ان شاء اللہ

ان شاء اللہ، یعنی ’’اگر خدا چاہے‘‘، ایک ایسا جملہ ہے جو مسلمان اپنی روزمرہ گفتگو میں اُن کاموں کے حوالے سے استعمال کرتے ہیں جو وہ آئندہ انجام دینا چاہتے ہیں، یا دعا کی قبولیت کے لئے امید ظاہر کرنے کے موقع پر کہتے ہیں۔[1]
قرآنِ کریم اور معصومینؑ نے مسلمانوں کو سفارش کی ہے کہ جب بھی وہ مستقبل میں کسی کام کی انجام دہی کا اردہ کریں تو ’’ان شاء اللہ‘‘ ضرور کہیں۔ اسی لئے یہ تعبیر متدین لوگوں کی زبان پر رائج ہو گئی ہے اور روزمرہ زندگی میں اللہ پر توکل کرنے کی علامت کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔[2]
سورۂ کہف کی آیت نمبر 23 اور 24 میں خداوند متعال نے اپنے رسولؐ سے مخاطب ہو کر فرمایا، کسی کام کے بارے میں یہ نہ کہو کہ ’’میں کل انجام دوں گا‘‘، مگر یہ کہ ’’ان شاء اللہ‘‘ کہو۔[3] ایک روایت میں امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ ان آیات کا سبب نزول یہ تھا کہ یہودیوں کا ایک گروہ پیغمبر اکرمؐ کے پاس کچھ سوالات لے کر آئے، رسول خداؐ نے ’’ان شاء اللہ‘‘ کہے بغیر فرمایا کہ کل آجائیں، میں تمہارے سوال کا جواب دوں گا۔ اس کے بعد جبرائیل چالیس دن تک وحی لے کر نازل نہیں ہوئے، یہاں تک کہ اس مدت کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں۔[4]
ایک اور روایت میں انہی آیات کے ذیل میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص ’’ان شاء اللہ‘‘ کہنا بھول جائے تو جب بھی اُسے یاد آئے، اس جملے کو ادا کرے۔[5] اسی طرح ایک روایت میں، جسے کلینی نے نقل کی ہے، بیان ہوا ہے کہ امام صادقؑ نے ایک خط لکھنے کا حکم دیا۔ جب خط مکمل ہوا تو آپؑ نے دیکھا کہ اس میں ’’ان شاء اللہ‘‘ نہیں لکھا گیا، تو فرمایا: ’’تم کیسے امید رکھتے ہو کہ یہ خط ’’ان شاء اللہ‘‘ کے بغیر مکمل ہو؟ پھر آپؑ نے حکم دیا کہ اس میں ’’ان شاء اللہ‘‘ کا اضافہ کیا جائے۔[6]
’’کامل ایمان کی علامت یہ ہے کہ بندہ ہر کام میں "ان شاء اللہ" کہنے کو اپنا شعار بنائے۔‘‘
متقی ہندی، کنز العمال، ۱۴۰۱ھ، ج15، ص55۔
شیعہ مرجع تقلید اور مفسر قرآن، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی تفسیر نمونہ میں میں کہتے ہیں کہ آئندہ اور مستقبل کے ارادوں کے بیان میں ’’ان شاء اللہ‘‘ کہنا خدا کے حضور ادب کی ایک قسم، اور ’’توحید افعالی‘‘ کی علامت ہے۔ یعنی باوجود اینکہ انسان مختار اور صاحب ارادہ ہے، لیکن وہ ہر چیز کے وجود اور ہر عمل کی تکمیل کو خدا کی مشیت سے وابستہ قرار دیتا ہے۔[7] علامہ سید محمد حسین طباطبائی، مصنف تفسیر المیزان کے مطابق جو شخص کسی کام کے بارے میں ’’ان شاء اللہ‘‘ کہتا ہے، دراصل اس کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ کام اسی وقت وقوع پذیر ہوگا جب خدا کا ارادۂ تکوینی اس کے مطابق ہو۔[8]
حوالہ جات
- ↑ موسوی آملی، «انشاءاللہ در فرہنگ عامیانہ»، سایت پرتال جامع علوم انسانی۔
- ↑ موسوی آملی، «انشاءاللہ در فرہنگ عامیانہ»، سایت پرتال جامع علوم انسانی۔
- ↑ سورہ کہف، آیات 23 و 24؛ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج20، ص143۔
- ↑ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج3، ص362-363؛ حویزی، تفسیر نور الثقلین، ج3، ص255۔
- ↑ عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص325۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص673۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج12، ص389۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج13، ص271۔
مآخذ
- قرآن کریم
- حویزی، عبدعلی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، قم، اسماعیلیان، 1415ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، چاپ دوم، 1413ھ۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1393ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
- متقی ہندی، علی بن حسامالدین، کنز العمال، بیجا، مؤسسۃ الرسالۃ، 1401ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
- موسوی آملی، سید محسن، «انشاءاللہ در فرہنگ عامیانہ»، سایت پرتال جامع علوم انسانی، تاریخ اخذ: 22 شہریور 1404ہجری شمسی۔