مندرجات کا رخ کریں

گھٹی دینا

ویکی شیعہ سے

گھٹی دینا یا گڑھتی دینا (عربی:تَحنِیک) اسلامی آداب میں سے ایک سنت ہے، جس میں نوزائیدہ بچے کے منہ میں تھوڑی مقدار میں پانی یا خوراک دی جاتی ہے۔ شیعہ فقہا کے مطابق نوزائیدہ بچے کو آب فرات اور تربت امام حسینؑ سے گھٹی دینا مستحب ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ جس بچے کو آب فرات سے گھٹی دی جائے، وہ بڑا ہو کر شیعہ اور اہل‌ بیتؑ کا محب بن جائے گا۔

تعریف

گھٹی دینے کا مطلب یہ ہے کہ انگلی کو ہلکی خوراک میں تر کر کے نوزائیدہ بچے کے منہ کے اندر تالو تک پہنچائی جائے۔[1] یہ کام عام طور پر دائی (قابِلہ) یا کسی دوسرے فرد کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔[2] عام اصطلاح میں اسے گھٹی دینا یا گڑھتی دینا کہا جاتا ہے۔[3]

عوامی عقیدے کے مطابق گھٹی دینے کا مقصد بچے کی صحت، ماں کا دودھ چوسنے میں آسانی، زبان کی لکنت سے بچاؤ اور دینی تربیت کی بنیاد رکھنا ہے۔[4] شیعہ فقہا، فقہ میں باب نکاح میں اس عمل کو "تحنیک" کا نام دیتے ہیں۔[5]

اہمیت

کتاب وسائل الشیعہ میں گھٹی دینے کو ایک مستحب عمل قرار دیتے ہوئے اس کے آداب اور احکام سے متعلق ایک علیحدہ باب ذکر کیا ہے۔[6] بعض احادیث کے مطابق جس نوزائیدہ بچے کو آب فرات سے گھٹی دی جائے، وہ بڑا ہو کر شیعہ اور اہل‌ بیتؑ کا محب بن جائے گا۔[7]

گھٹی دینے کی روایت اسلام سے پہلے بھی مختلف اقوام میں رائج تھی۔[8] بعض اہل‌ سنت مفسرین سورہ مریم کی آیت 25 کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ نوزائیدہ بچے کو کھجور کے ساتھ گھٹی دینے کی روایت کو حضرت عیسی کی ولادت کے وقت حضرت مریم کے کھجور کھانے کے واقعے سے ربط دیتے ہیں۔[9] صدرِ اسلام میں صحابہ اپنے نوزائیدہ بچوں کو نبی اکرمؐ کے پاس لے جاتے، اور آپؐ کھجور کے ساتھ انہیں گھٹی دیتے اور ان کے لیے دعا کرتے تھے۔[10] شیعہ ائمہ کے دور میں بچوں کو فرات کے پانی کے ساتھ گھٹی دینے کو اہمیت دی گئی، اور امام حسینؑ کی شہادت کے بعد تربتِ امام حسینؑ سے گھٹی دینے کی سفارش کی جانے لگی۔[11]

ایران میں نوزائیدہ بچوں کو گھٹی دینے کی روایت کو عوامی عقیدے میں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔[12] ایرانی عوام کے عقیدے کے مطابق نوزائیدہ بچوں کو کسی نیک، دیانتدار اور باعزت شخصیت کے ہاتھوں گھٹی دیا جانا چاہیے۔[13]

فقہی آداب

احادیث میں نبی اکرمؐ اور ائمہ اطہارؑ کی سیرت میں گھٹی دینے کے طریقے مذکور ہیں۔ مثلا حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ نبی اکرمؐ نے امام حسنؑ و امام حسینؑ کو کھجور کے ساتھ گھٹی دیا۔[14] اسی طرح، احادیث میں آیا ہے کہ امام موسیٰ کاظمؑ نے اپنے فرزند امام رضاؑ کو فرات کے پانی سے گھٹی دیا۔[15]

شیعہ فقہا کے مطابق نوزائیدہ بچوں کو گھتی دینا ایک مستحب عمل ہے، اور یہ کام بچوں کے نام رکھنے سے پہلے انجام دینا بہتر ہے۔[16] اسی طرح مستحب ہے یہ آب فرات اور تربتِ امام حسینؑ کے ذریعے انجام دیا جائے۔[17] اگر آب فرات موجود نہ ہو، تو میٹھے پانی کا استعمال بہتر ہے، اور اگر صرف نمکین پانی دستیاب ہو، تو اسے کھجور یا شہد کے ساتھ ملا کر استعمال کرنا چاہیے۔[18]

اہل‌ سنت کے فقیہ ابن قیم جوزیہ نے بھی گھٹی دینے کو نوزائیدہ بچے کی پیدائش کے وقت کے مستحب آداب میں شمار کیا ہے۔[19]


حوالہ جات

  1. کریمی، «سق‌برداشتن»، سایت مرکز دائرۃ‌المعارف بزرگ اسلامی۔
  2. کریمی، «سق‌برداشتن»، سایت مرکز دائرۃ‌المعارف بزرگ اسلامی۔
  3. دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، ذیل واژہ «کام‌برداشتن»؛ واحدی، «کام‌برداری نوزاد»، سایت خبرگزاری میزان۔
  4. کریمی، «سق‌برداشتن»، سایت مرکز دائرۃ‌المعارف بزرگ اسلامی؛ واحدی، «کام‌برداری نوزاد»، سایت خبرگزاری میزان۔
  5. ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص287، بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1405ھ، ج25، ص37۔
  6. حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج21، ص407۔
  7. ابن قولویہ، کامل الزیارات، 1356شمسی، ص49؛ مجلسی، روضۃ المتقین، 1406ھ، ج8، ص622۔
  8. واحدی، «کام‌برداری نوزاد»، سایت خبرگزاری میزان۔
  9. زمخشری، کشاف، 1407ھ، ج3، ص13؛ حقی بروسوی، روح البیان، دار الفکر، ج5، ص327۔
  10. سبحانی، وہابیت، 1388شمسی، ج1، ص337۔
  11. واحدی، «کام‌برداری نوزاد»، سایت خبرگزاری میزان۔
  12. ملاحظہ کریں: کریمی، «سق‌برداشتن»، سایت مرکز دائرۃ‌المعارف بزرگ اسلامی۔
  13. ملاحظہ کریں: کریمی، «سق‌برداشتن»، سایت مرکز دائرۃ‌المعارف بزرگ اسلامی۔
  14. حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج21، ص407۔
  15. حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج21، ص408۔
  16. ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص287؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج31، ص252۔
  17. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص287؛ فخر المحققین، ایضاح الفوائد، 1387ھ، ج3، ص258؛ علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج3، ص97۔
  18. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص287؛ علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج3، ص97؛ فخر المحققین، ایضاح الفوائد، 1387ھ، ج3، ص258۔
  19. ابن‌قیم جوزیہ، تحفۃ المودود باحکام المولود، مکتبۃ القرآن، ص30۔

مآخذ

  • ابن‌قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، نجف، دار المرتضویہ، چاپ اول، 1356ہجری شمسی۔
  • ابن‌قیم جوزیہ، محمد بن ابی‌بکر، تحفۃ المودود باحکام المولود، مصر، مکتبۃ القرآن، بی‌تا۔
  • بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ فی أحکام العترۃ الطاہرہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1405ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ھ۔
  • حقی بروسوی، اسماعیل بن مصطفی، تفسیر روح البیان، بیروت، دار الفکر، بی‌تا۔
  • دہخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامہ دہخدا، زیر نظر محمد معین و سید جعفر شہیدی، تہران، مؤسسہ انتشارات و چاپ دانشگاہ تہران، 1377ہجری شمسی۔
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفۃ الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
  • فخر المحققین، محمد بن حسن، ایضاح الفوائد فی شرح مشکلات القواعد، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ اول، 1387ھ۔
  • کریمی، اصغر، «سق‌برداشتن»، سایت مرکز دائرۃ‌المعارف بزرگ اسلامی، آخرین بہ‌روزرسانی: 1 آذر 1400شمسی، تاریخ مشاہدہ: 20 آذر 1403ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لایحضرہ الفقیہ، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانبور، چاپ دوم، 1406ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • نجفی، محمد‌حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
  • واحدی، سید محمد‌رضا، «کام‌برداری نوزاد»، سایت خبرگزاری میزان۔ تاریخ درج مطلب: 24 فروردین 1398شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24 آذر 1403ہجری شمسی۔