ہمسائیگی

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

ہمسائیگی کا مطلب پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 36 میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ احادیث میں بھی پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انہیں تکلیف نہ دینے کی تاکید کی گئی ہے اور پڑوسی کی حرمت ماں کی حرمت کے برابر اور اسے تکلیف دینا رسول اللہؐ کو تکلیف پہنچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔

احادیث میں پڑوسی کے لیے کچھ حقوق قرار دئے گئے ہیں خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ جیسے قرض دینا، بیمار ہونے پر عیادت کرنا، جنازے میں شریک ہونا، گھر کے پھل اور کھانے کا کچھ حصہ دینا، عیب تلاش نہ کرنا اور پڑوسی کی آزار و اذیت برداشت کرنا۔

روایات کے مطابق پڑوسی کے ساتھ نیکی کرنا خدا کی محبت کا حصول، جنت میں داخل ہونے، رزق میں اضافہ اور لمبی عمر کا باعث بنتا ہے اور اسے تکلیف پہنچانا خدا کی رحمت سے دوری اور جنت سے محرومی کا باعث بنتا ہے۔

مفہوم اور اہمیت

ہمسائیگی کا مطلب پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ہے اور یہ احادیث کی عبارت "حسن الجوار" کے مترادف ہے۔[1] دو افراد یا دو خاندان جن کے گھر ایک دوسرے کے ساتھ ہیں یا ایک ہی گھر کے دو حصوں میں رہتے ہیں پڑوسی کہلاتے ہیں۔[2] پیغمبر اکرمؐ اور امام صادقؑ، نے پڑوسی کی حد آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں چالیس گھروں تک بتائی ہے۔[3] قرآن میں توحید اور والدین، رشتہ داروں اور غریبوں کے ساتھ حسن سلوک کے بعد پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔[4] ہمسائیوں کے ساتھ حسن سلوک اور انہیں تکلیف نہ دینے کے بارے میں اہل بیتؑ سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں۔[5]

پیغمبر اکرمؐ سے مروی ہے کہ اپنے پڑوسی کی تعظیم کرنا ماں کی عزت کرنے کے مترادف ہے۔[6] امام علیؑ نے بھی پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے کہ جبرائیل نے پڑوسیوں کے بارے میں اسقدر تاکید کی کہ یہ گمان ہونے لگا کہ ان کو وراثت میں بھی کوئی حصہ قرار دیں گے۔[7] جعفر بن ابی طالب جسے رسول اللہؐ نے اپنا نمائندہ بنا کر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی طرف بھیجا، وہ نجاشی کو اسلام کا تعارف کراتے ہوئے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کو اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ایک شمار کرتے ہیں۔[8] امام علیؑ نے اپنے آخری ایام میں اپنے پڑوسیوں کے بارے میں تاکید کی ہے۔[9] شیعہ محدث محدث نوری کے مطابق پیغمبر اسلامؐ نے پڑوسی کو تکلیف پہنچانا خود رسول اللہؐ کو تکلیف دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔[10]

ہمسایوں کے حقوق

پڑوسی کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی حفاظت کرے اور اس کی موجودگی میں اس کی تعظیم کرے اور اس پر ہونے والے ظلم کے خلاف اس کی مدد کرے اور اس کے عیب تلاش نہ کرے۔ اگر تم اس کی طرف سے کوئی برائی دیکھو تو اس کی پردہ پوشی کرو اور اگر تم جانتے ہو کہ اسے نصیحت کی جا سکتی ہے تو اسے تنہائی میں نصیحت کرو۔ اسے مشکلات میں اکیلا نہ چھوڑو، اس کی خطائیں معاف کرو، اس کے گناہوں کو معاف کرو، اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے وقت گزارو، اللہ کے حکم کے بغیر کوئی طاقت نہیں ہے۔

شیخ صدوق، من لا یحضر، 1413ھ، ج2، ص623.

رسول اللہؐ کی ایک روایت کے مطابق پڑوسیوں کی تین قسمیں ہیں: پہلی قسم مسلمان پڑوسی اور رشتہ دار ہیں، دوسری قسم مسلمان پڑوسی اور تیسری قسم غیر مسلم پڑوسی ہیں۔ تینوں ہمسائیوں کے انسان پر حقوق ہیں اور ان کا احترام کیا جانا چاہیے؛ اگرچہ دوسری قسم کو تیسری قسم کے مقابلے اور پہلی قسم کو دوسری قسم کے مقابلے میں کچھ حقوق زیادہ ہیں۔[11] نیز رسول خداؐ نے امام علیؑ کو حکم دیا ہے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرو خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔[12]

پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی مثالیں۔

بہت سی احادیث میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔[13] بعض احادیث میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی مثالیں درج ذیل بیان ہوئی ہیں:

رسول اللہؐ سے روایت ہے کہ تمھارے پڑوسی کا تم پر حق یہ ہے کہ اگر وہ مدد مانگے تو اس کی مدد کرو، اگر وہ قرض مانگے تو اسے قرض دو، جب اسے ضرورت ہو تو اس کی مالی مدد کرو، جب وہ مصیبت میں ہو تو اسے تسلی دو، اگر اس کے لیے اچھا ہو تو اسے مبارکباد دو، جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اور اس کے مرنے کے بعد اس کے جنازے میں شرکت کرو۔ ان کی اجازت کے بغیر اپنی عمارت کو اس کی عمارت سے اتنی اونچی مت کرو کہ اس کے گھر کی طرف ہوا آنے میں رکاوٹ بنے۔ اگر آپ کوئی پھل خریدتے ہیں تو اسے چھپا کر گھر لے آئیں یا کچھ اسے بھی دیں اور اگر گھر میں کھانے کی خوشبو پھیل جائے تو اس میں سے کچھ اسے بھی کھلا دیں۔[14]

امام سجادؑ نے بھی رسالہ حقوق نامی ایک طویل روایت میں یہ بیان کیا ہے کہ پڑوسی پر ظلم ہونے پر اس کی مدد کرنا، پڑوسی کی خطاؤں اور لغزشوں کو معاف کرنا، حسن معاشرت اور نجی طور پر نصیحت کرنا پڑوسی کے حقوق میں سے ہیں۔[15]

نیز پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ جو شخص پیٹ بھرا ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو تو گویا اس نے مجھ پر ایمان نہیں لایا ہے۔[16] امام باقرؑ اور امام صادقؑ نے مصیبت میں مبتلا پڑوسیوں کے بارے میں تاکید کی ہے کہ وہ ان کے اپنے اور ان کے مہمانوں کو تین دن تک کھانا فراہم کریں۔[17]

احادیث میں پڑوسی کے حق یا پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی مثالوں کے طور پر بعض دیگر موارد بھی ذکر ہوئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں۔

عیب تلاش نہ کرنا

احادیث میں پڑوسیوں کی احوال پرسی اور دلجوئی کرنے کی سفارش کی گئی ہے؛[18] البتہ ان کے عیب تلاش کرنے اور ان کے گھروں میں جھانکنے سے منع بھی کیا ہے۔[19]

تکلیف نہ دینا

رسول اللہؐ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں دیتا ہے۔[20]

اذیت برداشت کرنا

امام کاظمؑ کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک، صرف اسے تکلیف نہ دینا نہیں بلکہ بلکہ پڑوسی کی ایذاء پر صبر اور برداشت بھی ہمسائیگی کا حصہ ہے۔[21]

نیکی کے آثار اور پڑوسیوں کو تکلیف نہ دینا

روایات کے مطابق پڑوسیوں کے ساتھ نیکی کرنے سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت پیدا ہوتی ہے،[22] رزق میں اضافہ ہوتا ہے،[23] شہروں کی خوشحالی ہوتی ہے اور عمر دراز ہوتی ہے،[24] اللہ تعالیٰ سے روشن چہرے کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے،[25] جنت میں داخل ہوتا ہے[26] اور بلند درجات تک پہنچتا ہے۔[27] یہ ایمان،[28] وقار[29] اور شجاعت کی نشانی ہے۔[30] رسول اللہؐ سے روایت ہے کہ جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے تین پڑوسی ہوں جو اس سے راضی ہوں تو اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔[31]

نیز پڑوسی کو ایذا دینا روایات کے مطابق لعنت اور رحمت خداوندی سے دوری[32] اور جنت کی خوشبو سونگھنے سے محرومی کا سبب بنتا ہے[33] اور انسان کی بے ایمانی[34] اور پستی کی علامت ہے۔[35]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: جعفری، ترجمہ تحف العقول، 142ھ، ص80۔
  2. دہخدا، 1377ہجری شمسی، ذیل واژہ ہمسایہ۔
  3. کوفی أہوازی، الزہد، 1402ھ، ص42؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص669؛ شیخ صدوق، معانی الأخبار، 1403ھ، ص165؛ طبرسی، مشکاۃ الأنوار، 1385ھ، ص215؛ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج12، ص125؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج71، ص151و 152؛ محدث نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج8، ص431۔
  4. سورہ نساء، آیہ 36۔
  5. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص666-669؛ مشکاۃ الأنوار، 1385ھ، ص212-215؛ وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج12، ص121-133۔
  6. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص666 و ج5، ص31؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، ‏1407ھ، ج6، ص141؛ طبرسی، مکارم الأخلاق‏، 1412ھ، ص126۔
  7. شیخ صدوق، الأمالی، 1418ھ، ص428۔
  8. ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج6، ص309۔
  9. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص51؛ سید رضی، نہج البلاغۃ، 1414ھ، ص422 (نامہ 47)۔
  10. محدث نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج8، ص424۔
  11. فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1417ھ، ج2، ص389؛ شعیری، جامع الأخبار، بی تا، ‏ص139؛ طبرسی، مشکاۃ الأنوار، 1385ھ، ص213۔
  12. شعیری، جامع الأخبار، بی تا، ‏ص89۔
  13. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص666-668؛ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج12، ص125-133۔
  14. شہید ثانی، مُسکِّن الفؤاد، بی تا، ص114؛ پایندہ، أبو القاسم‏، نہج الفصاحۃ ، 1424ھ، ص445۔
  15. شیخ صدوق، من لا یحضر، 1413ھ، ج2، ص623؛ شیخ صدوق، الخصال، 1403ھ، ج2، ص565؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج71، ص7۔
  16. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص668۔
  17. برقی، المحاسن‏، 1371ھ، ج2، ص419؛ شیخ صدوق، من لا یحضر، 1413ھ، ج1، ص174۔
  18. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، 1404، ص409۔
  19. شیخ صدوق، من لا یحضر، 1413ھ، ج4، ص13۔
  20. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص667؛ طبرسی، مشکاۃ الأنوار، 1385ھ، ص214۔
  21. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص667؛ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، 1404، ص409۔
  22. پایندہ، نہج الفصاحۃ، 1424ھ، ص264۔
  23. کوفی اہوازی، الزہد، 1402ھ، ص42؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص666۔
  24. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص667 و 668؛ مشکاۃ الأنوار، 1385ھ، ص213۔
  25. شیخ صدوق، ثواب الأعمال، 1406ھ، ص181؛ شعیری، جامع الأخبار، بی تا، ‏ص139۔
  26. شعیری، جامع الأخبا َ حَالَہ ر، بی تا، ‏ص106۔
  27. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، 1404، ص14۔
  28. الحلوانی، نزہۃ الناظر، 1408ھ، ص21۔
  29. لیثی واسطی، عیون الحکم، 1418ھ، ص60؛ تمیمی آمدی، تصنیف غرر الحکم، 1407ھ، ص436۔
  30. لیثی واسطی، عیون الحکم، 1418ھ، ص468؛ تمیمی آمدی، تصنیف غرر الحکم، 1407ھ، ص437۔
  31. راوندی، الدعوات، 1407ھ،‏ ص228؛ طبرسی، مشکاۃ الأنوار، 1385ھ، ص214۔
  32. کراجکی، کنز الفوائد، 1410ھ، ج1، ص150؛ شعیری، جامع الأخبار، بی تا، ‏ص89۔
  33. شیخ صدوق، من لا یحضر، 1413ھ، ج4، ص13؛ شیخ صدوق، الأمالی، 1418ھ، ص428۔
  34. کوفی أہوازی، الزہد، 1402ھ، ص42؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص666۔
  35. لیثی واسطی، عیون الحکم، 1418ھ، ص472؛ تمیمی آمدی، تصنیف غرر الحکم، 1407ھ، ص437۔

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ‏، شرح نہج البلاغۃ، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
  • ابن شعبہ حرانی، تحف العقول عن آل الرسول‏(ص)، قم، جماعۃ المدرسین، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن‏، قم، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ دوم، 1371ھ۔
  • پایندہ، ابوالقاسم‏، نہج الفصاحۃ (الکلمات القصار للنبی(ص))، تہران، دنیای دانش‏، چاپ چہارم، 1424ھ۔
  • تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، تصنیف غرر الحکم ودرر الکلم‏، قم، مکتب الإعلام الإسلامی‏، چاپ اول، 1407ھ۔
  • جعفری، بہراد، ترجمہ تحف العقول، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ اول، 1423ھ۔
  • حلوانی، حسین بن محمد، نزہۃ الناظر وتنبیہ الخاطر، قم، مدرسۃ الإمام المہدی (عج)، چاپ اول، 1408ھ۔
  • دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ، تہران، دانشگاہ تہران، چاپ دوم، 1377ہجری شمسی۔
  • راوندی، قطب الدین، الدعوات، قم، منشورات مدرسۃ الإمام المہدی(عج)، چاپ اول، 1407ھ۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغۃ، تحقیق صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ھ۔ ‏
  • شعیری، محمد بن محمد، جامع الأخبار، نجف، المطبعۃ الحیدریۃ، چاپ اول، بی تا. ‏
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی‏، مُسکّن الفؤاد عند فقد الأحبّۃ والأولاد، قم، بصیرتی‏، چاپ اول، بی تا.
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ إلی تحصیل مسائل الشریعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1418ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1403ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا(ع)، تہران، نشر جہان‏، چاپ اول، 1420ھ۔ ‏
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1403ھ۔ ‏
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن‏، تہذیب الأحکام فی شرح المقنعۃ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الأخلاق‏، قم، شریف رضی‏، چاپ چہارم، 1412ھ۔
  • طبرسی، علی بن حسن، مشکاۃ الأنوار فی غرر الأخبار، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، چاپ دوم، 1385ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن أحمد، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین‏، قم، منشورات رضی، چاپ اول، 1417ھ۔
  • کراجکی، محمد بن علی‏، کنز الفوائد، قم، دار الذخائر، چاپ اول، 1410ق‏.
  • کلینی، محمد بن یعقوب‏، الکافی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • کوفی اہوازی، حسین بن سعید، الزہد، قم، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ دوم، 1402ھ۔
  • لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم والمواعظ، قم، دار الحدیث‏، چاپ اول، 1418ھ۔‏
  • محدث نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل ومستنبط المسائل‏، قم، مؤسسۃ آل البیت (ع)، چاپ اول، 1408ھ۔