عثمان بن مظعون

ویکی شیعہ سے
عثمان بن مظعون
کوائف
مکمل نامعثمان بن مظعون بن حبیب بن وہب جُمَحی
کنیتابو سائب
محل زندگیمکہ، حبشہ، مدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
اقاربعبد اللہ بن مظعون (صحابی)،زینب بنت مظعون زوجۂ عمر بن خطاب
مدفنبقیع (مدینہ)
دینی معلومات
اسلام لانامکہ میں اسلام قبول کیا
قبول اسلام کی کیفیتابو عبیده اور ارقم بن ابی ارقم کے ساتھ اسلام قبول کیا
جنگوں میں شرکتجنگ بدر
ہجرتحبشہ، مدینہ
وجہ شہرتصحابی


عثمان بن مظعون (متوفی سنہ 2 ہجریصحابہ اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے۔ وہ اپنے بھائی عبد اللہ اور بیٹے سائب کے ہمراہ حبشہ کی طرف اور پھر مدینہ ہجرت کرنے والوں میں سے ہیں۔ جنگ بدر میں شریک ہوئے۔ وہ ایک عبادت گزار شخص تھے اور رسول خدا و حضرت علی کے مورد توجہ تھے۔ امام علی نے ان کی یاد میں اپنے ایک ییٹے کا نام عثمان رکھا۔

مہاجرین میں سے پہلے مہاجر ہیں جو قبرستان بقیع میں دفن ہوئے۔ پیغمبر نے ان کی قبر کو پتھر رکھ کر مشخص کیا اور آپ ان کی زیارت کیلئے جاتے تھے۔ رسول اکرم (ص) نے اپنے بچوں ابراہیم، رقیہ اور زینب کو ان کے پاس دفن کیا۔

مقام و منزلت و خانوادہ

عثمان بن مظعون بزرگ صحابہ میں سے عابد شخص تھے۔ دن میں روزہ رکھتے اور رات عبادت الہی میں مشغول رہتے۔[1] پیغمبر اکرم (ص) نے عثمان بن مظعون کی قبر کے کنارے اپنے فرزند ابراہیم، زینب اور رقیہ کے دفن کے بعد فرمایا: یہ سلف صالح عثمان بن مظعون کے ساتھ ملحق ہو گئے ہیں۔[2]

عثمان امیرالمؤمنین علی (ع) کے نزدیک خاص اہمیت رکھتے تھے۔ حضرت علی انہیں اپنا بھائی کہتے تھے اسی وجہ سے انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام عثمان رکھا۔[3] جس کا نام زیارت ناحیہ مقدسہ میں یوں آیا ہے:

«اَلسَّلَامُ عَلَی عُثْمَانَ بْنِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ سَمِیِّ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ»[4]
(عثمان بن مظعون کے ہمنام عثمان بن علی امیر المؤمنین پر سلام ہو)

ان کے والد کا نام مظعون بن حبیب بن وہب جُمَحی اور والدہ کا نام سخیلہ بنت عنبس بن اہبان بن حذافہ بن جمح تھا۔[5]

ان کی کنیت ابو سائب تھی۔ بیوی کا نام ام حکیم، خولہ بنت حکیم انصاری تھا۔[6] خولہ نے حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد رسول خدا(ص) کو عائشہ و سوده سے شادی کی تجویز دی۔[7] خولہ نے بعد میں خود کو رسول اللہ کو بخش دیا[8] عبد الرحمان[9] و سائب[10] ان کی اولاد ہیں۔

ان کی بہن زینب زوجۂ عمر بن خطاب تھیں۔ اس لحاظ سے، عبداللہ بن عمر، حفصہ، اور عبدالرحمان بن عمر ان کی بہن کی اولاد ہیں۔[11]

اسلام لانا

عثمان بن مظعون نے جاہلیت میں شراب اپنے اوپر حرام کی تھی۔[12] انہوں نے ابو عبیده اور ارقم بن ابی ارقم کے ہمراہ پیغمبر (ص) کے پاس اسلام قبول کیا۔[13] دوسری صدی ہجری کے مورخ ابن اسحاق ان کے اسلام لانے کو تیرہ افراد کے بعد سمجھتے ہیں۔[14]

ہجرت حبشہ و مدینہ

عثمان حبشہ اور مدینہ کے مہاجرین میں سے ہے۔ مدینے ہجرت کے بعد پیغمبر (ص) نے ان کے اور ابن تیہان کے درمیان عقد اخوت باندھا۔[15] اسی طرح پیغمبر اکرم نے ان کے اور شہدائے احد میں سے عباس بن عباده کے درمیان عقد اخوت پڑھا۔[16]

اہل سنت عثمان بن مظعون کو حمزه بن عبدالمطلب، جعفر بن ابی طالب، علی(ع) جیسے پیغمبر اکرم (ص) کے بارہ حواریوں میں سے قرار دیتے ہیں۔[17]

عثمان نے اپنے بیٹے سائب[18] اور بھائی عبدالله[19] کے ہمراہ حبشہ اور مدینہ ہجرت کی نیز جنگ بدر میں شریک رہے،[20] سائب تیس سال کی زندگی گزار کر جنگ یمامہ شہید ہوئے۔[21] عثمان نے ہجرت حبشہ کے متعلق اشعار بھی کہے ہیں۔[22] حبشہ سے واپسی کے موقع پر ولید بن مغیره کی پناہ میں مکہ آئے لیکن جب دیکھا کہ دوسرے مسلمان سخت زندگی گزار رہے ہیں تو اپنے پناہ دینے والے سے تقاضا کیا کہ وہ اپنی پناہ و امان اٹھا لے تا کہ دوسرے مسلمانوں کی طرح انہیں بھی شکنجہ دیا جائے۔ وہ شکنجہ ہونے کے بعد اظہار خوشی کرتے تھے۔[23]

وفات

عثمان بن مظعون پہلے مہاجر ہیں جو ہجرت کے دوسرے سال (رسول اللہ کے مدینے میں وارد ہونے کے 22 ماه بعد) مدینہ میں فوت ہو کر بقیع میں مدفون ہوئے۔[24] ابن عبدالبر کے مطابق کچھ لوگ اس کی وفات رسول کے مدینے میں ۳۰ ماه گزارنے اور جنگ بدر کے بعد کہتے ہیں ۔[25]

مہاجرین و انصار کے درمیان بقیع میں سب سے پہلے دفن ہونے والے شخص کے متعلق اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ انصار بقیع میں پہلا مدفون اسعد بن زراره کو کہتے ہیں کہ جس نے دو بیعتیں کی تھیں اور ان کی وفات غزوہ بدر سے پہلے سمجھتے ہیں[26] جبکہ مہاجرین عثمان بن مظعون کو بقیع میں پہلا مدفون سمجھتے ہیں۔[27]

پیغمبر اکرم نے ان کی وفات کے بعد ان کی پیشانی کا بوسہ لے کر فرمایا: ہمارے سلف عثمان بن مظعون کیا خوب پیشرو ہیں۔[28]

بقیع میں دفن و تعمیر مزار

عثمان بن مظعون بقیع کے درمیانی حصے میں دفن ہوئے۔ ابن اثیر نے کہا: پیامبر نے ان کے مقام دفن کی جگہ پتھر رکھ کر اسے مشخص کیا اور آپ ان کی زیارت کیا کرتے تھے۔[29] مدت تک یہ پتھر ان کی قبر پر رہا یہانتک کہ حکومت معاویہ کے دستور پر اسے اٹھا[30] کر اسے عثمان بن عفان کی قبر پر جو بعد میں بقیع کا حصہ بن گئی تھی، رکھ دیا گیا۔[31]

دیگر بزرگ افراد بھی عثمان بن مظعون کی قبر کے پاس مدفون ہیں۔ متاخر منابع میں ان کی قبر پر گنبد اور ضریح کی موجودگی کی خبر مذکور ہے لیکن اس بنا کی تعمیر کا زمانہ اور اس کے بانی کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے۔ بعض محققین اس ضریح کی دوسرے ائمہ اور رسول اکرم کے چچا عباس بن عبد المطلب کی قبروں پر موجود ضریحوں سے مشابہت کی وجہ سے مجد الملک براوستانی (متوفا 492.493 ھ) کی طرف بنائے جانے کی نسبت دیتے ہیں جو ایران کے بادشاہ سلطان برکیارق سلجوقی (حکومت: 486.498 ھ) کا وزیر تھا۔[32] ابن جبیر نے اس ضریح کی توصیف میں کہا: یہ لکڑی کی بنی ہوئی تھی جس پر عمدہ نقش و نگار کڑھے ہوئے تھے نیز اس پر میخوں کا نہایت خوبصورت کام کیا گیا تھا جو دیکھنے میں نہایت زیبا تھا۔[33] یہ ضریح جالی نما تھی جس کا دروازہ قبلہ کی سمت کھلتا تھا۔[34] مطری نے بھی مرقد ابراہیم کے ذکر کے ساتھ اس جالی دار ضریح کا ذکر کیا کہ جس کا دروازہ قبلہ کی سمت کھلتا تھا۔ [35]

اس مزار پر بنایا گیا گنبد سفید رنگ کا تھا[36] تاریخی روایات کے مطابق اس کی تاریخ تعمیر رفعت پاشا کے 1325 ھ [37] کی طرف لوٹتی ہے اور یہ گنبد آل سعود کی بقیع کو پہلی مرتبہ مسمار کرنے کے موقع پر موجود تھا۔ بقیع کی یہ پہلی مسماریت آل سعود کے ہاتھوں سنہ 1220 ہجری میں ہوئی تھی۔[38]

حوالہ جات

  1. اسد الغابہ، ج۳، ص۴۹۵
  2. ابن ‌عبد البر، الإستیعاب فی معرفة الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۵۴؛ کافی، ج۳، ص۲۴۱؛ ابن‌اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۴۹۶؛ ابن‌ حجر عسقلانی، الإصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۸۲.
  3. اصفہانی، أبو الفرج، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۲۳
  4. اقبال، ص۵۷۴؛ بحار الانوار، ج۹۸، ص۲۶۹، ج۴۵، ص۶۵
  5. الاستیعاب، ج۳، ص۱۰۵۳؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۴۹۴
  6. اسد الغابہ، ج۶، ص۹۳، ج۶، ص۳۲۲
  7. طبری، ج۳، ص۱۶۲
  8. اسد الغابہ، ج۶، ص۹۴
  9. اسد الغابہ، ج۳، ص۳۶۹
  10. اسد الغابہ، ج۳، ص۴۹۴؛ الاصابہ، ج۳، ص۲۱
  11. اسد الغابہ، ج۳، ص۳۷۳؛ ج۶، ص۱۳۴
  12. الاستیعاب، ج۲، ص۸۱۹؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ج۱، ص۲۵۳
  13. ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۱، ص۲۵۲ـ۲۵۳؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۳۹۳؛ الاصابہ، ج۳، ص۴۷۵
  14. سیره ابن ہشام، ج۱، ص۲۵۳؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۴۹۴؛ الاصابہ، ج۴، ص۳۸۱
  15. ابن حبیب، ص۷۴؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۲۷۱؛ ذہبی، ج۱، ص۱۹۰
  16. اسد الغابہ، ج۳، ص۶۰
  17. الاستیعاب، ج۲، ص۵۱۳؛ بغدادی، المنمق، ص۴۲۳؛ بسوی، المعرفۃ و التاریخ، ج۲، ص۵۳۵ و ۵۳۶
  18. اسد الغابہ، ج۲، ص۱۶۶، ج۳، ص۴۹۴
  19. اسد الغابہ، ج۳، ص۲۹۰
  20. الاستیعاب، ج۳، ص۱۰۵۳
  21. اسد الغابہ، ج۲، ص۱۶۶
  22. سیره ابن ہشام، ج۱، ص۳۳۳
  23. بیهقی، دلائل النبوة، ۱۳۶۱ش، ج‌۲، ص۴۹؛ ابن‌ هشام، السیرة النبویہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۳۳۳.
  24. الاستیعاب، ج۳، ص۱۰۵۳؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۴۹۵؛ الاصابہ، ج۴، ص۳۸۲
  25. الاستیعاب، ج۳، ص۱۰۵۳
  26. الاستیعاب، ج۱، ص۸۱
  27. الاستیعاب، ج۱، ص۸۱؛ الاصابہ، ج۱، ص۲۰۹
  28. الاستیعاب، ج۳، ص۱۰۵۳؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۴۹۶
  29. اسد الغابہ، ج۳، ص۴۹۶؛ نہروانی، ج۱، ص۱۰۲؛ ابن ماجہ، ج۱، ص۴۹۸
  30. نہروانی، ج۱، ص۱۰۲؛ سمہودی، ج۳، ص۸۴؛ ابن نجار، ص۱۶۸
  31. سمہودی، ج۳، ص۸۴
  32. محسن امین، اعیان الشیعہ، ج۳، ص۲۹۹؛ نجمی، ص۱۹۳
  33. ابن جبیر، ص۱۷۴.
  34. ابن جبیر، ص۱۷۴
  35. مطری، ص۱۱۹-۱۲۰
  36. ابن جبیر، ص۱۷۳-۱۷۴؛ ابن بطوطہ، ص۱۱۹
  37. رفعت پاشا، ج۱، ص۴۲۶
  38. عثمان بن عبداللہ بن بشر، ص۱۰۴؛ الماجری، ص۸۴

مآخذ

  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلا، شعیب ارنؤوط و حسین اسد، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۶ء
  • بلاذری، احمد، الانساب الاشراف، ج۱، محمد حمید الله، قاهره، ۱۹۵۹م، ج۲، به کوشش محمد باقر محمودی، بیروت، ۱۳۹۴ق/۱۹۷۴ء
  • ابن اثیر، علی بن محمد، أسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ء
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبد الله بن محمد، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ء
  • ابن حبیب، محمد، المحبر، بہ کوشش ایلزه لیشتن اشتتر، حیدرآباد دکن، ۱۳۶۱ق/۱۹۴۲ء
  • سمہودی، وفاء الوفاء، محمد عبدالحمید، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۲۰۰۶ء
  • مطری، محمد، التعریف بما آنست الہجره، بہ کوشش الرحیلی، ریاض، دارالملک عبدالعزیز، ۱۴۲۶ھ
  • بغدادی، محمد بن حبیب، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق خورشید احمد فاروق، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵ء
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق: عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ء
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ھ
  • ابن طاووس، سید علی بن موسی، إقبال الأعمال، دارالکتب الإسلامیہ تہران، ۱۳۶۷ھ
  • السیرة النبویہ، عبد الملک بن ہشام الحمیری المعافری، تحقیق مصطفی السقا و ابراهیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ء
  • بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوة، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۶۱ش.