حدیث منزلت

فاقد خانہ معلومات
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
جانبدار
غیر سلیس
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے

متن حدیث:

"‌أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّاأنـّه لانَبی بَعدی"‌۔
ترجمہ: اے علی! تمہارے لئے میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون کے لئے کو موسیٰ کے نزدیک تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

حدیث منزلت، مشہور احادیث نبوی میں سے اور سنی علماء کے ہاں بھی تسلیم شدہ حدیث ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ(ص) کی نسبت امیرالمؤمنین(ع) کی منزلت اور دیگر اصحاب پر آپ(ع) کی برتری اور فوقیت ظاہر کی گئی ہے اور شیعہ علماء کی نظر میں یہ احادیث متواترہ میں سے ہے اور رسول اللہ(ص) کی جانشینی کے لئے آپ(ع) کی اہلیت اور حقانیت کی دلیل ہے۔

یہ حدیث بارہا اور مختلف مناسبتوں سے مختلف مواقع پر رسول اکرم(ص) سے سنی گئی ہے اور ان مواقع و مناسبتوں میں اہم ترین وہ موقع تھا جب آپ(ص) جنگ تبوک کے لئے جارہے تھے۔ مشہور ترین نقل حدیث کچھ یوں ہے کہ رسول اکرم(ص) نے امام علی(ع) سے مخاطب ہوکر فرمایا:

«أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّاأنـّه لانَبی بَعدی‌»۔
ترجمہ: اے علی! تمہارے لئے میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون کے لئے کو موسیٰ کے نزدیک تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔[1]

بیان حدیث کے مواقع

یہ حدیث مختلف عبارات و الفاظ کے ساتھ مختلف مواقع و مقامات پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سے صادر ہوئی ہے؛ جیسے:

حدیث منزلت کو مختلف صورتوں میں اور مختلف عبارات سے نقل کیا گیا ہے تاہم ان ساری روایات کا مشترکہ مضمون یہی ہے کہ "رسول اللہ(ص) کے نزدیک امام علی(ع) کی منزلت و مرتبت وہی ہے جو موسی(ع) کے نزدیک ہارون(ع) کو حاصل تھی۔ عبارت میں مختصر سے اختلاف کا سبب بھی یہ ہے کہ یہ حدیث مکرر در مکرر اور مختلف مواقع پر نقل ہوئی ہے چنانچہ بعض راویوں نے اس کے مضمون کو [شاید اپنے الفاظ میں] نقل کیا ہے۔

حدیث کے شیعہ اور سنی مآخذ

مذکورہ حدیث تاریخ اور حدیث کے مختلف منابع نیز کلامی منابع میں نقل ہوئی ہے۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag۔[21]۔[22]۔[23]۔[24]۔[25]۔[26]۔[27]۔[28]

حتی بعض شیعہ علماء نے اس حدیث کو مستقل کتب و تالیفات کا موضوع قرار دیا ہے؛ منجملہ: میر حامد حسین، (متوفٰی 1306ہجری) نے اپنے مجموعے عبقات الانوار کی ایک جلد کو اس حدیث کے لئے مختص کردیا ہے۔ حاکم حسکانی[29] نے اپنے استاد "ابوحازم حافظ عبدوی" سے نقل کی ہے جنہوں نے اس کو پانچ ہزار سندوں سے روایت کی ہے۔ دوسری نقل کے مطابق مشہور ترین راویوں میں سے 88 راویوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔[30] ابن تیمیہ[31]، عبدالحق دہلوی، گنجی شافعی، ابوالقاسم علی بن محسِّن تنوخی اور سیوطی جیسے افراد نے بھی اس کی صحت و شہرت پر گواہی دی ہے۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag یہ حدیث بخاری نے یوں نقل کی ہے:

"حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِیمَ بْنَ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِی صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ لِعَلِی: "‌أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکونَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ، مِنْ مُوسَی‌"۔[32]

صحیح مسلم میں حدیث کی عبارت کچھ یوں ہے:
"حَدَّثَنَا یحْیی بْنُ یحْیی التَّمِیمِی وَأَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ وَعُبَیدُ اللَّهِ الْقَوَارِیرِی وَسُرَیجُ بْنُ یونُسَ کلُّهُمْ عَنْ یوسُفَ الْمَاجِشُونِ - وَاللَّفْظُ لاِبْنِ الصَّبَّاحِ - حَدَّثَنَا یوسُفُ أَبُو سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکدِرِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیبِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ عَنْ أَبِیهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلی الله علیه وسلم- لِعَلِی «‌أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَی إِلاَّ أَنَّهُ لاَ نَبِی بَعْدِی ». قَالَ سَعِیدٌ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُشَافِهَ بِهَا سَعْدًا فَلَقِیتُ سَعْدًا فَحَدَّثْتُهُ بِمَا حَدَّثَنِی عَامِرٌ فَقَالَ أَنَا سَمِعْتُه، فَقُلْتُ آنْتَ سَمِعْتَهُ فَوَضَعَ إِصْبَعَیهِ عَلَی أُذُنَیهِ فَقَالَ نَعَمْ وَإِلاَّ فَاسْتَکتَا"۔[33]

اہل سنت کے دیگر مصادر حدیث میں بھی یہ حدیث نقل ہوئی ہے۔[34]۔[35]۔[36]۔[37]۔[38]۔[39]۔[40]۔[41]۔[42]۔[43]۔[44]۔[45]۔[46]۔[47]

اہل سنت کے ہاں یہ حدیث صحیح ہے

ابن ابی الحدید معتزلی[48] نے کہا ہے کہ یہ حدیث تمام اسلامی فرقوں اور مکاتب کے ہاں متفق علیہ ہے اور ابن عبدالبر[49] نے اس حدیث کو نقل کرنے والی روایات کو صحیح ترین اور مستحکم ترین قرار دیا ہے۔ بعض مصادر حدیث میں اس حدیث کے تمام طرق و اسناد کو ذکر کیا گیا ہے[50]۔[51] حاکم نیشابوری نے [52] میں حدیث کی اسناد و طرق کو صحیح جانا ہے اور حافظ ذہبی نے تلخیص المستدرک[53] میں اس کی صحت پر تاکید کی ہے حتی امیرالمؤمنین(ع) کے مخالفین و معاندین بھی اس حدیث کا انکار نہیں کرسکے ہیں اور خواہ ناخواہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ خطیب بغدادی کے بقول[54] اموی ـ مروانی بادشاہ ولید بن عبدالملک نے بھی اس حدیث کو اصولی طور پر قبول کیا ہے لیکن [اس نے اپنے اسلاف کی روایت جاری رکھتے ہوئے حدیث میں لفظی تحریف کا ارتکاب کیا ہے اور] ہارون کو قارون سے بدل دیا ہے۔ مامون عباسی نے علماء کے ساتھ بحث کے دوران اس حدیث سے استناد کیا ہے۔[55] خطیب بغدادی[56] عمر بن خطاب نے حدیث منزلت سے استناد کرتے ہوئے علی(ع) کے خلاف دشنام طرازی کرنے والے شخص کو منافق گردانا ہے۔ معاویہ نے بھی حدیث منزلت کا انکار نہیں کیا اور جب اس نے (امام علی(ع) کے مخالفین میں سے) "سعد بن ابی وقاص" سے پوچھا کہ "تم علی کو گالی کیوں نہيں دیتے؟"، تو سعد نے کہا: "میں ان تین فضیلتوں کی بنا پر امام علی(ع) کو گالی نہیں دیتا جو رسول اللہ(ص) نے ان کے لئے بیان کی ہیں"، اور پھر آپ(ع) کی تین فضیلتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، حدیث منزلت نقل کردی جس کے بعد معاویہ نے سعد کو سبّ امیرالمؤمنین(ع) پر آمادہ کرنے کی کوششیں ترک کردیں۔[57]۔[58]۔[59]

زید بن ارقم بھی ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے اور اپنی روایت میں اس بات کا بھی اضافہ کیا ہے کہ جب رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا؛ کچھ لوگوں نے گمان کیا کہ رسول اللہ(ص) امام علی(ع) سے ناراض ہیں!! خبر امام علی(ع) تک پہنچی تو جاکر رسول اللہ(ع) کو اس مسئلے سے آگاہ کیا چنانچہ رسول اللہ(ص) نے جواب میں یہی حدیث ارشاد فرمائی۔[60]

حاکم نیشابوری نے اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے اور ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے یہ حدیث جنگ تبوک کے موقع پر ارشاد فرمائی ہے۔ نیز ابن عباس نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے اپنا ارشاد جاری رکھتے ہوئے فرمایا: "یہ درست اور شائستہ امر نہیں ہے کہ میں چلا جاؤں بغیر اس کے کہ تم میرے جانشین بن کر رہو" نیز فرمایا: "میرے بعد تم ہر مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت کے ولی اور سرپرست ہو"۔[61]۔[62]۔[63] حدیث کے دوسرے حصے کی عبارت متعدد مصادر و مآخذ حدیث میں درج ہے۔[64]۔[65]۔[66]۔[67]

حدیث منزلت سے استناد و استدلال

یہ حدیث امام علی(ع) کی فضیلت کے علاوہ آپ(ع) کی خلافت و عصمت کی دلیل بھی ہے؛ کیونکہ رسول خدا(ص) نے نبوت کے سوا حضرت ہارون(ع) کے تمام فضائل و خصوصیات اور مناصب اور عہدوں کو حضرت علی(ع) کے لئے ثابت کردیا ہے۔ قرآن مجید میں خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ حضرت موسی(ع) نے اظہار رسالت اور انجام تبلیغ کا حکم پا کر عرض کیا کہ ان کے بھائی حضرت ہارون کو ان کی مدد کے لئے مامور اور کار رسالت میں شریک فرمائے؛ ارشاد ہوا:

"وَاجْعَل لِّي وَزِيراً مِّنْ أَهْلِي (29) هَٰرُونَ أَخِي (30) اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي (31) وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي (32) (ترجمہ: اور میرے لیے میرے خاندان میں سے میرے بھائی ہارون کو قرار دے دے (30ـ29) ان کے ذریعے سے میری کمر کو مضبوط کر دے (31) اور انہیں میرے کام میں شریک کر دے (32))[؟–29 تا 32]"۔[68]


چنانچہ خداوند متعال نے ان کی درخواست قبول کردی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

"قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى (ترجمہ: خدا نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری مانگ تمہیں عطا ہوئی اے موسیٰ!")[؟–36]۔[69]

اور ہارون(ع) بھائی موسی(ع) کی غیر موجودگی میں ان کے جانشین ٹہرے:

"وَقَالَ مُوسَى لأَخِيهِ هَٰرُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي (ترجمہ: اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم میری قوم میں میرے خلیفہ اور جانشین ہوجاؤ۔")[؟–142]۔[70]

بےشک حضرت موسی(ع) کے تمام تر عہدے اور مناصب ان کے بھائی ہارون(ع) کے لئے بھی تھے؛ اور اگر ہارون(ع) موسی(ع) کے بعد زندہ رہتے تو یقینا ان کے جانشین اور خلیفہ ہوتے۔ [تاہم یہودی روایات کے مطابق وہ [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی(ع) کی وفات سے چالیس سال قبل دنیا سے رخصت ہوئے تھے)۔

ہارون(ع) متعدد مراتب و مقامات اور مناصب کے مالک تھے اور رسول اللہ(ع) نے امام علی(ع) کو ہارون سے تشبیہ دے کر آپ(ع) کی عظمت و مرتبت ظاہر کی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ(ع) ہی حضرت رسول(ص) کے خلیفہ اور جانشین ہیں۔ قرآن کریم میں بےشک حضرت موسی(ع) اور ہارون(ع) کے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون(ع) موسی(ع) کے وزیر اور ان کے تمام کاموں میں شریک تھے چنانچہ امام علی(ع) بھی رسول اللہ(ص) کے کار ولایت و امامت میں شریک اور صاحب مقام خلافت تھے[71] چنانچہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: ۔۔۔ سوا اس کے میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔[72] بنو اسرائیل کے درمیان ہارون(ع) حضرت موسی(ع) کے بعد دوسری بڑی اور اہم شخصیت کے مالک تھے؛ امام علی(ع) بھی امت محمد(ص) میں ایسے ہی تھے؛ ہارون(ع) حضرت موسی(ع) کے بھائی تھے اور امام علی(ع) بھی اہل سنت اور شیعہ کی متواتر حدیث مواخات کے مطابق محمد(ص) کے بھائی ہیں؛ ہارون(ع) قوم موسی(ع) کے درمیان خدا اور اپنے زمانے کے پیغمبر (حضرت موسی علیہ السلام|حضرت موسی(ع)]] کے نزدیک اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں بہترین فرد تھے اور امام علی(ع) بھی امت محمد(ص) میں ایسی ہی منزلت کے مالک اور پوری امت کے درمیان خدا اور اس کے رسول کے ہاں برترین و بہترین فرد تھے۔[73] ہارون(ع) حضرت موسی(ع) کی غیر موجودگی میں مطلق طور پر ان کے جانشین تھے اور امام علی(ع) بھی ایسے ہی تھے خاص طور یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:

"لاینبغی أن أذهب اِلّا وأنت خَلیفَتی
ترجمہ: یہ درست نہیں ہے کہ میں چلاجاؤں اور تم میرے خلیفہ نہ ہو۔۔[74]

ہارون(ع) قوم حضرت موسی(ع) کے عالم ترین فرد تھے اور اور امام علی(ع) بھی رسول خدا(ص) کے فرمان کے مطابق امت محمد(ص) کے عالم ترین فرد ہیں۔[75]۔[76]

ہارون(ع) کی اطاعت حضرت موسی(ع) کے وصی یوشع بن نون پر واجب تھی جس طرح کہ امام علی(ع) کی اطاعت ابوبکر، عمر اور عثمان اور ہر دوسرے مسلمان پر پر واجب تھی۔[77]

ہارون(ع) خداوند متعال اور حضرت موسی(ع) کے نزدیک محبوب ترین شخصیت تھے، امام علی(ع) بھی ایسے ہی تھے؛ خداوند متعال نے حضرت موسی(ع) کی پشت کو ہارون(ع) کے ذریعے مستحکم فرمایا تو محمد(ص) کی پشت کو امام علی(ع) کے ذریعے مستحکم کیا؛ ہارون(ع) ہر خطا و گناہ سے معصوم تھے اور امام علی(ع) بھی خطا و گناہ اور فراموشی سے معصوم و محفوظ ہے۔[78]

شبہات و اعتراضات اور جوابات

پہلا شبہہ

بعض سنی علماء نے حدیث کی سند کو مخدوش قرار دیا ہے اور بعض دوسرے سنی علماء نے اس کو خبر واحد قرار دیا ہے۔[79]

شیعہ علماء نے جواب دیا ہے کہ:
بے شک یہ حدیث "حدیث صحیح"، "خبر مستفیض" بلکہ اس سے بھی بالاتر یہ "خبر متواتر" ہے اور محدثین کے بقول یہ حدیث "أصَحُ السُنَنِ وأَثبَتُ الآثارِ" (یعنی سنتوں میں صحیح ترین اور آثار میں مستحکم ترین و استوار ترین) ہے؛ حتی کہ ذہبی جو اہل سنت کے اہم ترین علماء میں سے ہیں اپنی کتاب "تلخیص المستدرک"[80] میں اس حدیث کی صحت پر گواہی دی ہے ۔ اگر یہ حدیث صحیح نہ ہوتی تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نقل نہ ہوتی۔ علاوہ ازیں معاویہ ـ جو امام علی علیہ السلام کا معاند ترین دشمن تھا اور منابر پر آپ(ع) پر سب و لعن کا حکم دے چکا تھا، ـ نے نہ صرف حدیث منزلت کا انکار نہیں کیا بلکہ خود بھی اس حدیث کا راوی ہے!۔[81]

دوسرا شبہہ

اہل سنت سے وابستہ بعض علماء کا دعوی ہے کہ یہ حدیث صرف ایک بار غزوہ تبوک کے موقع پر صادر ہوئی ہے[82] اور بعض دوسروں نے یہ دائرہ زیادہ تنگ کرکے کہا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے امام علی(ع) کو صرف مدینہ میں اور اپنے خاندان کے درمیان اپنا جانشین قرار دیا تھا![83]۔[84] ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث صحیح ہے لیکن اس کا مفہوم و مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول اکرم(ص) کے تمام مناصب اور تمام عہدے امام علی(ع) کے ثابت ہوئے ہیں بلکہ حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ امام علی(ع) صرف جنگ تبوک کے موقع پر، اور رسول اللہ(ص) کی غیر موجودگی میں، اور وہ بھی صرف خاندانی امور میں آپ(ص) کے جانشین اور خلیفہ تھے، جس طرح کہ ہارون(ع) موسی(ع) کی غیر موجودگی میں ان کے خلیفہ اور جانشین تھے۔

جواب

  1. اہل سنت کے متعدد علماء نے اس واقعے کو جنگ تبوک تک محدود نہیں جانا ہے اور ان کی رائے ہے کہ یہ حدیث جنگ تبوک تک محدود نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ(ص) نے یہ جملہ مختلف مواقع پر بیان فرمایا ہے۔ ابن ابی الحدید[85] امام علی(ع) کی وزارت کی تائید میں قرآن کریم اور احادیث و روایات سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: حضرت ہارون(ع) کے تمام مراتب و مناصب علی(ع) کے ثابت ہیں اور اگر رسول اللہ(ص) خاتم الانبیاء [اور رسالت کا سلسلہ جاری رہتا] تو حضرت علی(ع) کار رسالت میں بھی آپ(ع) کے ساتھ شریک ہوتے۔ رسول خدا(ص) نے حتی علی علیہ السلام کے بیٹوں کے نام بھی ہارون(ع) کے بیٹوں کے نام قرار دیئے اور انہیں حسن اور حسین کے نام عطا کئے اور فرمایا: میں نے ان پر ہارون(ع) کے بیٹوں شُبَّر و شُبَیر، کے نام رکھ لئے۔[86]۔[87]۔[88]۔[89]
  1. صحابہ بھی اس حدیث سے تمام مناصب کے معنی اخذ کرتے تھے؛ مثال کے طور پر جب جابر بن عبداللہ انصاری سے حدیث منزلت کے معنی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا: رسول خدا(ص) نے اس حدیث کے توسط سے علی(ع) کو ـ خواہ اپنے ایام حیات میں خواہ اپنے وصال کے بعد کے لئے ـ اپنی امت میں اپنا جانشین قرار دیا ہے اور ان کی اطاعت کو تم پر واجب قرار دیا ہے۔[90]

تیسرا شبہہ

ہارون(ع) حضرت موسی(ع) کے ایام حیات میں ان کی خلافت اور تمام مناصب کے عہدیدار تھے کیونکہ وہ حضرت موسی(ع) کے ایام حیات میں ہی دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں لہذا ممکن ہے کہ امام علی(ع) بھی رسول اللہ(ص) کے ایام حیات میں ہارون(ع) کی تمام منزلتوں کے مالک رہے ہوں؛ چنانچہ حدیث منزلت کو رسول اللہ(ص) کے وصال کے بعد آپ(ع) کی خلافت کے لئے نص اور ثبوت قرار نہیں دیا سکتا۔[91]۔[92]۔[93]

جواب

  1. إلّا أنـَّه لانبی بعدی (سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے) میں کلمۂ استثناء (إلا) عموم کا افادہ کرتا ہے اور تمام مراتب و مناصب اور تمام منزلتیں امام علی(ع) کے لئے رسول اللہ(ص) کے ایام حیات میں بھی اور بعد از وصال بھی، ثابت ہیں ورنہ تو استثناء کی ضرورت نہ تھی۔ طبرسی کے بقول[94] محدثین کا اجماع ہے کہ رسول اللہ(ص) نے جنگ تبوک کے موقع پر امام علی(ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا اور کہیں کوئی نصّ اور ثبوت نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ رسول اللہ(ص) نے امام علی(ع) کو اس منصب سے معزول کیا ہے چنانچہ یہ منصب ہمیشہ امام علی(ع) کے پاس رہا۔
  2. ہارون(ع) موسی(ع) کے بعد زندہ نہ تھے کہ خلافت کا منصب سنبھالیں۔ اگر ہارون(ع) موسی(ع) کے بعد زندہ رہتے، یقینا موسی(ع) کا عہدہ ان ہی کے پاس ہوتا [جس طرح کہ وہ حضرت موسی(ع) کے ایام حیات میں ان کے خلیفہ تھے]؛ حدیث کے مطابق خلافت کا منصب امام علی(ع) کے پاس تھا اور جب تک وہ ہیں اور پیغمبر(ص) نہیں ہیں تو خلافت کا عہدہ آپ(ع) ہی کے پاس رہے گا۔

ایک عمدہ مماثلت

جناب ہارون(ع) موسی(ع) کے خلیفہ ہوئے اور لوگ سامری کا دھوکا کھا گئے اور گوسالہ پرست ہوئے، اور کسی نے بھی ہارون(ع) کی مدد کا حق ادا نہیں کیا اور ہارون(ع) نے بامر مجبوری صبر ہی کو مصلحت سمجھا۔ حدیث منزلت یہ تمام واقعات کو امام علی(ع) کے لئے بیان کرتی ہے۔ علی(ع) رسول خدا(ص) کے خلیفہ ہوئے اور ہارون(ع) سے امام(ع) کی مشابہت ان امور کی طرف پلٹتی ہے اور اس میں ایام حیات اور بعد از وصال کا مسئلہ اور حیات و وصال کی قید موجود ہی نہیں ہے۔

حوالہ جات

  1. صنعانی، المصنَّف ، ج5، ص405ـ406؛ بخاری، التاریخ الکبیر، ج7، جزء4، قسم 1، ص301؛ ابونعیم اصفهانی، حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ج4، ص375، ج7؛ وہی ماخذ، ج7 ص195ـ197؛ وہی ماخذ، ج8، ص307؛ بیهقی، السنن الکبری، ج13، ص275ـ276؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج4، ص465، 642؛ وہی ماخذ، ج5، ص332، ج10، ص499؛ هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج9، ص109؛ متقی، کنزالعمال، ج11، ص599؛ وہی ماخذ، ج13، ص151، 192۔
  2. مناقب امام علی علیه‌السلام، ابن مغازلی: 255 ـ 257 ۔
  3. ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج1، ص277۔
  4. وہی ماخذ، ج3، ص417۔
  5. وہی ماخذ، ج7، ص513، 591۔
  6. بخاری، صحیح البخاری، ج5، ص129۔
  7. صحیح مسلم، ج2، ص1870ـ 1871۔
  8. سنن ترمذی، ج5، ص638، 640ـ641۔
  9. سنن نسائی، ص50 ـ61۔
  10. حاکم نیشابوری، مستدرک،ج3، ص133ـ134۔
  11. احمدبن عبداللّه طبری، الریاض النضرة فی مناقب العَشرَة، ج3، ص117ـ119۔
  12. ابن کثیر، البدایة و النهایة، ج5، ص7ـ8۔
  13. هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج9، ص110۔
  14. عینی، عمدةالقاری: شرح صحیح البخاری، ج16، ص301۔
  15. سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص168۔
  16. سیوطی، الدر المنثور، ج3، ص236، 291۔
  17. متقی، کنزالعمال، ج13، ص163، 171ـ172۔
  18. نیز رجوع کنید به میرحامد حسین، عبقات الانوار ، ج2، دفتر1، ص29ـ59۔
  19. شرف الدین، المراجعات، ص130۔
  20. حسینی میلانی، نفحات الازهار، ج18، ص363ـ411۔
  21. صحیح البخاری، ج5، ص129۔
  22. سنن ترمذی، ج5، ص638۔
  23. کلینی، الکافی، ج8، ص106ـ107۔
  24. باقلانی، کتاب تمهید الاوائل و تلخیص الدلائل، ص457۔
  25. قاضی عبدالجباربن احمد، المغنی، ج10، قسم 1، ص158۔
  26. خطیب بغدادی، تاریخ بغدادی، ج4، ص465۔
  27. فخررازی، البراهین در علم کلام، ج2، ص257۔
  28. تفتازانی، شرح المقاصد، ج5، ص296۔
  29. اہل سنت کے مشہور محدث متوفٰی پانچویں صدی ہجری؛ کتاب "شواہد التنزیل ج1، ص195۔
  30. حسینی میلانی، نفحات الازهار، ج17، ص23ـ28۔
  31. منهاج السنة النبویة، ج7، ص326۔
  32. محمد بن اسمعیل بخاری، صحیح البخاری، ج4، ص208، ج5، ص129۔
  33. 6370 – مسلم بن حجاج قشیری (نیشابوری)، صحیح مسلم، دار الجیل بیروت ۔ دار الأفاق الجدیدة ـ بیروت، ج7، ص119، باب من فضائل علی بن ابیطالب ۔
  34. حاکم نیشابوری، مستدرک الصحیحین، ج3، ص133ـ 134۔
  35. مفید، الارشاد، ص81ـ84۔
  36. ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج3، ص1097ـ1098۔
  37. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص278۔
  38. سبط ابن جوزی، تذکرةالخواص، ص27ـ 28۔
  39. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغه، ج13، ص211۔
  40. جوینی خراسانی، فرائدالسمطین فی فضائل المرتضی و البتول و السبطین و الائمة من ذریتهم علیهم السلام، ج1، ص122۔
  41. هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج9، ص111۔
  42. ابن حجر عسقلانی، کتاب الاصابة فی تمییزالصحابة، ج2، ص509۔
  43. سیوطی، تاریخ الخلفاء، تاریخ الخلفاء، ص168۔
  44. حلبی، ج3، ص187ـ 188۔
  45. قندوزی، ینابیع المَودَّةِ لِذَوی القُربی، ج1، ص111ـ112، 137۔
  46. حسینی فیروزآبادی، فضائل الخمسة من الصحاح الستة، ج1، ص347ـ364۔
  47. خضری، اتمام الوفاء فی سیرةالخلفاء، ص169 ۔
  48. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج13، ص211۔
  49. الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج3، ص1097۔
  50. ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج3، ص1097۔
  51. ابن عساکر، ترجمةالامام علی بن ابی طالب علیه‌السلام من تاریخ مدینة دمشق، ج1، ص306ـ391۔
  52. مستدرک الصحیحین، ج3، ص134۔
  53. رجوع کریں: حاکم نیشابوری، المستدرک، ج3، ص134۔
  54. تاریخ بغدادی، ج8، ص262 ۔
  55. ابن عبدربّه، العقدالفرید، ج5، ص357ـ358 ۔
  56. تاریخ بغداد، ج8، ص498۔
  57. ابن اثیر، اسدالغابه، ج4، ص104ـ105۔
  58. قندوزی، ینابیع المَودَّةِ لِذَوی القُربی، ج1، ص161۔
  59. شرف الدین،المراجعات، ص132ـ133 ۔
  60. رجوع کریں: هیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص111 ۔
  61. رجوع کریں: ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج1، ص545۔
  62. حاکم نیشابوری، ج3، ص134۔
  63. ابن کثیر، البدایة و النهایة، ج7، ص351۔
  64. احمد بن علی نسائی، سنن نسائی، ص64۔
  65. محمدبن جریر طبری، تاریخ طبری، ج3، ص129۔
  66. ابن حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ص124۔
  67. قزوینی، مع الدکتور موسی الموسوی فی کتابه "الشیعة والتصحیح"، ص82ـ87۔
  68. سوره طه، آیات 29 تا 32۔
  69. سوره طه آیه 36۔
  70. سوره اعراف آیه 142۔
  71. رجوع کریں: میرحامد حسین، عبقات الانوار، ج2، دفتر1، ص86ـ88۔
  72. بخاری، التاریخ الکبیر، ج7، جزء4، قسم 1، ص301۔
  73. وہی ماخذ، ج2، دفتر1، ص104ـ110۔
  74. رجوع کریں: ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج1، ص545۔
  75. متقی هندی، کنزالعمال، ج11، ص614۔
  76. میرحامد حسین، عبقات الانوار، ج2، دفتر1، ص113ـ129۔
  77. رجوع کریں: وہی ماخذ، ج2، دفتر1، ص88ـ93 ۔
  78. وہی مآخذ ج2، دفتر1، ص100ـ104۔
  79. نمونے کے طور پر رجوع کریں: آمدی، الامامة من أبکار الأفکار فی اصول الدّین، ص167۔
  80. حاکم نیشابوری، مستدرک، ج3، ص134 ۔
  81. ابن حجر هیتمی، الصواعق المحرقة فی الرد علی اهل البدع و الزندقة، ص179۔
  82. ابن تیمیه، منهاج السنة النبویة، ج7، ص322 ۔
  83. باقلانی، کتاب تمهید الاوائل و تلخیص الدلائل، ص457۔
  84. میرحامد حسین، عبقات الانوار، ج2، دفتر1، ص74ـ76 ۔
  85. شرح نهج البلاغه، ج13، ص211۔
  86. مسند احمد بن حنبل، ج1، ص158۔
  87. حاکم نیشابوری،مستدرک، ج3، ص168۔
  88. متقی، کنزالعمال، ج12، ص117ـ118۔
  89. مجلسی،بحارالانوار، ج101، ص110ـ112۔
  90. رجوع کنید به ابن بابویه، معانی الأخبار، ص74۔
  91. قاضی عبدالجباربن احمد، المغنی، ج10، قسم 1، ص159ـ160۔
  92. جرجانی، شرح المواقف، ص8، 363۔
  93. میرحامد حسین، عبقات الانوار، ج2، دفتر1، ص86 ۔
  94. اسرار الإمامة، ص252۔

مآخذ

  • قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی۔
  • ابراهیم بن محمد جوینی خراسانی، فرائدالسمطین فی فضائل المرتضی و البتول و السبطین و الائمة من ذریتهم علیهم السلام، چاپ محمدباقر محمودی، بیروت 1398ـ1400/ 1978ـ1980۔
  • ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، چاپ محمد ابوالفضل ابراهیم، قاهره 1385ـ1387/1965ـ1967، چاپ افست بیروت، بی تا۔
  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت 1385ـ1386/ 1965ـ1966، چاپ افست 1399ـ1402/ 1979ـ1982۔
  • ابن اثیر، اسدالغابة فی معرفة الصحابة، چاپ محمد ابراهیم بنا و محمد احمد عاشور، قاهره 1970ـ1973۔
  • ابن بابویه، معانی الأخبار، چاپ علی اکبر غفاری، قم 1361ش۔
  • ابن تیمیه، منهاج السنة النبویة، چاپ محمد رشاد سالم، ریاض، 1406/1986۔
  • ابن حجر عسقلانی، کتاب الاصابة فی تمییزالصحابة، مصر 1328، چاپ افست بیروت، بی تا۔
  • ابن حجر هیتمی، الصواعق المحرقة فی الرد علی اهل البدع و الزندقة، چاپ عبدالوهاب عبداللطیف، قاهره 1385/1965۔
  • ابن حنبل، مسندالامام احمدبن محمدبن حنبل، بیروت 1414/1993۔
  • ابن طاووس، الطرائف فی معرفة مذاهب الطوائف، چاپ علی عاشور، بیروت 1420/1999۔
  • ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت 1412/1992۔
  • ابن عبدربّه، العقدالفرید، ج5، چاپ عبدالمجید ترحینی، بیروت 1404/1983۔
  • ابن عساکر، ترجمةالامام علی بن ابی طالب علیه‌السلام من تاریخ مدینة دمشق، چاپ محمدباقر محمودی، ج1، بیروت 1398/1978۔
  • ابن کثیر، البدایة و النهایة، بیروت 1411/ 1990۔
  • ابونعیم اصفهانی، حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء، بیروت 1407/1987۔
  • احمدبن حسین بیهقی، السنن الکبری، بیروت 1424/2003۔
  • احمدبن عبداللّه طبری، الریاض النضرة فی مناقب العَشرَة، بیروت 1405/1984۔
  • احمدبن علی نسائی، تهذیب خصائص الامام علی، چاپ ابواسحاق حوینی اثری، بیروت 1406/1986۔
  • حسن بن علی طبرسی، اسرارالامامة، مشهد 1380ش۔
  • خطیب بغدادی، تاریخ بغدادی۔
  • سبط ابن جوزی، تذکرةالخواص، بیروت 1401/1981۔
  • سلیمان بن ابراهیم قندوزی، ینابیع المَودَّةِ لِذَوی القُربی، چاپ علی جمال اشرف حسینی، قم 1416۔
  • عبدالحسین شرف الدین، المراجعات، چاپ حسین راضی، قم 1416۔
  • عبدالرحمان بن ابی بکر سیوطی، الدرالمنثور فی التفسیر بالمأثور، چاپ نجدت نجیب، بیروت 1421/2001۔
  • عبدالرحمان بن ابی بکر سیوطی، تاریخ الخلفاء، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، قم 1370ش۔
  • عبدالرزاق بن همام صنعانی، المصنَّف، چاپ حبیب الرحمان اعظمی، بیروت 1403 / 1983۔
  • عبیداللّه بن عبداللّه حسکانی، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، چاپ محمدباقر محمودی، تهران 1411/1990۔
  • علاءالدین قزوینی، مع الدکتور موسی الموسوی فی کتابه الشیعة و التصحیح، قم 1414/1994۔
  • علی بن ابراهیم حلبی، السیرةالحلبیة، چاپ عبداللّه محمد خلیلی، بیروت 1422/2002۔
  • علی بن ابوبکر هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بیروت 1402/1982۔
  • علی بن ابی طالب(ع)، امام اول، نهج البلاغه، ترجمه جعفر شهیدی، تهران 1371ہجری شمسی۔
  • علی بن حسام الدین متقی، کنزالعمال فی سنن الاقوال و الافعال، چاپ بکری حیانی و صفوة سقا، بیروت 1409/1989۔
  • علی بن محمد آمدی، الامامة من أبکار الأفکار فی اصول الدّین، چاپ محمد زبیدی، بیروت 1412/1992۔
  • علی بن محمد جرجانی، شرح المواقف، چاپ محمد بدرالدین نعسانی حلبی، مصر 1325/ 1907، چاپ افست قم 1370ہجری شمسی۔
  • علی حسینی میلانی، نفحات الازهار فی خلاصة عبقات الانوار، قم 1384ہجری شمسی۔
  • قاضی عبدالجباربن احمد، المغنی فی ابواب التوحید و العدل، ج10، چاپ محمود محمد قاسم، ]بی جا، بی‌تا۔
  • کلینی، کافی۔
  • مجلسی، بحارالانوار۔
  • محمد خضری، اتمام الوفاء فی سیرةالخلفاء، بیروت 1402/1982۔
  • محمدبن اسماعیل بخاری، کتاب التاریخ الکبیر، بیروت۔ 1986۔
  • محمدبن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، چاپ محمد ذهنی افندی، استانبول 1401/1981، چاپ افست بیروت، بی تا۔
  • محمدبن جریر طبری، تاریخ (بیروت)۔
  • محمدبن طیب باقلانی، کتاب تمهید الاوائل و تلخیص الدلائل، چاپ عمادالدین احمد حیدر، بیروت 1414/1993۔
  • محمدبن عبداللّه حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، و بذیله التلخیص للحافظ الذهبی، بیروت: دارالمعرفة، بی تا۔
  • محمدبن عمر فخررازی، البراهین در علم کلام، چاپ محمدباقر سبزواری، تهران 1341 ـ 1342ہجری شمسی۔
  • محمدبن عیسی ترمذی، الجامع الصحیح و هو سنن الترمذی، ج5، چاپ ابراهیم عطوه عوض، بیروت، بی تا۔
  • محمدبن محمد مفید، الارشاد، قم: مکتبة بصیرتی، بی تا۔
  • محمودبن احمد عینی، عمدةالقاری: شرح صحیح البخاری، چاپ عبداللّه محمود محمد عمر، بیروت 1421/2001۔
  • مرتضی حسینی فیروزآبادی، فضائل الخمسة من الصحاح الستة، بیروت 1402/1982
  • مسعودبن عمر تفتازانی، شرح المقاصد، چاپ عبدالرحمان عمیره، قاهره 1409/1989، چاپ افست قم 1370ـ1371ش۔
  • مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، چاپ محمد فؤاد عبدالباقی، استانبول 1413/1992۔
  • مهدی سماوی، الامامة فی ضوء الکتاب و السّنة، ج1، کویت 1399/1979۔
  • میرحامد حسین، عبقات الانوار فی امامة الائمة الاطهار علیهم السلام، ج2، دفتر1، چاپ عبدالرحیم مبارک و دیگران، مشهد 1383ہجری شمسی۔