز اعضاء کے درمیان ترتیب واقعی مراد ہے پس اگر کوئی مسئلہ نہ جاننے یابھول کر یا خلاف ترتیب مذکور غسل انجام دیتا ہے تو اسکا غسل باطل ہو گا ۔[6]اکثر فقہاء کے نزدیک ترتیب میں اوپر سے نیچے کی جانب دھونا واجب نہیں ہے جیسا مولات میں اعضاء کو پی در پی دھونا اور اعضاء کے درمیان اس حد فاصلہ زمانی ڈالنا کہ وہ خشک ہو جائیں ضروری نہیں ہے ۔[7] مستحب ہے غسل کے وقت تین لیٹر سے زیادہ پانی استعمال نہ کیا جائے ۔[8] اسکے بر خلاف بعض افراد اپنے وسوں کی بنا پر زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں ان وسوسوں سے نجات کیلئے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے وسوسے پر کوئی دھیان نہ دے۔

غسل ارتماسی

ارتماسی سے مراد (غسل کی نیت سے) اپنے جسم کو ایک ہی دفعہ پانی کے نیچے لے جانا ہے۔[9]بعض مراجع کے مطابق اگر کوئی شخص پانی کے نیچے جا کر غسل کی نیت کرے تو یہ غسل کافی نہیں ہے[10]

واجبات غسل

وہ چیزیں جن پر غسل کا صحیح ہونا موقوف ہے:

  • نیت یعنی تقرب الہی کی نیت سے اسے انجام دے اگر اسے قصد قربت کے بغیر انجام دیا تو یہ غسل باطل ہے ۔[11]
  • آخر تک اس نیت پر باقی رہنا[12]
  • سارے بدن کو اس طرح دھونا کہ لوگوں کے نزدیک دھونا کہا جاتا ہو ۔بعض کی تصریح کے مطابق جلد پر پانی کا جاری ہونا چاہے وہ ہاتھ یا اس کی مانند کسی چیز سے انجام پائے ۔[13]
  • باطن بدن کا دھوناجیسے آنکھوں کا اندرونی حصہ ،ناک ،منہ ، کان کا وہ اندرونی حصہ جو نظر نہ آتا ہو نیز معمول کے مطابق بڑھے ہوئے ناخنوں کا نچلا حصہ دھونا واجب نہیں ہے ۔ [14]
  • جسم کے وہ ظاہری حصے جو عام طور نظر آتے ہیں لیکن ان تک پانی نہیں پہنچتا ہے ان حصوں تک پانی پہنچانا واجب ہے ۔[15]
  • غسل کرنے والا اپنے آپ کو غسل دے ۔[16]
  • غسل کے وقت بدن کا پاک ہونا ۔[17]
  • غسل کرنے کا پانی مطلق، پاک اور مباح ہو اس بنا پر مضاف پانی ،نجس یا غصبی پانی سے غسل باطل ہے ۔[18]

غسل کے مبطلات

جو چیز بھی وضو کے بطلان کا باعث بنتی ہے وہ غسل کے بطلان کا بھی باعث ہے البتہ غسل کے بعد حدث اصغر جیسے پیشاب کرنا یا معدے سے ہوا کا خارج ہونا نئے غسل کا موجب نہیں بنتا ہے نماز یا دوسری عبادتوں کیلئے صرف وضو ہی کافی ہے ہو گا ۔

لیکن اثناء غسل میں ان امور کے سر زد ہونے کی صورت میں بعض فقہاء غسل کو باطل کہتے ہیں اور نئے سرے سے غسل کے انجام کے قائل ہیں نیز طہارت کے ہمراہ کی جانے والی عبادتوں میں وضو بھی کرے گا ۔

غسل کا وضو کی جگہ کافی ہونا

تمام فقہاء کی نگاہ میں غسل جنابت کو وضو کی جگہ کافی سمجھتے ہیں بلکہ مشہور فقہاء صرف غسل جنابت کے بعد وضو کے استحباب کے ہی قائل نہیں بلکہ ان کی نگاہ میں بدعت کی وجہ سے یہ وضو حرام ہے ۔

باقی غسلوں کے وضو کی جگہ کافی ہونے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے ۔ مشہور ان کے کافی ہونے کے قائل نہیں ہیں لہذا شخص کو غسل سے پہلے یا بعد میں وضو کرنا چاہئے ۔[19]

چند غسلوں کی جگہ ایک غسل کا کافی ہونا

کسی کے ذمے چند واجب غسل ہوں تو وہ ان سب کو جدا جدا ادا کرنے کی بجائے ایک غسل کو ان تمام غسلوں کی نیت کے ساتھ انجام دے ۔

اگر ان غسلوں میں ایک غسل جنابت ہو تو اکثر فقہاء کے نزدیک غسل جنابت کی نیت سے ایک غسل ان سب کی جگہ کفایت کرتا ہے اور دوسرے غسل انجام دینے کی ضرورت نہیں ہے اگرچہ ان میں کچھ واجب کچھ مستحب ہی ہوں [20] البتہ فقہاء کی ایک تعداد اس ایک غسل کے مستند کو کافی نہیں سمجھتی ہے ۔

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ج 11 ص 495۔ابن فارس ، مقاییس اللغۃ، ج 4 ص 424 ۔
  2. جواہر الکلام ج 3 ص2؛ العروة الوثقی ج 1 ص 466؛
  3. سید محسن الحکیم، مستمسک العروة الوثقی ج 1 ص 466؛ ۔
  4. یزدی ،العروة الوثقی ج 2 ص 186؛ ۔
  5. نراقی ، مستند الشیعہ ج2 ص325؛خوئی،کتاب الصلاۃ ج5 ص465۔
  6. یزدی ، العروۃ الوثقیٰ ج 1 ص 523۔
  7. یزدی ، العروۃ الوثقیٰ ج 1 ص 523۔خوئی،کتاب الصلاۃ ج5 ص577
  8. العروۃ الوثقیٰ ج 1 ص 542۔ نراقی ،مستند الشیعہ ج2 ص 331
  9. یزدی العروۃ الوثقیٰ ج 1 ص 525۔
  10. ہمدانی، مصباح الفقیہ ج1 ص 248۔خوئی ،کتاب الصلاہ ج 5 ص483
  11. جواہر ، جواہر الکلام ج3 ص 78۔
  12. جواہر ، جواہر الکلام ج3 ص 79۔
  13. الحدائق الناظرۃ ج 3 ص 87۔
  14. الحدائق الناظرۃ ج 3 صص 91،92۔
  15. جواہر ، جواہر الکلام ج3 ص 80۔
  16. الحدائق الناظرۃ ج 3 ص 95۔
  17. اس کے علاوہ دیگر اقوال موجود ہیں ان کی تفصیل جاننے کیلئے دیکھیں :جواہر الکلام ۳ / ۱۰۱ ۱۰۲؛ العروة الوثقی ۱/ ۴۹۹؛ مصباح الہدی ۴/ ۲۴۴
  18. العروۃ الوثقیٰ ج1 ص 504۔
  19. النہایہ/ ۲۳؛ غنیة النزوع/ ۶۲؛ المختصر النافع/ ۹؛ تحریر الاحکام ۱/ ۹۴؛ مختلف الشیعہ ۱/ ۳۳۹ ۳۴۰؛ مدارک الاحکام ۱ / ۳۵۷ ۳۶۱؛ الحدائق الناضرة ۳/ ۱۱۹؛ العروة الوثقی ۱ / ۴۹۷، ۵۱۹ و ۲ / ۲۳۱
  20. مستند الشیعہ ۲/ ۳۶۷ ۳۷۱؛ جواہر الکلام ۲/ ۱۱۴ ۱۳۷؛ العروة الوثقی ۱/ ۵۲۲ ۵۲۵؛ مستمسک العروة ۳/ ۱۳۷ ۱۴۰.