بدیل بن ورقاء

ویکی شیعہ سے
بدیل بن ورقاء
کوائف
مکمل نامبدیل بن ورقاء خزاعی
کنیتابو عمر، ابو عبد اللہ
محل زندگیمکہ
مہاجر/انصارمہاجر
دینی معلومات
اسلام لانافتح مکہ یا اس سے قبل
جنگوں میں شرکتجنگ حنین، فتح مکہ، صلح حدیبیہ، جنگ تبوک و حجۃ الوداع۔
وجہ شہرتصحابی پیغمبر اکرم (ص)


بُدَیل‌ِ بْن‌ِ وَرْقاء، پیغمبر اکرم (ص) کے مکی اصحاب اور قبیلہ خزاعہ کے شیوخ میں سے تھے۔ انہوں نے صلح حدیبیہ، حجۃ الوداع، جنگ حنین، جنگ تبوک اور فتح مکہ میں شرکت کی۔ ایک روایت کے مطابق فتح مکہ کے وقت ان کی عمر 97 برس تھی۔

نسب و کنیت

پیغمبر اکرم (ص) کے مکی اصحاب اور قبیلہ خزاعہ کے شیوخ میں سے تھے۔ قدیم ترین مصادر میں ان کا نام فقط بدیل بن ورقاء یا بدیل بن ورقاء خزاعی ذکر ہوا ہے۔[1] البتہ ظاہری طور پر ابن سعد اولین فرد ہیں جنہوں نے ان کا اور ان کے اجداد کا نام نسبتا مکمل طور پر ذکر کیا ہے۔[2] لیکن اس کے مقابلہ میں ابن اثیر نے[3] ان کے اجداد میں سے بعض نام حذف کر دیئے ہیں۔

ان کی کنیت بھی اختلاف کے ساتھ ابو عمر و ابو عبد اللہ نقل ہوئی ہے۔[4]

ولادت اور وفات

ان کی ولادت اور وفات کے سلسلہ میں بھی معلومات دسترس میں نہیں ہیں۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ وہ حجۃ الوداع میں موجود تھے اور رسول اکرم (ص) سے پہلے ان کی وفات ہوئی ہے۔[5] ایک روایت کے مطابق فتح مکہ کے وقت ان کی عمر ۹۷ سال تھی۔[6] اس حساب سے ظہور اسلام سے تقریبا ۷۵ برس پہلے ان کی ولادت ہوئی ہوگی۔

جن منابع نے جنگ صفین میں ان کی شہادت ذکر کی ہیں،[7] انہوں نے انہیں ان کے بیٹے عبد اللہ سے خلط کیا ہے۔

حیات

بدیل بن ورقاء کو ظہور اسلام سے پہلے مکہ میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن ان کی سوانح کے سلسلہ میں جزئیات فراہم نہیں ہیں۔[8] بدیل کا نام تاریخ اسلام میں زیادہ تر پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے اوائل اور خاص طور پر صلح حدیبیہ کے موقع پر ذکر ہوا ہے[9] اور ایک بار ان کا اور ان کے قبیلہ خزاعہ کا نام آپ کے رازداروں اور وفاداروں میں بھی نقل ہوا ہے۔[10]

صلح حدیبیہ میں شرکت

صلح حدیبیہ کے مسودہ کے مطابق قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کا حلیف تھا اور وہاں سے رسول خدا (ص) کی واپسی کے بعد ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔[11] یقینا بنی خزاعہ کی بنی عبد المطلب کے ساتھ دوستی، ہمراہی اور ہم پیمانی اسلام سے پہلے سے بے تعلق نہیں تھی۔

بہر حال پیغمبر اکرم (ص) نے جمادی الثانی ۸ ہجری میں بدیل بن ورقاء کو ایک خط لکھا اور اس میں انہوں نے بنی خزاعہ کی بیحد تعریف کی اور انہیں بنی تہامہ میں سے زیادہ زیادہ کریم کے طور پر متعارف کیا۔[12]

اسلام لانا

فتح مکہ کے موقع پر بدیل بن ورقاء ابو سفیان، حکیم بن حزام، عباس بن عبد المطلب کے ذریعہ آنحضرت (ص) سے ملاقات کے لئے گئے اور ایک روایت کے مطابق انہوں نے اسی وقت اسلام قبول کیا۔[13] جبکہ بعض دوسرے مصادر کے مطابق وہ اس سے پہلے ہی اسلام قبول کر چکے تھے۔ فتح مکہ کے روز بدیل کے گھر کا شمار ان گھروں میں تھا جن میں پناہ لینے والوں کے لئے امان تھی، لہذا قریش کے بعض افراد نے وہاں پناہ لی تھی۔[14]

بدیل جنگ حنین میں رسول خدا (ص) کی طرف سے قیدیوں کو حنین سے جعرانہ پہچانے پر مامور تھے اور گویا غنائم جنگی کی حفاظت بھی ان کے ذمہ تھی۔[15] جنگ تبوک کے مقدمات کی فراہمی کے سلسلہ میں بھی بدیل کا شمار ان افراد میں سے تھا جنہیں آنحضرت (ص) نے مختلف قبائل کی طرف بھیجا تا کہ وہ جنگ کے لئے آمادہ ہو جائیں۔[16]

اولاد

ان کی اولاد میں سے بعض نے صدر اسلام کے حوادث میں اپنا کردار ادا کیا۔ نافع بن بدیل نے اپنے والد سے پہلے جنگ بئر معونہ میں شہادت پائی۔[17] عبد اللہ بن بدیل نے حنین، تبوک و طایف کی جنگوں میں شرکت کی اور ان کا شمار ۳۲ ہجری میں اصفہان کے فاتح افراد میں ہوتا تھا۔[18] وہ جنگ صفین میں امام علی (ع) کی رکاب میں شہید ہوئے۔[19] ان کے بھائی عبد الرحمن بن بدیل بھی جنگ صفین میں شہید ہوئے۔[20]

نقل روایت

شیعہ و اہل سنت منابع روایی میں بدیل بن ورقاء کا شمار روات میں ہوتا ہے۔ ان سے بعض روایات صلح حدیبیہ، جنگ حنین کی فتح اور اس کے اسیروں کو منتقل کرنے، کھانے پینے اور حجۃ الوداع میں روزہ نہ رکھنے کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں۔[21]

حوالہ جات

  1. واقدی، محمد، المغازی، جلد ۱، ص۵۸۱، ص۵۹۳، جلد ۲، ص۷۴۹، ص۷۵۰، جم؛ ابن‌ ہشام‌، عبدالملک‌، السیره النبویہ، جلد ۴، ص۳۴، ص۳۷؛ طبری، تاریخ‌؛ جلد ۲، ص۶۲۵، ص۶۲۶
  2. ابن‌ سعد، محمد، الطبقات‌ الکبری، جلد ۴، ص۲۹۴
  3. ابن‌ اثیر، علی‌، اسد الغابہ، جلد ۱، ص۱۷۰
  4. ابن‌ اثیر، علی‌، اسد الغابہ، جلد ۱، ص۱۷۰؛تستری، محمد تقی‌، قاموس‌ الرجال‌، جلد ۲، ص۲۵۴- ۲۵۵؛ مجلسی‌، محمد باقر، بحارالانوار، جلد ۲۱، ص۱۱۵؛ خویی‌، ابوالقاسم‌، معجم‌ رجال‌ الحدیث‌، جلد ۳، ص۲۷۵
  5. ابن‌ سعد، محمد، الطبقات‌ الکبری، جلد ۴، ص۲۹۴؛ ابونعیم‌ اصفہانی‌، احمد، معرفه الصحابہ، جلد ۳، ص۱۴۴؛ ابن‌ اثیر، علی‌، اسد الغابہ، جلد ۱، ص۱۷۰؛ ابن‌ عراقی‌، احمد، ذیل‌ الکاشف‌، ص۴۹.
  6. شیخ‌ طوسی‌، امالی‌، جلد ۱، ص۳۸۶؛ امینی‌، عبد الحسین‌، الغدیر، جلد ۲، ص۳۶۳؛ مجلسی‌، محمد باقر، بحارالانوار، جلد ۲۱، ص۱۱۵
  7. بخاری، محمد، التاریخ‌، الصغیر، جلد ۱، ص۱۰۲
  8. علی‌، جلد ۴، ص۱۵
  9. واقدی، محمد، المغازی، جلد ۱، ص۵۸۱؛ ابن‌ سعد، محمد، الطبقات‌ الکبری، جلد ۴، ص۹۶؛ طبری، تاریخ، جلد ۲، ص۶۲۵
  10. واقدی، محمد، المغازی، جلد ۱، ص۵۹۳؛ ابن‌ سعد، محمد، الطبقات‌ الکبری، جلد ۴، ص۹۶؛ طبری، تاریخ، جلد ۲، ص۶۲۵؛ ابن‌ کثیر، البدایہ و النہایہ، جلد ۲، ص۱۷۵
  11. واقدی، محمد، المغازی، جلد ۲، ص۷۴۹
  12. واقدی، محمد، المغازی، جلد ۲، ص۷۴۹؛ابن‌ اثیر، علی‌، اسد الغابہ، جلد ۱، ص۱۷۰؛ قس‌: ابن‌ سعد، محمد، الطبقات‌ الکبری، جلد ۴، ص۲۹۴؛ابن‌ عبدربہ، احمد، العقد الفرید، جلد ۳، ص۳۳۳؛ قلقشندی، احمد، نہایہ الارب‌، ص۳۲۳
  13. واقدی، محمد، المغازی، جلد ۲، ص۸۱۵، ص۸۱۷؛ ابن‌ ہشام‌، عبد الملک‌، السیره النبویہ، جلد ۴، ص۴۴؛ مقریزی، احمد، امتاع‌ الاسماع‌، جلد ۱، ص۳۶۹
  14. ابن‌ اثیر، علی‌، اسد الغابہ، جلد ۱، ص۱۷۰؛؛ ابن‌ حجر عسقلانی‌، احمد، الاصابہ فی‌ تمییز الصحابہ، جلد ۱، ص۱۹۱؛ ابن‌ عبد البر، یوسف‌، الاستیعاب‌، جلد ۱، ص۱۵۰
  15. ابن‌ سعد، محمد، الطبقات‌ الکبری، جلد ۴، ص۲۹۴؛ بلاذری، احمد، انساب‌ الاشراف‌، جلد ۱، ص۳۶۵؛ ابن‌ حبان‌، محمد، مشاہیر علماء الامصار، ص۶۱؛ ابن‌ اثیر، الکامل‌، جلد ۲، ص۲۶۶
  16. واقدی، محمد، المغازی، جلد ۲، ص۸۰۰؛ ابن‌ سعد، محمد، الطبقات‌ الکبری، جلد ۴، ص۲۹۴
  17. ابن‌ سعد، محمد، الطبقات‌ الکبری، جلد ۴، ص۲۹۴؛ ابن‌ حزم‌، علی‌، جمہره انساب‌ العرب‌، ص۲۳۹
  18. بلاذری، احمد، فتوح‌ البلدان‌، ص۴۳۶-۴۳۷؛ صفدی، جلد ۱۰، ص۱۰۲
  19. ابن‌ سعد، محمد، الطبقات‌ الکبری، جلد ۴، ص۲۹۴؛ ابن‌ حزم‌، علی‌، جمہره انساب‌ العرب‌، ص۲۳۹؛ شیخ‌ طوسی‌، رجال‌، ص۴۶
  20. مامقانی‌، عبدالله‌، تنقیح‌ المقال‌، ص۱۶۹؛ قس‌: ابونعیم‌ اصفہانی‌، احمد، معرفه الصحابہ، جلد ۳، ص۱۴۵
  21. شیخ‌ طوسی‌، امالی‌، جلد ۱، ص۳۸۵؛ ابونعیم‌ اصفہانی‌، احمد، معرفه الصحابہ، جلد ۳، ص۱۴۵- ۱۴۶

مآخذ

  • ابن‌ اثیر، علی‌، اسد الغابہ، بیروت‌، دار احیاء التراث‌ العربی‌
  • ابن‌ اثیر، علی‌، الکامل‌
  • ابن‌ حبان‌، محمد، مشاہیر علماء الامصار، بہ کوشش‌ مرزوق‌ علی‌ ابراہیم‌، بیروت‌، ۱۴۰۸ق‌
  • ابن‌ حجر عسقلانی‌، احمد، الاصابہ فی‌ تمییز الصحابہ، بیروت‌، ۱۸۳۵ع
  • ابن‌ حزم‌، علی‌، جمہره انساب‌ العرب‌، بیروت‌، ۱۴۰۳ق‌
  • ابن‌ سعد، محمد، الطبقات‌ الکبری، بیروت‌، دار صادر
  • ابن‌ عبد البر، یوسف‌، الاستیعاب‌، بہ کوشش‌ علی‌ محمد بجاوی، قاہره‌، ۱۳۸۰ق‌
  • ابن‌ عبد ربہ، احمد، العقد الفرید، بہ کوشش‌ عبد المجید ترحینی‌، بیروت‌، دار الکتب‌ العلمیہ
  • ابن‌ عراقی‌، احمد، ذیل‌ الکاشف‌، بہ کوشش‌ بوران‌ ضناوی، بیروت‌، ۱۴۰۶ق‌/۱۹۸۶ع
  • ابن‌ کثیر، البدایہ و النہایہ، بہ کوشش‌ احمد ابو ملحم‌ و دیگران‌، بیروت‌، ۱۴۰۵ق‌
  • ابن‌ ہشام‌، عبد الملک‌، السیره النبویہ، بہ کوشش‌ مصطفی‌ سقا و دیگران‌، بیروت‌، دار احیاء التراث‌ العربی‌
  • ابو نعیم‌ اصفہانی‌، احمد، معرفہ الصحابہ، بہ کوشش‌ محمد راضی‌ ابن‌ حاج‌ عثمان‌، مدینہ، ۱۴۰۸ق‌
  • امینی‌، عبد الحسین‌، الغدیر، بیروت‌، ۱۴۰۳ق‌
  • بخاری، محمد، التاریخ‌، الصغیر، بہ کوشش‌ محمد ابراہیم‌ زاید، بیروت‌، ۱۴۰۶ق‌
  • بلاذری، احمد، انساب‌ الاشراف‌، بہ کوشش‌ محمد حمید الله‌، قاہره‌، ۱۹۵۹ع
  • بلاذری، احمد، فتوح‌ البلدان‌، بہ کوشش‌ عبدالله‌ انیس‌ طباع‌، بیروت‌، ۱۴۰۷ق‌
  • تستری، محمد تقی‌، قاموس‌ الرجال‌، قم‌، ۱۴۱۰ق‌
  • خویی‌، ابو القاسم‌، معجم‌ رجال‌ الحدیث‌، قم‌، ۱۴۰۳ق‌
  • شیخ‌ طوسی‌، محمد، امالی‌، نجف‌، ۱۳۸۴ق‌
  • شیخ‌ طوسی‌، محمد، رجال‌، نجف‌، ۱۳۸۰ق‌
  • صفدی، خلیل‌، الوافی‌ بالوفیات‌، بہ کوشش‌ ژاکلین‌ سوبلہ و دیگران‌، بیروت‌، ۱۴۰۰ق‌
  • طبری، تاریخ‌؛ علی‌، جواد، المفصل‌ فی‌ تاریخ‌ العرب‌ قبل‌ الاسلام‌، بیروت‌، ۱۹۷۰ع
  • قلقشندی، احمد، نہایة الارب‌، بیروت‌، ۱۴۰۵ق‌
  • مامقانی‌، عبد الله‌، تنقیح‌ المقال‌، نجف‌، ۱۳۵۰ق‌
  • مجلسی‌، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت‌، ۱۴۰۳ق‌
  • مقریزی، احمد، امتاع‌ الاسماع‌، بہ کوشش‌ محمود محمد شاکر، قاہره ۱۹۴۱ع
  • واقدی، محمد، المغازی، بہ کوشش‌ مارسدن‌ جونز، تہران‌، ۱۴۰۵ق