پُر اَمن بَقَائے بَاہمی (ایک دوسرے کے ساتھ پرامن زندگی گزارنا) کا مطلب کسی بھی معاشرے میں موجود مختلف عقائد اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ سکون اور تعاون کے ساتھ زندگی گزارنا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں صلح اور پر امن بقائے باہمی کے ساتھ زندگی گزارنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ معاشرے میں موجود اقلیتوں کے حقوق کی رعایت اور غیر مسلموں کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اسلام میں پرامن بقائے باہمی کے اصولوں میں ایک ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اسلامی فقہ میں کافر ذمی کے حوالے سے بیان ہونے والے احکام معاشرے میں مذہبی اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لئے زمینہ ہموار کرتا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کا توحیدی ادیان کو وحدت کی دعوت دینا، ہم عصر حکمرانوں کے نام پیامبر اکرمؑ کے خطوط اور دیگر عرب قبائل کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کے صلح نامے سیرت نبوی میں پرامن بقائے باہمی کے نمونے ہیں۔

اہل‌ بیتؑ کی سیرت میں بھی دوسروں کے مقدسات اور عقائد کا احترام، عام لوگوں کے ساتھ رواداری، دیگر ادیان و مذاہب کے پیروکاروں کی توہین سے پرہیز، غیر شیعوں کے ساتھ سماجی اور معاشرتی امور میں شریک ہونا، اپنے مخالفین کی عیادت اور قومی تعصبات سے پرہیز کرنے کی تلقین کرنا من جملہ ان موارد میں شمار کیا جاتا ہے جنہیں اہل‌ بیتؑ نے معاشرے میں پرامن بقائے باہمی کے اصول کے طور پر بیان کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اہل‌ بیتؑ کے نقطہ نگاہ سے بقائے باہمی اور وحدت، دینی اصولوں اور مبانی کے ساتھ مشروط ہے یعنی معاشرے میں بقائے باہمی اور وحدت کے قیام کے ساتھ ساتھ صحیح عقیدے کی حفاظت میں بھی کوئی خلل واقع نہ ہو۔ مشترک اخلاقی اقدار کو معاشرے میں رائج کرنا بھی من جملہ ان امور میں سے ہے جن پر اہل بیتؑ نے انسانی معاشرے میں پرامن بقائے باہمی کے قیام کے لئے تاکید کی ہیں۔

تعریف اور اہمیت

کسی معاشرے میں متضاد عقائد اور نظریات کے حامل اشخاص یا گروہ کا ایک دوسرے کے ساتھ پرامن اور تعاون کی زندگی گزارنے کو پرامن بقائے باہمی کہا جاتا ہے،[1] اسی طرح دو مختلف سیاسی اور آئینی نظام کے حامل حکومتوں کے درمیان رواداری اور پرامن تعلقات کو بھی پرامن بقائے باہمی کہا جاتا ہے۔[2] عربی زبان میں تَسامح، تَساہل، تَصالح اور تَعایش السِلْمی جیسے الفاظ اس مقصد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔[3]

پرامن بقائے باہمی اسے کہا جاتا ہے کہ ایک معاشرے میں رہنے والے لوگ مختلف عقائد اور مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ سکون اور تعاون کی زندگی گزاریں اور اپنے درمیان موجود اختلافات کو پرامن طریقے سے حل و فصل کریں۔[4] انسانوں کے درمیان اس طرح کا رہن سہن جس میں کسی عقیدے اور مکتب فکر کی حقانیت نیز انسانوں کی سعادت اور شقاوت کا معیار ایک دوسرے کے ساتھ پرامن زندگی گزارنے اور ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرنے کے ساتھ عجین ہے۔[5] سماجی زندگی، سماجی انصاف اور انسانی وقار کو پرامن بقائے باہمی کے بنیادی اصولوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔[6]

اسی طرح پرامن بقائے باہمی کو انسان کی بنیادی ضروریات میں بھی شمار کیا جاتا ہے[7] جو پائدار صلح اور ظلم و تشدد سے پرہیز کرنے کی تأکید کرتی ہے۔[8]بعض اسے صلح سے بھی بالاتر قرار دیتے ہوئے[9] ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور احسان سے تعبیر کی ہے۔[10]

آیت اللہ جعفر سبحانی کے مطابق پرامن بقائے باہمی مذہبی تکثیریت کی طرف رجحان بڑنے کے علل و اسباب میں سے ایک ہے جو شدید مذہبی اور فرقہ ای جنگوں کے بعد وجود میں آیا ہے۔[11] بعض نظریہ جامعہ مدنی کو پرامن بقائے باہمی پر مبتنی قرار دیتے ہیں۔[12]

معاشرے میں پرامن بقائے باہمی اسلامی نقطہ نگاہ سے

اسلامی نقطہ نگاہ سے مختلف عقائد اور مذاہب کے درمیان صلح اور پرامن بقائے باہمی مسلمہ انسانی اقدار اور اسلامی اہداف میں سے ہے۔[13] کہا جاتا ہے کہ اسلام نے مذہب، نسل اور سماجی حیثیت سے قطع نظر تمام انسانوں کے حقوق کی رعایت پر زور دیا ہے، تاہم محاربین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اس حکم سے مستثنی قرار دیا گیا ہے۔[14] اس بنا پر کہا گیا ہے کہ اسلام نے باہمی ارتباط کی بنیاد مفاہمت اور امن و سلامتی پر رکھا ہے[15] [16] اور ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت و آبرو کی پامالی کو حرام قرار دیا ہے تاکہ لوگ امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔[16] اسلامی تعلیمات میں تساہل اور چشم پوشی کو پرامن بقائے باہمی کے مستندات میں شمار کئے جاتے ہیں۔[17]

کہا جاتا ہے کہ اسلام میں پرامن بقائے باہمی کے مصادیق میں مساوات،[18] تمام انبیاء پر ایمان لانا، مذہبی بالادستی کی توہمات سے مقابلہ،[19] مخالفین کے ساتھ گفتگو، مشترکات کی طرف دعوت، مذہب اور عقیدے کی آزادی، انسانی اقدار کا احترام، صلح پر تأکید اور مخالفین کے ساتھ عدالت اور احسان سے پیش آنا شامل ہیں۔[20]

مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی رعایت[21] اور غیر مسلموں کے ساتھ رواداری[22] اسلام میں پرامن بقائے باہمی کے اصولوں میں شمار کیا جاتا ہے[23] اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ عدالت اور انصاف سے پیش آنا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا نیز انہیں بلاوجہ ہراساں کرنے سے گریز کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔[24] معاشرے میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ امن و سکون، عدالت و انصاف اور پرامن بقائے باہمی کی فضا کو برقرار رکھنا اسلامی حاکم کا وظیفہ سمجھا جاتا ہے۔[25]

اسلامی فقہ میں مذہبی اقلیتوں سے مربوط مباحث کافر ذمی کے احکام کے ضمن میں بیان ہوئی ہے[26] اور کہا جاتا ہے کہ ان احکام کا مقصد مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لئے زمینہ ہموار کرنا ہے۔[27] فقہ میں قاعدہ الزام مختلف ادیان و مذاہب کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے مستندات میں شمار ہوتا ہے۔[28] بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ اسلام میں مشرکوں کے ساتھ رواداری اور اسلامی ممالک کے اندر ان کی حمایت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لیکن الہی ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ رواداری کا حکم موجود ہے۔[29]

غیر مسلموں کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی سیرت

انسانوں کے درمیان صلح اور پرامن بقائے باہمی انبیاء خلاص کر پیغمبر اکرمؐ کے اہم اہداف میں شمار کیا جاتا ہے۔[30] مخالفین کے ساتھ رواداری اور پرامن رویہ،[31] انبیاء کی طرف سے توحیدی ادیان کے پیروکاروں کو وحدت کی دعوت،[32] پیغمبر اکرمؐ کا اپنے ہم عصر حکمرانوں اور قبائیلی سرداروں کے نام خطوط[33] اور پیغمبر اکرمؐ کا دوسرے قبائل کے ساتھ منعقد ہونے والے صلح نامے اور میثاق نامے[34] اسام میں پرامن بقائے باہمی کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے مورد استناد واقع ہوتے ہیں۔[35]

اہل کتاب کے سلسلے میں پیغمبر اکرمؐ کی سنت ہمیشہ رواداری پر مبنی تھی؛ من جملہ ان میں بیرونی مداخلت اور اندرونی نا انصافیوں کے مقابلے میں ان کی حمایت کرنا، مسلمان مردوں کو پاکدامن اہل کتاب خواتین سے شادی کی اجازت دینا، ان کو سکونت اور کسب و کار کی اجازت دینا، ان کی گواہی کو قبول کرنا اور ان پر اعتماد کرنا، ان کے ساتھ محترمانہ انداز سے پیش آنا، ان کے بیماروں کی عیادت کرنا، غیر مسلم ہمسایوں کے ساتھ نیکی اور ان کو صدقہ‌ دینا ذمی کفار کے ساتھ عدالت اور انصاف سے پیش آنا اور ان کو اپنے اعتقادات پر عمل کرنے کی آزادی دینا وغیره شامل ہیں۔[36] اسی سلسلے میں پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آیا ہے کہ «جو بھی اہل ذمہ (یہودی، نصرانی اور زرتشتیوں کو جو اسلام کی پناہ میں ہیں) تکیلف پہنچائے، وہ میرا دشمن محسوب ہوگا۔»[37]

عام لوگوں کے ساتھ اہل‌ بیتؑ کی رواداری

اہل‌ بیتؑ کی سیرت میں دوسرے مذاہب کے مقدسات کا احترام اور ان کے اعتقدات کو تحمل کرنا،[38] عام لوگوں کے ساتھ رواداری، دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی توہین نہ کرنا، مذہبی اور سماجی امور میں ان کا ساتھ دینا،[39] مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، دوسروں کے عیوب سے چشم‌ پوشی کرنا، خیرخواہی اور مسلمانوں کے امور کا اہتمام کرنا، صلح کی تأکید، اپنے مخالفین کی عیادت اور قومی تعصبات کا روک تھام[40] جیسے امور اہل‌ بیتؑ کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحوت کے قیام اور ان کے درمیان پرامن رواداری کی نشانی قرار دئے جاتے ہیں۔[41] کہا جاتا ہے کہ معاشرے میں امن و امان کے قیام اور لوگوں کی ایک دوسرے کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اہل بیتؑ نے لوگوں سے حتی الامکان ایک دوسرے کے ساتھ روداری اور پرامن زندگی گزارنے کی تاکید کی ہیں۔[42]

مذکورہ بالا تمام باتوں کے باوجود اہل‌ بیتؑ کے نزدیک پرامن بقائے باہمی دینی اصولوں مبانی کے ساتھ مشروط ہے یعنی ایک دوسرے کے ساتھ روداری اور اتحاد کی فضا برقرار کرتے وقت اپنے صحیح اعتقادات کو بھی ہر قسم کے گزند سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔[43]

زمین پر لوگ جب تک ایک دوسرے سے دوستی کے ساتھ پیش آئیں گے اور امانت اس کے مالک کو واپس کریں گے اور حق پر عمل پیرا رہیں گے تب تک خدا کی رحمت ان کے شامل حال رہے گی۔۔[44]

ائمہ معصومینؑ کی سیرت پرامن بقائے باہمی کی دیگر نشانیوں میں سے ایک امام صادقؑ کی بردباری اور صبر ہے جو ملحدین اور مشرکین کے ساتھ آپ کی گفتگو اور مناظرہ کے وقت پیش آیا۔[45]

بقائے باہمی کی سفارش ائمہ معصومینؑ کی سیرت کے علاوہ ان کے احادیث اور کلام میں بھی دیکھی جا سکتی ہے؛ امام صادقؑ سے نقل ہونے والی ایک حدیث کے مطابق جسے آپ نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کی ہے، «مدارا اور رواداری نصف ایمان ہے۔»[46] ایک اور حدیث میں امام صادقؑ نے غیر ہم عقیدہ افراد کے ساتھ تعامل کے بارے میں اپنے پیروکاروں کو اپنے مخالفین کی عیادت اور تشییع جنازہ میں شرکت کرنے نیز ان کے ساتھ امانت‌داری سے پیش آنے کی سفارش کرتے ہیں۔[47] کہا جاتا ہے کہ بہت ساری احادیث موجود ہیں جن میں خیر و برکت کو ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور محبت سے پیش آنے جبکہ قحطی اور خشک سالی کو ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کے ثمرات میں سے قرار دیتی ہیں۔[48]

خارجہ پالیسی میں پرامن بقائے باہمی کا تصور اور اس پر اسلام کی تأکید

پرامن بقائے باہمی کو عام بین الاقوامی حقوق کے اصلی اجزاء میں شمار کیا جاتا ہے[49] جو پائیدار امن اور بین الاقوامی تعلقات میں تشدد سے گریز پر زور دیتا ہے۔[50] یہ قانون مختلف سیاسی اور سماجی آئین کے حامل ملکوں کے تعلقات عامہ پر لاگو ہوتا ہے[51] جس سے مختلف نظریاتی اور سیاسی نظام کے حامل ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ پرامن رابطہ استوار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔[52] پرامن بقائے باہمی کو صلح، بین الاقوامی امن و عامہ اور سماجی انصاف کی تحفظ کا واحد عملی راہ حل کے طور پر جانا جاتا ہے۔[53]

 
کتاب «اسلام و پرامن بقائے باہمی»، تالیف: علی‌ اکبر علی خانی

شیعہ فقیہ عمید زنجانی کے مطابق مختلف ممالک کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو اسلام کے خارحہ پالیسی کا سب سے اہم رکن شمار کیا جاتا ہے۔[54] خارجہ پالیسی میں صلح اور پرامن بقائے باہمی کو اسلام کے اختیار کردہ سب سے زیادہ ترقی پسند پروگراموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔[55] اور اسے ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور دوستی کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔[56]

اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لئے پرامن بقائے باہمی کی پالیسی کے کچھ فوائد ذکر کئے جاتے ہیں: بین الاقوامی سطح پر افہام و تفہیم کو مضبوط کرنا، بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی عزت و توقیر کو احاگر کرنا، دلوں کی تسخیر اور سماجی اثر و رسوخ کے دائرے کو وسعت دینا، بین الاقوامی تعاون اور افرادی قوت کو منظم کرنا، مذہبی اعتماد کو یقینی بنانا اور نئے اتحاد کی تشکیل اور متوقع خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلامی حکومتوں کی طاقت اور اقتدار میں اضافہ کرنا من جملہ ان فوائد میں سے ہیں۔[57] چودہ معصومینؑ کی عملی سیرت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام کی خارجہ پالیسی کی بنیاد کو صلح اور پرامن بقائے باہمی قرار دی جا سکتی ہے۔[58] کہا جاتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی کی نظر میں مختلف ممالک کے درمیان پرامن تعلقات کا قیام ایک بنیادی قانون اور اصل ہے۔[59]

مونوگرافی

اسلام تعلیمات میں پرامن بقائے باہمی کے اصول پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہے:

  • اسلام اور پرامن بقائے باہمی، عباس علی عمید زنجانی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1344ہجری شمسی۔
  • اسلام میں پرامن بقائے باہمی اور بین الاقوامی حقوق، محمدمہدی کریمی‌نیا، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1387ہجری شمسی۔
  • اسلام و پرامن بقائے باہمی، علی‌اکبر علیخانی، بہ‌آفرین، 1392ہجری شمسی۔

حوالہ جات

  1. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، 1381ہجری شمسی، ج8، ص8401۔، دہخدا، لغت‌نامہ، 1377ہجری شمسی، ج15، ص23541۔
  2. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، 1381ہجری شمسی، ج8، ص8401۔
  3. موحدی ساوجی، «پرامن بقائے باہمی انسان‌ہا از دیدگاہ قرآن و نظام بین‌المللی حقوق بشر»، ص132۔
  4. مسترحمی و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص7؛ سیرت شیخ‌زادہ، «کارکرد دانش حقوق در سبک پرامن بقائے باہمی»، ص45۔
  5. موحدی ساوجی، «پرامن بقائے باہمی انسان‌ہا از دیدگاہ قرآن و نظام بین‌المللی حقوق بشر»، ص131۔
  6. مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص7۔
  7. امینی، «اصل پرامن بقائے باہمی با غیرمسلمانان در اسلام»، ص36۔
  8. سیرت شیخ‌زادہ، «کارکرد دانش حقوق در سبک پرامن بقائے باہمی»،ص48۔
  9. آقا حسینی، «پرامن بقائے باہمی از دیدگاہ اسلام»، ص424۔
  10. موحدی ساوجی، «پرامن بقائے باہمی انسان‌ہا از دیدگاہ قرآن و نظام بین‌المللی حقوق بشر»، ص131؛ سیرت شیخ‌زادہ، «کارکرد دانش حقوق در سبک پرامن بقائے باہمی»، ص44۔
  11. سبحانی، مسائل جدید کلامی، 1432ھ، ص82۔
  12. افضلی و صدرآرا، «جامعہ مدنی»، ج9، ص379۔
  13. کریمی‌نیا، «ادیان الہی و پرامن بقائے باہمی»، ص93؛ مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص8۔
  14. عبدالمحمدی، تساہل و تسامح از دیدگاہ قرآن و اہل‌بیت، 1391ہجری شمسی، ص214؛ موحدی ساوجی، «پرامن بقائے باہمی انسان‌ہا از دیدگاہ قرآن و نظام بین‌المللی حقوق بشر»، ص131 و 154۔
  15. کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی، ص36۔
  16. کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی، ص40۔
  17. کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی، ص34 و 35۔
  18. مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی ہمزیستی مسالمت آمیز ادیان»، ص14۔
  19. مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص20 و 23۔
  20. موحدی ساوجی، «پرامن بقائے باہمی انسان‌ہا از دیدگاہ قرآن و نظام بین‌المللی حقوق بشر»، ص133 تا 143؛ مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص7۔
  21. مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی ہمزیستی مسالمت آمیز ادیان»، ص18۔
  22. کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی، ص61۔
  23. مکارم شیرازی، اعتقاد ما، 1376ہجری شمسی، ص31؛ منتظری، اسلام دین فطرت، 1385ہجری شمسی، ص667۔
  24. کریمی‌نیا، «ادیان الہی و پرامن بقائے باہمی»، ص95۔
  25. منتظری، اسلام دین فطرت، 1385ہجری شمسی، ص666۔
  26. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج21، ص410۔
  27. سلیمی، «اقلیت‌ہا و حقوق آن‌ہا در اسلام»، ص36 و 38۔
  28. رحمانی، «قاعدہ الزام و ہمزیستی مذاہب»، ص197۔
  29. مطہری، مجموعہ آثار، 1389ہجری شمسی، ج28، ص802۔
  30. جعفری و پایندہ، «نقش صلح و پرامن بقائے باہمی۔۔۔»، ص151۔
  31. امینی، «اصل پرامن بقائے باہمی با غیرمسلمانان در اسلام»، ص49؛ کریمی‌نیا، «ادیان الہی و پرامن بقائے باہمی»، ص96۔
  32. منتظری، اسلام دین فطرت، 1385ہجری شمسی، ص667۔
  33. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج10، ص356۔
  34. جعفری، و پایندہ، «نقش صلح و پرامن بقائے باہمی در بازآفرینی حرکت احیاگرانۂ اسلامی با تکیہ بر نظرات امام خمینی»، ص151۔
  35. کریمی‌نیا، «ادیان الہی و پرامن بقائے باہمی»، ص97۔
  36. کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی، ص65-84۔
  37. متقی ہندی، کنز العمال، 1409ھ، ج4، ص362۔
  38. فلاحیان، «سیرہ اہل بیت در ایجاد وحدت میان مسلمانان»، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی۔
  39. رستمیان، «ائمہ ؑ منادی پرامن بقائے باہمی»، ص117 تا ص124۔
  40. آقانوری، امامان شیعہ و وحدت اسلامی، 1387ہجری شمسی، ص202۔
  41. رستمیان، «ائمہؑ منادی پرامن بقائے باہمی»، ص105۔
  42. رستمیان، «ائمہ ؑ منادی پرامن بقائے باہمی»، ص105۔
  43. دارابی، و دیگران، «پارادایم رضوی در ہمزیستی مسالمت آمیز میان باورمندان بہ ادیان الہی»، سایت جستجو در مقالات و کتابہای استادان۔
  44. محدث نوری، مستدرک وسائل، 1408ھ، ج14، ص7؛ رستمیان، «ائمہؑ منادی پرامن بقائے باہمی»، ص107۔
  45. کریمی‌نیا، «ادیان الہی و پرامن بقائے باہمی»، ص100۔
  46. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1416ھ، ج12، ص201۔
  47. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1416ھ، ج8، ص398۔
  48. رستمیان، «ائمہؑ منادی پرامن بقائے باہمی»، ص107۔
  49. سیرت شیخ‌زادہ، «کارکرد دانش حقوق در سبک پرامن بقائے باہمی»، ص43۔
  50. موحدی ساوجی، «ہمزیستی مسالمت آمیز انسان‌ہا از دیدگاہ قرآن و نظام بین‌المللی حقوق بشر»، ص132۔
  51. امینی، «اصل پرامن بقائے باہمی با غیرمسلمانان در اسلام»، ص37۔
  52. آشوری، دانشنامہ سیاسی، 1386ہجری شمسی، ص326 و 327۔
  53. جمالی، سازمان‌ہای بین‌المللی و منطقہ‌ای، تہران، ص92؛ سیرت شیخ‌زادہ، «کارکرد دانش حقوق در سبک پرامن بقائے باہمی»، ص48 تا 49۔
  54. عمید زنجانی، فقہ سیاسی، 1377ہجری شمسی، ج9، ص170؛ مؤمن و بہرامی، نظام سیاسی اجتماعی اسلام، 1380ہجری شمسی، ص125۔
  55. مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص23۔
  56. کریمی‌نیا، «ادیان الہی و پرامن بقائے باہمی»، ص95۔
  57. سرخیل، «آثار پرامن بقائے باہمی بر روابط خارجی دولت اسلامی»، ص150-156۔
  58. مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص28۔
  59. مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی ہمزیستی مسالمت آمیز ادیان»، ص12۔

مآخذ

  • آشوری، داریوہجری شمسی، دانشنامہ سیاسی، تہران، مروارید، 1386ہجری شمسی۔
  • آقاحسینی، علی، «پرامن بقائے باہمی از دیدگاہ اسلام»، در مجلہ حقوق ملل، شمارہ 22، تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • آقانوری، علی، امامان شیعہ و وحدت اسلامی، قم، دانشگاہ ادیان و مذاہب، 1387ہجری شمسی۔
  • افضلی، رسول، و روزبہ صدرآرا، «جامعہ مدنی»، دانشنامہ جہان اسلام، ج9، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، 1384ہجری شمسی۔
  • انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، سخن، 1381ہجری شمسی۔
  • امینی، محمدامین، «اصل پرامن بقائے باہمی با غیرمسلمانان در اسلام»، در مجلہ معرفت، شمارہ 165، شہریور 1390ہجری شمسی۔
  • جعفری، علی‌اکبر و عظیمہ پایندہ، «نقش صلح و پرامن بقائے باہمی در بازآفرینی حرکت احیاگرانۂ اسلامی با تکیہ بر نظرات امام خمینی»، در مجلہ ژرفاپژوہ، شمارہ 8 و 9، تابستان و پاییز 1395ہجری شمسی۔
  • جمالی، حسین، سازمان‌ہای بین‌المللی و منطقہ‌ای، تہران، زمزم ہدایت وابستہ بہ پژوہشکدہ علوم اسلامی امام صادق ؑ، بی‌تا۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت، 1416ھ۔
  • دارابی، کوکب و دیگران، «پارادایم رضوی در ہمزیستی مسالمت آمیز میان باورمندان بہ ادیان الہی»، سایت جستجو در مقالات و کتاب‌ہای استادان، چکیدہ مقالات ہمایش بین‌المللی عدالت و اخلاھ، تاریخ بازدید: 22 مرداد 1403ہجری شمسی۔
  • دہخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامہ، تہران، مؤسسہ انتشارات و چاپ دانشگاہ تہران، 1377ہجری شمسی۔
  • رحمانی، محمد، «قاعدہ الزام و ہمزیستی مذاہب»، در مجلہ پژوہشنامہ حکمت و فلسفہ اسلامی، شمارہ 3 و 4، پاییز و زمستان 1381ہجری شمسی۔
  • رستمیان، محمدعلی، «ائمہؑ منادی پرامن بقائے باہمی»، در مجلہ ہفت آسمان، شمارہ 47، پاییز 1389ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، مسائل جدید کلامی، قم، مؤسسہ امام صادق (علیہ السلام)، 1432ھ۔
  • سرخیل، بہنام، «آثار پرامن بقائے باہمی بر روابط خارجی دولت اسلامی»، در مجلہ سیاست متعالیہ، شمارہ 15، زمستان 1395ہجری شمسی۔
  • سیرت شیخ‌زادہ، مریم، «کارکرد دانش حقوق در سبک پرامن بقائے باہمی»، در مجلہ مطالعات حقوق اسلامی، شمارہ 16، بہار و تابستان 1401ہجری شمسی۔
  • سلیمی، عبدالحکیم، «اقلیت‌ہا و حقوق آن‌ہا در اسلام»، در مجلہ معرفت، شمارہ 93، شہریور 1384ہجری شمسی۔
  • عبدالمحمدی، حسین، تساہل و تسامح از دیدگاہ قرآن و اہل‌بیت، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، 1391ہجری شمسی۔
  • عمید زنجانی، عباسعلی، فقہ سیاسی، تہران، امیرکبیر، 1377ہجری شمسی۔
  • فلاحیان، سیدحسن، «سیرہ اہل بیت در ایجاد وحدت میان مسلمانان»، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی، تاریخ انتشار: 5 مہر 1402ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 22 مرداد 1403ہجری شمسی۔
  • کریمی‌نیا، محمدمہدی، «ادیان الہی و پرامن بقائے باہمی»، در مجلہ رواق اندیشہ، شمارہ 26، بہمن 1382ہجری شمسی۔
  • کعبی، علی‌عطیۃ، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، ترجمہ حمیدرضا شیخی، مشہد، آستان قدس رضوی۔ بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، 1396ہجری شمسی۔
  • محدث نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک وسائل، بیروت، مؤسسۃ آل البیت، 1408ھ۔
  • مسترحمی، سید عیسی و محمدیوسف تقدسی، «راہکارہای قرآنی ہمزیستی مسالمت آمیز ادیان»، در مجلہ، مطالعات قرآن و علوم، شمارہ 1، بہار و تابستان 1396ہجری شمسی۔
  • متقی ہندی، علی بن حسام‌الدین، کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1409ھ۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، 1389ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، اعتقاد ما، قم، نسل جوان، 1376ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، اسلام دین فطرت، تہران، نشر سایہ، 1385ہجری شمسی۔
  • موحدی ساوجی، محمدحسن، «پرامن بقائے باہمی انسان‌ہا از دیدگاہ قرآن و نظام بین‌المللی حقوق بشر»، در مجلہ حقوق بشر، شمارہ 1 و 2 (پیاپی 17 و 18)، بہار تا زمستان 1393ہجری شمسی۔
  • مؤمن، محمدرضا و قدرت‌اللہ بہرامی، نظام سیاسی اجتماعی اسلام، قم، نمایندگی ولی فقیہ در سپاہ، 1380ہجری شمسی۔