زیارت‌ نامہ

ویکی شیعہ سے
زیارت‌ امین اللہ سے اقتباس

اَلسَّلامُ عَلَیكَ یا امینَ اللَّهِ فی اَرْضِهِ وَحُجَّتَهُ عَلی عِبادِهِ
اَلسَّلامُ عَلَیكَ یا اَمیرَالْمُؤْمِنینَ
اَشْهَدُ اَنَّكَ جاهَدْتَ فِی اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ وَعَمِلْتَ بِكِتابِهِ وَاتَّبَعْتَ سُنَنَ نَبِیهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَآلِهِ
حَتّی دَعاكَ الله اِلی جِوارِهِ فَقَبَضَكَ اِلَیهِ بِاخْتِیارِهِ
وَاَلْزَمَ اَعْدائَكَ الْحُجَّةَ مَعَ مالَكَ مِنَ الْحُجَجِ الْبالِغَةِ عَلی جَمیعِ خَلْقِهِ
اَللّهُمَّ فَاجْعَلْ نَفْسی مُطْمَئِنَّةً بِقَدَرِكَ
راضِیةً بِقَضاَئِكَ مُولَعَةً بِذِكْرِكَ وَدُعاَئِكَ
مُحِبَّةً لِصَفْوَةِ اَوْلِیاَئِكَ مَحْبُوبَةً فی اَرْضِكَ وَسَماَئِكَ
صابِرَةً عَلی نُزُولِ بَلاَّئِكَ شاكِرَةً لِفَواضِلِ نَعْماَئِكَ
ذاكِرَةً لِسَوابِغِ آلا ئِكَ مُشْتاقَةً اِلی فَرْحَةِ لِقاَئِكَ
مُتَزَوِّدَةً التَّقْوی لِیوْمِ جَزاَئِكَ
مُسْتَنَّةً بِسُنَنِ اَوْلِیاَئِكَ مُفارِقَةً لِاَخْلاقِ اَعْدائِكَ
مَشْغُولَةً عَنِ الدُّنْیا بِحَمْدِكَ وَثَناَئِكَ...

شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان(۱۳۸۷ش)، ص۴۸۵

زیارت‌نامہ، اس متن کو کہا جاتا ہے جسے کسی معصوم، امامزادگان یا بعض بزرگان کی زیارت کرتے وقت پڑھا جاتا ہے۔ یہ متن غالبا دعا، سلام اور صاحب قبر کے احترام پر مشتمل کلمات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اہل بیت سے منقول زیارت نامے‌ عمدتا اسلامی معارف سے مالا مال مضامین پر مشتمل ہوتا ہے اسی بنا پر ان کو شیعہ مذہب میں دینی تعلیمات کا ایک منبع اور ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ زیارت ناموں میں سے بعض سند اور عالی مضامین کی وجہ سے زیادہ شہرت کے حامل ہیں جیسے زیارت عاشورا، زیارت جامعہ کبیره، زیارت امین اللہ، زیارت وارث، زیارت آل یس، زیارت جامعہ ائمۃ المؤمنین وغیرہ۔

آداب

زیارت، ایک قسم کی عملی عبادات میں سے ہے جس کے معنی دینی پیشواؤں کے حضور یا ان کے قبور یا ان سے منسوب مقامات پر حاضری دینے کے ہیں۔ زیارت کا ہدف متعلقہ ہستیوں سے عقیدت و احترام کا اظہار اور ان سے معنوی فیض حاصل کرنا ہے۔ شیعہ احادیث میں زیارت کے مخصوص آداب کے علاوہ مختلف متون بھی نقل ہوئے ہیں جسے متعلقہ بارگاہوں میں پڑھےجاتے ہیں ان متون کو اصطلاح میں زیارت نامہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس درمیان بعض زیارت نامے مخصوص زمان و مکان سے متعلق ہونے نیز مخصوص خصوصیات کے حامل ہونے کی وجہ سے خاص ناموں سے مشہور ہوئی ہیں جیسے زیارت عاشورا، زیارت امین‌ اللہ یا زیارت رجبیہ امام حسین وغیرہ۔

مأثورہ اور غیر مأثورہ

وہ زیارت نامے جن کی سند کسی معصوم تک پہنچتی ہیں جیسے زیارت امین اللہ، زیارت جامعہ کبیره، زیارت وارث اور زیارت اربعین[1] وغیرہ کو مأثورہ کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں وه زیارت نامے جن کی سند کسی معصوم تک نہیں پہنچتی غیر مأثورہ کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔[2]

زمان و مکان

غالبا زیارت نامے متعلقہ ہستیوں کے مزارات پر پڑھی جاتی ہیں لیکن بعض زیارت نامے ان ہستیوں کی دور سے زیارت کرنے کیلئے صادر ہوئی ہیں۔ مثلا علامہ مجلسی اپنی کتاب زاد المعاد میں پیغمبر اکرمؐ کی یوم ولادت کے حوالے سے ایک زیارت نقل کرتے ہیں جسے دور سے آپ کی زیارت کرنے کی غرض سے پڑھی جاتی ہے۔[3] اس کی علاوہ بعض اور زیارتیں ہیں جنہیں دور سے پڑھی جاتی سکتی ہیں مثلا زیارت عاشورا کے بارے میں آیا ہے کہ اسے امام حسین کے روضہ اقدس پر بھی پڑھی جا سکتی ہے اور دور سے بھی آپ کی زیارت کے قصد سے اسے پڑھی جا سکتی ہے۔[4]

اسی طرح بعض زیارت‌ نامے مخصوص اوقات کے ساتھ مختلص ہیں۔ مثلا کفعمی نے کتاب بلد الامین میں ایک زیارت نقل کی ہیں جسے پندرہ شعبان کو امام حسینؑ کی زیارت کی قصد سے پڑھی جاتی ہے۔۔[5] نیز زیارت اربعین جو اربعین کے دن امام حسینؑ کی زیارت کرنے کیلئے پڑھی جاتی ہے۔[6] اس کے علاوہ بعض زیارتوں کو ہر وقت اور جہاں کہیں سے بھی جاہے پڑھی جا سکتی ہے ان کیلئے نہ کوئی مخصوص وقت ہے اور نہ کوئی مخصوص جگہ جیسے زیارت‌ جامعہ جسے جب چاہے کسی بھی امام کی زیارت کے قصد سے پڑھی جا سکتی ہے۔ زیارت امین‌اللہ اگر حضرت علیؑ کی مخصوص زیارت ہے جسے عید غدیر کے دن پڑھی جاتی ہے لیکن اسے بھی کسی اور معصوم کی زیارت کی قصد سے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔[7]

مضامین

معصومین سے منقول زیارت‌ نامے شیعہ تعلیمات کے منابع اور مصادر میں شمار ہوتی ہے جن میں توحید، نبوت اور امامت سے متعلق شیعہ اعتقادات پر خاص توجہ دی گئی ہے جس سے نہ تنہا زیارت کا ثواب ملتا ہے بلکہ ان سے دینی اعتقادات کی پختگی اور درستی جیسے اہداف بھی پورے ہوتے ہیں۔[8]

زیارت‌ نامے غالبا متعلقہ ہستیوں پر سلام و صلوات سے شروع ہوتی ہیں۔[9] اس کے علاوہ ان زیارت ناموں میں متعلقہ معصوم یا زوات مقدسات کے مقام و منزلت نیز محبت، مودت، موالات، اطاعت، شفاعت، توسل، وفا، دعوت، تسلیم، تصدیق، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، جہاد، تولی، تبری اور لعن[10] جیسے موضوعات کی طرف اشارہ کی جاتی ہے۔

معصومین سے منقول زیارت نامے دو قسم میں تقسیم ہوتے ہیں، بعض زیارت نامے بعض معصومین سے مختص ہیں جبکہ بعض زیارت نامے کسی خاص امام یا معصوم سے مختص نہیں بلکہ ان کے ذریعے کسی بھی امام یا معصوم کی زیارت کی جا سکتی ہے۔ ان زیارت ناموں کے مضامین کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مضامین تمام زیارت ناموں میں مشترکہ طور پر دیکھا جا سکتا ہے:

  1. دینی اور الہی معارف کی تعلیم: زیارت ناموں میں خدا اور خدا کے اسماء و صفات کی صحیح تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کے مقام و منصب کی تبیین ہوتی ہے جو ایک لحاظ سے شیعوں کو دینی معارف اور صحیح اعتقادات کی تعلیم محسوب ہوتی ہے۔
  2. ان زیارت ناموں میں زائرین کو ان ہستیوں سے جو کچھ کہنا یا مانگنا چاہئے اور کیسے مانگنا چاہئے کی تعلیم دی جاتی ہے مثلا یہ کہ:
    1. میں گناہوں کے بوجھ سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں یا مولای أتیتک زائراً وافداً، عائذاً ممّا جنیت علی نفسی و احتطبت علی ظهری؛[11]
    2. امام سے ہمراہی کی آرزو؛ "یا لیتنی کنت معکم[12]
    3. امام کی شفاعت نصیب ہونے کی دعا: اللهم ارزقنی شفاعة الحسین یوم الورود[13]
  3. فضائل اور رزائل کی تعلیم: زیارت ناموں میں ان ہستیوں کی توصیف کے ذریعے اعلی اخلاقی صفات نیز ان کے دشمنوں کا ذکر کرنے کے ذریعے اخلاقی رزائل اور برائیوں کی تبیین کے ذریعے صحیح اور باطل راستوں سے زائر کو آگاہ کیا جاتا ہے جیسے:
    1. اقامہ نماز؛ (اشهد أنک قد اقمت الصلوة) میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز کو برپا کیا ہے؛
    2. زکات؛ اشهد أنک آتیت الزکوة؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے زکات ادا کی ہے؛
    3. امر بالمعروف اور نہی عن المنکر؛ اشهد انک آمرت بالمعروف و نهیت عن المنکر
    4. خدا کی راہ میں جہاد؛ (أشهد أنک جاهدت فی الله حقّ جهاده)؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے خدا کی راہ جہاد کی ہے؛
    5. سنت پیغمبر کی اتباع؛ (واتبعت سنن نبیک)؛ اے امام معصوم یہ آپ کیلئے فخر کی بات ہے کہ آپ پیغمبر اکرم کی سنت کی پیروی کرنے والا ہے۔
    6. خدا کی طرف دعوت؛ (السلام علی الدعاة إلی الله)؛ سلام ہو آپ پر اے خدا کی طرف دعوت دینے والے[14]

زیارت عاشورا میں بیان ہونے والے چند اخلاقی رزائل کا نمونہ:

  1. اہل بیت پر ہونے والے مظالم: (لعن الله أمة قتلتکم)، اہل بیت کے دشمنوں کا ساتھ دینا: (لعن الله الممهدین لهم بالتمکین من قتالکم)، اہل بیت پر مظالم ڈھائے جانے پر راضی ہونا: (لعن الله أمة سمعت بذلک فرضیت به)
  2. دشمنان اہل بیت کا ساتھ دینا اور ان کا ہمراز ہونا: "و من کل ولیجة دونکم"[15]

کتابیں

زیارت کی اہمیت اور اس کے آداب کی وسعت کی وجہ سے زیارت اور زیارت گاہیں مذہبی موضوعات میں شامل ہو گئی ہیں اور ان پر مختلف کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔[16] کتاب کامل الزیارات ابن قولویہ قمی اس سلسلے کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرحشیخ مفید کی کتاب کتاب المزار، شیخ طوسی کی کتاب مصباح المتہجد، سید بن طاووس کی کتاب مہج الدعوات، ابن مشہدی کی کتاب المزار الکبیر ، علامہ مجلسی کی کتاب تحفۃ الزائر اور مفاتیح الجنان اس سلسلے کی دوسری اہم کتابیں ہیں۔

درج ذیل کتابیں ان زیارت ناموں کے منابع میں شمار ہوتے ہیں:

حوالہ جات

  1. طوسی، تہذیب (۱۴۰۷ق)، ج۶، ص۱۱۳
  2. شمس الدین، انصارالحسین (۱۴۰۷ق)، ص۱۵۵
  3. مجلسی، زاد المعاد، ج۱، ص۲۶۰.
  4. مفاتیح الجنان.
  5. کفعمی، بلدالامین، ج۱، ص۲۸۴
  6. قمی، عباس، مفاتیح الجنان (۱۳۸۷ش)، ص۶۴۲
  7. قمی، عباس، مفاتیح الجنان (۱۳۸۷ش)، ص۴۸۷
  8. قمی، عباس، مفاتیح الجنان (۱۳۸۷ش)، متن زیارت جامعہ: ص۷۴۲-۷۵۲
  9. طوسی، تہذیب (۱۴۰۷ق)، ج۶، ص۱۱۳
  10. طوسی، تهذیب (۱۴۰۷ق)، ج۶، ص۱۱۳
  11. مفاتیح الجنان، زیارتنامہ امام رضا علیہ السلام
  12. زیارت عاشورا کا ایک حصہ
  13. زیارت عاشورا کا ایک حصہ
  14. تفصیل کیلئے رجوع کریں زیارت جامعہ اور زیارت امین اللہ وغیرہ
  15. زیارت عاشورا کا ایک حصہ
  16. آقابزرگ، الذریعۃ، ج۱۲، ص۷۷-۸۰.
  17. مجلسی، زادالمعاد (۱۴۲۳ق)، ص۲۹۰-۳۱۴
  18. قمی، عباس، مفاتیح الجنان (۱۳۸۷ش)، ص۴۵۹
  19. قمی، عباس، مفاتیح الجنان (۱۳۸۷ش)، ص۶۷۷
  20. قمی، عباس، مفاتیح الجنان (۱۳۸۷ش)، ص۷۶۷
  21. قمی، عباس، مفاتیح الجنان (۱۳۸۷ش)، ص۵۵۳
  22. قمی، عباس، مفاتیح الجنان (۱۳۸۷ش)، ص۵۵۵
  23. قمی، عباس، مفاتیح الجنان (۱۳۸۷ش)، ص۴۲۰-۷۷۷

مآخذ

  • شمس الدین، محمدمہدی، انصارالحسین دراسہ عن شہداء ثورہ الحسین الرجال و الدلالات، المؤسسہ البعثہ، تہران، ۱۴۰۷ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، مصحح: حسن موسوی خرسان، درالکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۴۰۷ق.
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان، قم، مشعر، ۱۳۸۷ش.
  • مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، زاد المعاد - مفتاح الجنان، تعریب و تعلیق علاءالدین الاعلمی‌، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، ۱۴۲۳ق.