جنگ موتہ

ویکی شیعہ سے

جنگ موتہ، صدر اسلام کے بڑے سریوں میں سے ہے جو سنہ آٹھویں ہجری میں لشکر اسلام اور لشکر روم کے درمیان رونما ہوئی ہے۔

اس جنگ میں لشکر اسلام کی سپہ سالاری، جعفر بن ابی طالب، زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ کے کندہوں پر تھی اور تینوں سالار شہید ہو گئے۔ مسلمان اپنے تینوں سالاروں کی شہادت اور لشکر روم کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے، خالد بن ولید کے کہنے پر واپس مدینے لوٹ آئے۔

محل وقوع

موتہ، بلقاء جو شام کے بارڈر پر واقع ہے اس کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات ہے. [1] یہ دیہات بلقاء کے پیچھے، اور بلقاء دمشق کے پیچھے واقع ہے [2] اور یہ "کرک" کا ایک دیہات ہے اور کیونکہ کرک کا پہلا دیہات مؤاب ہے، اس لئے موتہ، مؤاب کا حصہ ہے.

جنگ کی وجہ

واقدی جنگ کی وجہ کے متعلق روایت کرتا ہے: رسول خدا(ص) نے حارث بن عمیر ازدی لہبی کے ہاتھوں بصری کے بادشاہ کو خط بھیجا. [3] وہ جب راستے میں موتہ کے مقام پر پہنچا، تو شرجیل بن عمروغسانی [4] جو کہ وہاں کا حاکم تھا، نے حارث کا راستہ روک لیا، کیونکہ اسے گمان تھا کہ یہ رسول خدا(ص) کے طرف سے بھیجا گیا ہے. اس لئے اس سے پوچھا: گویا تمہیں محمد نے بھیجا ہے؟ حارث نے کہا: جی مجھے رسول خدا(ص) نے ہی بھیجا ہے. شرجیل نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیں. اور یہ پیغام لے جانے والا پہلا شخص تھا جسے قتل کیا گیا اس سے پہلے کبھی کسی پیغام لے جانے والے کو قتل نہیں کیا گیا تھا.

رسول خدا(ص) کو اس خبر کی اطلاع ملی تو آپ(ص) بہت غمگین ہوئے اور لوگوں کو اکٹھا کیا. گویا کہ انہیں کہا تھا کہ لشکر گاہ میں جمع ہوں اور وہ وہاں سے خارج ہو گئے اور "جرف" کے مقام پر خیمے لگا لئے حالانکہ ان کے لئے کوئی سپاہ سالار معین نہیں کیا گیا تھا.

سپاہ سالاروں کا تعیین

جب پیغمبر اکرم(ص) نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو اپنی جگہ پر بیٹھ گئے، اور آپ(ص) کے اصحاب بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے. [5] ابان بن عثمان احمری کی روایت جو اس نے امام صادق(ع) سے نقل کی ہے، اس میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے جعفر بن ابی طالب، اس کے بعد زید بن حارثہ کلبی اور اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ کو سپاہ سالاری کے منتخب کیا [6]اور فرمایا کہ اگر عبداللہ بن رواحہ کو بھی نقصان پہنچ جائے تو، مسلمان خود اپنے لئے سپاہ سالار انتخاب کر لیں... اس کے بعد رسول خدا(ص) نے ان لوگوں کے لئے، جن کی تعداد تین ہزار تھی سفید پرچم باندھا.

پیغمبر اکرم(ص) کا خطاب

جب وہ جانے کے لئے تیار ہوئے، تو لوگ خداحافظی کے لئے ان کے ساتھ نکلے اور ان کے حق میں دعا کی اور رسول اکرم(ص) نے خطاب فرمایا:"میں آپ کو، جو مسلمان آپ کے ہمراہ ہیں ان کے حق میں تقویٰ، خیر اور نیکی کی وصیت کرتا ہوں...خدا کے نام اور خدا کی راہ میں حرکت کریں اور جو خدا سے کفر رکھتا ہے اس کے ساتھ جنگ کریں اور پیمان شکنی اور خیانت نہ کریں اور بچوں کو قتل نہ کریں. اور جب دشمنوں کے سامنے جاؤ تو، انہیں درج ذیل امور میں سے کسی ایک کی دعوت دو، اور اگر انہوں نے کسی ایک کا بھی جواب دیا تو اسے قبول کر لینا اور انہیں چھوڑ دینا.

انہیں اسلام کی دعوت دینا اور اگر انہوں نے قبول کر لی تو انہیں رہا کر دینا. اس کے بعد انہیں دعوت دینا کہ کہ دار المہاجرین (مدینہ اور اس کے اطراف) ہجرت کریں، اگر قبول کر لیا، تو سمجھو مہاجرین کے نفع و نقصان میں شریک ہیں، لیکن اگر اسلام کو قبول کر لیا اور وہی اپنے گھروں میں رہ گئے تو انہیں اطلاع دینا کہ دوسرے مسلمان عربوں کی طرح ہیں اور خدا کا حکم ان پر جاری ہوتا ہے اور مال غنیمت میں سے کچھ بھی انہیں نہیں ملے گا، مگر یہ کہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں.

اگر اسے قبول نہ کیا، تو انہیں جزیہ ادا کرنے کی دعوت دینا، اسے قبول کر لیں تو انہیں رہا کر دینا. اور اگر اسے بھی قبول نہ کیا تو خدا سے مدد مانگنا اور ان کے ساتھ جنگ کرنا اور اگر کسی قلعہ یا شہر کا محاصرہ کر لیا اور انہوں نے درخواست کی کہ خدا کے حکم کے مطابق ان کے ساتھ عمل کرو، تو اسے قبول نہ کرنا بلکہ اپنے طریقے سے انہیں پناہ دینا، کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ ان کے بارے میں خدا کا کیا حکم ہے.

اور اگر کسی قلعہ یا شہر کو محاصرہ کیا اور انہوں نے درخواست کی ہم اللہ اور اس کے رسول کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں تو یہ قبول نہ کرنا بلکہ انہیں اپنے، اپنے والد اور اپنے اصحاب کے ذمے قرار دینا، کیونکہ اگر تمہارے اور تمہارے والدین کے ذمے کو توڑ دیں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ خدا اور اس کے رسول(ص) کے ذمے کو توڑیں." [7]

اس کے بعد رسول خدا(ص)"ثینۃ" تک لشکر اسلام [8] کے ہمراہ گئے اور وہاں پر کھڑے ہوئے اور لشکر والے آپ(ص) کے ارد گرد کھڑے ہوئے اور آپ(ص) نے خطاب فرمایا: "اللہ تعالیٰ کا نام لے کر حرکت کرو اور شام اپنے اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرو. وہاں پر کچھ ایسے افراد کو دیکھو گے جو اپنی عبادت گاہوں میں، کھڑے عبادت کر رہے ہوں گے، ان کے مزاحم نہ ہونا اور کچھ افراد کو دیکھو گے جن کے سر شیطان کی کمین گاہ ہیں، ایسے سروں کو تلوار کی مدد سے بدن سے جدا کر دینا... عورتوں، بچوں اور بوڑے مردوں کو قتل نہ کرنا اور کجھوروں کو آگ نہ لگانا اور درختوں کو نہ کاٹنا اور گھروں کو خراب نہ کرنا."

پیغمبر اکرم(ص) کی خاص سفارشیں

جب عبداللہ بن رواحہ نے رسول خدا(ص) کو خداحافظی کر لی، تو عرض کی:اے رسول خدا(ص)، مجھے کوئی سفارش کریں تا کہ اسے یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھوں. آپ(ص) نے اسے فرمایا: "تم عنقریب ایسی زمین میں داخل ہو جاؤ گے جہاں سجدے بہت کم ہیں، پس اپنے سجدوں کو زیادہ کرنا" اس کے بعد خاموش ہو گئے.

عبداللہ نے کہا: اے رسول خدا(ص) اور بھی کچھ فرمائیں. آپ(ص) نے فرمایا: "ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا کیونکہ وہ ہر کام میں تمہارا یاور (ساتھی) ہے".

عبداللہ چلا گیا، لیکن دوبارہ واپس لوٹ کر آیا اور عرض کی: اے رسول خدا! اللہ تعالیٰ طاق ہے، اور طاق کو دوست رکھتا ہے، اس لئے اپنی تیسری سفارش بھی فرما دیں.

آپ(ص) نے فرمایا: "اے رواحہ کے بیٹے! اگر ہر چیز سے عاجز ہو، تو ایک چیز سے عاجز نہ ہونا اور وہ یہ کہ اگر دس برائیاں انجام دیں تو ایک نیکی بھی ضرور انجام دینا".

ابن رواحہ نے کہا: اس کے بعد، آپ(ص) سے کوئی اور سوال نہیں کروں گا پھر چلا گیا.

شام کے سفر کے دوران

مسلمان مدینہ سے خارج ہوئے اور وادی القری میں پہنچ گئے. دشمن ان کے مسیر سے آگاہ ہو گئے. موتہ کا حاکم، شرجیل بن عمرو غسانی ازدی، حارث بن عمیر ازدی لہبی کے قاتل نے اپنے بھائی سدوس کی سپاہ سالاری میں لشکر کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لئے روانہ کیا. سدوس قتل ہو گیا پھر اس نے اپنے دوسرے بھائی وبر بن عمرو کو مقابلے کے لئے بھیجا. وہ ڈر گیا اور قلعہ میں پناہ لے لی، مسلمان آگے بڑھ گئے اور معان [9] جو کہ شام کی سر زمین ہے [10] وہاں پر خیمے لگا لئے.

ابان بن عثمان کی کتاب میں بیان ہوا ہے: کفار کی بہت بڑی تعداد جن کا تعلق لخم، جذام، بلی، قضاعہ، عرب، اور عجم سے تھا اور اکٹھے جمع ہوئے تھے، مسلمان ان سے باخبر ہو گئے. کافروں نے مشارف [11] کے علاقے کی طرف حرکت کی اور ان کا سپاہ سالار مالک بن زافلہ تھا جس کا تعلق بلی قبیلے سے تھا.

جب مسلمان کافروں کی محل سکونت کے بارے میں آگاہ ہو گئے، تو دو رات معان میں اقامت کی تا کہ کوئی راہ چارہ ڈھونڈیں. بعض نے کہا کہ رسول خدا(ص) کو خط لکھیں اور آپ(ص) کو کافروں کی تعداد کے بارے میں آگاہ کریں تا کہ کچھ مدد بھیجیں یا کوئی اور فرمان دیں. لیکن عبداللہ بن رواحہ نے لوگوں کو حوصلہ دیا اور کہا: "خدا کی قسم! جس چیز کا خوف رکھتے ہو، وہی چیز ہے جس کی خاطر گھر سے نکلے ہو اور اس کی طلب رکھتے ہو (شہادت). ہم لوگوں کی زیادہ تعداد اور جنگ کے زیادہ وسائل سے جنگ نہیں کرتے، بلکہ اس دین کی خاطر جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں شامل ہونے کا شرف دیا ہے اس کی خاطر جنگ کرنے آئے ہیں. دشمن کی طرف نکلو کہ دو خوبیوں میں سے کسی ایک تک پہنچ جاؤ گے: یا فتح ملے گی یا شہادت" لشکر والوں نے کہا: ابن رواحہ صحیح کہہ رہا ہے. [12]

مسلمانوں نے حرکت کی اور بلقاء کے آخر تک، مشارف دیہات کے نزدیک پہنچ گئے. وہاں پر ہرقل کا لشکر جس میں رومی اور عرب شامل تھے مستقر ہو چکے تھے. مسلمان وہاں سے بلقاء کے ایک اور دیہات جسے موتہ کہتے ہیں وہاں چلے گئے. دشمن بھی ان کے نزدیک ہوتے گئے یہاں تک کہ موتہ کے مقام پر ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے. مسلمان تیار ہو گئے اور صفیں بنا لیں. انہوں نے قطبۃ بن قتادہ عذری کو "میمنہ" کی سپاہ سالاری اور عبایۃ بن مالک انصاری کو "میسرہ" کی سپاہ سالاری کے لئے انتخاب کیا. [13]

واقدی نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے: جب موتہ کے مقام پر مشرکین کے آمنے سامنے ہوئے، ایسی چیزیں دیکھنے کو آئیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں. ان کی تعداد بہت زیادہ تھی اور اسلحہ، چوپائے، حریر اور سونے کی بہت زیادہ مقدار ان کے پاس تھی یہ سب دیکھ کر میری آنکھیں کھلی رہ گئیں. ثابت بن اقرم نے مجھے کہا: اے ابوہریرہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ گویا کہ بہت زیادہ چیزیں دیکھ لی ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں. اس نے کہا: اگر جنگ بدر میں ہوتے تو دیکھتے کہ ہم زیادہ تعداد کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئے تھے. [14]

امام صادق(ع) سے روایت ہے: جب مشرکین اور مسلمان موتہ کے مقام پر ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہوئے: جعفر بن ابی طالب جو کہ گھوڑے پر سوار تھا اس سے نیچے اتر آیا اور گھوڑے کو واپس لوٹا دیا [15] وہ پہلا مسلمان تھا جس نے گھوڑے کو واپس بھیجا.

ابن اسحاق لکھتا ہے: جعفر جنگ کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ کہہ رہا تھا: خوش قسمت ہیں وہ جو جنت کے نزدیک ہو رہے ہیں، وہ جنت جو پاکیزہ ہے اور جس کا پانی صاف ہے، اور یہ رومی اور کافر عذاب کے نزدیک ہو رہے ہیں اور مجھ پر واجب ہے کہ تلوار سے ان کے سروں کو اڑا دوں.

ابن ہشام لکھتا ہے: جعفر بن ابی طالب نے پرچم کو دائیں ہاتھ میں لیا ہوا تھا کہ اسے کاٹ دیا، اس کے بعد اس نے پرچم کو بائیں ہاتھ میں لیا اور اسے بھی کاٹ دیا. اس کے بعد اس نے بازو کی مدد سے پرچم کو سینے سے چپکا لیا اور اسے شہید کر دیا گیا وہ اس وقت تینتیس (٣٣) سال کا تھا. [16]

واقدی لکھتا ہے: جعفر کے بعد، زید بن حارثہ نے پرچم کو اٹھایا اور جنگ کو جاری رکھا اور مسلمان اسی طرح ترتیب کے ساتھ صفوں میں کھڑے تھے، کہ زید بھی نیزے کے حملے سے شہید ہو گیا. [17] اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے پرچم سھنبال لیا. وہ تھوڑا شک کی حالت میں تھا اسی لئے خود کو سرزنش اور تلقین کر رہا تھا اور ساتھ یہ اشعار پڑھ رہا تھا:

أقسمت یا نفس لتنزلنّه لتنزلنّ او لتکرهنّه... اے نفس، میں نے قسم کھائی ہے کہ تم میدان جنگ میں حاضر ہو، ورنہ تمہیں حاضر ہونے پر مجبور کروں گا!

اگر لوگ جمع ہو گئے ہیں اور اپنے کمان کو تیار کر لیا ہے، تو کیا ہو گا کیا جنت میں جانے سے گھبرا رہے ہو؟

بہت مدت آرام میں گزار لی ہے اور کیا تم ایک گندے پانی کی مانند نہیں ہو جسے آخر کار گرانا ہی ہو گا؟

اور اسی طرح کہہ رہا تھا:

یا نفس ان لم تقتلی تموتی هذا حمام الموت قد صلیت...

اے نفس، اگر مارے نہیں جاؤ گے، تو بھی مر جاؤ گے اور موت کا پرندہ تمہارے چھت کے کنارے پر بیٹھا ہے.

جو آرزو تم نے کی ہے اسے حاصل کیا ہے اور اگر جعفر اور زید کے کام کو جاری رکھو گے تو ہر آئینہ ہدایت ہو گے. [18]

اس وقت میدان کے ایک کونے سے جنگجویوں کی آواز سنی جو مدد کے لئے پکار رہے تھے فوراً اپنے گھوڑے سے اترا اور ان کی طرف گیا اور اتنی جنگ کی کہ آخرکار شہید ہو گیا. [19]

وافدی روایت کرتا ہے: جب عبداللہ بن رواحہ شہید ہو گیا، مسلمانوں کو شکست کا سامنا ہوا اور وہ ہر طرف فرار کرنے لگے. اس وقت انصار کا ایک شخص ثابت بن اقرم پرچم کی طرف بھاگا اور اسے اٹھا کر فریاد لگائی: اے لوگو میرے ارد گرد جمع ہو جاؤ! آہستہ آہستہ لوگوں کی بہت تھوڑی تعداد اس کے گرد جمع ہو گئی. ثابت کی آنکھ خالد بن ولید پر پڑھی اور فریاد لگائی: اے ابو سلیمان، آؤ پرچم کو لے لو. خالد نے کہا: تم مجھ سے بڑے اور جنگ بدر میں شرکت کرنے والے ہو، تم مجھ سے زیادہ بہتر ہو، ثابت نے کہا: اے مرد آؤ اور پرچم کو لے لو، خدا کی قسم میں نے پرچم اسی لئے اٹھایا ہے تا کہ تمہیں دوں. خالد نے پرچم لے لیا، مشرکین نے ہر طرف سے اس پر حملہ کیا... یہاں تک کہ وہ اپنے اصحاب کی مدد سے انہیں پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو گیا. آہستہ آہستہ دشمنوں کے لشکر میں اضافہ ہوتا گیا اس لئے اسے اور اس کے اصحاب کو پیچھے ہٹنا پڑھا اور مشرکوں نے ان کا پیچھا کیا. قطبۃ بن عامر فریاد لگا رہا تھا کہ اے لوگو اگر کوئی سامنے سے مارا جائے گا تو، وہ اس سے بہتر ہے کہ فرار کے وقت اسے پیچھے سے مارا جائے، لیکن کوئی اس کی بات نہیں سن رہا تھا اور اس کا ساتھ کسی نے نہ دیا. [20]

پیغمبر اکرم(ص) مدینے میں

ابان بن احمر بجلی کوفی نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے: رسول خدا(ص) مسجد میں تھے کہ پردے ہٹے اور آپ(ص) نے جعفر کو دیکھا کہ کافروں سے جنگ کر رہا ہے اور شہید ہو گیا. آپ(ص) نے فرمایا: جعفر شہید ہو گیا ہے اور اس کا پیٹ پھٹ گیا ہے.

راوندی نے الخرائج والجرائح میں جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت نقل کی ہے: جس دن جنگ موتہ کا واقعہ پیش آیا، حضور(ص) نے صبح کی نماز ادا کی اور منبر پر گئے اور فرمایا: تمہارے بھائی مشرکین کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے جنگ میں داخل ہو چکے ہیں. اس کے بعد ایک سے دوسرے کے حملے کے بارے میں بیان کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا: اب جعفر بن ابی طالب نے پرچم کو اٹھایا اور جنگ کی طرف روانہ ہوا ہے. اس کے بعد فرمایا:اس کا دائیاں ہاتھ کاٹ دیا گیا ہے اور پرچم کو بائیں ہاتھ میں لے لیا ہے. پھر فرمایا: اب اس کا بائیاں ہاتھ بھی کاٹ لیا ہے اور اس نے پرچم کو سینے سے چپکا لیا ہے، اس کے بعد فرمایا: جعفر شہید ہو گیا ہے اور پرچم زمین پر گر گیا.... پھر فرمایا: پرچم کو عبداللہ بن رواحہ نے سھنبال لیا ہے... پھر فرمایا: عبداللہ بن رواحہ کی شہادت ہو گئی ہے اور پرچم کو خالد بن ولید نے اٹھا لیا ہے... اور مسلمان واپس لوٹ آئے ہیں... اور کچھ مشرکین قتل ہوئے ہیں اور مسلمانوں میں سے فلان فلان شہید ہوا ہے اسی طرح ایک ایک کر کے جنگ موتہ کے شہداء کا نام ذکر فرمایا. اس کے بعد منبر سے نیچے آ گئے اس کے بعد جعفر کے گھر گئے اور فرمایا کہ عبداللہ بن جعفر کو لے آئیں اسے اپنی گود میں بٹھایا اور پیار کیا. [21]

اسماء نے کہا: یا رسول خدا(ص)، اگر لوگوں کو جمع کرتے اور جعفر کی فضیلت کو بیان کرتے، تو کبھی بھی جعفر کو کوئی نہ بھولتا. رسول خدا(ص) نے اسماء کو اس کی درایت اور اچھی سوچ پر شاباش کہا. [22] اسی طرح کی روایت امام صادق(ع) سے نقل ہوئی ہے جس کے ذیل میں یوں بیان ہوا ہے: اس کے بعد رسول خدا(ص) جعفر کے گھر سے مسجد کی طرف گئے اور منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو جعفر کی فضیلت سے آگاہ کیا اس کے بعد منبر سے نیچے آ گئے. [23]

اسی طرح سے محاسن برقی نے امام صادق(ع) سے روایت بیان کی ہے: جب جعفر کی شہادت ہوئی تو، رسول خدا(ص) نے فاطمہ(س) کو حکم دیا کہ کچھ عورتوں کے ہمراہ اسماء کے پاس جائیں اور تین دن تک اس کے پاس رئیں اور تین دن اس کے لئے کھانا تیار کریں اور یہی سنت بن گئی کہ اہل مصیبت کے لئے تین دن تک کھانا بناتے تھے. [24]

صدوق نے روایت نقل کی ہے: حضور اکرم(ص) جب جعفر بن ابی طالب اور زید بن حارثہ کی شہادت کے بعد، گھر میں داخل ہوئے تو بہت زیادہ گریہ کیا اور فرمایا: وہ میرے ہم دم اور ہم سخن تھے اور دونوں اکٹھے شہید ہو گئے ہیں. [25]

اور اس کے کچھ دن بعد خبر ملی کہ جس طرح سے رسول خدا(ص) نے خبر دی تھی وہ اسی طرح سے شہید ہوئے ہیں.[26]

مسلمانوں کی مدینہ واپسی

واقدی نے اپنی سند کے مطابق، ابی سعید خدری سے روایت نقل کی ہے: خالد بن ولید نے شکست خوردہ افراد کے ہمراہ مدینے کی طرف حرکت کی. جب مدینہ کے لوگوں کو خبر ملی کہ جنگ موتہ سے شکست کھانے والے افراد مدینہ کے نزدیک پہنچ گئے ہیں، تو وہ ان کے استقبال کے لئے جرف [27] کے مقام تک گئے اور وہ اپنے چہرے پر خاک ڈال رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: اے فرار کرنے والو! کیا خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے فرار کیا جاتا ہے؟ [28] اور ابن اسحاق نے عروۃ سے روایت نقل کی ہے: جب وہ مدینہ کے نزدیک پہنچے تو مسلمان ان کے استقبال کے لئے گئے، اور پیغمبر اکرم(ص) بھی چوپائے پر سوار تھے اور ان کے آگے حرکت کر رہے تھے... لوگوں نے ان کے اوپر مٹی ڈالنی شروع کر دی اور فریاد بلند کرنے لگے: اے فرار کرنے والو! کیا خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے فرار کرتے ہیں؟ لیکن رسول خدا(ص) نے فرمایا: یہ فرار کرنے والے نہیں ہیں اور اگر خدا نے چاہا تو یہ کرار ہیں اور دوبارہ دشمن پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہیں. [29]

واقدی نے روایت نقل کی ہے: اہل مدینہ نے بہت بے روئی سے جنگ موتہ سے واپس آنے والوں کا استقبال کیا یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے جب اپنے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو گھر والوں نے دروازہ نہیں کھولا اور کہا: کیا اپنے دوستوں اور اصحاب کے ہمراہ واپس لوٹ آئے ہو؟ اور جو رسول خدا(ص) کے اصحاب تھے، وہ شرم سے اپنے دروازے پر بیٹھ گئے اور حضور اکرم(ص) نے کچھ لوگوں کو ان کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ تم لوگ خدا کی راہ میں واپس پلٹے ہو تا کہ دوبارہ دشمن پر حملہ کر سکو.

موتہ میں شرکت کرنے والوں میں، سلمۃ بن ہشام مخزومی، پیغمبر اکرم(ص) کی زوجہ ام سلمیٰ کا بیٹا بھی تھا.

وہ جنگ سے لوٹنے کے بعد اپنے گھر میں داخل ہوا اور اس کے بعد باہر نہ آیا یہاں تک کہ ایک دن اس کی بیوی ام سلمیٰ کے پاس گئی اور ام سلمیٰ نے اس سے پوچھا کہ: میں نے سلمۃ کو نہیں دیکھا، کیا اس کے لئے کوئی مشکل پیش آئی ہے؟ اس کی زوجہ نے کہا: نہیں، لیکن اپنے گھر سے باہر نہیں آ سکتا کیونکہ اگر باہر آئے تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں: اے فرار کرنے والے! کیا خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے فرار کیا جاتا ہے؟ اسی لئے گھر میں بیٹھا ہے اور باہر نہیں آتا.

ام سلمیٰ نے اسے رسول خدا(ص) کے لئے بیان کیا اور آپ(ص) نے فرمایا: یہ لوگ خدا کی راہ میں واپس لوٹے ہیں تا کہ دوبارہ دشمن کے ساتھ جنگ کر سکیں اور اسے گھر سے باہر آنا چاہیے. اسے کے بعد سلمیٰ وہاں سے باہر آ گئی. [30]

جنگ موتہ کے شہداء

مذکور تین شہداء، یعنی جعفر، [31] زید اور عبداللہ بن رواحہ خزرجی، کے علاوہ جو قریش کے دوسرے افراد شہید ہوئے وہ درج ذیل ہیں: مسعود بن اسود عدوی، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کا بھائی وہب بن سعد بن ابی سرح. قبیلہ خزرج اور بنی نجار سے درج ذیل افراد شہید ہوئے: سراقۃ بن عمرو، جابر بن عمرو اور اس کا بھائی ابو کلاب یا کلیب، عمرو بن سعد اور اس کا بھائی عامر اور حارث بن نعمان بن اساف [32] یا یساف. [33]

اور اس جنگ کی تاریخ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آٹھویں سال، جمادی الاول میں ہوئی تھی.[34]

نتیجہ

جنگ موتہ، مسلمانوں کے لئے ایک قسم کی تیاری تھی تا کہ لشکر روم کے جنگی طریقوں سے آگاہ ہوں، اور دوسری جنگوں میں ان سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں. مسلمانوں کو جو تھوڑی خسارت کا سامنا ہوا وہ اہل روم کے ساتھ جنگ کرنے اور ان سے جو نظامی فوائد حاصل ہوئے اس کے مقابلے میں ناچیز ہے. اس طرح سے وہ اہل روم کے جنگ کے طریقوں اور ان کے ہتیھاروں سے آگاہ ہوئے کہ جن کا اثر بعد والی جنگوں میں ظاہر ہوا جو مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان ہوئیں. [٣٥]

حوالہ جات

  1. ر.ک : معجم البلدان، ج ۸، ص۱۹۰.
  2. ر.ک : طبقات ابن سعد، ج ۲، ص۱۲۸
  3. بصری کبری کے وزن پر ہے، حوران کا مرکز اور شام میں دمشق کا حصہ تھا اور رسول خدا(ص) دو بار اس میں داخل ہوئے اور وہاں کے لوگوں نے سنہ تیرہ ہجری کو مسلمانوں کے ساتھ مصالحہ کیا اور یہ شام کا پہلا شہر تھا جو مصالحہ کے ذریعے فتح ہوا ہے.
  4. اور غسّان بھی أزد سے ہے، مغازی، ج ۲، ص۷۶۰.
  5. مغازی واقدی، ج ۲، ص۷۵۵- ۷۵۶ اور واقدی کے علاوہ کسی نے جنگ کی وجہ ذکر نہیں کی ہے اور کسی نے مسئلہ نامہ اور رسول اور غسانی کو متعرض نہیں کیا ہے.استیعاب و الاصابة کے حاشیے میں، ج ۱، ص۳۰۵ نمبر ۱۴۵۹ اور اسد الغابۃ، ج ۱، ص۳۴۲ جسے باب رجال میں ذکر کیا ہے.
  6. إعلام الوری، ص۲۱۲ و مناقب آل ابی طالب، ج ۱، ص۲۰۵. و در تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص۶۵ لکھتا ہے: کہا گیا ہے کہ پہلا سپاہ سالار جعفر اس کے بعد زید اور اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ تھا.اور معتزلی ج ۱۵، ص۶۲ میں لکھتا ہے: محدثین اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ زید بن حارثہ پہلا سپاہ سالار تھا اور شیعہ نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے: پہلا سپاہ سالار جعفر بن ابی طالب تھا اور اس بارے میں روایات بھی ذکر کی ہیں. اور اس کے ذیل میں لکھتا ہے: میں نے محمد بن اسحاق کے اشعار جو اس نے مغازی کتاب میں نقل کئے ہیں، یہ شیعہ قول کو ثابت کرنے کی گواہی دیتے ہیں، من جملہ حسان بن ثابت نے جو شعر روایت کیا ہے جو یوں ہے: "فلا یبعدن الله قتلی تتابعوا بمؤته منهم ذو الجناحین جعفر و زید و عبدالله حین تتابعوا جمیعا و أسیاف المنیة تخطر" خدا جو ایک دوسرے کے آگے پیچھے شہید ہوئے ہیں، انہیں اپنی رحمت سے دور نہ کرے، اور جو جنگ موتہ میں شہید ہوئے وہ جعفر طیار تھا اسی طرح زید اور اس کے بعد عبداللہ جو ایک دوسرے کے بعد سب چلے گئے، جب کہ موت کی تلوار نمایاں تھی. اسی طرح کعب بن مالک انصاری کہتا ہے: "ساروا امام المسلمین کانهم طود یقودهم الهزبر المشبل اذ یهتدون بجعفر و لواؤه قدّام أولهم و نعم الأوّل" مسلمان ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلے گئے گویا کہ کوئی شیر ان کی رہبری کر رہا تھا. اور جعفر کے پرچم کے پیچھے چل رہے تھے، اور وہ ان میں سے پہلا تھا، اور کیا خوب تھا وہ پہلا.
  7. ظاہراً یہ وصیت نماز ظہر کے بعد مسجد میں تھی جس کے مخاطب سپاہ سالار بالخصوص جعفر طیار تھے.
  8. ثنیۃ الوداع جو شام کی جانب تھی نہ مکہ کی طرف.
  9. اردن میں
  10. مغازی واقدی، ج ۲، ص۷۵۶- ۷۶۰.
  11. إعلام الوری، ص۲۱۳ اور مناقب آل ابی طالب، ج ۱، ص۲۰۵ اسے اس سے نقل کیا اور دونوں میں آیا ہے: مشرفی تلواریں، انہیں مشارف سے منسوب ہیں جو سلیمان(ع) کے لئے تیار کی جاتی تھیں. اور دوسری تاریخوں میں آیا ہے: کہ مسلمانوں کو خبر ملی کہ ہرقل نے سو ہزار افراد کے ساتھ مآب کے مقام پر خیمے لگا لئے ہیں! وہ تیس سال سے بادشاہ تھا اور اس کی خلافت ہجرت کے کچھ سال پہلے شروع ہوئی اور تینوں خلیفوں کے اواخر تک جاری رہی، اسے تاریخ مختصر الدول ابن العبری، ص۹۱- ۹۲ سے جانا گیا ہے. جنگ موتہ سنہ آٹھویں ہجری کو پیش آئی، جو کہ اس کی بادشاہی کا درمیانی حصہ تھااور تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص۱۵۴ میں آیا ہے کہ ہرقل سنہ بیس ہجری کو فوت ہوا اور مسعودی کہتا ہے: اس کی بادشاہی پندرہ سال تک رہی جس کے سات سال ہجرت سے پہلے تک تھے، مروج الذہب، ج ۱، ص۳۶۲ و ج ۲، ص۲۷۸. اس طرح جنگ موتہ اس کی حکومت کے اواخر میں تھی اور اس کے ذیل میں لکھتا ہے: یہ وہی پہلا ہرقل تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا موریق اور اس کے بعد قیصر اور پھر ہرقل بن قیصر جس نے عمر کے زمانے میں حکومت کی تھی:اور کتاب التنبیہ و الاشراف، ص۱۳۳ میں آیا ہے: ہرقل بن فوقاس بن مرقس، قیصر کا سپاہ سالار تھا، جس نے لوگوں کو قیصر کے خلاف بھڑکایا اور لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور ابن فوقاس کو اپنا بادشاہ منتخب کر لیا اور یہ ہجرت کے ایام تھے اس نے پچیس سال سے زیادہ حکومت کی، یعنی عمر کی خلافت کے آغاز تک. وہ ص ٢٣٠ پر جنگ موتہ کے بارے میں لکھتا ہے: روم کے لشکر میں سو ہزار افراد تھے جو ہرقل کی طرف سے مسلمانوں کے مقابلے کے لئے بھیجے گئے تھے، اس وقت وہ انطاکیہ کے مقام پر تھا اور شرجیل بن عمرو کو غسان اور قضاعہ وغیرہ جو مسیحی عرب تھے ان کے پاس بھیجا تھا اور وثیاذوکس کو روم میں بھیجا تھا.
  12. سیره ابن اسحاق، ج ۴، ص۱۷.
  13. سیره ابن اسحاق، ج ۴، ص۱۹.
  14. مغازی واقدی، ج ۲، ص۷۶۰- ۷۶۱.
  15. پی کرنا جس کا معنی ہے زرد چیز کو کاٹنا جو گھوڑے کے مفصل اور پاؤں کی ساق کے درمیان والی جگہ ہے.
  16. سیره ابن ہشام، ج ۴، ص۲۰ اور طبرسی اعلام الوری اس نے ابان بن عثمان احمر بجلی کوفی اور فضیل بن یسار سے انہوں نے امام باقر(ع) سے روایت نقل کی ہے: اس دن جعفر اس حالت میں شہید ہوا کہ اس کے جسم پر پچاس زخم تھے اور پانچ سے زیادہ زخم اس کے چہرے پر تھے، إعلام الوری، ج ۱، ص۲۱۳.اور واقدی ج ۲، ص۷۶۱ میں روایت کرتا ہے کہ ایک رومی نے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور اس کے ایک حصے پر تیس سے زیادہ زخم تھے اور ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ساٹھ زخم لگے تھے اور ایک اور میں آیا ہے کہ اس کے دونوں کندہوں کے درمیان تلوار اور نیزوں کے بہتر زخم تھے اور کچھ نیزے اس کے جسم میں پیوست ہو چکے تھے.
  17. مغازی واقدی، ج ۲، ص۷۶۱.
  18. اور یہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ جعفر طیار پہلا سپاہ سالار تھا.
  19. سیره ابن ہشام، ج ۴، ص۲۱.
  20. مغازی واقدی، ج ۲، ص۷۶۳.
  21. الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص۱۶۶نمبر ۳۵۶ اور اس کے خلاصے کو نمبر ۱۹۸ میں لایا گیا اور ابن اسحاق نے سیرہ، ج٣، ص٢٢ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور واقدی نے اسے مغازی، ج٢، ص۷۶۱- ۷۶۲ میں روایت کیا ہے اور جسے اصفهانی نے مقاتل الطالبین ص۸- ۷ چاپ نجف اشرف و ص۱۳ چاپ بیروت، عبد الرحمن بن سمره سے روایت کیا ہے، وہ صحیح نہیں ہے. اس نے وہاں پر لکھا ہے کہ جنگ موتہ کے بعد خالد بن ولید نے مجھے بشارت دینے والے کے عنوان سے رسول خدا(ص) کے پاس بھیجا. جب مسجد میں آپ(ص) کے پاس پہنچا، تو آپ(ص) نے مجھ سے فرمایا: اے عبدالرحمن اپنے پیغام کو سناؤ اس کے بعد یہ خبر اپنے اصحاب کو سنائی اور سب نے گریہ کیا.اور شرح المواہب، ج ۲، ص۲۷۶ میں آیا ہے: کہا گیا ہے کہ ابوعامر اشعری یا یعلی بن امیہ موتہ کی خبر مدینہ لے کر گئے تھے.
  22. محاسن، ج ۲، ص۱۹۴ نمبر ۱۹۹.
  23. المحاسن، ج ۲، ص۱۹۳ نمبر ۱۹۸.اور طبرسی نے اعلام الوری میں عبداللہ بن جعفر سے روایت نقل کی ہے: رسول خدا(ص) نے میرا ہاتھ پکڑا اور میرے سر پر ہاتھ پھیر رہے تھے اسی حالت میں مسجد کی طرف چلے اور منبر پر بیٹھ گئے اور مجھے منبر کی آخری والی سیڑھی پر بٹھا لیا،جب کہ آپکے چہرے مبارک پر غم چھایا ہوا تھا، فرمایا: میرے بھائی اور میرے چچا کے بیٹے پر آنے والی مصیبت میرے لئے بھی بہت بڑی مصیبت ہے، اے لوگو باخبر ہو جاؤ کہ جعفر شہید ہو گیا ہے اور اسے دو پر مل گئے ہیں اور ان پروں کی مدد سے جنت میں پرواز کر رہا ہے. اس کے بعد منبر سے نیچے آئے اور اپنے گھر کی طرف چلے گئے مجھے بھی ساتھ لے گئے اور حکم دیا کہ ہمارے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کیا جائے. اس کے بعد مجھے میرے بھائی کی طرف بھیجا کہ اسے بھی آپ(ص) کے پاس لے جاؤں. ہم دونوں آپ(ص) کے پاس آئے اور خدا کی قسم ہم نے بہت ہی لذیذ کھانا کھایا اور تین دن تک آپ(ص) کے پاس رہے اور جس جس کمرے میں آپ(ص) جاتے ہم بھی ساتھ جاتے، اس کے بعد ہم واپس اپنے گھر آ گئے. اس روایت کو واقدی نے مغازی کی ج٢، ص ۷۶۶- ۷۶۷ میں ذکر کیا ہے. اس کے بعد طبرسی نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فاطمہ(س) سے فرمایا: جاؤ اور اپنے چچا کے بیٹے کی مصیبت پر گریہ کرو، اعلام الوری، ج١، ص٢١٤. اس لئے جو ابن اسحاق نے سیرہ، ج٤، ص٢٣ میں اور واقدی نے مغازی، ج٢، ص٧٦٧ میں عائشہ سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم(ص) نے ایک مرد کو حکم دیا کہ عورتوں کو چپ کروائے، اور اگر چپ نہ کریں تو ان کے منہ پر مٹی پھینکے، یہ صحیح نہیں ہے. واقدی اور ابن اسحاق نے اپنی سند کے ساتھ اسماء کے بارے میں روایت نقل کی ہے کہ وہ گریہ و زاری کر رہی تھی اور چیخ رہی تھی اور کچھ عورتیں اس کے گرد جمع ہو گئیں اور یہ روایت نقل نہیں کی کہ آپ(ص) نے اسماء اور دوسری عورتوں کو رونے سے منع کیا ہو! بلکہ یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ(ص) حضرت فاطمہ(س) کے پاس گئے اور فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کرو، سیره، ج ۴، ص۲۲اور مغازی واقدی، ج ۲، ص۷۶۶ میں آیا ہے: جعفر پر رونے والوں کی طرح رونا چاہیے.
  24. المحاسن، ج ۲، ص۱۹۳ نمبر ۱۹۷ و ۱۹۶ اور فروع کافی، ج ۳، ص۲۱۷، حدیث ۱ اور کتاب من لا یحضره الفقیہ، ج ۱، ص۱۸۲- ۱۸۳، حدیث ۵۴۹ و ۵۴۶ اور اس میں آیا ہے: کہ وہ کھانا بنانے میں مشغول ہو گئے. اس کے ذیل میں آیا ہے: کہ جاہلیت کے آداب میں سے تھا کہ کسی مصیبت دیدہ کے پاس مہمان بن کر جاتے تھے اور کھانا کھاتے تھے اور سنت یہ ہے کہ ان کے لئے کھانا بنا کر بھیجیں، امالی شیخ طوسی، ص۶۵۹ نمبر ۱۳۶۰.
  25. کتاب من لا یحضره الفقیہ، ج ۱، ص۱۷۷، حدیث ۵۲۷.
  26. الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص۱۲۱، حدیث ۱۹۸. اور شاید کہ یہ خبر عبدالرحمن بن سمرہ نے لائی ہو، چونکہ مقاتل الطالبین، ص۷ میں آیا ہے یا عامر اشعری یا یعلی بن امیه نے خبر دی ہو، چونکہ شرح المواهب، ج ۲، ص۲۷۶ میں آیا ہے.
  27. مدینہ کے اطراف میں
  28. مغازی واقدی، ج ۲، ص۵۶۴- ۵۶۷.
  29. سیره ابن اسحاق، ج ۴، ص۲۴ و اس سے اعلام الوری، ج ۱، ص۲۱۵.
  30. مغازی واقدی، ج ۲، ص۷۶۵ و سیره ابن اسحاق، ج ۴، ص۲۵- ۲۴.
  31. اصفہانی نے مقاتل الطالبین، ص۸ علی بن عبدالله بن جعفر سے نقل کیا ہے کہ جعفر ٣٤ سال کی عمر میں شہید ہوئے ہیں. اس کے بعد کہا ہے: میری نظر میں یہ اہم وہم ہے، کیونکہ جتنی روایات کو بھی دیکھا جائے، معلوم ہوتا ہے کہ جعفر کی عمر شہادت کے وقت اس سے زیادہ تھی، کیونکہ وہ ہجرت کے آٹھویں سال شہید ہوا ہے اور اس سال سے پیغمبر اکرم(ص) کے مبعث تک اکیس سال فاصلہ تھا اور وہ اپنے بھائی علی(ع) سے بڑا تھا.
  32. سیره ابن ہشام، ج ۴، ص۲۵.
  33. مغازی واقدی، ج ۲، ص۷۶۹. اس مطلب کو مدنظر رکھتے ہوئے کہنا پڑھے گا کہ ان دو روایات سے ایک، کلینی نے اصول کافی، ج٢، ص٥٤ اس نے ابی بصیر سے، اس نے قاسم بن برید سے اس نے امام صادق(ع) سے نقل کیا ہے: ایک دن رسول خدا(ص) نے حارثہ بن مالک بن نعمان انصاری سے ملاقات کی اور اس سے پوچھا: حارثہ تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول(ص) میں حقیقی مومن ہوں! رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا: ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور تمہارے گفتار کی کیا حقیقت ہے؟ جواب دیا: دنیا سے دور ہو گیا ہوں رات کو نیند نہیں آتی اور میرا گوشت ہڈیوں سے چپک گیا ہے اور گویا خدا کے عرش کو دیکھ رہا ہوں جو حساب کتاب کے لئے تیار ہے اور گویا کہ اہل بہشت کو دیکھ رہا ہوں جو بہشت میں ٹہل رہے ہیں اور گویا کہ جہنمیوں نالہ و فریاد کو سن رہا ہوں! رسول خدا(ص) نے اسے فرمایا: تم ایسے بندے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل کو نورانی کر دیا ہے! صاحب بصیرت ہو گئے ہو، پس ثابت قدم رہو. اس نے رسول خدا(ص) سے کہا: کہ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کی توفیق عطا فرمائے. رسول خدا(ص) نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: یا اللہ حارثہ کو شہادت کی توفیق عنایت فرما. تھوڑی دیر گزری تھی کہ حارثہ، جعفر بن ابی طالب کے ہمراہ شہید ہو گیا اور وہ جعفر کے بعد دسواں شہید تھا. اور کہنا پڑھے گا کہ جو موتہ میں شہید ہوا، وہ حارث بن نعمان بن اساف یا یساف تھا، نہ حارثۃ بن مالک بن نعمان. اور سیرہ اور شخصی تاریخ میں ایسا نام نہیں ملتا. بلکہ حارث بن مالک، واقد لیثی کا والد تھا اور وہ یہ شخص نہیں تھا اور حارث بن مالک بن برصاء بھی ساتویں سال میں مسلمان ہوا اور یقیناً یہ وہ شخص بھی نہیں ہے. ایک اور روایت کے آخر میں، وہ بھی امام صادق(ع) سے معانی الاخبار شیخ صدوق، ص١٨٧ میں نقل ہوئی ہے کہ اس نے پیغمبر اکرم(ص) سے کہا: کہ اپنی آنکھوں کے علاوہ، اپنے بارے میں کسی اور چیز سے نہیں ڈرتا! رسول خدا(ص) نے دعا فرمائی اور وہ نابینا ہو گیا، اسے شیخ طوسی نے رجال میں بھی ذکر کیا ہے اور اس کے بارے میں کہا ہے: کہ اس نے جنگ بدر، احد اور دوسری جنگوں میں بھی شرکت کی... اور امیرالمومنین(ع) کی جنگوں میں بھی شرکت کی اور امیرالمومنین(ع) کے بعد معاویہ کے زمانے میں فوت ہوا، رجال شیخ طوسی، ص١٧، چاپ نجف اشرف. اسی طرح عسقلانی نے اسے الاصابۃ نمبر۱۴۷۸ و ۱۵۳۲ میں نقل کیا ہے اور اس حدیث کو جوامع احادیث سے استخراج کیا ہے جو مختلف الفاظ سے نقل ہوئی ہے اور پھر کہا ہے: اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے اس لئے اس پر اعتماد نہیں جا سکتا ہے.
  34. سیره ابن ہشام، ج ۴، ص۱۵ و إعلام الوری، ج ۱، ص۲۱۲ و مناقب آل أبی طالب، ج ۱، ص۲۰۶- ۲۰۵.

مآخذ

  • کتاب شیوه فرماندہی پیغمبر (ص)، مؤلف محمود شیث خطاب، ترجمہ عبدالحسین بینش