زینب بنت خزیمہ

ویکی شیعہ سے
زینب بنت خزیمہ
کوائف
مکمل نامزینب بنت خزیمہ
لقبام المومنین، ام المساکین
اقاربعتیده بن حارث، طفیل بن حارث، میمونہ بنت حارث، عبیدہ بن حارث
وفاتسنہ 4 ہجری، مدینہ
مدفنجنت البقیع
دینی معلومات
وجہ شہرتزوجہ پیغمبر اکرمؐ


زینب بنت خُزَیمَہ بن حارث (متوفی 4 ھ) رسول خداؐ کی زوجہ ہیں جو ام المساکین کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے طفیل بن حارث سے جدا ہونے کے بعد ان کے بھائی عتیدہ بن حارث سے عقد کیا۔ جنگ بدر میں عتیدہ کی شہادت کے بعد رسول خداؐ نے انہیں زوجیت کے لئے انتخاب کیا۔ مگر اس شادی کی عمر چند ماہ سے زیادہ نہیں ہوئی اور 30 برس کی عمر میں ان کی رحلت ہوگئی۔ پیغمبر اکرمؐ نے انہیں جنت البقیع میں سپرد لحد کیا۔

نسب

ازواج رسول خدا
خدیجہ بنت خویلد (ازدواج: 25 عام الفیل)
سودہ بنت زمعہ (ازدواج: قبل از ہجرت)
عائشہ بنت ابوبکر (ازدواج: 1 یا 2 یا 4 ہجری)
حفصہ بنت عمر (ازدواج: 3 ہجری)
زینب بنت خزیمہ (ازدواج: 3 ہجری)
ام سلمہ بنت ابوامیہ (ازدواج: 4 ہجری)
زینب بنت جحش (ازدواج: 5 ہجری)
جویریہ بنت حارث (ازدواج: 5 یا 6 ہجری)
رملہ بنت ابوسفیان (ازدواج: 6 یا 7 ہجری)
ماریہ بنت شمعون (ازدواج: 7 ہجری)
صفیہ بنت حیی (ازدواج: 7 ہجری)
میمونہ بنت حارث (ازدواج: 7 ہجری)

ان کا سلسلہ نسب اس طرح ذکر ہوا ہے: زینب بنت خزیمہ بن حارث بن عبد الله بن عمرو بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ عامری۔[1]

ابن عبد البر نے ابی الحسن جرجانی کا قول نقل کرتے ہوئے انہیں زوجہ رسول میمونہ بنت حارث کی بہن قرار دیا ہے۔ اس کے بعد مزید کہا ہے کہ میں نے اس مطلب کو ان کے علاوہ کہیں اور نہیں دیکھا ہے۔[2] ابن حبیب بغدادی نے بھی انہیں میمونہ بنت حارث کی مادری بہنوں میں ذکر کیا ہے۔[3]

لقب

زینب بنت خزیمہ کو غرباء و مساکین کے ساتھ عطوفت و مہربانی کی وجہ سے ام المساکین کا لقب دیا گیا تھا۔[4] وہ زمانہ جاہلیت میں بھی اسی لقب سے مشہور تھیں۔[5]

پیغمبر اکرمؐ سے شادی

مورخین کے درمیان اس بارے میں کہ پیغمبر اکرمؐ سے پہلے وہ کس کی زوجیت میں تھیں، اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ قول مشہور کی بنیاد پر وہ طفیل بن حارث بن عبد المطلب بن عبد مناف کے عقد میں تھیں لیکن ان سے طلاق لیکر ان کے بھائی عتیدہ بن حارث کی زوجیت میں آ گئیں۔[6] عتیدہ جنگ بدر میں زخمی ہوا اور 64 برس کی عمر میں صفراء میں وفات پائی۔[7] البتہ بعض مصادر میں ذکر ہوا ہے کہ زینب نے سب سے پہلے عبیدہ بن حارث کے چچازاد بھائی جہم بن عمرو بن حارث سے عقد کیا۔[8] ان سے جدا ہونے کے بعد انہوں نے عبیدہ سے شادی کی۔ بعض دوسرے مآخذ میں انہیں عبد اللہ بن جحش کی زوجہ ذکر کیا گیا ہے۔ عبد اللہ نے جنگ احد میں شہادت پائی۔[9] [10] ان کے شوہر کی شہادت کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے ان سے عقد کی خواہش ظاہر کی[11] تو انہوں نے اس کا فیصلہ خود آپ کے اختیار میں دے دیا۔[12] پیغمبر اسلامؐ نے رمضان 3 ہجری میں ان سے عقد فرمایا۔[13] حالانکہ اس بارے کہ کس طرح سے رسول خداؐ نے ان سے عقد کی خواہش ظاہر کی اور ان کا مہر کتنا تھا، اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[14][15]

وفات

زینب نے پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ 8 ماہ زندگی گزارنے کے بعد ربیع الثانی 4 ہجری کو وفات پائی۔[16] بعض نے پیغمبرؐ کے ساتھ ان کی زندگی کی مدت کو 2 یا 3 ماہ ذکر کیا ہے۔[17] رسول خداؐ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا۔[18]

وفات کے وقت زینب کی عمر 30 سال کے قریب تھی۔[19] وہ اور حضرت خدیجہ (س) ان ازواج میں شامل ہیں جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کی زندگی میں انتقال فرمایا۔[20] مورخین کے مطابق، وہ ازواج پیغمبر کی پہلی فرد تھیں جنہوں نے مدینہ میں وفات پائی۔ رسول خداؐ کو ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔[21]

حوالہ جات

  1. ابن عبد البر، ج۴، ص۱۸۵۳؛ ابن حزم، ص۲۷۴؛ ابن ہشام، ج۲، ص۶۴۸؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۶، ص۱۲۹؛ ابن عبد البر،استیعاب، ج۴، ص۱۸۵۳
  2. ابن عبد البر، ج۴، ص۱۸۵۳
  3. ابن حبیب بغدادی، ص۱۰۶-۱۰۹؛ نیز نک: ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۶، ص۱۲۹؛ ابن عبد البر، استیعاب، ج۴، ص۱۸۵۳
  4. ابن ہشام، ج۲، ص۶۴۸؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۶، ص۱۲۹
  5. طبقات الکبری، ص۹۱؛ ابن جوزی، ج۳، ص۱۶۱؛ بلاذری، انساب الاشراف، ص۴۲۹؛ ابن عبد البر، استیعاب، ۱۸۵۳
  6. طبری،ج۲، ص۵۴۵؛ بلاذری، انساب الاشراف، ص۴۲۹؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ص۹۱
  7. بلاذری، انساب الاشراف، ص۴۲۹
  8. ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج۲، ص۶۴۸
  9. بیہقی، سنن الکبری، ج۷، ص۷۲؛ ابن حجر عسقلانی،ج۸، ص۱۵۷
  10. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۴، ص۱۸۵۳؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۶، ص۱۲۹
  11. تاریخ طبری،ج۱۱، ص۵۹۶؛ ابن عساکر، ج۳، ص۲۰۶؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ص۹۱
  12. ابن سعد، طبقات الکبری، ص۹۱
  13. الاستیعاب، ج۴، ص۱۸۵۳؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ص۹۱؛ ذہبی، تاریخ اسلام، ص۲۵۵؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج۳، ص۲۰۶؛ تاریخ طبری، ج۱۱، ص۵۹۶
  14. تاریخ طبری،ج۱۱، ص۵۹۵-۵۹۶؛ ابن ‌سعد، طبقات‌ الکبری، ج۸، ص۹۱؛ ابن ہشام، ج۲، ص۶۴۷
  15. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۴، ص۱۵۹۹؛ ابن‌اثیر، اسد الغابہ، ج۵، ص۱۴
  16. نہایة‌ الإرب، ص۱۷۸؛ تاریخ طبری، ج۱۱، ص۵۹۶؛ طبقات الکبری، ص۹۱
  17. ابن حجر، فتح ‌الباری، ج۱، ص۳۲۴؛ خلیفہ بن خیاط، ص۲۷؛ ابن‌ عبد البر، الاستیعاب، ج۱، ص۴۵؛ الاستيعاب، ج‏1، ص:۴۵.
  18. تاریخ طبری،ج۱۱، ص۵۹۶؛ طبقات الکبری، ص۹۱
  19. ابن سعد، طبقات الکبری، ص۹۱
  20. ابن عبد البر، استیعاب، ج۱، ص۴۵.
  21. بیہقی، دلائل النبوه،ج۳، ص

مآخذ

  • ابن اثیر، عز الدین بن الأثیر أبو الحسن علی بن محمد الجزری، أسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دار الفكر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ ء
  • ابن جوزی، المنتظم، تحقیق محمد عبد القادر عطاء و مصطفی عبد القادر عطاء، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۹۹۲ ء
  • ابن حبیب بغدادی،المحبر، تحقیق ایلزہ لیختن شتیتر، بیروت، دار الافاق الجدیدہ، بی‌ تا
  • ابن حجر، فتح الباری، دار المعرفہ، بیروت، چاپ دوم
  • ابن حزم اندلسی، جمہرۃ انساب العرب، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ھ۔
  • ابن سعد، محمد بن سعد بن منیع الہاشمی البصری،الطبقات الكبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الكتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰ ء
  • ابن عبد البر، الاستیعاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجبل، چاپ اول، ۱۹۹۲ ء
  • ابن عساکر، تاریخ دمشق، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
  • ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دار المعرفہ، بی‌­ تا
  • بلاذری،أحمد بن یحیی بن جابر، كتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زكار و ریاض زركلی، بیروت، دار الفكر، ط الأولی، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶ ء
  • بیہقی، ابو بکر، دلائل النبوہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۰۵ھ۔
  • بیہقی، سنن الکبری، دار الفکر
  • خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ، تحقیق فواز، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۹۹۵ ء
  • ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الكتاب العربی، ط الثانیہ، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳ ء
  • طبری، تاریخ طبری، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، ۱۹۶۷ھ
  • عسقلانی، ابن حجر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ
  • نویری، نہایۃ الإرب فی فنون الأدب، قاہرہ، دار الکتب و الوثائق القومیہ، چاپ اول، ۱۴۲۳ھ