اخبار من بلغ

ویکی شیعہ سے



اَخبار مَنْ بَلَغ احادیث کے اس مجموعے کو کہا جاتا ہے جن سے استناد کرتے ہوئے فقہاء مختلف اعمال کے مستحب ہونے کا فتوا دیتے ہیں۔ ان احادیث کو قاعدہ تسامح کی اصلی دلیل بھی سمجھی جاتی ہیں۔ ان احادیث کے مطابق خدا ان ضعیف احادیث سے استناد کرتے ہوئے انجام دینے والے اعمال پر متعلقہ شخص کو ثواب دیتا ہے اگرچہ وہ احادیث صحیح نہ بھی ہوں۔

فقہاء احادیث من بلغ کو متواتر یا مستفیض سمجھتے ہیں ہوئے انہیں معتبر قرار دیتے ہیں۔ بعض محققین باوجود اس کے کہ ان احادیث کی تواتر کو نہیں مانتے، لیکن احادیث من بلغ میں سے بعض کو سند کے اعتبار سے صحیح سمجھتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں بعض مصنفین احادیث من بلغ کو جعلی قرار دیتے ہیں۔

اکثر فقہاء اخبار من بلغ سے ایک اصولی قاعدہ‌ اخذ کرتے ہیں کہ جس کے مطابق مستحب اعمال سے مربوط احادیث کے راویوں کی توثیق یا عدم توثیق پر خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود بعض فقہاء ان احادیث کو کسی فقہی یا کلامی مسئلے کے ساتھ تطبیق دیتے ہیں۔ مبنائی اختلاف کی بنا پر ان احادیث میں مکروہات اور فضائل و مصائب اہل‌ بیتؑ کو بھی شامل ہونے اور نہ ہونے میں اختلاف رکھتے ہیں۔

تعریف اور اہمیت

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّہِ(ع) قَالَ: مَنْ بَلَغَہُ عَنِ النَّبِيِّ(ص) شَيْ‏ءٌ مِنَ الثَّوَابِ فَعَمِلَہُ كَانَ أَجْرُ ذَلِكَ لَہُ وَ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّہِ ص لَمْ يَقُلْہ‏۔
امام صادقؑ نے فرمایا: اگر کسی عمل کے ثواب کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے کوئی حدیث کسی شخص تک پہنچے اور وہ اسی ارادے سے اس عمل کو انجام دے تو اس شخص کو وہ ثواب عطا کیا جائے گا اگر چہ پیغمبر اکرمؐ نے وہ حدیث ارشاد نہ فرمایا بھی ہو۔

احمد بن محمد برقی، المحاسن، 1371ق، ص25۔

اخبار من بلغ احادیث کے اس مجموعے کو کہا جاتا ہے جن میں ضعیف احادیث کے مضامین پر استناد کرتے ہوئے عمل انجام دینے والوں کے مقابلے میں خداوند عالم کے موقف کو بیان کرتی ہیں۔[1] ان احادیث کی بنیاد پر اگر کسی شخص تک کسی عمل کے ثواب کے بارے میں کوئی حدیث پہنچے اور وہ شخص اسی ارادے سے اس عمل کو انجام دے تو خدا اس شخص کو وہ ثواب عطا کرے گا اگرچہ اصل حدیث صحیح نہ بھی ہو۔[2] چونکہ عموما یہ احادیث «مَنْ بَلَغَہُ» (جس کسی تک خبر پہنچے) کی تعبیر کے ساتھ شروع ہوتی ہے، اس بنا پر یہ احادیث «اخبار من بلغ» کے نام سے مشہور ہیں۔[3] ان احادیث میں صرف خدا کے موقف کے بارے میں خبر دی گئی ہے اور اس کے علاوہ ان میں کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے۔[4]

اساتید حوزہ علمیہ قم کے استاد محمد جواد فاضل لنکرانی احادیث من بلغ کو قاعدہ تسامح کا اصلی دلیل قرار دیتے ہیں؛ یہ قاعدہ‌ ایک مفید قاعدہ ہے جو تمام فقہی ابواب میں جاری ہوتے ہیں۔[5] بہت سے فقہاء نے ان احادیث سے استناد کرتے ہوئے بہت سارے اعمال کے مستحب ہونے کا فتوا دئے ہیں؛[6] مثلاً شرح لمعہ کے مصنف شہید ثانی نے احادیث من بلغ میں سے ایک ضعیف حدیث جس میں مسافرت میں مستحب روزہ رکھنے کو جائز قرار دیا گیا ہے، سے اسنتاد کرتے ہوئے مسافرت میں مستحب روزہ رکھنے کے جائز ہونے کا فتوا دیا ہے۔[7]

توثیق

کتاب وسائل الشیعہ کے مصنف شیخ حر عاملی اخبار من بلغ کو متواتر سمجھتے ہیں۔[8] تیرہویں صدی کے شیعہ فقیہ شیخ مرتضی انصاری نیز احادیث من بلغ کو مستفیض سمجھنے کے ساتھ ان احادیث کے تواتر معنوی کا احتمال بھی دیتے ہیں۔[9] اسی طرح کتاب عدۃ الداعی کے مصنف ابن‌فہد حلی احادیث من بلغ کے مضامین کو شیعہ اور اہل تسنن کے یہاں اجماعی قرار دیتے ہیں۔[10] یہ احادیث شیعہ منابع کے علاوہ بعض اہل سنت منابع (جیسے کتاب جُزءِ ابن‌عرفہ و مُسندِ ابی‌یَعلی) میں بھی مذکور ہیں۔[11] شیعہ احادیث امام باقرؑ اور امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں[12] اور اہل‌ سنت احادیث پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہیں۔[13]

کتاب وسائل الشیعہ میں 9 احادیث اخبار من بلغ کے عنوان سے مذکور ہیں۔[14] بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ شیعہ اصلی منابع میں احادیث من بلغ کی بازگشت مجموعی طور پر تین احادیث کی طرف ہے۔[15] ان میں سے پہلی حدیث کتاب محاسن؛[16] دوسری حدیث کتاب کافی؛[17] اور تیسری حدیث کتاب ثواب الأعمال۔[18] کی ہے۔ اس بنا پر بعض محققین احادیث من بلغ کے متواتر ہونے کو قبول نہیں کرتے اور ان میں سے صرف دو احادیث کے سند کو صحیح جبکہ باقی احادیث کے سند کو ضعیف سمجھتے ہیں۔[19]

نویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ مفلح بن حسن صیمری سے نقل ہوا ہے کہ آپ احادیث من بلغ کو آیت نبأ کے ساتھ متعارض قرار دے کر ان پر اعتراض کی ہیں،[20] لیکن آقا حسین خوانساری اور شیخ مرتضی انصاری جیسے محققین نے آیت نباء اور اخبار من بلغ کے درمیان تعارض ہونے کے اعتراض کا جواب دیا ہے۔[21] ان تمام باتوں کے باوجود بعض شیعہ مصنفین[22] اور اہل‌ سنت سنت فقیہ ابن جوزی ان احادیث کو جعلی قرار دیتے ہیں۔[23]

فائدہ

کتاب فوائد الاصول کے مصنف محمدحسین غروی نائینی کے مطابق مشہور فقہاء احادیث من بلغ سے ایک اصولی قاعدے کی بنیاد رکھتے ہیں؛ وہ قاعدہ یہ ہے کہ ان احادیث کے مطابق مستحبات میں احادیث کی حجیت کے لئے درکار خاص شرائط (جیسے راوی کی وثاقت وغیرہ) سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔[24] لیکن اس کے باوجود مذکورہ اصولی قاعدے پر بھی ان احادیث کی دلالت کو تمام فقہاء قبول نہیں کرتے اور اس مسئلے میں بعض دوسرے نظریات بھی ہیں؛[25] چنانکہ کفایۃ الأصول کے مصنف آخوند خراسانی اور نائینی ان احادیث کے ماحصل کو ایک فقہی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق مکلف نے جس عمل کو ثواب کی امید سے انجام دیا ہے یہ عمل خود مستحب ہے۔[26] اسی طرح بعض دوسرے فقہاء جسے آقا ضیاء عراقی اور سید ابوالقاسم خویی وغیرہ اسے ایک کلامی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا اپنے فضل و کرم سے ضعیف احادیث پر بھی عمل کر کے اپنی فرمانبرداری ثابت کرنے والے افراد کو ثواب عطا کرتا ہے۔[27]

شیعہ فقیہ علی صافی گلپایگانی اخبار من بلغ کی دلالت کے بارے میں چار احتمالات پیش کرتے ہیں اور آخر میں چوتھے احتمال کو قبول کرتے ہیں جس کے مطابق یہ احادیث کسی عمل کے مستحب ہونے یا ثواب ملنے یا عبادت ہونے پر دلالت نہیں کرتیں بلکہ یہ احادیث صرف اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اگر کسی شخص کو کسی عمل میں خاص ثواب ہونے کے بارے میں معلوم ہو جائے اور وہ اس عمل کو اسی ثواب کی امید سے انجام دے تو اسے مذکورہ ثواب حاصل ہو جائے گا۔ یہ کام ایک طرف احتیاط کے مصادیق میں سے ایک ہے تو دوسری طرف عقل سلیم بھی اس کی تائید اور تحسین کرتی ہے۔[28][یادداشت 1]

وسعت

شیعہ فقیہ سید محمود ہاشمی شاہرودی کے مطابق مشہور فقہاء اخبار من بلغ کو صرف مستحبات تک مختص سمجھتے ہیں اور اس میں مکروہات کو شامل نہیں کرتے؛[29] لیکن شیخ انصاری اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ شروع میں ایسا لگتا ہے کہ احادیث من بلغ صرف مستحبات تک محدود ہیں لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو ان احادیث کے الفاظ مطلق ہیں جو عمومیت پر دلالت کرتے ہیں اور مکروہات کو بھی شامل کرتے ہیں۔[30] اسی طرح شیخ انصاری اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ احادیث من بلغ کی رو سے تاریخی واقعات کو نقل کرنے اور اہل‌ بیتؑ کے فضائل و مصائب کو ذکر کرنے میں بھی ضعیف احادیث سے استفادہ کر سکتے ہیں۔[31] ان کے مقابلے میں آقای نائینی تاریخی واقعات اور حوادیث کو نقل کرنے نیز اہل بیتؑ کے فضائل اور مصائب کو ذکر کرنے میں ان جیسی احادیث سے استناد کرنے کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔[32]

حدیث من بلغ کے دائرہ کار کی وسعت کے بارے میں ان کے علاوہ بھی بعض مسائل مطرح ہوئے ہیں جن میں علماء کے درمیان مبانی کے اختلاف کی وجہ سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں؛ ان میں سے بعض مسائل یہ ہیں: 1۔ اخبار من بلغ میں مجتہدین کے فتوا کا شامل ہونا؛[33] 2۔ احادیث من بلغ کا قاعدہ ان احادیث پر بھی جاری ہونا جن کی سند تو قوی ہیں لیکن دلالت ضعیف ہیں؛[34]وجوب پر دلالت کرنے والی بہت ساری ضعیف احادیث کو بھی شامل کرنا۔[35]

حوالہ جات

  1. مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، 1389ش، ص128۔
  2. برقی، المحاسن، 1371ق، ج1، ص25؛ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص87؛ شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، 1406ق، ص132۔
  3. سعیدی، «تسامح در ادلہ سنن»، ص288۔
  4. ہاشمی شاہرودی،‌ «بحثی پیرامون اخبار من بلغ»، ص8۔
  5. فاضل لنکرانی، «قاعدہ تسامح در ادلہ سنن»، ص7۔
  6. کلانتری، «تسامح در ادلہ سنن، قاعدہ‌ای ناکارآمد»، ص2۔
  7. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ق، ج2، ص48۔
  8. شیخ حرّ عاملی، الفصول المہمۃ فی اصول الائمۃ، 1418ق، ج1، ص617۔
  9. انصاری، رسائل فقہیہ، 1414ق، ص142۔
  10. ابن‌فہد حلی، عدۃ الداعی، 1407ق، ص13۔
  11. ملاحظہ کریں: ابن‌عرفہ، جزء، 1406ق، ص78؛ ابویعلی موصلی، مسند ابی‌یعلی، 1404ق، ج6، ص163؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1422ق، ج9، ص230۔
  12. شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ق، ج1، ص80-82۔
  13. ابن‌عرفہ، جزء، 1406ق، ص78؛ ابویعلی موصلی، مسند ابی‌یعلی، 1404ق، ج6، ص163؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1422ق، ج9، ص230۔
  14. شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ق، ج1، ص80-82۔
  15. کریمیان، «اعتبارسنجی و مفہوم‌شناسی احادیث من بلغ»، ص11۔
  16. برقی، المحاسن، 1371ق، ج1، ص25۔
  17. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص87۔
  18. شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، 1406ق، ص132۔
  19. اعرافی، «قاعدۃ التسامح فی ادلۃ السنن»، ص212۔
  20. سید مجاہد، مفاتیح الاصول، مؤسسہ آل البیت(ع)، ص349۔
  21. خوانساری، مشارق الشموس، مؤسسہ آل البیت(ع)، ج1، ص34؛ انصاری، رسائل فقہیہ، 1414ق، ص151-152۔
  22. الحسنی، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، 1973م، ص171؛ بہبودی، صحیح الکافی، 1401ق، ج1، ص«ط»۔
  23. ابن‌جوزی، الموضوعات، 1388ق، ج3، ص153۔
  24. نائینی، فوائد الاصول، 1376ش، ج3، ص415۔
  25. آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، تحقیق عباس‌علی زارعی سبزواری، 1431ق، ج3، ص72۔
  26. آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، 1409ق، ص352؛ نائینی، اجود التقریرات، تقریرات آیت‌اللہ خویی، 1368ش، ج2، ص208-209۔
  27. عراقی، نہایۃ الافکار، 1417ق، ج3، ص279-280؛ خویی، مصباح الاصول، 1417ق، ج2، ص319۔
  28. صافی گلپایگانی، المحجۃ في تقريرات الحجۃ، 1419ق، ج2، ص240۔
  29. ہاشمی شاہرودی، «بحثی پیرامون اخبار من بلغ»، ص24۔
  30. انصاری، رسائل فقہیہ، 1414ق، ص160۔
  31. انصاری، رسائل فقہیہ، 1414ق، ص158۔
  32. نائینی، اجود التقریرات، تقریرات آیت‌اللہ خویی، 1368ش، ج2، ص212۔
  33. اصفہانی، نہایۃ الدرایۃ، 1414ق، ج4، ص188-189۔
  34. اعرافی، «قاعدہ التسامح فی ادلۃ السنن»،ص231-232۔
  35. اصفہانی، نہایۃ الدرایۃ، 1414ق، ج4، ص188-189۔

نوٹ

  1. لا تكون أخبار من بلغ ناظرۃ الى استحباب العمل و عباديتہ و لا الى أصل الثواب، بل تكون في مقام تقدير الثواب

مآخذ

  • ابویعلی موصلی، مسند ابی‌یعلی، دمشق، دار المأمون، 1404ھ۔
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، الموضوعات، مدینہ، المکتبۃ السلفیۃ، 1388ھ۔
  • ابن‌عرفہ، حسن، جزء، کویت، دار الأقصی، 1406ھ۔
  • ابن‌فہد حلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، قم، دار الکتب الاسلامی، 1407ھ۔
  • اصفہانی، محمدحسین، نہایۃ الدرایۃ فی شرح الکفایۃ، قم، موسسہ سیدالشہداء(ع)، 1414ھ۔
  • اعرافی، «قاعدۃ التسامح فی ادلۃ السنن»، در مجلہ فقہ اہل البیت(ع)، شمارہ 49، 1429ھ۔
  • الحسنی، ہاشم معروف، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، 1973م۔
  • انصاری، مرتضی، رسائل فقہیۃ، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، 1414ھ۔
  • برقی، احمد بن محمد، المحاسن، قم، دار الکتب الاسلامیۃ، 1371ھ۔
  • بہبودی، محمدباقر، صحیح الکافی، بیروت، الدار الاسلامیۃ، 1401ھ۔
  • جمعی از محققان مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1389ہجری شمسی۔
  • خراسانی، محمدکاظم، کفایۃ الأصول، تحقیق عباس‌علی زارعی سبزواری،‌ قم، موسسہ نشر اسلامی، 1431ھ۔
  • خراسانی، محمدکاظم، کفایۃ الاصول، قم، موسسہ آل البیت(ع)، 1409ھ۔
  • خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، بیروت، دار الغرب الاسلامی، 1422ق
  • خوانساری، محمد بن حسین، مشارق الشموس، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، بی‌تا۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، مصباح الاصول، قم، مکتبۃ الداوری، 1417ھ۔
  • سعیدی، فریدہ، «تسامح در ادلہ سنن»، در دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الافہام الی تنقیح شرایع الاسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، 1413ھ۔
  • شیخ حرّ عاملی، محمد بن حسن، الفصول المہمۃ فی اصول الائمۃ، قم، مؤسسہ معارف اسلامی امام رضا(ع)، 1418ھ۔
  • شیخ حرّ عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعۃ، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، 1409ھ۔
  • صافی گلپایگانی، علی المحجۃ في تقريرات الحجۃ، قم، ناشر: مؤسسۃ السيدۃ المعصومۃ (علیہاالسلام)، چاپ اول، 1419ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، قم، دار الشریف الرضی، 1406ھ۔
  • عراقی، ضیاء‌الدین، نہایۃ الافکار، تقریرات محمدتقی بروجردی، قم، موسسہ نشر اسلامی، 1417ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمدجواد، «قاعدہ تسامح در ادلہ سنن»، در مجلہ فقہ و اجتہاد، شمارہ 6، مہر 1395ہجری شمسی۔
  • کریمیان، محمود، «اعتبارسنجی و مفہوم‌شناسی احادیث من بلغ»، در مجلہ حدیث حوزہ، شمارہ 16، 1397ہجری شمسی۔
  • کلانتری، «تسامح در ادلہ سنن، قاعدہ‌ای نا کارآمد»، در مجلہ پژوہش‌ہای اعتقادی کلامی، شمارہ 17، 1389ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
  • مجاہد طباطبایی، سید محمد بن علی، مفاتیح الاصول، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، بی‌تا۔
  • نائینی، محمدحسین، اجود التقریرات، تقریرات آیت‌اللہ خویی، قم، کتاب‌فروشی مصطفوی، 1368ہجری شمسی۔
  • نائینی، محمدحسین، فوائد الاصول، تقریرات محمدعلی کاظمی خراسانی، قم، موسسہ نشر اسلامی، 1376ہجری شمسی۔
  • ہاشمی شاہرودی،‌ سید محمود، «بحثی پیرامون اخبار من بلغ»، در مجلہ پژوہش‌ہای اصولی، شمارہ 4و5، تابستان 1382ہجری شمسی۔