مندرجات کا رخ کریں

مسودہ:حدیث الفئۃ الباغیۃ

ویکی شیعہ سے
حدیث الفئۃ الباغیۃ
حدیث الفئۃ الباغیۃ
حدیث کے کوائف
موضوعایک سرکش گروہ کے ہاتھوں عمار یاسر کے قتل کے بارے میں رسول خداؐ کی پیشگوئی
صادر ازرسول اکرمؐ
اعتبارِ سندمتواتر
شیعہ مآخذوقعۃ صفین، تفسیر امام حسن عسکریؑ، المسترشد فی الامامۃ، کفایۃ الاثر
اہل سنت مآخذصحیح البخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہبحدیث ثقلینحدیث کساءمقبولہ عمر بن حنظلۃحدیث قرب نوافلحدیث معراجحدیث ولایتحدیث وصایتحدیث جنود عقل و جہلحدیث شجرہ


حدیث اَلفِئَۃُ الباغِیَۃُ ان مشہور احادیث میں سے ہے جو رسول اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث میں آنحضرتؐ نے عمار یاسر کے قاتلوں کو «فئۃ باغیہ» یعنی سرکش یا ظالم گروہ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ حدیث جنگ صفین کے موقع پر امام علیؑ کے خلیفہ برحق ہونے کے اثبات میں بنیادی دلیل بنی نیز شیعہ و اہل سنت کے متعدد علما نے اسے معاویہ اور اس کے لشکر کے باغی ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔

یہ حدیث جنگ صفین کے دوران نمایاں طور پر بیان ہونے کے ساتھ خلافت امام علیؑ کی حقانیت کے اثبات میں بھی ایک اہم دلیل کے طور پر استعمال ہوئی۔ شیعہ اور اہل سنت کے متعدد علماء نے اسی حدیث کی روشنی میں معاویہ اور اُس کے لشکر کے باغی ہونے پر واضح ثبوت قرار دیا ہے۔

یہ روایت شیعہ اور سنی دونوں کے متعدد مصادر میں نقل ہوئی ہے اور علوم حدیث کے بہت سے محققین نے اسے حدیث متواتر شمار کیا ہے۔ البتہ کچھ افراد، جیسے ابن تیمیہ نے اس کی سند یا دلالت پر تردید کرتے ہوئے معاویہ کی سرکشی ثابت کرنے کے بجائے اس کے اجتہاد کو حدیث کے صریح نص کے مقابل قابلِ غور قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس، مشہور مسلم متکلمین؛ جیسے سید مرتضی، شیخ طوسی اور فخر رازی اس حدیث کو رسول اکرمؐ کی غیبی پیشگوئی اور امام علیؑ کی امامت و حقانیت کی دلیل مانتے ہیں۔

اس موضوع پر بعض مستقل تصنیفات بھی پائی جاتی ہیں، جن میں عصری البانی کی کتاب "حدیث الفئۃ الباغیۃ" اور بدر الدین الحوثی کی "المجموعۃ الوافیۃ فی الفئۃ الباغیۃ" نامی کتاب شامل ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی سند، دلالت (مفہوم) اور اس پر کیے گئے مختلف اعتراضات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

مفہوم اور اہمیت

حدیث "الفِئَۃُ الباغِیَۃُ" پیغمبرِ خداؐ کا ایک معروف ارشاد ہے جو آنحضرتؐ نے اپنے صحابی عمار بن یاسر کے بارے میں فرمایا۔ اس حدیث میں آیا ہے: «عمار کو ایک سرکش اور ظالم گروہ قتل کرے گا۔»[1] لفظ «الفِئَۃُ الباغِیَۃ» اُن لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو راہ حق سے منحرف ہوکر امامِ برحق کی اطاعت سے نکل چکے ہوں۔[2]

عمار یاسر جنگ بدر، اُحد، خندق اور صفّین میں شریک ہوئے اور اسلام کی پہلی مسجد، مسجدِ قبا کی تعمیر کی۔ عمار جنگ صفّین میں امام علیؑ کے لشکر میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے؛ کہتے ہیں کہ اُس وقت اُن کی عمر تقریباً 93 برس تھی۔[3]

ایک اور روایت میں امام حسینؑ کو «باغی گروہ کے ہاتھوں قتل» ہونے والوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔[4]

کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث اُن نشانیوں میں سے ایک ہے جو نبی اکرمؐ نے فتنوں کے زمانوں میں امت کی رہنمائی کے لیے بیان فرمائی۔[5] اسی لیے شیعہ[6] اور اہل سنت[7] متعدد متکلمین نے اس حدیث کو امام علیؑ کے برحق خلیفہ ہونے پر بین ثبوت اور معاویہ کے باغی ہونے کی دلیل قرار دیا ہے۔

کتاب وقعۃ صفین کے مطابق اس حدیث نے جنگ صفّین کے طرفین میں سے ایک کی حقانیت کو ثابت کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں معاویہ کے لشکر کے بعض افراد شک و تردید کا شکار ہوگئے اور اپنی صفوں سے الگ ہوگئے۔[8] سید مرتضی (وفات: 436ھ)،[9] شیخ طوسی (وفات: 460ھ)،[10] ابن‌ حمزہ طوسی (وفات: بعد از 600ھ)[11] اور فخر رازی (وفات: 544ھ)[12] جیسے مسلم متکلمین اس حدیث کو رسولِ خداؐ کی غیبی پیشگوئی اور آنحضرتؐ کا معجزہ‌ سمجھتے ہیں۔

اعتبار حدیث کے بارے میں تحقیق

علوم حدیث کے شیعہ اور اہل سنت محققین نے حدیث «اَلفِئَۃُ الباغِیَۃ» کو متواتر قرار دیا ہے۔[13]

یہ حدیث متعدد معتبر شیعہ کتب میں مذکور ہے، جن میں درج ذیل کتب قابل ذکر ہیں: وقعۃ صفین؛ مصنف: نصر بن مزاحم (وفات: 212ھ)،[14] تفسیر امام حسن عسکریؑ،[15] طبری کبیر (وفات: 310ھ) کی کتاب المسترشد فی الامامۃ،[16] اور کفایۃ الاثر، مصنف: علی بن محمد خزاز قمی (وفات: تقریبا 400ھ)۔[17] نیز قاضی نعمان مغربی (وفات: 363ھ) نے اپنی دو کتابوں،[18] اور قطب راوندی (وفات: 573ھ) نے اپنی کتاب الخرائج والجرائح[19] میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

اہل سنت کی بنیادی اور معتبر کتب میں بھی اس حدیث کا تذکرہ ملتا ہے، جیسے: صحیح بخاری،[20] صحیح مسلم،[21] مسند احمد بن حنبل،[22] اور سنن ترمذی[23] وغیرہ۔

اس کے علاوہ اہل سنت کے دوسرے محدثین و مورخین جیسے الأزدی،[24] ابن‌ قتیبۃ دینوری،[25] ابن‌سعد،[26] اور بلاذری[27] نے بھی یہ حدیث مختلف تعبیروں اور راویوں کے ساتھ روایت کی ہے۔

کتاب "حدیث الفئۃ الباغیۃ" کے محقق نے اس روایت کے سات مختلف روایتی اسناد کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔[28] اہل سنت کے علوم حدیث کے محققین جیسے ترمذی،[29] ناصرالدین البانی[30] اور شعیب الأرنؤوط،[31] نے ان روایات کو درست اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔

البتہ اہل سنت کے سلفی مفکر ابن تیمیہ حرانی نے یہ دعویٰ کیا کہ بعض اہل حدیث اس روایت کو ضعیف سمجھتے ہیں۔[32] تاہم اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ علوم حدیث کے محققین کے مطابق یہ روایت اسناد کی کثرت اور مصادر کے متعدد ہونے کے باعث متواتر شمار ہوتی ہے۔[33]

حدیث کے بعض تفسیری نکات

علوم حدیث کے محققین نے حدیث "الفئۃ الباغیہ" سے مختلف نکات و معانی اخذ کیے ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

  • معاویہ اور اس کے ساتھیوں کی بغاوت

اس حدیث میں پیغمبراکرمؐ نے عمار یاسر کے قاتلوں کو "فئۃ باغیۃ" یعنی باغی گروہ سے تعبیر کیا ہے اور چونکہ عمارجنگ صفّین میں رکاب امام علیؑ میں شہید ہوئے اس لیے مفسرین و محدثین کی اکثریت نے یہ نتیجہ لیا ہے کہ معاویہ اور اس کے لشکر نے امام برحق کے مقابلے میں آکر بغاوت کی ہے لہذا وہی فئۃ باغیہ ہیں۔[34]

  • جہنم کی طرف بلانے والے

کچھ روایات میں قاتلانِ عمار کو «دُعاۃٌ إلی النّار» یعنی جہنم کی طرف بلانے والے کہا گیا ہے۔[35] مفسرین کے نزدیک یہ تعبیراس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ معاویہ اور اس کا گروہ راہِ ہدایت سے منحرف ہوکر اہل باطل کے ساتھ چلے گئے ہیں۔[36]

  • باغی گروہ کے خلاف جہاد کا وجوب

شیعہ[37] اور اہلِ سنت[38] فقہاء نے اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی گروہ امام برحق اور حاکم مشروع کے خلاف خروج کرے تو اُس کے خلاف جہاد واجب ہے۔

جنگ صفّین میں عمار یاسر کی شہادت پر ردعمل

جب عمار یاسر جنگ صفین میں شہید ہوئے تو معاویہ کے لشکر کے کئی سپاہی حیرت اور تردید کے شکار ہوگئے۔ انہیں نبی اکرمؐ کی یہ حدیث یاد آگئی جس میں عمار کے قاتلوں کو فِئَۃُ باغِیَۃُ کہا گیا تھا یوں معاویہ کے لشکر میں جنگ کو برقرار رکھنے یا اسے روکنے کے سلسلے میں اضطراب اور شکوک پیدا ہوگئے۔[39]

معاویہ کا استدلال اور امام علیؑ کا جواب

معاویہ نے اس حدیث کے نتیجے میں اپنے لشکر میں پیدا شدہ شکوک و تردید کے رد عمل میں کہا عمار کو ہم نے نہیں، حضرت علیؑ نے قتل کیا ہے؛ کیونکہ امام علیؑ نے عمار کو میدان جنگ میں لائے تھے۔ یہ استدلال بعض افراد، جیسے دسویں صدی ہجری کے شافعی فقیہ ابن حجر ہیتمی، کے نزدیک ایک قسم کا اجتہاد سمجھا گیا ہے؛ اگر معاویہ اس اجتہاد میں خطا کا مرتکب ہوا ہو تب بھی اسے اجر کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔[40] امام علیؑ نے معاویہ کے استدلال کو بہت واضح اور عقلی مثال سے ردّ کیا۔ آپؑ نے فرمایا: «اگر یہ بات درست ہو تو پھر رسول خداؐ حضرت حمزہ کے قاتل ہوں گے»، کیونکہ آنحضرتؐ نے حمزہ کو جنگ احد میں شرکت کرنے کا حکم دیا تھا۔[41]

نص کے سامنے اجتہاد کی حیثیت

تاریخی روایات کے مطابق معاویہ اور اس کے ساتھیوں کو عمار کے مقام و مرتبے کا علم تھا اس وجہ سے عمار کو لشکر امام علیؑ میں دیکھ کر وہ لوگ تردید کا شکار ہوگئے۔[42] ناصرالدین البانی جیسے بعض محققین حدیث نے معاویہ کے اس استدلال کو صریح حدیث نبویؐ کے سامنے اجتہاد قرار دیتے ہوئے اسے باطل اور مردود قرار دیا ہے۔[43] حتیٰ کہ ابن تیمیہ؛ جس کو اکثر اہلِ سنت میں شیعہ نظریات کا ناقد مانا جاتا ہے اور اہل سنت مفکرین میں ان کا شمار ہوتا ہے، نے بھی معاویہ کی اس تاویل کو غلط اور غیرقابلِ قبول قرار دیا ہے۔[44]

389x389پیکسل

مونوگرافی

بعض تحقیقات خاص طور پر حدیث الفئۃ الباغیۃ کے جائزے اور تجزیے کے لیے مختص ہیں۔ ان مطالعات میں کلامی، تاریخی اور حدیثی نقط نظر سے اس روایت کی اہمیت اور صدرِ اسلام کے اختلافات میں اس کے کردار کو تفصیل سے واضح کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں لکھی گئی چند کتابیں درج ذیل ہیں:

  • المجموعۃ الوافیۃ فی الفئۃ الباغیۃ؛ اس کتاب کو زیدی مکتبِ فکر کے عالم بدرالدین الحوثی نے تحریر کیا ہے۔ اس میں اہلِ سنت کے روایتی مصادر سے حدیثِ «الفئۃ الباغیۃ» کی تخریج اور تحلیل کی گئی ہے نیز زیدیہ افکار کے نقطہ نگاہ سے سیاسی و کلامی دلالتوں کا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے۔[45]
  • حدیث الفئۃ الباغیۃ؛ یہ کتاب عصری البانی کی تصنیف ہے جسے عربی زبان میں تحریر کی ہے۔ اس کتاب میں عصری البانی نے حدیث کی اسناد، راویوں، فقہی و کلامی پہلوؤں پر تفصیلی تحقیق کی ہے۔ جبکہ کتاب کے آخری حصے میں انہوں نے مخالف آراء کے جوابات بھی پیش کیے ہیں۔ یہ کتاب نشر مشعر سے شائع ہوئی ہے۔[46]

حوالہ جات

  1. بخاری، صحیح البخاری، 1433ھ، ج1، ص491؛ قشیری نیشابوری، صحیح مسلم، 1334ھ، ج8، ص186۔
  2. البانی، حدیث الفئۃ الباغیۃ، 1435ھ، ص10۔
  3. البانی، حدیث الفئۃ الباغیۃ، 1435ھ، ص10–11۔
  4. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، نشر جہان، ج2، ص26۔
  5. البانی، حدیث الفئۃ الباغیۃ، 1435ھ، ص10۔
  6. ابن‌شاذان، الإیضاح، 1363شمسی، ص521؛ ابن‌عطیہ، أبہی المداد،‌ 1423ھ، ج1، ص702؛ فاضل مقداد، اللوامع الإلہیۃ،‌ 1422ھ، ص371؛ علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج1، ص593۔
  7. بغدادی، أصول الإیمان، 2003ء، ص229؛ غزالی، مجموعۃ رسائل الإمام الغزالی، 1416ھ، ص454؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1412ھ، ج5، ص289۔
  8. ابن‌مزاحم، وقعۃ صفین، 1404ھ، ص340–346۔
  9. سید مرتضی، الذخیرۃ، 1411ھ، ص405۔
  10. شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ھ، ص291۔
  11. ابن‌ حمزه، الثاقب فی المناقب، 1412ھ، ص105۔
  12. فخر رازی، الأربعین فی أصول الدین، مکتبۃ الکلیات الأزہریۃ، ج2، ص97۔
  13. ابن‌حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، دار صادر، ج7، ص409؛ صفدی، الوافی بالوفیات، 1381ھ، ج22، ص378؛ علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج1، ص593۔
  14. ابن‌ مزاحم، وقعۃ صفین، 1404ھ، ص324، 326۔
  15. امام حسن عسکری(ع)، التفسیر المنسوب إلی الإمام الحسن العسکری، 1409ھ، ص85–86۔
  16. طبری کبیر، المسترشد فی الامامۃ، 1415ھ، ص658۔
  17. خزاز رازی، کفایۃ الأثر، 1401ھ، ص120-124۔
  18. ابن‌حیون، شرح الأخبار، مؤسسۃ النشر الإسلامي، ج1، ص407 و 412؛ ابن‌حیون، دعائم الإسلام، 1385ھ، ج1، ص392–393۔
  19. قطب‌الدین راوندی، الخرائج والجرائح، 1409ھ، ج1، ص68۔
  20. بخاری، صحیح البخاری، 1433ھ، ج1، ص491۔
  21. قشیری نیشابوری، صحیح مسلم، 1334ھ، ج8، ص186۔
  22. ابن‌حنبل، مسند أحمد بن حنبل، 1421ھ، ج29، ص316۔
  23. ترمذی، سنن الترمذی، 1395ھ، ج5، ص669۔
  24. الأزدی، الجامع، 1403ھ، ج11، ص240۔
  25. ابن‌قتیبۃ، أعلام رسول اللہ، 1441ھ، ص239۔
  26. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1968ء، ج3، ص252۔
  27. بلاذری، أنساب الأشراف، 1959ء، ص168۔
  28. البانی، حدیث الفئۃ الباغیۃ، 1435ھ، ص11-22۔
  29. ترمذی، سنن الترمذی، 1395ھ، ج5، ص669۔
  30. ناصرالدین البانی، «حاشیہ»، 1395ھ، ج5، ص669۔
  31. الأرنؤوط، «حاشیہ»، 1421ھ، ج29، ص316۔
  32. ابن‌تیمیہ، الفتاوی الکبری، 1408ھ، ج3، ص456۔
  33. البانی، حدیث الفئۃ الباغیۃ، 1435ھ، ص44–47۔
  34. مناوی، فیض القدیر، 1391ھ، ج6، ص365۔
  35. بخاری، صحیح البخاری، 1433ھ، ج1، ص491۔
  36. البانی، حدیث الفئۃ الباغیۃ، 1435ھ، ص27۔
  37. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص408؛ نجفی، جواہر الکلام، 1421ھ، ج11، ص239۔
  38. ابن‌حزم، المُحَلّی، 1408ھ، ج11، ص333؛ الموسوعۃ الفقہیۃ، 1410ھ، ج20، ص205۔
  39. نسائی، خصائص أمیرالمؤمنین، 1424ھ، ص121۔
  40. ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ، تہران، ص331–333۔
  41. مناوی، فیض القدیر، 1391ھ، ج6، ص365–366۔
  42. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص628۔
  43. البانی، حدیث الفئۃ الباغیۃ، 1435ھ، ص43۔
  44. ابن‌تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ، ج4، ص414۔
  45. حسینی اشکوری، مؤلفات الزیدیہ، 1413ھ، ج2، ص430۔
  46. البانی، حدیث الفئۃ الباغیۃ، 1435ھ، ص59–60۔

مآخذ

  • ابن‌تیمیہ حرانی، احمد بن عبدالحلیم، الفتاوی الکبری، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، 1408ھ۔
  • ابن‌تیمیہ حرانی، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، ریاض، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، 1406ھ۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، بیروت، دار صادر، بی‌تا۔
  • ابن‌حجر ہیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقۃ فی الرد علی أہل البدع و الزندقۃ، تہران، بی‌نا، بی‌تا۔
  • ابن‌حزم، علی بن أحمد، المُحَلّی بالآثار، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، 1408ھ۔
  • ابن‌حمزہ، محمد بن علی، الثاقب فی المناقب، قم، انصاریان، 1412ھ۔
  • ابن‌حنبل، احمد، مسند الإمام أحمد بن حنبل، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، 1421ھ۔
  • ابن‌حیون، نعمان بن محمد مغربی، دعائم الإسلام وذکر الحلال و الحرام والقضایا والأحکام عن أہل بیت رسول اللہ علیہ وعلیہم افضل السلام، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، 1385ھ۔
  • ابن‌حیون، نعمان بن محمد مغربی، شرح الأخبار فی فضائل الأئمۃ الأطہار علیہم السلام، قم، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، بی‌تا۔
  • ابن‌خلدون، عبد الرحمن بن محمد، تاریخ إبن خلدون، بیروت،‌ دار الفکر، 1408ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، 1968ء۔
  • ابن‌شاذان، فضل بن شاذان، الإیضاح، تہران، مؤسسہ انتشارات و چاپ دانشگاہ تہران، 1363ہجری شمسی۔
  • ابن‌عطیہ، مقاتل، أبہی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد،‌ بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1423ھ۔
  • ابن‌قتیبۃ الدینوری، عبد اللہ بن مسلم، أعلام رسول اللہ المنزلۃ علی رسلہ، الریاض،‌ دار الصمیعی للنشر والتوزیع، 1441ھ۔
  • ابن‌مزاحم، نصر، وقعۃ صفین، قم، مکتبۃ آیۃ‌اللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • الأرنؤوط، شعیب، «حاشیہ»، در مسند الإمام أحمد بن حنبل، نوشتہ أحمد بن حنبل، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، 1421ھ۔
  • الأزدی، معمر بن راشد، الجامع، بیروت، توزیع المکتب الإسلامی، 1403ھ۔
  • البانی، عصری، حدیث الفئۃ الباغیۃ، تہران، نشر مشعر، 1435ھ۔
  • الموسوعۃ الفقہیۃ، بہ‌کوشش وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلاميۃ، ج20، کویت، دار السلاسل، 1410ق/ 1990ہجری شمسی۔
  • امام حسن عسکری(ع)، حسن بن علی، التفسیر المنسوب إلی الإمام الحسن العسکری علیہ‌السلام، قم، مدرسۃ الإمام المہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف، 1409ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، قاہرۃ، دار التأصیل، 1433ھ۔
  • بغدادی، عبدالقاہر بن طاہر، أصول الإیمان،‌ بیروت، دار ومکتبۃ الہلال، 2003ہجری شمسی۔
  • بلاذری، أحمد بن یحیی، أنساب الأشراف، مصر، دار المعارف، 1959ء۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی،‌ مصر، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، 1395ھ۔
  • تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، قم، شریف الرضی، 1412ھ۔
  • حسینی اشکوری، احمد، مؤلفات الزیدیہ، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1413ھ۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الأثر فی النص علی الأئمۃ الإثنی عشر، قم، بیدار، 1401ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الذخیرۃ فی علم الکلام، قم، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم: مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1411ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا علیہ‌السلام، تہران، نشر جہان،‌ بی‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فیما یتعلق بالاعتقاد، بیروت، دارالأضواء، 1406ھ۔
  • صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، بیروت،‌ دار النشر فرانز شتاینر، 1381ھ۔
  • طبری کبیر، محمد بن جریر بن رستم، المسترشد فی إمامۃ علی بن أبی‌طالب علیہ‌السلام، قم، کوشانپور، 1415ھ۔
  • علامہ امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب والسنۃ والأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الإسلامیۃ، 1416ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، مؤسسۃ آل البیت (علیہم السلام) لإحیاء التراث، 1414ھ۔
  • غزالی، محمد بن محمد، مجموعۃ رسائل الإمام الغزالی، بیروت، دار الفکر، 1416ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، اللوامع الإلہیۃ فی المباحث الکلامیۃ،‌ قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1422ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، الأربعین فی أصول الدین، قاہرۃ، مکتبۃ الکلیات الأزہریۃ، بی‌تا۔
  • قشیری نیشابوری، مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم، ترکیا،‌ دار الطباعۃ العامرۃ، 1334ھ۔
  • قطب‌الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الخرائج والجرائح، قم، مؤسسہ امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف، 1409ھ۔
  • مناوی، محمد عبدالرؤوف بن تاج العارفین،‌ فیض القدیر: شرح الجامع الصغیر، بیروت،‌ دار المعرفۃ، 1391ھ۔
  • ناصرالدین البانی، محمد، «حاشیہ»، در سنن الترمذی،‌ نوشتہ محمد بن عیسی الترمذی، مصر، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، 1395ھ۔
  • نجفی، محمدحسن بن باقر، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت (علیہم السلام)، 1421ھ۔
  • نسائی، احمد بن علی، خصائص أمیرالمؤمنین علی بن أبی‌طالب، بیروت، المکتبۃ العصریۃ، 1424ھ۔