حکیمہ بنت امام محمد تقی

ویکی شیعہ سے
حکیمہ بنت امام محمد تقی
نامحکیمہ
وجہ شہرتدختر امام محمد تقیؑ
جائے پیدائشمدینہ
وفاتسنہ 274 ھ
مدفنحرم امامین عسکریین، سامرا
والدامام محمد تقیؑ
والدہسمانہ مغربیہ
شریک حیاتابو علی حسن بن علی مرعش
اولادحسین، زید، حمزہ
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


حکیمہ بنت امام محمد تقی (متوفی 274 ھ)، امام محمد تقی علیہ السلام کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے چار شیعہ ائمہ (امام محمد تقی، امام علی نقی، امام حسن عسکری اور امام مہدی) علیہم السلام کو درک کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نرجس خاتون مادر امام زمانہ کی دیکھ بھال کرنے والی اور شیعوں کے بارہویں امام کی ولادت کے شاہدین میں سے ہیں۔ شیعہ منابع کے مطابق حکیمہ خاتون نے غیبت صغری کے زمانے میں امام زمانہ (ع) سے ملاقات کی ہے اور امام زمانہ (ع) اور لوگوں کے درمیان ایک رابط کے عنوان سے آپ(ع) سے کئی احادیث نقل کی ہیں۔ شیعہ علماء اور مورخین انہیں احترام سے یاد کرتے ہیں۔ ان کا مقبرہ سامرا میں حرم عسکریین میں ہے۔

نسب


حکیمہ، امام محمّد تقی (ع) کی بیٹی ہیں۔ ان کی تاریخ ولادت منابع تاریخی میں دقیق مشخص نہیں ہے۔ لیکن چونکہ آپ کے بھائی امام علی النقی (ع) کی ولادت سنہ 212 ہجری میں ہوئی ہے اور آپ امام علی نقی (ع) سے چھوٹی تھیں لہذا آپ کی ولادت کے سلسلہ میں سنہ 213 ہجری سے 220 ہجری تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔[1]

آپ کی والدہ سمانہ مغربیہ سیدہ کے نام سے معروف تھیں جو امام علی نقی (ع)، موسی مبرقع اور امام محمد تقی (ع) کے دوسرے فرزندان کی بھی والدہ ہیں۔[2]

آپ کے شوہر ابو علی حسن بن‌ علی مرعش بن‌ عبید اللہ بن‌ ابی ‌الحسن محمد اکبر بن‌ محمد حسن بن‌ حسین اصغر بن ‌امام سجاد (ع) تھے۔ اس ازدواج کا ثمرہ تین بیٹے حسین، زید و حمزہ ہیں۔[3]

علماء کی نظر میں

علّامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں حکیمہ خاتون کے بارے میں لکھتے ہیں: امام عسکری علیہ السلام اور امام علی نقی علیہ السلام کے مقبرے کے گنبد کے اندر ایک قبر نجیبہ، عالمہ، فاضلہ، تقیہ اور رضیہ خاتون بنام حکیمہ بنت امام جواد علیہ السلام بھی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اتنی ساری فضیلتوں اور شان و منزلت کے حامل ہونے اور محل اسرار امامت ہونے کی باوجود اس بی بی کیلئے کوئی زیارت نقل کیوں نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: "بہتر ہے کہ ان کی شان و منزلت کے ساتھ مناسب الفاظ میں ان کی زیارت کی جائے۔"[4]

عبداللہ مامقانی نے ان کا نام خاتون راویوں میں ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: "مولا وحید بہبہانی نے اعتراض کیا ہے کہ کیوں ان کیلئے کوئی زیارت نقل نہیں ہوئی ہے۔ اس سے بھی عجیب ‌تر یہ ہے کہ شیخ مفید اور بعض تاریخی منابع نے ان کا نام امام محمد تقی (ع) کی اولاد میں ذکر بھی نہیں کیا۔" [5] البتہ شیخ مفید نے ان کا نام امام محمد تقی (ع) کی اولاد میں تو ذکر نہیں کیا ہے لیکن اپنی کتاب الارشاد میں ایک مقام پر [6] تصریح کے ساتھ انہیں خاتون راویوں میں ذکر کرتے ہوئے انہیں امام عسکری (ع) کی پھوپھی قرار دیا ہے۔

خصوصیات

حکیمہ خاتون نے چار شیعہ اماموں کو درک کیا ہے۔ آپ امام محمد تقی (ع) کی بیٹیوں میں علم و فضل میں کافی شہرت کی حامل تھیں۔[7] حکیمہ، خاتون روات میں سے تھیں اور آپ سے کئی احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک حرز امام جواد (ع) ہے۔[8]

امام علی نقی (ع) نے امام زمانہ (عج) کی والدہ ماجدہ نرجس خاتون کی تربیت کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی تھا۔ امام عسکری (ع) اور نرجس خاتون کی شادی اور امام زمانہ (عج) کی ولادت سے متعلق بہت ساری احادیث آپ سے نقل ہوئی ہیں۔[9] حکیمہ خاتون امام زمانہ (عج) کی ولادت کے وقت موجود تھیں اور دایہ کے فرائض انہوں نے ہی انجام دیئے تھے۔ آپ ہی وہ پہلی شخصیت ہیں جنہیں امام زمانہ (عج) کو سب سے پہلے گود میں لینے اور آپ(عج) کا بوسہ لینے کا شرف حاصل ہوا۔[10] آپ نے امام عسکری (ع) کی حیات طیبہ کے دوران کئی دفعہ امام زمانہ (عج) سے ملاقات کی اور غیبت صغرا کے دوران امام زمانہ (عج) کے سفیروں اور نمائندوں میں سے تھیں۔[11]

حرم عسکریین میں حکیمہ خاتون کا مرقد

وفات

آپ کی تاریخ وفات کو بھی بعض علماء نا معلوم قرار دیتے ہیں۔[12] لیکن علماء کے ایک دوسرے گروہ قابل نے ذکر مدرک کو ذکر کئے بغیر کہ جس سے استناد کیا جا سکے، آپ کی وفات کو سنہ 274 ھ میں قرار دیا ہے۔[13]

تفصیلی مضمون: حرم عسکریین

آپ کی قبر سامرا میں حرم عسکریین (ع) میں امامین عسکریین کی ضریح کے اندر واقع ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. اعلمی حائری، تراجم اعلام النساء، ص۲۶۴، ج۲، ص۲۸۵.
  2. قمی، منتہی الامال، ج۲، ص۴۹۷.
  3. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج ۴، ص۱۵۷؛ مآثر الکبری فی تاریخ سامراء،ج۲، ص۳۰۳؛ الشجرۃ المبارکہ فی أنساب الطالبیہ، ص ۱۶۹،۱۷۰؛ الفخری فی أنساب الطالبین، ص۷۵و۷۶
  4. مجلسی، بحارالانوار، ج ۱۰۲، ص۷۹
  5. مامقانی، تنقیح المقال، ج ۳، ص۷۶.
  6. مفید، الارشاد، ج ۲، ص۳۵۱.
  7. قمی، منتہی الامال، ج ۲، ص۵۰۲.
  8. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج ۴، ص۱۵۴.
  9. امین، اعیان الشیعہ، ج ۶، ص۲۱۷.
  10. قمی، منتہی الامال، ج ۲، ص۵۰۲.
  11. مامقانی، تنقیح المقال، ج ۳، ص۷۶.
  12. امین، اعیان الشیعہ، ج ۶، ص۲۱۷.
  13. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج ۴، ص۱۵۷.
  14. مجلسی، بحار الانوار، ج ۱۰۲، ص۷۹.

مآخذ

  • اعلمی حائری، محمد حسین، تراجم اعلام النساء؛ مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، اولی، ۱۴۱۷ ق.
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، دار التعارف للمطبوعات، بیروت، ۱۴۰۶ق.
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الامال، انتشارات ہجرت، جلد دوم، ۱۳۸۲ ش.
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال، مطبعہ المرتضویہ، نجف اشرف، ۱۳۵۲ ق، افست انتشارات جہان، تہران.
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، مؤسسۃ الوفاء، بیروت، چاپ دوم، ‎۱۴۰۳ ق.
  • محلاتی، ذبیح اللہ، مآثر الکبری فی تاریخ سامراء، مطبعۃ الزہراء، نجف ۱۳۶۸ش.
  • محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعہ، دار الکتاب الاسلامیہ، ۱۳۶۸ ش.
  • مفيد، محمد بن محمد، الارشاد في معرفۃ حجج اللہ على العباد، مؤسسۃ ال البيت عليہم السلام لإحياء التراث، قم، ۱۴۱۳ق.
  • فخر رازی (م۶۰۶ق)، الشجرۃ المبارکہ فی أنساب الطالبیہ، چاپ اول، نشر مکتبہ آیت ‌اللہ مرعشی نجفی، قم ۱۴۰۹ق ق.