سرمہ لگانا

ویکی شیعہ سے

سُرمہ لگانا یا اِکتحال مستحب اعمال اور پیغمبر اسلامؐ اور شیعہ ائمہؑ کی سنتوں میں سے ہے اور یہ ہستیاں دوسروں کو بھی اس کی سفارش کرتے تھے۔ احادیث میں سرمہ لگانے کے بہت سے مادی اور معنوی فوائد ذکر کی گئی ہیں من جملہ ان میں آنکھوں کی بعض بیماریوں کی روک تھام اور عبادت اور شب زندہ‌ داری میں مدد وغیرہ کا نام لیا گیا ہے۔

فقہ میں سرمہ لگانے کے مخصوص احکام بھی ذکر ہوئے ہیں۔ بعض فقہا‌ اسے عورتوں کی ان زینتوں میں شمار کرتے ہیں جنہیں نامحرم سے چھپانا واجب ہے، روزہ دار کے لئے سرمہ لگانا اگر اس کی بو یا ذائقہ حلق تک پہنچے تو مکروہ ہے۔ بعض فقہاء اسے وضو کا پانی بدن تک پہنچنے میں مانع قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح فقہا سرمہ لگانے کو محرمات احرام میں بھی شمار کرتے ہیں۔

تعریف اور منزلت

آنکھوں میں سرمہ لگانے کو فقہ میں اکتحال کہا جاتا ہے،[1] جو زینت[2] اور مستحب اعمال میں سے ہے اور مردوں اور عورتوں دونوں کو اس کی سفارش کی گئی ہے۔[3]

اسلامی منابع میں سرمہ لگانے کو پیغمبر اکرمؐ[4] اور شیعہ ائمہؑ کی سنت میں سے قرار دیا گیا ہے جس کی بہت زیادہ تأکید ہوئی ہے۔[5] ائمہ معصومین اسے ایمان کی نشانی قرار دیتے ہوئے[6] اپنے پروکاروں کو اس کی تشویق اور ترغیب دیتے تھے۔[7] بعض حدیثی منابع میں مستقل ابواب میں اس عمل سے مربوط احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔[8]

لغت میں آنکھوں میں کسی چیز کو ڈالنے کو اکتحال کہا جاتا ہے[9] یا ہر اس مفید چیز کو اکتحال کہا جاتا ہے جسے مداوا کے لئے آنکھوں پر لگایا جاتا ہے۔[10]

فقہی احکام

فقہ کے مختلف ابواب میں سرمہ لگانے کے بارے میں بحث ہوئی ہے جن میں سے بعض ایک مندرجہ ذیل ہیں:

پردے کے احکام میں

بعض فقہاء سرمہ لگانے کو عورتوں کے ان زینتوں میں شمار کرتے ہیں جنہیں نامحرم سے چھپانا واجب ہے۔[11] بعض محققین سرمہ لگانے کو آیت: "وَ لا یبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلّا ما ظَہَرَ مِنْہا[؟؟]"[12] کی عبارت "إِلّا ما ظَہَرَ مِنْہا (ترجمہ: وہ زینتیں جن کو نامحرم سے چھپانا واجب نہیں ہے)" کے مصادیق میں شمار کرتے ہیں۔[13] مذکورہ آیت کی تفسیر میں امام صادقؑ[14] اور امام باقرؑ سے احادیث بھی نقل کی گئی ہیں[15] جن میں آنکھوں میں سرمہ لگانے کو عورتوں کے ظاہری اور مباح زینتوں میں شمار کیا گیا ہے۔

احرام کی حالت میں

احرام کی حالت میں سرمہ لگانے کے حرام یا مکروہ ہونے میں اختلاف‌ پایا جاتا ہے۔[16] بعض فقہا کالا سرمہ لگانے کو احرام کی حالت میں مردوں اور عورتوں کے لئے[17] حرام قرار دیتے ہیں،[18] یہاں تک کہ اگر زینت کی نیت سے نہ بھی ہو۔[19] البتہ اس کے باوجود اگر کوئی سرمہ لگانے پر مجبور ہو احرام کی حالت میں تو اس صورت میں یہ کام حرام نہیں ہوگا۔[20]

بعض فقہاء نے احرام کی حالت میں سرمہ لگانے کے حرام ہونے میں شہرت اور اجماع کا دعوا کرتے ہیں،[21] اگرچہ شیخ طوسی اسے احرام کے مکروہات میں سے قرار دیتے ہیں۔[22] بعض حدیثی منابع جیسے وسائل الشیعہ[23] اور مستدرک الوسائل[24] میں حالت احرام میں سرمہ کے حرام ہونے کے سلسلے میں وارد ہونے والی احادیث کے لئے مستقل اور الگ فصل قرار دی گئی ہے۔

بعض فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ احرام کی حالت میں سرمہ لگانے پر کفارہ واجب نہیں ہوتا، لیکن اگر اچھی بو رکھنے والا سرمہ ہو تو ایک قول کی بنا پر اس کا کفارہ بھی ہو گا۔[25]

نماز اور روزہ کی حالت میں

بعض فقہاء روزے کی حالت میں سرمہ لگانے کو جائز اور بعض اسے مبطلات روزہ میں سے قرار دیتے ہیں؛[26] لیکن بعض فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ روزے کی حالت میں سرمہ لگانے سی اگر اس کی بو یا ذائقہ حلق تک پہنچے تو مکروہ ہے۔[27]

سرمہ کو وضو کا پانی جلد تک پہنچنے میں مانع قرار دیا گیا ہے۔[28]

فوائد

اسلامی احادیث میں آنکھ میں سرمہ لگانے کے بے شمار فوائد کا ذکر ملتا ہے[29] بعض احادیث میں آنکھوں کی بعض بیماریوں کی روک تھام[30] یا علاج کے لئے سرمہ لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔[31] امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں رات کو سرمہ لگانے کو بدن کے لئے مفید اور دن کو سرمہ لگانے کو زینت قرار دیا گیا ہے۔[32] اسی طرح ایک اور حدیث میں بالوں کی رشد و نمو، آنسو کی روک تھام، آب دہان کو خوش ذائفہ بنانا اور آنکھوں کی صفائی سرمہ لگانے کے فوائد میں شمار کیا گیا ہے۔[33]

قوت باہ میں اضافہ،[34] پلکوں کا محکم[35] اور رشد و نمو، آنکھوں کا تیز ہونا،[36] آنکھوں کی بیماریوں کا روک تھام،[37] آنکھ سے گرد و خاک کی صفائی[38] اور بعض معنوی آثار جیسے عبادت اور شب‌ زندہ‌ داری،[39] طولانی سجدوں[40] اور چہرے کی نورانیت میں اضافہ[41] سرمہ لگانے کے دوسرے فوائد میں سے ہیں جن کی طرف احادیث میں اشارہ ہوا ہے۔

بعض احادیث میں سرمہ کی جنس،[42] [یادداشت 1] مقدار [43] اور وقت[44] کے بارے میں خاص توجہ دی گئی ہے اور اس سلسلے میں سرمہ لگاتے وقت خاص دعاؤں کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے۔[45]

نوٹ

  1. إثمد سرمہ کی ایک قسم ہے جس کے بارے میں احادیث میں سفارش ہوئی ہے۔ (نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج‌۶، ص۴۹۳۔) بعض کہتے ہیں کہ إثمد ایک پتھر کو کہا جاتا ہے جو اصفہان کی پہاڑیوں میں واقع ہے (زبیدی، تاج العروس، ۱۴۱۴ق، ج‏۱۵، ص۶۴۹۔) اور کحل اصفہان کے نام سے مشہور ہے۔ (ازدی، كتاب الماء، ۱۳۸۷ش، ج‏۳، ص۱۱۰۲)

حوالہ جات

  1. وجدانی فخر، الجواہر الفخریۃ، ۱۴۲۶ق، ج‌۴، ص۲۵۵۔
  2. عاملی، معالم الدین، ۱۴۱۸ق، ج‌۲، ص۹۰۶؛ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ج‌۲۲، ص۶۹۔
  3. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج‌۱، ص۳۹۶۔
  4. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج‌۱، ص۳۹۶۔
  5. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج‌۶، ص۴۹۳۔
  6. حرعاملی، ہدایۃ الأمۃ، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۵۰‌؛ طبرسی، مکارم الأخلاق، ۱۴۱۲ق، ص۴۶۔
  7. حر عاملی، ہدایۃ الأمۃ، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۴۹۔
  8. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج‌۶، ص۴۹۳۔
  9. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج‌۱۱، ص۵۸۴؛ محمود، معجم المصطلحات، ج‌۱، ص۲۷۰۔
  10. ازدی، كتاب الماء، ۱۳۸۷ش، ج‏۳، ص۱۱۰۲؛ زبیدی، تاج العروس، ۱۴۱۴ق، ج‏۱۵، ص۶۴۹۔
  11. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۴۲۴ق، ج‌۲، ص۹۲۸-۹۲۹۔
  12. سورہ نور، آیہ۳۱۔
  13. جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل‌بیت(ع)، قم، ج‌۵۴، ص۱۵۵۔
  14. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج‌۵، ص۵۲۱؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۴۳۰؛ قرشی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج‌۳، ص۱۹۷۔
  15. قمی، تفسیر قمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۱۰۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰۱، ص۳۳۔
  16. جمعی از پژوہشگران، موسوعہ الفقہ الاسلامی، ۱۴۲۳، ج‌۶، ص۶۱۳۔
  17. جمعی از پژوہشگران، موسوعۃ الفقہ الإسلامی، ۱۴۲۳ق، ج‌۶، ص۶۱۳؛ امام خمینی، مناسک حج، بی‌تا، ص۱۰۱؛ خامنہ‌ای، مناسک حج، بی‌تا، ص۲۶۔
  18. وجدانی‌فخر، الجواہر الفخریۃ، ۱۴۲۶ق، ج‌۴، ص۲۵۵؛ شیخ انصاری، مناسک حج محشی، ۱۴۲۵ق، ص۳۶؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج‌۱، ص۴۲۲؛ خامنہ‌ای، مناسک حج، بی‌تا، ص۲۶؛ وحید خراسانی، مناسک حج، ۱۴۲۸ق، ص۱۲۴؛ محمودی، مناسک عمرہ مفردہ محشی، ۱۴۲۹ق، ص۶۵-۶۶۔
  19. جمعی از پژوہشگران، موسوعۃ الفقہ الإسلامی، ۱۴۲۳ق، ج‌۶، ص۶۱۳؛ امام خمینی، مناسک حج، بی‌تا، ص۱۰۱؛ خامنہ‌ای، مناسک حج، بی‌تا، ص۲۶۔
  20. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج‌۱، ص۴۲۲؛ محمودی، مناسک عمرہ مفردہ محشی، ۱۴۲۹ق، ص۶۵-۶۶۔
  21. جمعی از پژوہشگران، موسوعۃ الفقہ الإسلامی، ۱۴۲۳ق، ج‌۶، ص۶۱۳۔
  22. طوسی، الجمل و العقود، ۱۳۸۷ق، ص۱۳۶۔
  23. حرعاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ق، ج‌۱۲، ص۴۶۸۔
  24. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج‌۹، ص۲۱۷۔
  25. وجدانی‌فخر، الجواہر الفخریۃ، ۱۴۲۶ق، ج‌۴، ص۲۵۵؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج‌۱، ص۴۲۲؛ محمودی، مناسک عمرہ مفردہ محشی، ۱۴۲۹ق، ص۶۵-۶۶۔
  26. لاری، مجموعہ مقالات، ۱۴۱۸ق، ص۵۹۱۔
  27. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ق، ج‌۳، ص۱۷۸؛ امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۳۴۵۔
  28. فیاض، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۴۰۔
  29. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۲۲۔
  30. شیخ صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۲۲۔
  31. ابنا بسطام، طب الأئمۃ، ۱۴۱۱ق، ص۸۳؛ طبرسی، مکارم الأخلاق، ۱۴۱۲ق، ص۴۶۔
  32. عاملی، معالم الدین، ۱۴۱۸ق، ج‌۲، ص۹۰۶؛ مجلسی، لوامع صاحبقرانی، ۱۴۱۴ق، ج‌۱، ص۴۶۱۔
  33. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۴۹۲؛ شیخ صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۲۲۔
  34. طبرسی، مکارم الأخلاق، ۱۴۱۲ق، ص۴۶
  35. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۴۹۴۔
  36. طبرسی، مکارم الأخلاق، ۱۴۱۲ق، ص۴۵۔
  37. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۴۹۳۔
  38. ابن حیون، دعائم الإسلام، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۱۴۶۔
  39. طبرسی، مکارم الأخلاق، ۱۴۱۲ق، ص۴۵۔
  40. مجلسی، لوامع صاحبقرانی، ۱۴۱۴ق، ج‌۱، ص۴۶۱۔
  41. شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۱، ص۲۳۷۔
  42. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج‌۶، ص۴۹۳۔
  43. مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۹، ص۲۸۷۔
  44. ملاحظہ کریں: طبرسی، مکارم الأخلاق، ۱۴۱۲ق، ص۴۶۔
  45. طبرسی، مکارم الأخلاق، ۱۴۱۲ق، ص۴۷۔

مآخذ

  • ابن حیون، نعمان بن محمد مغربی، دعائم الإسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الأحکام، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۵ھ۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب،‌ بیروت، دارالفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع، ۱۴۱۴ھ۔
  • ابنا بسطام، عبداللہ و حسین، طبّ الأئمۃ(ع)، قم، ‌دارالشریف الرضی، چاپ دوم، ۱۴۱۱ھ۔
  • ازدی، عبداللہ بن محمد، كتاب الماء، تہران، مؤسسہ مطالعات تاريخ پزشكي، طب اسلامي و مكمل - دانشگاہ علوم پزشكي ايران، ۱۳۸۷ش۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ موسوی، مناسک حج، بی‌جا، بی‌تا۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللّہ موسوی، تحریر الوسیلۃ، قم، مؤسسہ مطبوعات دارالعلم، بی‌تا۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللّہ موسوی، توضیح المسائل (محشّی - امام خمینی)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللّہ موسوی، توضیح المسائل، بی‌جا، ۱۴۲۶ھ۔
  • جمعی از پژوہشگران زیر نظر شاہرودی، سید محمود ہاشمی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت(ع)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت(ع)، ۱۴۲۶ھ۔
  • جمعی از پژوہشگران زیر نظر شاہرودی، سید محمود ہاشمی، موسوعۃ الفقہ الإسلامی طبقا لمذہب أہل‌البیت(ع)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت(ع)، ۱۴۲۳ھ۔
  • جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل‌بیت(ع)، فارسی، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت(ع)، بی‌تا۔
  • حرعاملی، محمد بن حسن، ہدایۃ الأمۃ إلی أحکام الأئمۃ - منتخب المسائل، مشہد، مجمع البحوث الإسلامیۃ، ۱۴۱۲ھ۔
  • حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، ۱۴۰۹ھ۔
  • خامنہ‌ای، سید علی، مناسک حج، بی‌جا، بی‌تا۔
  • زبيدی، محمدمرتضى، تاج‌العروس من جواہر القاموس، بیروت، دارالفكر، ۱۴۱۴ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، مناسک حج (محشی)، قم، مجمع الفکر الإسلامی، ۱۴۲۵ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۶۲ش۔
  • شیخ صدوق، محمّد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، قم،‌ دارالشریف الرضی للنشر، چاپ دوم، ۱۴۰۶ھ۔
  • طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الأخلاق، ۱۴۱۲ق، قم، الشریف الرضی، چاپ چہارم، ۱۴۱۲ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الجمل و العقود فی العبادات، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاہ فردوسی، ۱۳۸۷ھ۔
  • عاملی، حسن بن زین‌الدین، معالم الدین و ملاذ المجتہدین (قسم الفقہ)، قم، مؤسسۃ الفقہ للطباعۃ و النشر، ۱۴۱۸ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ‌مرتضى‏، تفسیر الصافی، تحقیق حسین اعلمی، تہران، مکتبہ الصدر، ۱۴۱۵ھ۔
  • قرشی، سید علی‌اکبر، قاموس قرآن، تہران، ‌دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، ۱۴۱۲ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، تحقیق طيّب ‏موسوى جزائرى، قم، دارالکتاب، ۱۴۰۴ھ۔
  • فیاض، محمداسحاق، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات مجلسی، ۱۴۲۶ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،‌ تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • لاری، سید عبدالحسین، مجموعہ مقالات، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، ۱۴۱۸ھ۔
  • مجلسی اول، محمدتقی، لوامع صاحبقرانی، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۱۴ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار الجامعۃ لدرر اخبار الأئمۃ الأطہار،‌ بیروت، ‌دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • محمود، عبدالرحمان، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہیۃ، بی‌جا، بی‌تا۔
  • محمودی، محمدرضا، مناسک عمرہ مفردہ (محشی)، قم، نشر مشعر، ۱۴۲۹ھ۔
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، بیروت، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، ۱۴۰۸ھ۔
  • وجدانی‌فخر، قدرت اللہ، الجواہر الفخریۃ فی شرح الروضۃ البہیۃ، قم، انتشارات سماء قلم، چاپ دوم، ۱۴۲۶ھ۔
  • وحید خراسانی، حسین، مناسک حج، قم، مدرسۃ الإمام باقر العلوم(ع)، چاپ چہارم، ۱۴۲۸ھ۔