عدالت

ویکی شیعہ سے

عدالت ایک فقہی اصطلاح ہے۔ فقہ میں ایک ایسی صفت کو عدالت کہا جاتا ہے جو گناہوں کے ترک کرنے کا سبب ہوتا ہے اور اسلام کے بہت سارے فقہی احکام میں اس سے گفتگو ہوتی ہے۔ فقہی اعتبار سے کسی شخص کی عدالت، دو عادل اشخاص کی گواہی یا اس شحص کے ساتھ زیادہ معاشرت یا معاشرے کے متدینین کا اس کی عدالت پر یقین رکھنے کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔ اکثر فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ ظاہری حسن سیرت (یعنی ظاہری طور پر احکام شرعی کا پایبند ہو) کسی شخص کی عدالت کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔

مختلف فقہی ابواب من جملہ اجتہاد و تقلید، نماز (نماز جماعت اور میت کی نماز قضا بجا لانے میں اجیر بننے کیلئے)، زکات، خمس، حج، جہاد، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، حجر، وقف، وصیت، طلاق، لُقطہ اور شہادات میں عدالت سے بحث کی جاتی ہے۔

عدالت کے معنی

عدل، ظلم کے مقابلے میں دو چیزوں کے درمیان مساوات برقرا کرنا اور ہر چیز کو اس کے اصل مقام اور منصب پر رکھنے کو کہا جاتا ہے۔[1] وہ انسان جو اپنے تمام کاموں میں عدالت کی رعایت کرے عادل کہا جاتا ہے۔ [2] چنانچہ "عدل" خدا کے اسامی میں سے بھی ہے؛[3] کیونکہ خدا حق کے ساتھ حکم کرتا ہے اور اس کے حکم میں کسی قسم کا ظلم نہیں پایا جاتا۔ حدیث عقل و جہل کے نام سے معروف حدیث میں عدل کو عقل اور ظلم کو جہل کے سپاہیوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔[4]

فقہ میں عدالت کے معنی

فقہاء کے کلمات میں کبھی عدالت کو اس کے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے؛ چنانچہ کسی مرد کے متعدد بیویوں کے درمیان عدالت برقرار کرنا، عدالت کے لغوی معنی کے اعتبار سے ہے۔ لیکن بعض موارد میں بعض مناصب پر فائز ہونے کیلئے بھی عدالت کی شرط لگائی گئی ہے۔ اب ان موارد میں عدالت کی حقیقت کے بارے میں فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب شخص یا گناہ صغیرہ پر اصرار کرنے والا جب تک اس سے توبہ‌ نہ کرے اس کی عدالت ثابت نہیں ہوتی ہے اور اگر اس سے پہلے عادل تھا تو ان کاموں کی وجہ سے اس کی عدالت زائل ہوتی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود عدالت کی تعریف میں فقہاء اختلاف نظر رکھتے ہیں:

  1. عدالت ایک نفسانی کیفیت یا ملکہ‌ ہے جو جس انسان میں بھی پائی جائے اسے تقوا اور پرہیزگاری پر مجبور کرتا ہے۔[5] اس قول کو مشہور متأخرین، بلکہ مشہور فقہاء کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ [6]
  2. عدالت کا معنی گناہ کو ترک کنا ہے؛ چاہے گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ یا گناہ کبیرہ کو ترک کرنا اور گناہ صغیرہ پر اصرار نہ کرنا چاہے اس کا منشاء کوئی نفسانی ملکہ یا کیفیت ہو یا کوئی اور چیز۔
  3. عدالت یعنی گناہوں یا خاص کر گناہان کبیرہ کو ترک کرنا جو ایک نفسانی کیفیت اور ملکہ سے ناشی ہو۔[7]
  4. عدالت؛ یعنی اسلام لے آنا اور اس سے کوئی فسق و فجور ظاہر نہ ہو۔[8] اس بنا پر ہر وہ مسلمان جس سے کوئی فسق و فجور ظاہر نہ ہو عادل شمار ہوگا۔
  5. عدالت سے مراد ظاہری حسن سیرت ہے؛ یعنی کسی شخص کا ظاہری طور پر احکام شرعی کا پایبند ہونا اس کے عادل ہونے کی دلیل ہے۔ اس تعریف اکثر قدما کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔[9]

بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ عدالت کی تعریف میں فقہاء کے کلمات مختلف ہیں لیکن عدالت کی حقیقت ان سب کے پاس ایک ہی ہے۔ اس بنا پر اختلاف صرف تعبیر میں ہے نہ عدالت کے معنی میں۔[10]

عدالت اور مروّت میں رابطہ

مروّت لغت میں فیاضی، مردانگی اور کشادہ دلی کے معنی میں آتا ہے اور فقہ میں اس سے مراد پسندیدہ عادات اور سنتوں کی رعایت کرنا اور ناپسند عادات سے پرہیز کرنے کو کہا جاتا ہے، یعنی ایسے اعمال سے پرہیز کرنا جن کی انجام دھی انسان کی پستی، کمینگی اور دین سے لاپروایی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ مثلا عمومی رفت و آمد کی جگہوں پر پیشاب کرنا یا نامناسب لباس پہننا وغیرہ۔ زمان و مکان اور اشخاص کو مد نظر رکھتے ہوئے مروّت کی خلاف ورزی کے مراتب بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔[11]

متأخرین میں سے مشہور، مروّت کو عدالت (یا حسن سیرت جو عدالت کو کشف کرتی ہے) میں معتبر سمجھتے ہیں۔ عدالت میں مروّت کو شرط نہ سمجھنے کو مشہور قدما کی طرف نسبت دی گئی ہے۔[12]

بعض فقہاء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ناپسند افعال کو کبھی کبھار انجام دینا جو مروّت کے منافی نہیں ہیں یا مجبوری اور ضرورت کے پیش نظر کسی ناپسند افعال کی انجام دھی، عدالت کو نقصان نہیں پہنجاتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کے فاسق ہونے میں خلاف مروّت افعال اور گناہ کبیرہ میں بھی تفاوت پایا جاتا ہے۔ خلاف مروّت افعال کی انجام دھی سے عدالت ساقط ہوتی ہے لیکن انسان کے فاسق ہونے کا سبب نہیں بنے گا۔ [13]

بعض فقہاء گناہ صغیرہ کے ارتکاب کو بغیر اصرار کے بھی منافی عدالت سمجھتے ہیں۔[14]

فقہی موضوعات جن میں عدالت شرط ہے

فقہ میں بہت سارے موضوعات میں عدالت شرط ہے وہ موضوعات درج ذیل ہیں:

اسی طرح محکمہ عدالت کا منشی اگر قاضی اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی لکھائی کو نہ دیکھتا ہو؛[21] اجناس کی قیمت تعیین کرنے والے ماہرین[22] نیز وہ شخص جو حاکم شرع کی جانب سے مشترک اموال کی تقسیم کیلئے معین کیا جاتا ہے[23] کو بھی عادل ہونا شرط ہے۔

احادیث نقل کرنے والے راوی میں عدالت کو شرط قرار دینے کو مشہور کی طرف نسبت دی گئی ہے؛ لیکن اکثر ففہاء اسے شرط نہیں سمجھتے ہوئے اس کے سچا ہونے پر یقین ہونے کو کافی سمجھتے ہیں۔[24]

متأخرین میں سے مشہور کے مطابق زکات کے مستحقین میں عدالت شرط نہیں ہے۔ جبکہ قدما میں سے مشہور اسے شرط سمجھتے تھے۔ بعض قدما کی طرف مستحقین زکات میں گناہ کبیرہ سے اجتناب کرنے کو شرط قرار دینے کی نسبت دی گئی ہے۔[25]

اکثر معاصر فقہاء کے نزدیک احتیاط اس میں ہے کہ ایسے شخص کو جو کھلم کھلا گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے خاص کر شراب نوشی کرتا ہے، زکات نہ دی جائے۔ البتہ اگر زکات دینا گناہ کے ارتکاب میں ممد ثابت ہوتا ہو یا گناہ کی طرف تشویق اور ترغیب کا مصداق بن جائے تو قطعی طور پر حرام ہے۔[26]

مستحقین زکات میں عدالت کو شرط قرار دینے کی صورت میں "مؤلفۃ القلوب"، "فی سبیل اللّہ"، "غلاموں کی آزادی"، "مسافر" اور "غارمین" اس حکم سے مستثنا ہیں اور ان میں عدالت شرط نہیں ہے۔[27]

خمس کے مسحقین میں بھی عدالت شرط نہیں ہے؛[28] لیکن اکثر معاصر فقہاء احتیاط کی بنا پر علنی گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے کو خمس دینا جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[29]

جس شخص کو کسی میت کی نماز قضا یا حج انجام دینے کیلئے بعنوان نائب مقرر کیا جاتا ہے اسے عادل ہونا شرط نہیں ہے اور غیر عادل شخص کا حج اور نماز کیلئے نائب بننا صحیح ہے لیکن جب تک نائب عادل نہ ہو اس کے کہنے پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔[30]

عدالت ثابت ہونے کے طریقے

کسی شخص کی عدالت کو چند طریقوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے:

  1. دو عادل شخص کسی تیسرے شخص کے عادل ہونے کی گواہی دیں اس شرط کے ساتھ کہ دو اور عادل شخص اس کے فاسق ہونے کی گواہی نہ دے۔
  2. کسی شخص کے ساتھ اس قدر زندگی گزاری ہو کہ اس کے عادل ہونے کے بارے میں یقین حاصل ہو جائے۔
  3. کسی کی عدالت معاشرے میں اس قدر مشہور ہو کہ اس سے ہمیں بھی اس کے عادل ہونے کا یقین ہو جائے۔

درج بالا راستوں میں سے کسی بھی طریقے سے کسی شخص کی عدالت پر یقین حاص ہو جائے تو کافی ہے۔ لیکن بعض فقہاء نے اس کے ساتھ یہ بھی شرط لگائی ہے کہ جس کو کسی کی عدالت پر یقین حاصل ہو رہا ہے وہ خود بھی اہل خبرہ، بابصیرت اور شرعی احکام سے آگاہی رکھتا ہو۔[31]

بعض فقہاء کے مطابق کسی شخص کی عدالت صرف ایک عادل یا مورد اطمنان شخص کی گواہی سے بھی ثاتب ہوتی جاتی ہے۔[32]

بعض دیگر فقہاء نے تصریح کی ہے کہ کسی کی عدالت ثابت ہونے کی راستوں میں سے ایک دو عادل اشخاص کی عملی گواہی ہے مثلا یہ کہ دو عادل شخص کسی کے پیچھے نماز جماعت پڑھے تو اس کی عدالت ثابت ہوتی ہے۔[33]

حُسن سیرت

اکثر فقہا کسی کی عدالت ثابت ہونے کی طریقوں میں سے ایک اس کی حسن سیرت یعنی شخص مورد نظر کا ظاہری طور پر احکام شرعی کا پایبند ہونا، کو قرار دیتے ہیں۔ یعنی اس کے ساتھ زندگی گزارنے والے اس سے کسی گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہوئے یا گناہ صغیرہ پر اصرار کرتے ہوئے نہ دیکھے یا اگر ایس کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہو تو توبہ کی ہو۔ فقہاء کا ایک اور گروہ اس بات کے معتقد ہیں کہ صرف اطمینان اور غالب گمان سے بھی عدالت ثابت ہوتی ہے۔[34]

عدالت کا زائل ہونا

گناہ کبیرہ کے ارتکاب یا گناہ صغیرہ پر اصرار کے بعد توبہ نہ کرنے کی صورت میں عدالت محقق نہیں ہوگی یا اگر پہلے سے عادل ہو تو مذکورہ صورتوں میں توبہ نہ کرنے کی صورت میں اس کی عدالت زائل ہو جاتی ہے؛[35] لیکن مستحب کو ترک کرنے کے ذریعے اگرچہ تمام مستحبات کو ترک کیوں نہ کرے جب تک اس کام کی وجہ سے مستحبات کو خفیف اور بے وقعت شمار کرنے کی حد تک نہ پہنچے مورد نظر شخص کی عدالت زائل نہیں ہوگی۔[36]

کسی عادل شخص کی عدالت کے باقی ہونے اور نہ ہونے میں شک کی صورت میں اس کی عدالت کے باقی ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔[37]

امام جماعت کی عدالت

امام جماعت کیلئے مأموم (جو اس کے پیچھے نماز کی اقتداء کر رہا ہو) کی نظر میں عادل ہونا شرط ہے۔ بعض فقہاء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ امام جماعت کی عدالت کو ثابت کرنے کیلئے دو عادل اشخاص جو احکام شرعی سے آگاہی رکھتے ہوں، کا اس کی اقتداء میں نماز جماعت ادا کرنا کافی ہے۔ [38]

آیا نماز جماعت کی امامت یا دوسرے مناصب جن میں عدالت شرط ہے، اس بندے کیلئے جو خود اپنے فاسق ہونے پر یقین رکھتا ہے جائز ہے یا نہیں؟ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ مشہور کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ مشہور اس مسئلے میں جواز کے قائل ہیں مشہور کے مطابق دوسروں کا اسے عادل سمجھنا کافی ہے۔[39] لیکن بعض فقہاء قائل ہیں کہ احتیاط اس میں ہے کہ ایسے شخص کو جو اپنے فاسق ہونے پر یقین رکھتا ہے ایسے مناصب سے دور رہے۔[40]

بیویوں اور بچوں کے درمیان عدالت برقرار کرنا

اسلام میں مختلف مواقع پر عدالت کی رعایت کو واجب یا مستحب قرار دیا ہے۔ جن موارد میں عدالت کی رعایت کرنا واجب ہے ان میں سے منجملہ بیویوں کے درمیان واجب نفقہ اور راتوں کی تقسیم میں عدالت کی رعایت کرنا ہے۔[41] (مرد موظف ہے کہ ہر چار راتوں میں سے ایک رات ضروری طور پر اپنی دائمی بیوی کے ساتھ گزارے اگرچہ ہمبستری کے بغیر ہی کیوں نہ ہو)

بیویوں کے درمیان واجب نفقہ کے علاوہ زندگی کے دوسرے اخراجات، اظہار محبت، ان کے کاموں کی انجام دھی، خندہ پیشانی سے پیش آنے اور ہمبستری وغیرہ میں عدالت کی رعایت کرنا مستحب ہے۔ اسی طرح مستحب ہے کہ جو رات جس بیوی س متعلق ہے اس رات طلوع فجر تک اس کے ہاں گزارے۔[42]

بچوں کے درمیان بذل و بخشش میں عدالت کی رعایت کرنا مستحب ہے سوائے اس صورت میں کہ ان میں سے کسی ایک میں کوئی ایسی خصوصیت پائی جاتی ہو جو اس کو دوسروں پر مقدم کرنے کا باعث بن جائے۔[43]

حوالہ جات

  1. لسان العرب و مجمع البحرین، واژہ «عدل»
  2. لسان العرب، واژہ «عدل»
  3. الکافی (کلینی)، ج۲، ص۴۱۶
  4. الکافی (کلینی)، ج۱، ص۲۱
  5. ارشاد الاذہان، ج۲، ص ۱۵۶؛ قواعد الاحکام، ج۴، ص۴۹۴؛ غایۃ المراد، ج۱، ص۲۶۱
  6. رسائل الشہید الثانی، ج۱، ص۶۳؛ الحدائق الناضرۃ، ج۱۰، ص۱۳
  7. رسائل فقہیہ (شیخ انصاری)، ص۶-۸
  8. الخلاف، ج۶، ص۲۱۷ ۲۱۸
  9. رسائل فقہیۃ (شیخ انصاری)، ص۸
  10. الدر النضید، ج۲، ص۳۵
  11. الدر النضید، ج۲، ص۴۹-۵۰
  12. الحدائق الناضرۃ، ج۱۰، ص۱۳-۱۶؛ جواہر الکلام، ج۴۱، ص۳۱-۳۲
  13. رسائل فقہیۃ (شیخ انصاری)، ص۲۳
  14. الدر النضید، ج۲، ص۵۶
  15. العروۃ الوثقی، ج۱، ص۲۶؛ مستمسک العروۃ، ج۱، ص۴۰-۴۲
  16. جواہر الکلام، ج۴۰، ص۱۲
  17. جواہر الکلام ج۴۱، ص۲۵-۲۶
  18. جواہر الکلام، ج۱۱، ص۲۹۶
  19. جواہر الکلام ج۱۳، ص۲۷۵-۲۷۷
  20. الدروس الشرعیۃ، ج۱، ص۲۴۲ و ۲۴۸؛ جواہر الکلام، ج۱۵، ص۳۳۳ ۳۳۴
  21. جواہر الکلام، ج۴۰، ص۱۰۹
  22. جواہر الکلام، ج۲۳، ص۲۹۰
  23. قواعد الاحکام، ج۳، ص۴۶۰؛ جواہر الکلام، ج۴۰، ص۳۲۶-۳۲۷
  24. تلخیص مقباس الہدایۃ، ج۱، ص۸۰
  25. الحدائق الناضرۃ، ج۱۲، ص۲۰۹؛ جواہر الکلام، ج۱۵، ص۳۸۸-۳۹۴
  26. العروۃ الوثقی، ج۴، ص۱۲۹-۱۳۰
  27. جواہر الکلام، ج۱۵، ص۳۹۴
  28. جواہر الکلام ج۱۶، ص۱۱۵
  29. العروۃ الوثقی، ج۴، ص۳۰۵-۳۰۶
  30. الحدائق الناضرۃ، ج۱۴، ص۲۴۲؛ المعتمد فی شرح المناسک، ج۳، ص۱۶۲
  31. العروۃ الوثقی ج۳، ص۹۱
  32. العروۃ الوثقی، ج۱، ص۳۷
  33. الدروس الشرعیۃ، ج۱، ص۲۱۸؛ العروۃ الوثقی، ج۳، ص۱۹۱؛ مہذب الاحکام، ج۱، ص۵۲
  34. مہذب الاحکام، ج۱، ص۴۹-۵۰
  35. جواہر الکلام، ج۴۱، ص۲۶
  36. جواہر الکلام، ج۴۱، ص۳۰
  37. مہذب الاحکام، ج۱، ص۴۸
  38. الغایۃ القصوی فی ترجمۃ العروۃ الوثقی، ج‏۲، ص۶۳، مسألہ ۱۴ و ۱۵
  39. الحدائق الناضرۃ، ج۱۰، ص۶۶؛ کتاب الصلاۃ (شیخ انصاری)، ج۲، ص۲۷۴-۲۷۶؛ جواہر الکلام، ج۱۳، ص۲۷۷
  40. العروۃ الوثقی، ج۳، ص۱۹۱؛ مستمسک العروۃ، ج۷، ص۳۴۲-۳۴۳
  41. جواہر الکلام، ج۳۱، ص۱۵۵
  42. الحدائق الناضرۃ، ج۲۴، ص۶۰۹؛ جواہر الکلام، ج۳۱، ص۱۸۲-۱۸۳
  43. جواہر الکلام، ج۲۸، ص۱۸۲-۱۸۳ و ۱۹۱؛ العروۃ الوثقی [ تکملۃ]، ج۲، ص۱۶۹.

مآخذ

  • الحدائق الناضرۃ، یوسف بحرانی، مؤسسۃ النشر الاسلامی، قم.
  • الدر النضید، علامہ حسینی طہرانی، دار المحجۃ البیضاء، بیروت.
  • الدروس الشرعیہ، محمد بن مکی العاملی (شہید اول)، مؤسسۃ النشر الاسلامی، قم ۱۴۱۴ق.
  • الروضۃ البہیۃ، زین الدین بن علی العاملی، شہید ثانی، مکتبۃ الداوری، قم.
  • العروۃ الوثقی، سید محمد کاظم طباطبایی یزدی، مؤسسۃ النشر الاسلامی، قم.
  • المختصر النافع، محقق حلی، دارالاضواء، بیروت.
  • المعتمد فی شرح المناسک، تقریر دروس سید ابوالقاسم خویی بہ قلم سید رضا خلخالی، مطبعۃ العلمیی، قم ۱۴۰۹ق.
  • جواہر الکلام، محمد حسن نجفی، دار احیاء التراث، بیروت.
  • رسائل فقہیہ، شیخ انصاری، مجمع الفکر الاسلامی، قم ۱۴۱۲ق.
  • ریاض المسائل، سید علی طباطبایی، مؤسسۃ النشر الاسلامی، قم.
  • غنیۃ النزوع، سید حمزۃ بن علی بن زہرۃ الحلبی، مؤسسۃ الامام الصادق(ع)، قم.
  • کتاب الصلاۃ، شیخ مرتضی انصاری، مجمع الفکر الاسلامی، قم.
  • مدارک الاحکام، سید محمد بن علی موسوی عاملی، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، قم.
  • مسالک الافہام، زین الدین بن علی العاملی الشہید الثانی، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، قم ۱۴۱۴ق.
  • مستمسک العروۃ، سید محسن طباطبایی حکیم، دار احیاء التراث العربی، بیروت.
  • مستند الشیعۃ، احمد بن محمد مہدی نراقی، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، مشہد.
  • مصباح الفقیہ، آغا رضا بن محمد ہادی ہمدانی، مؤسسۃ النشر الاسلامی.
  • منہاج الصالحین (خویی)، سید ابوالقاسم الموسوی الخویی، چاپ مہر، قم ۱۴۱۰ق.
  • مہذب الاحکام، سید عبدالاعلی سبزواری، مؤسسۃ المنار، قم.
  • نہایۃ التقریر، محمد موحدی لنکرانی، انتشارات فقہ، قم، ۱۴۳۰ق.