مندرجات کا رخ کریں

ما قام الاسلام الا بسیف علی و مال خدیجہ

ویکی شیعہ سے

مَا قَامَ الاسلامُ اِلّا بسَیفِ عَلِیٍّ و مَالِ خَدِیجۃ (اسلام قائم نہیں ہوا مگر علیؑ کی تلوار اور خدیجہ کی دولت سے) یہ عبارت پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ہے، جو اسلام کے قیام و استحکام میں حضرت علیؑ کی تلوار اور حضرت خدیجہؑ کے مال کے کردار کو نمایاں کرتی ہے۔[1]

شیعہ علما میں سے چودہویں صدی ہجری کے خطیب محمد مہدی حائری مازندرانی نے اپنی کتاب شجرہ طوبی میں اس جملے کو اس طرح نقل کیا ہے: "ما قام ولا استقام دینی إلا بشیئین: مالِ خدیجۃ و سیفِ علی بن أبی‌طالب"[2] (یعنی: میرا دین قائم اور مستحکم نہیں ہوا مگر دو چیزوں کے ذریعے: خدیجہؑ کے مال اور علیؑ بن ابی‌ طالب کی تلوار کے ذریعے۔)

حائری کے بقول، پیغمبر اکرمؐ نے حضرت خدیجہؑ کی وفات کے بعد، ان کی فداکاری[3] اور اسلام کی راہ میں اپنے مال کی بخشش،[4] نیز حضرت علیؑ کی شجاعت اور دین کی تبلیغ و دفاع میں کردار پر تعظیم و تحسین کا اظہار فرمایا۔[5]

شیعہ مورخ سید جعفر مرتضی عاملی کے مطابق، حضرت خدیجہؑ نے اپنا سارا مال پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں پیش کر دیا تاکہ وہ اسلام کی اقتصادی حمایت[6] اور مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے میں صرف ہو۔[7] نیز، بعض مفسرین کے مطابق قرآن کی آیت: "وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَأَغْنَیٰ"(یعنی: اُس نے تمہیں فقیر پایا اور مالدار کر دیا)[8] حضرت خدیجہؑ کی بخششوں کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کو بےنیازی حاصل ہوئی۔[9]

شیعہ مفکر مرتضی مطہری اس جملے کو بعض مسیحی پادریوں کی جانب سے اسلام کو پرتشدد مذہب ظاہر کرنے کی کوشش کے طور پر پیش کرنے کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت علیؑ کی تلوار کبھی بھی دین کو زبردستی تھوپنے کے لیے نہیں تھی، بلکہ اسلام کے وجود کی دفاع کے لیے تھی، اور اس کی نمایاں مثال غزوۂ خندق ہے۔[10]

حوالہ جات

  1. «اسراف/ بررسی موانع تعظیم شعائر /فقہ شعائر»، وبگاہ مدرسہ فقاہت؛ مطہری، سیری در سیرہ نبوی، 1402ہجری شمسی، ص218۔
  2. حائری، شجرہ طوبی، 1385ھ، ج2، ص233۔
  3. حائری، شجرۃ طوبی، 1385ھ، ج2، ص233۔
  4. جوادی آملی، حکمت عبادات، 1388شمسی، ص148۔
  5. مطہری، سیری در سیرہ نبوی، 1402شمسی، ص214؛ حسینی جلالی، فدک و العوالی، مؤتمر التراث العلمی، ص241 و 242۔
  6. عاملی، صفوۃ الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، 1388شمسی، ص123 و 124۔
  7. مطہری، سیری در سیرہ نبوی، 1402شمسی، ص215 و 216۔
  8. سورہ ضحی، آیہ 8۔
  9. ملاحظہ کریں: ابو الفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج20، ص317؛ فخررازی، تفسیر الکبیر، 1420ھ، ج31، ص199؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج20، ص311۔
  10. مطہری، سیری در سیرہ نبوی، 1402شمسی، ص214و218۔

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • «اسراف/ بررسی موانع تعظیم شعائر /فقہ شعائر»، درس خارج فقہ استاد سیدمحسن حسینی فقیہ، وبگاہ مدرسہ فقاہت، تاریخ درج مطلب: 11 اسفند 1400شمسی، تاریخ بازدید: 16 اردیبہشت 1404ہجری شمسی۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، حکمت عبادات، تحقیق حسین شفیعی، قم، اسراء، 1388ہجری شمسی۔
  • حائری، محمدمہدی، شجرۃ طوبی، نجف، حیدریۃ، 1385ھ۔
  • حسینی جلالی، سید محمدباقر، فدک و العوالی أو الحوائط السبعۃ فی الکتاب و السنۃ و التاریخ و الأدب، بی‌جا، مؤتمر التراث العلمی و المعنوی لفاطمہ الزہراء علیہا السلام، بی‌تا.
  • عاملی، جعفرمرتضی، صفوۃ الصحیح من سیرۃالنبی الأعظم، تہران، معاونت امور روحانیون حج، 1388ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات‏، 1390ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی‏، 1420ھ۔
  • مطہری، مرتضی، سیری در سیرہ نبوی، تہران، صدرا، 1402ش/1445ھ۔