سلمان منا اہل البیت

ویکی شیعہ سے
سلمان منا اہل البیت
سَلْمانُ مِنّا اَہل‌َ‌ البیت
حدیث کے کوائف
موضوعسلمان فارسی کے فضائل
صادر ازحضرت محمدؐ
اعتبارِ سندصحیح اور متواتر
شیعہ مآخذعيون أخبار الرضامصباح المتہجدمجمع البيانالإختصاص‌
اہل سنت مآخذالطبقات الکبری • السیرۃ النبویۃ
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


سَلْمانُ مِنّا اَہل‌َ‌ البیت، «سلمان ہم اہل‌ بیت میں سے ہیں» کے معنی میں پیغمبر اسلامؐ کی ایک مشہور، متواتر اور صحیح‌ السّند حدیث ہے جو سلمان فارسی کے مقام و مرتبے کے بارے میں نقل ہوئی ہے۔ بعض شیعہ ائمہ جیسے امام علیؑ، امام سجادؑ اور امام باقرؑ نے بھی اس حدیث کو اپنی طرف سے یا رسول‌ اللہؐ کی طرف سے نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔

جنگ احزاب میں خندق کھودنے اور عمر بن خطاب کی طرف سے سلمان فارسی کو غیر عرب ہونے کا طعنہ جیسے واقعات کو رسول‌ اللہؐ کی طرف سے اس حدیث کے صادر ہونے کی علت قرار دیا گیا ہے۔

شیخ صدوق، شیخ طوسی اور شیخ مفید جیسے بعض شیعہ علماء اور ابن‌سعد اور ابن‌ ہشام جیسے بعض اہل‌ سنت علماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ حدیث «سلمان منا اہل البیت» سے رسول خداؐ کی مراد یہ ہے کہ سلمان ہمارے دین اور مذہب پر ہے۔ بعض دیگر علماء کے مطابق یہ حدیث عقیدہ، اخلاق اور عمل میں سلمان فارسی کا مقام و مرتبہ حضرت محمدؐ کے مقام و مرتبے کے ساتھ قریب ہونے کی طرف اشارہ ہے۔

محمد علی اسبر نے سنہ 1413ھ کو بیروت سے «سلمان منا اہل البیت» نامی ایک کتاب شایع کی ہے جو سلمان فارسی کی حالات زندگی اور حدیث «سلمان منا اہل‌ البیت» کے بارے میں ہے۔

تعریف اور اہمیت

«سَلمانُ مِنّا اَہل‌َ‌ البیت؛ یعنی سلمان ہم اہل‌ بیت میں سے ہے»، ایک حدیث ہے جو بقول شیعہ محققین پہلی بار پیغمبر اسلامؐ سے صادر ہوئی ہے۔[1] حدیثی منابع کے مطابق بعض شیعہ ائمہ نے بھی اس حدیث کو اپنی طرف سے یا پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے نقل کرتے ہوئے بیان کی ہیں۔[2] مثلا امام علیؑ نے سلمان فارسی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہیں اہل‌ بیتؑ میں سے قرار دیا ہے۔[3] کتاب کافی میں کلینی (متوفی: 329ھ) امام سجاد سے بھی کچھ اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں آپؑ نے سلمان کو اہل‌ بیت میں سے قرار دیا ہے۔[4]اسی طرح فَتّال نیشابوری کی کتاب روضۃالْواعظین میں منقول ایک حدیث کے مطابق جب امام باقرؑ کی خدمت میں سلمان فارسی کے بارے میں گفتگو ہوئی تو آپ نے انہیں خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ اسے سلمان محمدی کے نام سے پکارو؛ کیونکہ وہ ہم اہل‌ بیتؑ میں سے ہے۔[5] رجال کَشّی میں بھی امام صادقؑ سے بھی "سلمان منا اہل البیتؑ" کے عنوان سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے۔[6]

علت صدور حدیث

اس حدیث کے صادر ہونے کا سبب بننے والے واقعہ کے متعلق منابع میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[7] شیعہ مفسر طبرسی اور اہل سنت مورخ ابن‌ سعد لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے جنگ احزاب میں خندق کھودنے کے لئے مسلمانوں کو ایک محدودہ مشخص کیا۔ مہاجر اور انصار میں سلمان کے بارے میں اختلاف ہونے لگا کیونکہ سلمان ایک طاقتور آدمی تھا اس لئے ہر ایک گروہ سلمان کو اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتا تھا جس پر پیغمبر اسلامؐ نے «سلمان منا اہل‌ البیت» کے جملے کے ذریعے سلمان کو اہل‌ بیتؑ میں سے قرار دیا۔[8]

اس سلسلے میں شیخ مفید لکھتے ہیں کہ حضرت محمدؐ نے جب عمر بن خطاب کی طرف سے سلمان کو غیر عرب قرار دیئے جانے کا سنا تو آپؐ منبر پر تشریف لے گئے اور ایک خطبہ دیا جس میں انسانوں کی فضیلت کا معیار رنگ، نسل اور قوم و قبیلہ کی بجائے تقوا اور پرہیزگاری قرار دیتے ہوئے سلمان کو نہ ختم ہونے والا دریا اور لامتناہی خزانہ سے تشبیہ دیتے ہوئے انہیں اہل‌ بیت میں سے قرار دیا۔[9] کتاب سُلَیم بن قیس میں بھی ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں پیغمبر اسلامؐ نے اہل‌ بیتؑ کے علاوہ سب کو مجلس سے باہر جانے کا حکم دیا، اس پر سلمان بھی باہر جانے لگا تو رسول خداؐ نے اسے بیٹھنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں اہل بیتؑ میں سے قرار دیا۔[10]

سند اور منابع

حدیث «سلمان منا اہل البیت» مشہور، معتبر[11] اور متواتر احادیث میں سے ہے۔[12] بعض محققین اس صحیح السند اور محکم حدیث کو نہ صرف ایک حدیث بلکہ پیغمبر اسلامؐ اور ائمہؑ معصومین[13] کی چند احادیث کا مشترک حصہ قرار دیتے ہیں۔[14]

عیونُ اَخبارِ الرّضا میں شیخ صدوق،[15] اَلتِّبیان اور مِصباحُ‌المُتَہَجِّد میں شیخ طوسی،[16]اَلْاِختصاص میں شیخ مفید،[17] مناقب آلِ‌ ابی‌طالب میں ابن‌ شہر آشوب،[18] اِلْاحتجاج میں احمد بن علی طبرسی[19] اور سُلَیم بن قیس[20] من جملہ بعض شیعہ علماء میں سے ہیں جنہوں نے اس حدیث کو شیعہ منابع میں نقل کیا ہے۔ اسی طرح الطبقات الکبری میں ابن‌ سعد [21] اور اَلسّیرۃُ النَّبویۃ میں ابن‌ہشام[22] بعض اہل سنت علما میں سے ہیں جنہوں نے اہل سنت منابع میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

مختلف تشریحات

مسلمان علماء نے حدیث «سلمان منا اہل البیت» کی مختلف تشریحات بیان کی ہیں:

فضل بن حسن طبرسی اور شیخ طوسی کہتے ہیں کہ اس حدیث کے ذریعے رسول‌ اللہ یہ فرمانا چاہتے تھے کہ سلمان ہمارے دین پر ہے۔[23] بعض دوسرے علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث عقیدہ، اخلاق اور اعمال میں سلمان کے مقام و مرتبے کو حضرت محمدؐ کے نزدیک قرار دیتی ہے۔[24]

مسلمان عارف ابن‌ عربی اس جملے کو سلمان کی طہارت اور عصمت کے مرتبے کی نشانی قرار دیتے ہیں؛ اس دلیل کے ساتھ کہ آیۂ تطہیر میں خدا نے پیغمبر اکرمؐ اور اہل‌ بیتؑ کو خدا کا عبد مطلق ہونے کی بنا پر ہر قسم کی «رِجْس» (پلیدی) سے پاک قرار دیا ہے اور جو بھی ان ہستیوں سے شباہت رکھے گا وہ بھی پیغمبر اکرمؐ اور اہل‌ بیتؑ کے ساتھ ملحق ہونگے۔ اس حساب سے یہ آیہ سلمان کو بھی شامل کرتی ہے؛[25] لیکن ملا محسن فیض کاشانی نے ابن‌ عربی کے مطالب اور آیہ تطہیر میں اہل بیتؑ کے علاوہ سلمان وغیرہ کی شمولیت کو مسترد کرتے ہوئے اس طرح کے جملات کی ادائیگی کو بھی جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[26]

بعض محققین اہل‌ بیتؑ کی حقیقی معرفت کو[27] جبکہ بعض محققین سلمان میں موجود بعض خاص صفات اور خصوصیات کو[28] سلمان کے اس مقام تک پہنچنے کا راز قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومینؑ نے سلمان کو خود ان ہستیوں میں سے قرار دیا ہے۔

مونوگرافی

محمد علی اسبر نے سنہ 1413ھ، میں «سلمان منا اہل البیت» کے نام سے عربی زبان میں ایک کتاب تحریر کی ہے جسے انتشارات دارالاسلامیہ نے بیروت سے 354 صفحات کے ساتھ منتشر کیا ہے۔ یہ کتاب سلمان فارسی کی حالات زندگی اور حدیث «سلمان منا اہل البیت» کے بارے میں ہے۔[29]

حوالہ جات

  1. حسینی امین و موسوی، «بررسی ویژگی‌ہای «منّا» بودن سلمان فارسی بر اساس تحلیل روایات لیس منّا»، ص50۔
  2. حسینی امین و موسوی، «بررسی ویژگی‌ہای «منّا» بودن سلمان فارسی بر اساس تحلیل روایات لیس منّا»، ص50۔
  3. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص260۔
  4. کلینی، الکافی، 1363ہجری شمسی، ج1، ص401۔
  5. فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1375ہجری شمسی، ج2، ص283۔
  6. کشی، رجال کشی، 1348، ص12 بہ نقل از: حسینی امین و موسوی، «بررسی ویژگی‌ہای «منّا» بودن سلمان فارسی بر اساس تحلیل روایات لیس منّا»، ص49۔
  7. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضاؑ، جہان، ج2، ص64؛ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ج2، ص817۔
  8. طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج2، ص726 و ج8، ص533؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج4، ص62۔
  9. شیخ مفید، الإختصاص‌، 1413ھ، ص341۔
  10. حسینی امین و موسوی، «بررسی ویژگی‌ہای «منّا» بودن سلمان فارسی بر اساس تحلیل روایات لیس منّا»، ص49۔
  11. جویا، «اخبار مشکوک در میراث مأثور اخلاقی»، ص102۔
  12. حسینی امین و موسوی، «بررسی ویژگی‌ہای «منّا» بودن سلمان فارسی بر اساس تحلیل روایات لیس منّا»، ص65؛ بصیری و شفیعی، «بررسی تحلیلی حدیث «سلمان منا اہل البیت»، ص163 و 169۔
  13. حسینی امین و موسوی، «بررسی ویژگی‌ہای «منّا» بودن سلمان فارسی بر اساس تحلیل روایات لیس منّا»، ص50۔
  14. بصیری و شفیعی، «بررسی تحلیلی حدیث «سلمان منا اہل البیت»، ص163 و 169۔
  15. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضاؑ، جہان، ج2، ص64۔
  16. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ج2، ص817۔
  17. شیخ مفید، الإختصاص‌، 1413ھ، ص341۔
  18. ابن‌شہر‌آشوب، مناقب آل أبی‌طالب، 1379ھ، ج1، ص85۔
  19. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص260۔
  20. سلیم بن قیس، 1405ھ، ج2، ص965 بہ نقل از: حسینی امین و موسوی، «بررسی ویژگی‌ہای «منّا» بودن سلمان فارسی بر اساس تحلیل روایات لیس منّا»، ص49۔
  21. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج4، ص62۔
  22. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ج1، ص70۔
  23. طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج5، ص253؛ شیخ طوسی، التبیان،‌ دار احیاء التراث العربی، ج5، ص494۔
  24. «حدیث «سلمان منّا اہل البیت» با انحصار «اہل البیت» در پنج تن آل عبا در آیہ تطہیر چگونہ قابل جمع است؟»، سایت مؤسسہ تحقیقاتی حضرت ولی‌عصر(عج)؛ رسولی و دیگران، «ترجمہ»، در مجمع البیان، ج26، ص174۔
  25. ابن‌عربی، الفتوحات المکیۃ،‌ دار صادر، ج1، ص195-196۔
  26. ملامحسن فیض کاشانی، بشارۃ الشیعۃ، ص152، بہ نقل از: حسینی طہرانی، روح مجرد، 1425ھ، ص446۔
  27. «سرّی کہ سلمان را جزو اہل‌ بیت ساختہ، چیست؟»، سایت خبر آنلاین؛ «دکتر بابک عالیخانی عنوان کرد: سلمان در آیینہ فتوحات»، سایت مؤسسہ پژوہشی حکمت و فلسفہ ایران۔
  28. حسینی امین و موسوی، «بررسی ویژگی‌ہای «منّا» بودن سلمان فارسی بر اساس تحلیل روایات لیس منّا»، ص52-53۔
  29. ملاحظہ کریں: «سلمان منا اہل البیت»، سایت کتابخانہ تخصصی امیرالمؤمنین علیؑ؛ رجوع کنید بہ اسبر، سلمان منا اہل البیت، 1413ھ، ص4۔

مآخذ

  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، بہ تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
  • ابن‌شہر‌آشوب، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب، بہ تصحیح و تحقیق محمدحسین آشتیانی و ہاشم رسولی، قم، علامہ، چاپ اول، 1379ھ۔
  • ابن‌عربی، محمد بن علی، الفتوحات المکیۃ، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، بہ تحقیق و تصحیح ابراہیم آبیاری و مصطفی سقا و عبدالحفیظ شبلی، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا۔
  • اسبر، محمدعلی، سلمان منا اہل البیت، بیروت، الدار الاسلامیۃ، 1413ھ۔
  • بصیری، حمیدرضا، و سید روح‌ اللہ شفیعی، «بررسی تحلیلی حدیث «سلمان منا اہل البیت»، در مجلہ حدیث‌پژوہی، شمارہ 7، بہار و تابستان 1391ہجری شمسی۔
  • جویا، جہانبش، «اخبار مشکوک در میراث مأثور اخلاقی»، در فصنامہ مطالعات اخلاق کاربردی، شمارہ 8، شہریور 1386ہجری شمسی۔
  • «حدیث «سلمان منّا اہل البیت» با انحصار «اہل البیت» در پنج تن آل عبا در آیہ تطہیر چگونہ قابل جمع است؟»، سایت مؤسسہ تحقیقاتی حضرت ولی‌عصر(عج)، تاریخ مشاہدہ: 21 خرداد 1403ہجری شمسی۔
  • حسینی امین، سید مرتضی، و سید محسن موسوی، «بررسی ویژگی‌ہای «منّا» بودن سلمان فارسی بر اساس تحلیل روایات لیس منّا»، در فصلنامہ حدیث و اندیشہ، شمارہ 26، پاییز و زمستان 1397ہجری شمسی۔
  • حسینی، سید مرتضی،«بررسی ویژگی‌ہای «منّا» بودن سلمان فارسی بر اساس تحلیل روایات «لیس منّا»۔»، در مجلہ حدیث و اندیشہ، پاییز و زمستان 1397، شمارہ26۔
  • حسینی طہرانی، سید محمدحسین، روح مجرد، مشہد، انتشارات علامہ طباطبائی، چاپ ہشتم، 1425ھ۔
  • «دکتر بابک عالیخانی عنوان کرد: سلمان در آیینہ فتوحات»، سایت مؤسسہ پژوہشی حکمت و فلسفہ ایران، تاریخ درج مطلب: 22 آذر 1402ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 20 خرداد 1403ہجری شمسی۔
  • رسولی، ہاشم و دیگران، «ترجمہ»، در تفسیر مجمع البیان، تألیف فضل بن حسن طبرسی، تہران، فراہانی، بی‌تا۔
  • «سرّی کہ سلمان را جزو اہل‌ بیت ساختہ، چیست؟»، سایت خبر آنلاین، تاریخ درج مطلب: 14 اسفند 1402ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 20 خرداد 1403ہجری شمسی۔
  • «سلمان منا اہل البیت»، سایت کتابخانہ تخصصی امیرالمؤمنین علیؑ، تاریخ مشاہدہ: 22 خرداد 1403ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضاؑ، بہ تصحیح مہدی لاجوردی، تہران، جہان، بی‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بہ تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بہ تصحیح علی‌اصغر مروارید و ابوذر بیدار، بیروت، مؤسسہ فقہ الشیعہ، 1411ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإختصاص‌، بہ تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، الموتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، بہ تصحیح محمدباقر موسوی خرسان، مشہد، نشر المرتضی، 1403ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بہ ترجمہ و تصحیح ہاشم رسولی و دیگران، بیروت، دارالمعرفۃ، 1408ھ۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، قم، انتشارات رضی، چاپ اول، 1375ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، بہ تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیۃ، 1363ہجری شمسی۔