وضو

ویکی شیعہ سے
(وضوء سے رجوع مکرر)

اللہ کی خشنودی کے قصد سے کچھ خاص آداب کے ساتھ ہاتھ اور چہرے کو دھونے نیز سر اور پاؤں کا مسح انجام دینے کو وُضو کہا جاتا ہے۔ وضو بذات خود مستحب ہے لیکن نماز، طواف اور بعض دوسری عباتوں کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ہیں۔ وضو کے بغیر قرآن اور اللہ تعالی کے اسماء کو چھونا جائز نہیں ہے۔ بعض موارد جیسے مسجد میں داخل ہونے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے لئے وضو مستحب ہے۔ تاریخی مآخذ کے مطابق وضو کا حکم پیغمبر اکرمؑ کی بعثت کے ابتدائی دنوں میں مکہ میں آیا۔ سورہ مائدہ کی چھٹی آیہ اور اسی طرح 400 سے زیادہ احادیث وضو کے بارے میں معصومینؑ سے نقل ہوئی ہیں۔ وضو کرنا یا بعض دفعہ تجدید وضو کرنا، احادیث میں گناہ پاک ہونے، غصہ ختم ہونے، طول عمر، محشر میں چہرہ نورانی ہونے اور رزق زیادہ ہونے کا سبب قرار دیا ہے۔

وضو کو ترتیبی اور ارتماسی دو طریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے۔ ترتیبی وضو میں پہلے چہرہ اور پھر دایاں ہاتھ اور اس کے بعد بایاں ہاتھ دھویا جاتا ہے۔ پھر سر کا مسح اور اس کے بعد دایاں پاؤں کا مسح اور پھر بایاں پاؤں کا مسح کیا جاتا ہے۔ لیکن ارتماسی وضو میں چہرہ اور ہاتھوں کو پانی میں ڈبویا جاتا ہے پھر سر اور پاؤں کا مسح کیا جاتا ہے۔ اگر زخم سے پٹی کھولنا سخت ہو یا ضرر ہو تو اس صورت میں وضو جبیرہ لیا جائے گا۔

وضو میں ہاتھ کے دھونے نیز سر اور پاؤں کے مسح میں شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختلاف ہے؛ جیسے شیعہ ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونے کو واجب سمجھتے ہیں لیکن اہل سنت ہاتھوں کو نیچے سے اوپر کی طرف دھونے کو واجب سمجھتے ہیں۔ احادیث کے مطابق خلیفۂ دوم کی خلافت کے آخر تک مسلمانوں کے درمیان وضو کے بارے میں کوئی اہم اختلاف نہیں تھا اور سب ایک ہی طریقے(شیعوں کا طریقہ) سے وضو کرتے تھے۔ اسلامی مآخذ وضو میں شیعہ اور سنی کے اختلاف کو تیسرے خلیفے کے دور سے قرار دیتے ہیں۔

مفہوم‌شناسی

اللہ کے حکم کی تعمیل اور قربت کی قصد سے ہاتھ اور منہ دھونے نیز سر اور پاؤں کو کسی خاص طریقے سے مسح کرنے کو وضو کہا جاتا ہے۔[1] یہ عبادی عمل بعض دوسری عبادات جیسے نماز اور طواف صحیح ہونے کی شرط ہے اور اسی طرح سے قرآن مجید کے حروف کو چَھونا جائز ہونے کے لئے شرط ہے۔[2]

تاریخی مآخذ کے مطابق بعثت کی ابتدائی دنوں مکہ میں جبرئیلؑ نے پیغمبر اکرمؐ کو وضو سکھایا اور آنحضرتؐ نے لوگوں کو سکھایا۔[3]

احکام

وضو کا طریقہ اور اس کی اہمیت قرآن اور حدیث میں ذکر ہوا ہے۔[4] وضو کا حکم سوره مائده کی چھٹی آیت میں ذکر ہوا ہے۔ اور اس آیۂ مجیدہ کو آیۂ وضو کہا جاتا ہے:[5] جس میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاهِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَ أَیدِیکُمْ إِلَی الْمَرافِقِ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُمْ وَ أَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَینِ

(ترجمہ:اے ایمان والو!جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو تم اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو اور تم اپنے سروں کے کچھ حصے اور پاؤں کا کعبین تک مسح کرو۔)[6] وضو لینا خود ایک مستحب عمل ہے۔[7] اور نماز میت کے علاوہ دیگر نمازیں، طواف، قرآن کے حروف کو چَھونے اور اللہ تعالی کے نام کو لمس کرنے کے لئے وضو کرنا واجب ہے۔[8] اور پیغمبر اکرمؐ، ائمہؑ اور حضرت زہراؑ کے ناموں کو چھونے کے لئے بھی احتیاط واجب کی بنا پر وضو کرنا واجب ہے۔[9] اور بعض موارد؛ جیسے مساجد اور ائمہ کے حرم میں داخل ہونے کے لئے، قرآن مجید کی تلاوت کرنے اور قرآن کو ساتھ رکھنے اور اہل قبور کی زیارت کرنے کیلئے وضو کرنا مستحب ہے۔[10]

وضو کے اقسام

چہرہ کا دھونا
ہاتھوں کا دھونا
سر کا مسح
پاؤں کا مسح

وضو کو عام حالات میں ارتماسی یا ترتیبی طریقے سے[11]اور مخصوص حالات میں جبیرہ کے طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔[12]

ترتیبی وضو میں پہلے چہرہ کو جہاں سے سر کے بال اگے ہیں وہاں سے ٹھوڑی کے آخری حصے تک اور چوڑائی میں ایک ہاتھ کی چوڑائی کے برابر دھویا جاتا ہے پھر دایاں اور اس کے بعد بایاں ہاتھ کو کہنی سے کچھ اوپر سے انگلیوں کے نوک تک دھویا جاتا ہے۔اس کے بعد اسی وضو کی تری سے سر کے سامنے والے حصے کو اور پھر دایاں پاؤں اور اس کے بعد بایاں پاؤں کا مسح کیا جاتا ہے۔[13]

ارتماسی وضو میں اوپر سے نیچے کی طرف دھونے والی شرط کی رعایت کے ساتھ منہ اور ہاتھ پانی میں ڈبو دیا جاتا ہے اور پھر سر اور پاؤں کے مسح کو ہاتھ سے کیا جاتا ہے۔[14] وضو جبیره میں اعضاء وضو میں سے جتنا دھونا ممکن ہے اسے دھویا جائے اور جس حصے پر زخم ہے اس پر کوئی کپڑا رکھ کر زخم پر گیلا ہاتھ پھیرایا جائے۔ وضو جبیرہ صرف اس صورت میں جائز ہے کہ زخم سے پٹی کھولنا سخت ہو یا مضر ہو یا زخم پر پانی ڈالنا ناممکن ہو۔[15] بعض موقعوں پر وضو کی جگہ تیمم کرنا واجب ہوتاہے؛ جیسے نماز کا وقت اتنا تنگ ہوجائے کہ وضو کرنے سے پوری نماز یا نماز کا بعض حصہ وقت کے بعد انجام پائے۔[16] اسی طرح اگر پانی میسر نہ ہو یا بدن کے لئے مضر ہو تو بھی وضو کی جگہ تیمم انجام دیا جاتا ہے۔[17] جس نے غسل جنابت انجام دیا ہے اسے وضو نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسی غسل کے ساتھ نماز پڑھے۔[18]

وضو کیسے باطل ہوتی ہے؟

وضو بعض صورتوں میں باطل ہوتی ہے، فقہی مآخذ میں وضو باطل کرنے والی چیزوں (مبطلات وضو) کو حدث اصغر کہا جاتا ہے۔[19] ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • پیشاب، پاخانہ یا معدے کی ہوا کا خارج ہونا۔
  • آنکھوں کی بینائی اور کانوں کی سماعت پر غالب آجانے والی نیند، لیکن اگر کان سن سکتے ہوں تو وضو باطل نہیں ہوتی ہے۔[20]
  • وہ چیزیں جو عقل کو زائل کر دیتی ہیں مثلا دیوانگی، مستی یا بے ہوشی۔[21]
  • استحاضہ کا خون۔
  • ہر وہ کام جس کی وجہ سے غسل واجب ہو جاتا ہے جیسے جنابت اور مسِّ میت وغیرہ۔[22]

فاضل مقداد کے کہنے کے مطابق بعض اہل سنت فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ اگر نامحرم عورت اور مرد کی جلد ایک دوسرے سے مس ہوجائے تو اس سے وضو باطل ہوتی ہے۔ اور اس بات کی دلیل بھی قرآن مجید کی کسائی کی قرائت کے مطابق جہاں پر آیۂ مجیدہ میں :«أَوْ لامَسْتُمُ النِّسا» [23] کو «لمَسْتم» پڑھا ہے۔ لیکن شیعہ فقہاء کے مطابق «لامَسْتم» ہمبستری کیلئے کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔[24]

وضو، شیعہ اور اہل سنت میں فرق

شیعہ اور اہل سنت کے مابین وضو میں ہاتھ دھونے اور سر اور پاؤں کے مسح کے طریقے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[25] شیعہ اور سنی میں زیادہ تر اختلاف سورہ مائدہ کی چھٹی آیت سے اقتباس اور مفہوم میں ہے۔ یا اس کی قرائت کے اختلاف کی وجہ سے ہے۔[26] شیعہ، معصوم کی روایات کے پیش نظر [27]، و أیدیکم إلی المرافق اس آیہ شریفہ میں ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونے کو واجب سمجھتے ہیں، اہل سنت کی چاروں مذاہب کے خلاف کہ جو ہاتھوں کو نیچے سے اوپر کی طرف دھونے کو واجب سمجھتے ہیں۔[28] جبکہ اہل سنت کے مذاہب اسے مستحب سمجھتی ہیں۔[29]

اہل سنت کی چاروں مذاہب وضو میں پاؤں کو ٹخنے سمیت دھونے واجب سمجھتے ہیں،[30] جبکہ شیعہ پاوں کی انگلیوں کے نوک سے ٹخنوں تک مسح کرنے کے قائل ہیں۔[31] فقہ شیعہ کے مطابق یہ مسح بھی وضو کی تری سے ہونی چاہیے۔[32] اسی طرح مالکی اور حنفی، وضو میں ترتیب اور حنفی اور شافعی موالات کو واجب نہیں سمجھتے ہیں۔ لیکن شیعہ اور اہل سنت کی دوسری مذاہب ان کی رعایت کرنے کو بھی واجب سمجھتے ہیں۔[33]

بعض موقعوں پر وضو میں تقیہ کیا حاتا ہے: علی ابن یقطین کو جو بنی عباس کی حکومتی افراد میں شامل ہوتا تھا امام کاظمؑ نے اسے اہل سنت کی طرح وضو کرنے کا حکم دیا تاکہ ہارون الرشید کو اس کا شیعہ ہونے کے بارے میں معلوم نہ ہوسکے۔[34] امام موسی کاظمؑ نے اس سے پہلے علی ابن یقطین کو عباسی حکومت میں رہ کر شیعوں کی خدمت کرنے کا حکم دیا تھا۔[35] جبکہ دوسرے شیعوں کو بنی عباسی کی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے منع کرتے تھے۔[36]

ایک اور اختلاف سر کے مسح کرنے میں ہے۔شیعوں کے نزدیک سر کا مسح ہاتھوں کے دھونے کی بچی ہوئی تری سے کرنا واجب ہے لیکن اہل سنت کے مذاہب نئے پانی کی تری سے واجب یا افضل سمجھتے ہیں ۔[37]

خلیفہ سوم کا دور اور وضو میں اختلاف کا آغاز

تاریخی روایات کے مطابق حضرت عمر بن خطاب کے دور خلافت تک وضو میں کسی قسم کا اختلاف نہیں تھا ۔تمام مسلمان ایک ہی طرح سے وضو کرتے تھے ۔ ۔روایات کے مطابق وضو میں اخلاف حضرت عثمان کے زمانے میں شروع ہوا ۔[38]

تاریخی منابع کی روایات کے مطابق حضرت عثمان نے پیغمبر اکرم کے وضو کی تشریح کرتے ہوئے ایک مرتبہ پاؤں کا مسح ذکر کیا[39] اور دوسری مرتبہ ایک اور مقام پر پاؤں کے دھونے کو بیان کیا ۔[40]. جبکہ اہل بیت سے اسکے برعکس رسول اللہ کا وضو پاؤں کے مسح کے ساتھ ذکر ہوا ہے ۔حضرت علی(ع) اسکے متعلق فرماتے ہیں کہ اگر دین لوگوں کی نظر کے تابع ہوتا تو انکی نظر میں پاؤں کے تلوں کا مسح کرنا اوپر کے حصے کے مسح کرنے کی نسبت زیادہ سزاوار ہوتا لیکن میں نے رسول خدا کو پاؤں کے اوپر کے حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔[41] بعض محققین کا کہنا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے دور میں وضو کے بارے میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا[42] اور پیغمبر اکرمؐ پاؤں کو دھونے کے بجائے مسح کیا کرتے تھے۔[43] آنحضرتؐ کے دور کے علاوہ پہلے خلیفے کے دور کے بارے میں بھی کوئی اختلاف ذک نہیں ہوا ہے۔[44] خلیفہ دوم کے خلافت کے دَوران بھی صرف ایک مورد کے علاوہ کسی اور مورد کے بارے میں اختلاف ذکر نہیں ہوا ہے اور وہ بھی موزے کے اوپر سے مسح کرنا۔[45]

جو کچھ کَنْزُ العُمّال[46] یا بعض دوسرے مآخذ میں ذکر ہوا اس کے مطابق [47] بعض محققوں کا کہنا ہے کہ وضو میں اختلاف تیسرے خلیفے کے دور سے مسلمانوں میں ظاہر ہوا ہے۔[48] موزے پر سے مسح کرنے کے بارے میں امام علی(ع) و عمر بن خطاب کے درمیان اختلاف کو استناد کرتے ہوئے سید علی شهرستانی کا کہنا ہے کہ عثمان ابن عفان کے برعکس دوسرا خلیفہ پاؤں کو نہیں دھوتے تھے بلکہ وہ بھی پاؤں کا مسح کرتے تھے۔[49]

شیعہ آیۂ وضو اور وضو کے بارے میں منقول روایات پر اعتماد کرتے ہوئے قائل ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ اور ان کے اصحاب اہل سنت کی طرح پاؤں نہیں دھوتے تھے بلکہ شیعوں کی طرح پاؤں کا مسح کرتے تھے۔[50] ہاتھ دھونے کے بارے میں بھی پیغمبر اکرمؐ سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں جن میں آنحضرتؐ کا وضو شیعوں کی طرح ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونے کی تاکید ہے۔[51] شیعوں کے مطابق پاؤں دھونے کے بارے میں منقول روایات جن کو اہل سنت نے استناد کیا ہے، وہ ضعیف اور بےبنیاد ہیں اور آیۂ وضو سے بھی متضاد ہیں۔[52]

آداب، مستحبات و فضایل

وضو کرتے وقت چند چیزیں مستحب ہیں:

  • قبلہ رخ وضو کرنا :رسول اکرم نے فرمایا : جو شخص قبلہ رخ وضو کرے گا اس کے نامۂ اعمال میں دو رکعت نماز کا ثواب لکھا جائے گا ۔[53]
  • مسواک کرنا:رسول اکرمؐ نے حضرت علی ؑ سے کی ہوئی وصیت میں فرمایا ہے: ہر نماز کیلئے وضو کرتے وقت مسواک کرنا تمہارے لئے ضروری ہے۔[54] حضرت امام باقرؑ : مسواک کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھنا ان ستر نمازوں سے افضل ہے جو مسواک کے بغیر پڑھی جائیں۔ [55]
  • وضو کے ابتدا میں بسم اللہ کہنا۔[56]
  • وضو سے پہلے کُلّی کرنا۔[57]
  • ناک میں پانی ڈالنا۔[58]
  • وضو میں سات سو پچاس گرام سے زیادہ پانی استعمال نہ کرنا نیز وضو کے بعد اعضاء کو خشک نہ کرنا[59]۔
  • وضو کے وقت سورۂ قدر کی تلاوت کرنا[60]۔

مستحب دعائیں

روایات کے مطابق امام علیؑ وضو کے دَوران بعض دعائیں پڑھتے تھے۔ ان روایات کے مطابق جو بھی وضو کرتے ہوئے ان دعاؤں کو پڑھے تو وضو کے پانی کے ہر قطرے کے بدلے اللہ تعالی ایک فرشتہ خلق کرتا ہے جو قیامت تک اللہ تعالی کی تسبیح، تقدیس اور تکبیر میں مشغول رہتا ہے اور قیامت تک اس کا ثواب وضو کرنے والے کے نام درج ہوگا۔[61] وضو کے دوران پڑھی جانے والی دعائیں درج ذیل ہیں:

پانی دیکھتے وقت اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذی جَعَلَ الْمآءَ طَهُورا وَلَمْ یجْعَلْهُ نَجِساً تعریف ہے اس پروردگار کی جس نے پانی کو نجس نہیں پاکیزہ قرار دیا ہے۔
ہاتھ دھوتے وقت بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ اَللّهُمَّ اجْعَلْنی مِنَ التَّوّابینَ وَاجْعَلْنی مِنَ الْمُتَطَهِّرینَ خدا کے نام اور اس کی مدد سے اے اللہ! تو مجھے توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں میں قرار دے ۔
کلی کے وقت اَللّهُمَّ لَقِّنی حُجَّتی یوْمَ اَلْقاک وَاَطْلِقْ لِسانی بِذِکراک جس روز میں تجھ سے ملاقات کروں اس روز اپنے دلائل کی تلقین کرنا اور اپنے ذکر کیلئے میری زبان کو آزاد فرما۔
ناک میں پانی ڈالتے وقت اَللّهُمَّ لا تُحَرِّمْ عَلَی ریحَ الْجَنَّةِ وَاجْعَلْنی مِمَّنْ یشَمُّ ریحَها وَرَوْحَها وَطیبَها اے اللہ !مجھ پر جنت کی خوشبو حرام نہ کرنا اور مجھے اس کی خوشبو، اس کی نرمی اور اس کی لطافت سے بہرہ مند ہونے والوں میں سے قرار دے۔
چہرہ دھونے کے وقت اَللّهُمَّ بَیضْ وَجْهی یوْمَ تَسْوَدُّ فیهِ الْوُجُوهُ وَلا تُسَوِّدْ وَجْهی یوْمَ تَبْیضُّ فیهِ الْوُجُوهُ اے اللہ ! جس روز لوگوں کے چہرے سیاہ ہونگے اس روز میرے چہرے کو سفید فرما اور جس دن لوگوں کے چہرے سفید ہونگے اس روز میرے چہرے کو سیاہ نہ کرنا۔
دیاں ہاتھ دھوتے وقت اَللّهُمَّ اَعْطِنی کتابی بِیمینی وَالْخُلْدَ فِی الْجِنانِ بِیساری وَحاسِبْنی حِساباً یسیراً اے اللہ ! میرا اعمال نامہ میرے دائیں ہاتھ میں قرار دے اور جنت کی ہمیشہ کی زندگی مجھے آسانی سے عطا فرما اور میرا حساب آسانی سے لینا۔
بایاں ہاتھ دھوتے وقت اَللّهُمَّ لا تُعْطِنی کتابی بِشِمالی وَلا مِنْ وَرآءِ ظَهْری وَلا تَجْعَلْها مَغْلُولَةً اِلی عُنُقی وَاَعُوذُ بِک مِنْ مُقَطَّعاتِ النّیرانِ اے اللہ ! میرا اعمال نامہ میرے بائیں ہاتھ میں قرار نہ دینا اور نہ میری پشت سے دینا اور نہ ہی اسے میری گردن میں لٹکانانیز میں آگ کے شعلوں سے پناہ مانگتا ہوں۔
سر کے مسح وقت اَللّهُمَّ غَشِّنی رَحْمَتَک وَبَرَکاتِک اے بار الہا! مجھے اپنی رحمت اور برکات میں ڈھانپ لے۔
پاؤں کے مسح کے وقت اَللّهُمَّ ثَبِّتْنی عَلَی الصِّراطِ یوْمَ تَزِلُّ فیهِ الاَقْدامُ وَاجْعَلْ سَعْیی فیما یرْضیک عنّی یا ذَاالْجَلالِ وَالاِکرامِ جس روز لوگوں کے قدم پل صراط پر لڑکھڑائیں گے اس روز میرے قدموں کو ثابت قدم رکھنا؛اے ذوالجلال و الاکرام ! میری سعی کو اپنی رضایت اور خوشنودی میں سے قرار دے۔
وضو کے بعد اَللّهُمَّ اِنّی اَسْئَلُک تَمامَ الْوُضُوءِ وَتَمامَ الصَّلوةِ وَتَمامَ رِضْوانِک وَالْجَنَّةَ. اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمینَ اے بار الہا ! میں تجھ سے وضو،نماز، خوشنودی اور جنت کے کمال کی دعا کرتا ہوں۔تمام حمد ہے اس اللہ کیلئے جوعالمین کا پروردگار ہے۔

قرآن اور روایات میں وضو کی اہمیت

قرآن پاک میں صرف ایک مقام پر وضو کی کیفیت بیان ہوئی ہے اور وہ سورۂ مائدہ کی چھٹی آیت ہے جس میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے :

یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاهِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَ أَیدِیکُمْ إِلَی الْمَرافِقِ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُمْ وَ أَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَینِ

(ترجمہ:اے ایمان والو!جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو تم اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو اور تم اپنے سروں کے کچھ حصے اور پاؤں کا کعبین تک مسح کرو۔)

اہل سنت نے شیعہ حضرات کے برعکس اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔اہل سنت کا وضو تین جہات: ہاتھ دھونے کی جہت،سر کے مسح کرنے اور پاؤں کے دھونے میں شیعہ حضرات سے مختلف ہے ۔ وسائل الشیعہ اور مستدرک وسائل الشیعہ میں 565 کے قریب احادیث وضو کے متعلق بیان ہوئی ہیں ۔اتنی بڑی تعداد میں احادیث کا ذکر ہونا اسلام میں وضو کی اہمیت کو بیان کرتا ہے ان روایات کاکچھ حصہ وضو کی جزئیات اور کچھ حصہ اس کی دیگر جہات کو بیان کرتا ہے ۔مثلا

  • طول عمر:قال رسول اللہ:اَکثِر مِن الطَّهورِ یزِدِ اللّہ فی عُمُرِکَ[62] ۔کثرت سے وضو کیا کرو اللہ تمہاری عمر طولانی کرے گا ۔
  • خشم و ناراضگی کو ختم کرنا: إنّ الغضب من الشّیطان و إنّ الشّیطان خلق من النّار و إنّما تطفا النّار بالماء فإذا غضب أحدکم فلیتوضّأ[63]غضب شیطان سے ہے اور شیطان آگ سے خلق ہوا ۔آگ کو صرف پانی بجھا سکتا ہے پس جب بھی تم میں سے کوئی غصہ میں ہو تو اسے چاہئے کہ وہ وضو کرے ۔
  • غم و اندوہ سے نجات :ما یمنع أحدکم إذا دخل علیه غم من غموم الدنیا- أن یتوضأ ثم یدخل مسجده و یرکع رکعتین- فیدعو الله فیهما أ ما سمعت الله یقول:وَ اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاةِ[64]کونسی چیز تمہیں اس بات سے روکتی ہے کہ جب تمہیں دنیاوی غم و اندوہ پہنچے تو وہ وضو کرے اور مسجد میں جائے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کرے ؟کیا تم نے قول خدا نہیں سنا کہ صبر او نماز کے ذریعے مدد طلب کرو۔
  • نورایت میں اضافہ :الْوُضُوءُ عَلَی الْوُضُوءِ نُورٌ عَلَی نُور[65] تجدید وضو کرنا گویا نور میں مزید نور کا اضافہ ہے ۔
  • کفارۂ گناہ: امام علی(ع): و کان الوضوء إلی الوضوء کفّارة لما بینهما من الذّنوب[66]دو وضوؤں کے درمیان گناہوں کا کفارہ وضو ہے ۔
  • فقر اور وسواس کا خاتمہ:مَنْ تَطَهَّرَ ثُمَّ أَوَی إِلَی فِرَاشِهِ بَاتَ وَ فِرَاشُهُ کَمَسْجِدِهِ وَ إِنْ ذَکَرَ أَنَّهُ لَیسَ عَلَی وُضُوءٍ فَتَیمَّمَ مِنْ دِثَارِهِ کَائِناً مَا کَانَ لَمْ یزَلْ فِی صَلَاةٍ مَا ذَکَرَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ [67]جو شخص رات با وضو ہو کر بستر پر لیٹتا ہے تو اس کا بستر مسجد کی مانند ہے ۔اگر اسے یاد آجائے تو اپنے لحاف پر ہی تیمم کرے تو ایسا شخص گویا ساری رات ذکر خدا کے ساتھ نماز میں مشغول رہا ہے ۔

وضو کے شرائط اور احکام

  1. پانی اور اعضائے وضو کا پاک ہونا۔
  2. پانی کا مطلق ہونا(پانی خاک آلودہ نہ ہو)۔
  3. وضو کا پانی، برتن اور مکان وضو مباح ہو غصبی نہ ہو۔
  4. وضو کے پانی کا ظرف سونے یا چاندی سے بنا ہوا نہ ہو۔
  5. وضو کیلئے وقت کافی ہو اگر وضو کرنے میں نماز قضا ہو جائے گی تو تیمم کرے۔
  6. قصد قرب کے ساتھ وضو کرے۔
  7. ترتیب کی رعایت کرے۔
  8. پی در پی اعمال انجام دے ۔
  9. وضو کرنے میں کسی دوسرے سے مدد نہ لے۔
  10. پانی کا استعمال اس کے لئے مضر نہ ہو۔
  11. اعضائے وضو پر پانی پہنچنے سے کوئی چیز مانع نہ ہو۔[68]

جن چیزوں کے لئے وضو کرنا چاہئے

چھ چیزوں کے لئے وضو کرنا واجب ہے۔

(اول) نماز میت کے علاوہ واجب نمازوں کے لئے اور مستحب نمازوں میں وضو شرط صحت ہے۔
(دوم) اس سجدے اور تشہد کے لئے جو ایک شخص بھول گیا ہو جب کہ ان کے اور نماز کے درمیان کوئی حدث اس سے سر زد ہوا ہو مثلاً اس نے پیشاب کیا ہو لیکن سجدہ سہو کے لئے وضو کرنا واجب نہیں۔
(سوم) خانہ کعبہ کے واجب طواف کے لئے جو کہ حج اور عمرہ کا جز ہو۔
(چہارم) وضو کرنے کی منت مانی ہو یا عہد کیا ہو یا قسم کھائی ہو۔
(پنجم) جب کسی نے منت مانی ہو کہ مثلاً قرآن مجید کا بوسہ لے گا۔
(ششم) نجس شدہ قرآن مجید کو دھونے کے لئے یا بیت الخلاء وغیرہ سے نکالنے کے لئے جب کہ متعلقہ شخص مجبور ہو کر اس مقصد کے لئے اپنا ہاتھ یا بدن کا کوئی اور حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے مس کرے لیکن وضو میں صرف ہونے والا وقت اگر قرآن مجید کو دھونے یا اسے بیت الخلاء سے نکالنے میں اتنی تاخیر کا باعث ہو جس سے کلام اللہ کی بے حرمتی ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ وضو کئے بغیر قرآن مجید کو بیت الخلاء وغیرہ سے باہر نکال لے یا اگر نجس ہو گیا ہو تو اسے دھو ڈالے۔[69]


وضو کے مستحبات

  • قبلہ رخ وضو کرنا :رسول اکرم نے فرمایا : جو شخص قبلہ رخ وضو کرے گا اس کے نامۂ اعمال میں دو رکعت نماز کا ثواب لکھا جائے گا ۔[70]
  • مسواک کرنا:رسول اکرمؐ نے حضرت علی ؑ سے فرمایا:ہر نماز کیلئے وضو کرتے وقت مسواک کرنا تمہارے لئے ضروری ہے ۔ حضرت امام باقرؑ : مسواک کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھنا ان ستر نمازوں سے افضل ہے جو مسواک کے بغیر پڑھی جائیں۔ [71]
  • وضو سے پہلے کُلّی کرنا۔
  • ناک میں پانی ڈالنا۔[72]
  • وضو میں سات سو پچاس گرام سے زیادہ پانی استعمال نہ کرنا نیز وضو کے بعد اعضاء کو خشک نہ کرنا[73]۔
  • وضو کے وقت سورۂ قدر کی تلاوت کرنا[74]۔

حوالہ جات

  1. فلاح‌زاده، احکام دین، ۱۳۸۶ش، ص۴۴-۴۵؛ حسینی دشتی، «وضوء»، در معارف و معاریف، ج۱۰، ص۳۷۰.
  2. فلاح‌زاده، احکام دین، ۱۳۸۶ش، ص۴۴-۴۵؛ حسینی دشتی، «وضو»، در معارف و معاریف، ج۱۰، ص۳۷۰.
  3. مراجعہ کریں: ابن هشام، السیرة النبویه، دارالمعرفه، ج۱، ص۲۴۴؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۰۷.
  4. سبحانی، «وضو در کتاب و سنت»، ص۴.
  5. مرکز فرهنگ و معارف قرآن، دائرة المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۲ش، ص۴۰۷-۴۰۸.
  6. سوره مائده، آیہ 6۔
  7. شیخ انصاری، کتاب الطهاره، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۸۲.
  8. فیض کاشانی، معتصم الشیعه، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۲۴۱.
  9. فلاح‌زاده، احکام دین، ۱۳۸۶ش، ص۵۰.
  10. فلاح‌زاده، احکام دین، ۱۳۸۶ش، ص۵۰.
  11. مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۳۴۷.
  12. مراجعہ کریں: یزدی، العروة‌ الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۴۳۶.
  13. مراجعہ کریں: یزدی، العروة‌ الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۳۵۳-۳۶۶.
  14. امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۱۶۰؛ مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۳۴۷.
  15. فلاح‌زاده، احکام دین، ۱۳۸۶ش، ص۴۷-۴۸.
  16. فلاح‌زاده، احکام دین، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.
  17. ابن ادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۳۵.
  18. فلاح‌زاده، احکام دین، ۱۳۸۶ش، ص۵۷.
  19. فیض کاشانی، رسائل، ۱۴۲۹ق، ج۲، رساله۴، ص۲۲.
  20. یزدی، العروة‌ الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۳۳۰-۳۳۱؛ فیض کاشانی، معتصم الشیعه، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۲۴۱.
  21. یزدی، العروة‌ الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۳۳۰-۳۳۱؛ فیض کاشانی، معتصم الشیعه، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۲۴۱.
  22. توضیح المسائل (المحشی للإمام الخمینی)، ج ‌۱، ص۱۸۸٫۔ فلاح‌زاده، احکام دین، ۱۳۸۶ش، ص۵۱
  23. سوره مائده، آیه ۶.
  24. فاضل مقداد، کنز العرفان، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۲۵.
  25. قمی، «چگونگی انجام وضو نزد فریقین (۱)»، ص۲۹-۳۰.
  26. حسینی، «وضو از دیدگاه مذاهب اسلامی»، ص۶.
  27. حسینی، «وضو از دیدگاه مذاهب اسلامی»، ص۹.
  28. سید سابق، فقه السّنّة، ۱۳۹۷ق، ج۱، ص۴۳.
  29. سید سابق، فقه السّنّة، ۱۳۹۷ق، ج۱، ص۴۸.
  30. سید سابق، فقه السّنّة، ۱۳۹۷ق، ج۱، ص۴۴.
  31. حسینی، «وضو از دیدگاه مذاهب اسلامی»، ص۱۱و۱۲.
  32. حسینی، «وضو از دیدگاه مذاهب اسلامی»، ص۱۱و۱۲.
  33. حسینی، «وضو از دیدگاه مذاهب اسلامی»، ص۱۲.
  34. ر. ک. شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ۲۲۷-۲۲۸.
  35. کشی، رجال کشی، ۱۴۰۹ق، ص۴۴۱.
  36. کشی، رجال کشی، ۱۴۰۹ق، ص۴۴۱.
  37. حسینی، «وضو از دیدگاه مذاہب اسلامی»، در فصلنامہ مطالعات تقریبی مذاہب اسلامی، شماره ۱۷، ص ۱۲.
  38. کنزالعمال، ج ۹، ص۴۴۳، ح ۲۶۸۹۰.
  39. المصنف فی الأحادیث والآثار ج۱ ص۱۶
  40. مسند الدارمی ج۱ ص۵۴۴
  41. ابن ابی شیبہ، المصنف فی الأحادیث والآثار، ج ۱، ص ۲۵؛ كنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، ج ۹، ص ۶۰۶.
  42. شهرستانی، لماذا الإختلاف فی الوضوء، ۱۴۲۶ق، ص۳۱.
  43. آمدی، المسح فی وضوء الرسول، ۱۴۲۰ق، ص۸۰-۸۲.
  44. شهرستانی، لماذا الإختلاف فی الوضوء، ۱۴۲۶ق، ص۳۱.
  45. شهرستانی، لماذا الإختلاف فی الوضوء، ۱۴۲۶ق، ص۳۲.
  46. متقی هندی، کنز العمال، ۱۴۰۶ق، ج۹، ص۴۴۳، ح۲۶۸۹۰.
  47. شهرستانی، لماذا الإختلاف فی الوضوء، ۱۴۲۶ق، ص۳۳.
  48. شهرستانی، لماذا الإختلاف فی الوضوء، ۱۴۲۶ق، ص۳۳.
  49. شهرستانی، لماذا الإختلاف فی الوضوء، ۱۴۲۶ق، ص۳۴-۳۵.
  50. بهبهانی، مسح پاها در وضو، ۱۳۹۵ش، ص۲۶-۴۲.
  51. مراجعہ کریں: حرّ عاملی، وسائل الشیعه، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۳۸۷-۳۹۰.
  52. بهبهانی، مسح پاها در وضو، ۱۳۹۵ش، ص۳۱-۳۳.
  53. مفتاح الفلاح، ص۲۵
  54. «یا علي عليك بالسّواك عند وضوء كلّ صلاة.» (شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، انتشارات جامعه مدرسین، ج۱، ص۵۳.)
  55. صدوق، من لا یحضر الفقیہ ج1 ص 52۔
  56. کان امیرالمومنین إذا توضّأ قال: بسم الله وبالله وخیر الأسماء لله وأکبر الأسماء لله... (شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، انتشارات جامعه مدرسین، ج۱، ص۴۳، ح۸۷.)
  57. امام علی (ع) خطاب به محمد بن ابوبکر: «تمضمض ثلاث مرات واستنشق ثلاثا ... فإننی رأیت رسول الله یصنع ذلک.» (حرّ عاملی، وسائل الشیعه، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۳۹۶، ح۱۰۳۶، ص۳۹۷، ح۱۰۳۸.)
  58. امام علی (ع) خطاب به محمد بن ابوبکر: «تمضمض ثلاث مرات واستنشق ثلاثا ... فإننی رأیت رسول الله یصنع ذلک.» (حرّ عاملی، وسائل الشیعه، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۳۹۶، ح۱۰۳۶، ص۳۹۷، ح۱۰۳۸.)
  59. من لا یحضره الفقیه، ج ۱، ص۱۲۲
  60. فقہ الرضا، ص۷۰
  61. کلینی، فروع کافی، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۱۸۴.
  62. امالی ،شیخ مفید ص6 ح5
  63. نہج الفصاحہ ص۲۸۶، ح ۶۶۰
  64. تفسیر عیاشی ج ۱، ص۴۳، ح ۳۹
  65. وسائل الشیعہ ج۱ ص۳۷۷
  66. من لا یحضره الفقیہ، ج ۱، ص۵۰
  67. تہذیب الاحکام ج2 ص116
  68. توضیح المسائل مراجع، شرائط وضو
  69. سائیٹ
  70. مفتاح الفلاح، ص۲۵
  71. صدوق، من لا یحضر الفقیہ ج1 ص 52۔
  72. مفتاح الفلاح، ص۲۷ و ۲۸
  73. من لا یحضره الفقیه، ج ۱، ص۱۲۲
  74. فقہ الرضا، ص۷۰

مآخذ

  • آمدی، محمدحسن، المسح فی وضوء الرسول: دراسات مقارنة بین المذاهب الاسلامیة، بیروت، دار المصطفی لإحیاء التراث، ۱۴۲۰ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌الله، تحریرالوسیله، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تهران، بی‌تا.
  • ابن‌ادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۱۰ھ۔
  • ابن‌هشام، عبدالملک، السیرة النبویه، تحقیق مصطفی السقا و ابراهیم الابیاری و عبدالحفیظ شبلی، بیروت، دارالمعرفه، بی‌تا.
  • بهبهانی، عبدالکریم، مسح پاها در وضو، ترجمه گروه مترجمان، قم، مجمع جهانی اهل‌بیت، ۱۳۹۵ہجری شمسی۔
  • پاینده، ابوالقاسم، نهج الفصاحة، تحقیق سید هاشم رسولی محلاتی، نشر دنیای دانہجری شمسی۔
  • حرّ عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعة إلی تحصیل مسائل الشریعة، قم، مؤسسة آل البیت لإحیاء التراث، ۱۴۱۶ھ/۱۳۷۴ہجری شمسی۔
  • حسینی دشتی، سید مصطفی، «وضوء»، در معارف و معاریف، ج۱۰، تهران، موسسه فرهنگی آرایه، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • حسینی، حمید، «وضو از دیدگاه مذاهب اسلامی»، در فصلنامه مطالعات تقریبی مذاهب اسلامی، شماره ۱۷.
  • سبحانی، جعفر، «وضو در کتاب و سنت»، در فصلنامه فقه اهل بیت، تابستان ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، سلسلة المسائل الفقهیة، قم، بی‌نا، بی‌تا.
  • سبزواری، سید عبدالاعلی، مهذب الاحکام فی بیان حلال و الحرام، قم، دارالتفسیر، بی‌تا.
  • سید سابق، فقه السّنّة، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۳۹۷ھ۔
  • شهرستانی، سید علی، لماذا الإختلاف فی الوضوء، تلخیص فیس عطار، تهران، مشعر، ۱۴۲۶ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی بن محمدامین، کتاب الطهاره، قم، کنگره جهانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، ۱۴۱۵ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، تصحیح الشیخ حسین الأعلمی، بیروت، موسسة الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۶ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الأمالی، تحقیق علی اکبر غفاری، قم، انتشارات جامعه مدرسین، [۱۴۰۳ھ/۱۳۶۲ہجری شمسی]۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، تصحیح مؤسسه آل البیت، قم، کنگره شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی فیما تعم به البلوی (المحشّی)، تحقیق احمد محسنی سبزواری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۱۹ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی، مکتب آیة‌الله العظمی السید السیستانی.
  • طباطبایی یزدی، العروة الوثقی مع تعالیق الامام الخمینی، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۴۲۲ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملکوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت، دارالتراث، ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تحقیق سید هاشم رسولی محلاتی، المکتبة العلمیة الاسلامیة.
  • غزالی، محمد بن محمد، إحیاء علوم الدین، تحقیق عبدالرحیم بن حسین حافظ عراقی، مقدمه محمد خضر حسین، بی‌جا، دار الکتاب العربی، بی‌تا.
  • «غسل‌هایی که کفایت از وضو می‌کنند»، دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی، جامع المسائل، مرکز پاسخگویی به احکام شرعی و مسائل فقهی، مشاهده ۱۰ مرداد ۱۴۰۲ہجری شمسی۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، کنز العرفان فی فقه القرآن، تحقیق سید محمد قاضی، بی‌جا، مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی، ۱۴۱۹ھ۔
  • فلاح‌زاده، محمدحسین، احکام دین: مطابق با فتاوای مراجع بزرگ تقلید، تهران، مشعر، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • فلاح‌زاده، محمدحسین، درسنامه احکام مبتلا به حجاج، تهران، مشعر، ۱۳۸۹ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن، رسائل فیض کاشانی، تحقیق‌بهزاد جعفری، تهران، مدرسه عالی شهید مطهری، ۱۴۲۹ھ۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن، معتصم الشیعه فی احکام الشریعه، تصحیح مسیح توحیدی، تهران، مدرسه عالی شهید مطهری، ۱۴۲۹ھ۔
  • قمی، علی، «چگونگی انجام وضو نزد فریقین (۱)»، در مجله میقات حج، ش۸۷و۸۸، بهار و تابستان ۱۳۹۳ہجری شمسی۔
  • قمی، علی، «چگونگی انجام وضو نزد فریقین (۳) (مسح)»، در مجله میقات حج، ش۹۰، زمستان ۱۳۹۳ہجری شمسی۔
  • کشی، محمد بن عمر، رجال کشی، مشهد، موسسه نشر دانشگاه مشهد، ۱۴۰۹ھ۔
  • مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت علیهم‌السلام، زیر نظر سید محمود هاشمی شاهرودی، قم، مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی، ۱۴۲۶ھ۔
  • متقی هندی، علی بن حسام‌الدین، کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، تفسیر و تصحیح بکری حیّانی و صفوة السقا، بیروت، مؤسسة الرسالة، ۱۴۰۵ھ۔
  • محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل، قم، موسسة آل البیت لإحیاء التراث، [۱۴۰۷ھ].
  • مرکز فرهنگ و معارف قرآن، دائرة المعارف قرآن کریم، قم، موسسه بوستان کتاب قم، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
  • مغربی، قاضی نعمان، دعائم الإسلام، قم، موسسه آل البیت، ۱۳۸۵ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، رساله احکام جوانان (پسران)، ۱۳۹۰ہجری شمسی۔
  • موسوی خمینی، سید روح الله، توضیح المسائل(محشّی)، تحقیق سید محمدحسین بنی‌هاشمی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۲۴ھ۔
  • نجفی، محمدحسن بن باقر، جواهر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، عباس قوچانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ هفتم، ۱۳۶۲ہجری شمسی۔