عقیقہ
عقیقہ، بچے کی ولادت کے ساتویں دن بلا اور مصیبت سے اس کی حفاظت کی غرض سے کی جانے والی قربانی کو کہا جاتا ہے۔ احادیث کے مطابق، عقیقہ آئمہ معصومینؑ کی طرف سے تاکید شدہ سنت اور سیرت میں سے ایک ہے۔ عقیقہ کے حیوان کے انتخاب، ذبح کرنے، اور گوشت کے استعمال کرنے کے خاص آداب اور احکام ہیں.
معنی
عقیقہ فقہ کی اصطلاح میں، اس حیوان کو کہتے ہیں جو بچے کی پیدائش کے ساتویں دن قربانی ہوتا ہے. [1] کیونکہ اس دن، بچے کے سر کے بال بھی اتارے جاتے ہیں، اس دن کی قربانی کو عقیقہ کہتے ہیں.
عقیقہ اور آئمہ معصومین کی سیرت
کلینی نے کتاب الکافی میں عقیقہ کے بارے میں 50 کے قریب روایات بیان کی ہیں. [2] روایات میں، عقیقہ کا فلسفہ بچے کو مصیبتوں اور بلاؤں سے بچانے کو کہا ہے. [3] حسنینؑ کا عقیقہ کرنے کے بارے میں رسول اللہؐ سے متعدد روایات بیان ہوئی ہیں یہ کہ پیغمبرؐ نے آپ کی تولد کی ساتویں دن آپکے بالوں کو اتارا اور ان کے وزن جتنی چاندی صدقہ دیا اور ایک بھیڑ صدقے میں ذبح کی. [4] بعض روایت میں حسنینؑ کے سر کے بال اتارنے اور عقیقہ کرنے کو حضرت زہراءؑ سے نسبت دی گئی ہے.[5] بعض روایات میں ملتا ہے کہ جب پیغمبر اکرمؐ رسالت پر مبعوث ہوئے تو آپؐ نے اپنے لئے عقیقہ کیا تھا. [6] محمد بن مسلم نقل کرتے ہیں کہ امام باقرؑ نے زید بن علی کو حکم دیا کہ اپنے دوبیٹوں کے لئے جو کہ اکھٹے (جوڑوں) دنیا میں آئے تھے، انکے عقیقہ کے لئے دو حیوان خریدے، لیکن مہنگائی اور حیوان نہ ملنے کی وجہ سے زید نے ایک حیوان خریدا اور دوسرا خریدنا اس کے لئے مشکل ہو گیا. اسی وجہ سے اس نے امام باقرؑ سے سوال کیا کہ آیا دوسرے حیوان کی قیمت صدقے میں دے سکتا ہے؟ آپؑ نے فرمایا: حیوان خریدنے کی جستجو کرو کیونکہ خداوند عزوجل خون بہانے (حیوان کا سر کاٹنے) اور بخشش طعام کو پسند فرماتا ہے [7] شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین میں نقل کیا ہے کہ امام حسن عسکریؑ نے ایک ذبح شدہ گائے کسی شخص کے لئے بھیجی اور فرمایا: یہ میرے فرزند محمد کا عقیقہ ہے. [8]
عقیقہ کے آداب
- مستحب ہے کہ لڑکے کے لئے نر حیوان اور لڑکی کے لئے مادہ حیوان کی قربانی کی جائے.[9]
- اگر بالغ ہونے تک عقیقہ نہ کیا ہو تو انسان پر مستحب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد وہ خود اپنا عقیقہ کرے. [10]
- اہل تشیع کا مشہور عقیدہ ہے کہ عقیقہ مستحب عمل ہے. [11] لیکن سید مرتضی نے صاحب جواھر ابن جنید اسکافی کے قول کے مطابق عقیقہ کو واجب عمل کہا ہے. [12] اس کے واجب ہونے کے بارے میں احادیث بھی وارد ہوئی ہیں. [13] لیکن دوسرے فقھا کی نظر میں ایسا مستحب عمل ہے کہ جس کے بارے میں تاکید کی گئی ہے.
- بعض احادیث میں آیا ہے کہ قربانی عقیقہ کی جگہ کافی ہے. یہاں پر قربانی سے مراد حج والی قربانی ہے. [14]
عقیقہ کے احکام اور شرائط
- عقیقہ، چار پاؤں والے حیوان جیسے گائے، بکری، اونٹ کا ہونا چاہئے.[15]
- مستحب ہے کہ اس میں قربانی کی شروط کی رعایت کی جائے. [16]
- قربانی کی جگہ پیسے صدقہ دینا کافی نہیں ہیں. [17]
- عقیقہ کے گوشت کی ہڈی کو توڑنا مکروہ ہے. [18]
- قربانی اور بچے کے سر کے بال ایک جگہ پر اتارے جائیں. [19]
- بچے کے سر کے بال اتارنے کے بعد، حیوان کو ذبح کرنا چاہئے. [20]
استعمال کے موارد
عقیقہ کی دعا
« بِسْمِ اللَّهِ وَ بِاللَّهِ اللَّهُمَّ عَقِیقَةٌ عَنْ فُلَانٍ (فلان کی جگہ بچہ کا نام لیا جائے) لَحْمُهَا بِلَحْمِهِ وَ دَمُهَا بِدَمِهِ وَ عَظْمُهَا بِعَظْمِهِ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ وِقَاءً لآِلِ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه و آله»[24]
اس بارے میں ایک اور دعا بھی وارد ہوئی ہے: يا قَوْمِ اِنّى بَرىٌ مِمّا تُشْرِكُونَ اِنّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذى فَطَرَ السَّمواتِ وَالْاَرْضَ حَنيفاً مُسْلِماً وَ ما اَنَا مِنَ الْمُشْرِكينَ اِنَّ صَلوتى وَ نُسُكى وَ مَحْياىَ وَ مَماتى لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمينَ لا شَريكَ لَهُ وَ بِذلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمينَ اَللّهُمَّ مِنْكَ وَ لَكَ بِسْمِ اللَّهِ وَ بِاللَّهِ وَاللَّهُ اَكْبَرُ اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ تَقَبَّلْ مِنْ .... اور اس کے بعد بچے کا نام لیں اور پھر ذبح کریں. [25]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۳؛ مجمع البحرین، ج۵، ص۲۱۵
- ↑ کلینی، کافی، ج۶، ص۲۴-۳۶
- ↑ کلینی، کافی، ج۶، ص۲۴-۲۵
- ↑ بحارالانوار، ج۴۳، ص ۲۵۷، ح۳۸
- ↑ بحارالانوار، ج۱۰۴، ص۱۱۲
- ↑ وسایل الشیعہ، ج۱۵، ص۱۴۵، ح۳
- ↑ الکافی، ج۶، ص۲۵، ح۸
- ↑ وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۱۷۲، ح۳
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۳
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۴
- ↑ شیخ طوسی، خلاف، ج۶، ص۶۷؛ نجفی، جواہر، ج۳۱، ص۲۶۷
- ↑ سید مرتضی، الانتصار، ص۴۰۶؛ محقق داماد، إثنا عشر رسالة، ص۱۲۱؛ نجفی، جواہر، ج۳۱، ص۲۶۶
- ↑ نک:کلینی، کافی، ج۶، ص۲۴-۳۶؛ نجفی، جواہر، ج۳۱، ص۲۶۵-۲۶۶
- ↑ وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۱۷۲، ح۱و ۲و۳
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۳
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۳؛ کلینی، ج۶، ص۳۰
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۳
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۴
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۴
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۴؛ محقق داماد، إثنا عشر رسالة، ص۱۲۱
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۳
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۳، کلینی، کافی، ج۶، ۳۲
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۳
- ↑ کلینی، کافی، ج۶، ۳۱-۳۰
- ↑ شیخ بہائی، جامع عباسی، ص۳۰۴؛ کلینی، کافی، ج۶، ۳۱-۳۰