مندرجات کا رخ کریں

حدیث رفع القلم

ویکی شیعہ سے
حدیث رفع القلم
حدیث رفع القلم
طبرانی نُصَیری کی کتاب "مجموع الاعیاد" کے خطی نسخے میں حدیث رفع القلم کا متن
طبرانی نُصَیری کی کتاب "مجموع الاعیاد" کے خطی نسخے میں حدیث رفع القلم کا متن
حدیث کے کوائف
موضوعشیعوں کا گناہ درج نہ ہونا
صادر ازامام ہادیؑ، امام جوادؑ و پیغمبر اکرمؐ۔
اصلی راوییحیی بن محمد بن جَریح بغدادی
اعتبارِ سندغیر معتبر
شیعہ مآخذالمحتضر، زوائد الفوائد، بحار الانوار۔
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


حدیث رُفِعَ القَلَمُ، رسول اکرمؑ سے منسوب ایک روایت ہے جس کے مطابق 9 ربیع الاول کے دن انسانوں کے گناہ نہیں لکھے جاتے۔ بعض لوگ اس حدیث کی بنیاد پر، یہ گمان کرتے ہوئے کہ 9 ربیع الاول کو عمر بن خطاب کا قتل ہوا ہے، اس دن جشن مناتے ہیں جس میں عمر پر لعنت، رقص اور دیگر اعمال انجام دیتے ہیں۔ تاہم، بہت سے مراجع تقلید اس قسم کی رسومات کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔

بعض علماء نے اس حدیث پر سند اور دلالت کے حوالے سے اعتراضات کیے ہیں، منجملہ ان میں اس روایت کا قرآن اور دیگر احادیث سے تضاد ہونا اور اس کے حدیث کے راویوں میں نامعلوم افراد کی موجودگی شامل ہیں۔ کچھ فقہاء اور علمائے رجال کا ماننا ہے کہ اس حدیث کی غلط تشریح کی گئی ہے؛ کیونکہ اس کا مطلب نویں ربیع الاول کو گناہ کا جان بوجھ کر ارتکاب جائز ہونا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی غیر ارادی طور پر گناہ سرزد ہو تو اہل بیتؑ کی برکت سے وہ گناہ درج نہیں ہوگا یا اس پر مؤاخذہ نہیں کیا جائے گا۔

حدیث رفع القلم پانچویں صدی ہجری کے بعد شیعہ مآخذ جیسے حسن بن سلیمان بن محمد حلّی کی تصنیف "المحتضر" اور غیر امامیہ مآخذ جیسے غالیوں میں سے طبرانی نصیریہ کی کتاب "مجموع الاعیاد" میں ذکر کی گئی ہے۔

عید الزہرا منانے کی سند

کہا جاتا ہے کہ حدیث رفع القلم کی بنیاد پر نویں ربیع الاول کو انسانوں سے قلم اٹھا لیا جاتا ہے اور اس دن ان کے گناہ درج نہیں کیے جاتے۔[1] بعض لوگ اس دن کو "عید الزہرا" کے طور پر مناتے ہیں اور رقص، خوشی،[2] اور عمر بن خطاب پر لعنت جیسے اعمال انجام دیتے ہیں۔[3] تاہم، مراجع تقلید جیسے آیت اللہ جواد تبریزی،[4] آیت اللہ مکارم[5] اور آیت اللہ صافی گلپایگانی[6] وغزہ نے ان رسومات کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں اسلامی تعلیمات سے متضاد قرار دیا ہے۔

حدیث کا پس منظر

حدیث رفع القلم کے پس منظر کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ محمد بن علاء ہمدانی اور یحییٰ بن محمد بن جریح کے درمیان خلیفۂ دوم کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف ہوا۔ وہ نویں ربیع الاول کے دن قم میں امام ہادیؑ کے وکیل احمد بن اسحاق قمی کے پاس گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ احمد بن اسحاق خوشی منا رہے ہیں۔ انہوں نے حیرت سے اس جشن کی وجہ پوچھی تو احمد بن اسحاق نے بتایا کہ انہوں نے امام ہادیؑ سے سنا کہ یہ دن اہل بیتؑ کے لیے ایک عظیم عید ہے۔ امام ہادیؑ نے بیان کیا کہ رسول اللہؑ نے حذیفہ بن یمان کو خبر دی تھی کہ اس دن اللہ کا ایک دشمن ہلاک ہوگا جو حضرت فاطمہؑ کو ناراض کرے گا اور امام علیؑ کا انکار کرے گا۔ رسول اللہ نے اللہ سے دعا کی کہ اس کے وفات کے دن کو شیعیوں کے لیے عید قرار دے اور اللہ نے اس دن کو بے شمار فضیلتوں اور برکتوں سے نوازا ہے۔[7]

حدیث کے ایک حصے میں آیا ہے: "يَا مُحَمَّدُ وَ أَمَرْتُ الْکِرَامَ الْكَاتِبِينَ أَنْ يَرْفَعُوا الْقَلَمَ عَنِ الْخَلْقِ فِی ذَلِکَ الْيَوْمِ وَ لَا يَكْتُبُونَ شَيْئاً مِنْ خَطَايَاہُمْ كَرَامَۃً لَک؛"[8] بعض مصادر میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں تین دن تک گناہ درج نہیں ہونگے۔[9]

حدیث کے مصادر

حدیث رفع القلم مختلف متأخر مصادر میں، خاص طور پر پانچویں صدی ہجری کے بعد، درج کی گئی ہے۔ ان میں فرقہ نُصَیریہ(چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے غالیوں کی بڑی جماعت) کے عالم طبرانی نصیری کی تصنیف مجموع الاعیاد،[10] شیعہ فقیہ اور عارف سید ابن طاووس کی تصنیف زوائد الفوائد[11] اور شہید اول کے شاگرد حسن بن سلیمان حلی کی تصنیف المحتضر[12] شامل ہیں۔ اسی طرح گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ محدث علامہ مجلسی نے اس طویل روایت کو اپنی کتاب بحار الانوار میں علامہ حلی کی کتاب المحتضر[13] اور سید ابن طاووس کی کتاب زوائد الفوائد[14] سے نقل کیا ہے۔

حدیث پر سند اور دلالت کے اعتبار سے اعتراضات

فقہاء اور علمائے رجال نے حدیث رفع القلم پر سند اور مضمون دونوں حوالے سے کئی اعتراضات کیے ہیں:

حوالہ جات

  1. حلی، المحتضر، 1382شمسی، ص95؛ طبرانی نصیری، مجموع الاعیاد، ص267؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج95، ص353۔
  2. صادقی کاشانی، «نہم ربیع؛ روز امامت و مہدویت»، ص42۔
  3. خوش صورت موفق، «بررسی و نقد مراسم نہم ربیع در منابع شیعی»، ص112۔
  4. تبریزی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج2، ص516۔
  5. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج3،ص610۔
  6. صافی گلپایگانی، جامع الاحکام، 1417ھ، ج2، ص129۔
  7. ملاحظہ کریں: حلی، المحتضر، 1382شمسی، ص89-100؛ طبرانی نصیری، مجموع الاعیاد، ص267؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج95، ص351-355۔
  8. حلی، المحتضر، 1382شمسی، ص95؛ طبرانی نصیری، مجموع الاعیاد، ص267؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج95، ص353۔
  9. طبرانی نصیری، مجموع الاعیاد، ص267؛ حلی، المحتضر، 1382شمسی، ص95۔
  10. طبرانی نصیری، مجموع الاعیاد، ص267۔
  11. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج1، ص13۔
  12. حلی، المحتضر، 1382شمسی، ص95۔
  13. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج31، ص120۔
  14. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج95، ص351-355۔
  15. شیردل و بہارزادہ، «نقد سندی و دلالی روایت رفع قلم»، ص127۔
  16. شیردل و بہارزادہ، «نقد سندی و دلالی روایت رفع قلم»، ص130۔
  17. شیردل و بہارزادہ، «نقد سندی و دلالی روایت رفع قلم»، ص132۔
  18. تبریزی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج2، ص516؛ مکارم، احکام بانوان، 1428ھ، ص199۔
  19. شیردل و بہارزادہ، «نقد سندی و دلالی روایت رفع قلم»، ص133۔
  20. مکارم، استفتائات جدید، 1427ھ، ج3، ص158۔
  21. نراقی، مستند الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، 1415ق؛ مامقانی، غایۃ الآمال، 1316ھ، ج2، ص326؛ مکارم، استفتائات جدید، 1427ھ، ج3، ص158۔

مآخذ

  • تبریزی، جواد، استفتائات جدید، قم، چاپ اول، 1427ھ۔
  • حلی، حسن بن سلیمان، المحتضر، تحقیق علی اشرف، قم، مکتبۃ الحیدریۃ، 1382ہجری شمسی۔
  • خوش صورت موفق، اعظم و مہدی فرمانیان، «بررسی و نقد مراسم نہم ربیع در منابع شیعی»، پژوہشنامہ مذاہب اسلامی، شمارہ3، 1394ہجری شمسی۔
  • شیردل، معصومہ و پروین بہارزادہ، «نقد سندی و دلالی روایت رفع قلم»، مجلہ علوم حدیث، شمارہ 86، 1396ہجری شمسی۔
  • صادقی کاشانی، مصطفی، «نہم ربیع؛ روز امامت و ولایت»، مجلہ مشرق موعود، شمارہ22، 1391ہجری شمسی۔
  • صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، جامع الاحکام، قم، حضرت معصومہ(ع)، چاپ چہارم، 1417ھ۔
  • طبرانی نصیری، میمون بن قاسم، مجموع الاعیاد، بی‌نا، بی‌تا۔
  • مامقانی، عبد اللہ، غایۃ الآمال فی شرح کتاب المکاسب، قم، مجمع الذخائر الاسلامیۃ، چاپ اول، 1316ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانور الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار(ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، احکام بانوان، تحقیق: ابوالقاسم علیان‌نژادی، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب، چاپ دوم، 1428ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، تحقیق: ابوالقاسم علیان‌نژادی، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب، چاپ دوم، 1427ھ۔
  • نراقی، احمد بن محمد مہدی، مستند الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، تحقیق: گروہ پژوہش موسسہ آل البیت(ع)، قم، موسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1415ھ۔