مندرجات کا رخ کریں

من علمنی حرفا فقد صیرنی عبدا

ویکی شیعہ سے
من علمنی حرفا فقد صیرنی عبدا
من علمنی حرفا فقد صیرنی عبدا
من علمنی محمد تعریفی کے قلم سے
من علمنی محمد تعریفی کے قلم سے
حدیث کے کوائف
موضوعاخلاقی اور تربیتی
صادر ازامام علیؑ
اعتبارِ سندبغیر سند
شیعہ مآخذجامع السعادات
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہبحدیث ثقلینحدیث کساءمقبولہ عمر بن حنظلۃحدیث قرب نوافلحدیث معراجحدیث ولایتحدیث وصایتحدیث جنود عقل و جہلحدیث شجرہ


مَن عَلَّمَنی حَرفاً فَقَد صَیَّرَنی عَبداً، (جس نے مجھے ایک حرف سکھایا، اُس نے گویا مجھے اپنا غلام بنایا) حضرت علیؑ سے منسوب جملہ ہے جس میں تعلیم کی عظمت اور معلم کے مقام و مرتبے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہاں طالب علم کے لئے غلام اور عبد کی تعبیر استعمال کرنا بطور استعارہ ہے حقیقی نہیں ہے۔

یہ عبارت رسائل فارسی اور جامع السعادات جیسے منابع میں بغیر کسی سند کے ذکر ہوئی ہے اور بعض محققین اس قول کو امام علیؑ کی طرف نسبت دینے میں شک و تردید کا اظہار کیا ہے، تاہم اس کے معنوی اور اخلاقی مفہوم کی تائید کرتے ہیں۔

اسی مضمون سے مشابہ ایک حدیث پیغمبر اکرمؐ سے بھی حدیثی منابع جیسے عوالی اللئالی اور بِحارالانوار میں نقل ہوئی ہے۔ اسی طرح لوگوں کی روزمرہ زندگی میں ان کی ثقافت، ادبیات اور علوم و فنون جیسے خوشنویسی اور شعر وغیرہ میں بھی اس عبارت کی عکاسی نظر آتی ہے۔

اہمیت و منزلت

عبارت "مَن عَلَّمَنی حَرفاً فَقَد صَیَّرَنی عَبداً" کو امام علیؑ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، جو تعلیم و تعلم کی عظمت اور معلم کے مقام مرتبے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[1] اس کا یوم اساتذہ کے مواقع پر اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنے والے ترانو اور نظموں،[2] درسی کتابوں کے سرورق،[3] خوشنویسی کے فن پاروں،[4] اور مختلف اشعار میں[5] استعمال کیا گیا ہے۔

من عَلَّمنی آمده در گفته مولا؟در منزلت و رُتبتِ والای معلم
من عَلَّمنی آیا ہے قولِ مولا میںعظمت کی علامت ہے استاد کا منصب
این عمر گرانمایه ز کف می رود ارزان؟نشناسی اگر مرتبت و جای معلم[6]
یہ قیمتی عمر سستی میں گزر جائے گیاگر نہ پہچانو استاد کا رتبہ

اس عبارت کا مضمون مختلف شکلوں جیسے«أَنَا عَبْدُ مَنْ عَلَّمَنِی حَرْفًا؛ میں اس کا غلام ہوں جس نے مجھے ایک حرف سکھایا»[7] و «مَن عَلَّمَنی حَرفاً کُنتُ لَهُ عَبداً؛ جو مجھے ایک حرف سکھائے، میں اس کا غلام ہوں» میں امام علی سے منسوب ہے۔[8]

مضمون

شیعہ مفکر آیت اللہ مصباح یزدیؒ کے مطابق، مذکورہ عبارت "مَن عَلَّمَنی حَرفاً فَقَد صَیَّرَنی عَبداً" (ترجمہ: جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنایا)[9] میں بندگی سے مراد حقیقی عبودیت نہیں بلکہ تشبیہی اور مجازی ہے جو معلم کی علمی تربیت و اثرات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[10] شیعہ محقق علامہ قبانچی بھی اس بندگی کو علم و معرفت کے سامنے جھکنے کا ایک مجازی اظہاریہ قرار دیتے ہیں۔[11] علامہ نراقی اپنی کتاب جامع السعادات میں اس حدیث کو بنیاد بنا کر نبی اکرمؐ اور ائمہ علیہم‌السلام کو انسانیت کے اصلی اساتذہ قرار دیتے ہیں، جو خدا کے بعد سب سے زیادہ محبت اور تعظیم کے مستحق ہیں۔[12] چنانچہ امام علیؑ کا یہ قول: "أنا عبدٌ من عبیدِ محمد" (میں محمدؐ کا غلام ہوں)، اسی فکری و اخلاقی منہج کی توسیع ہے۔[13]

اسناد و ماخذ

یہ جملہ بعض تاریخی کتابوں جیسے تاریخ‌ نامہ ہرات میں لفظ "قد" کے بغیر امام علیؑ سے منسوب ہے۔[14] بعض دیگر مصنفین جیسے ادہم عزلتی خلخالی،(متوفی: 1052ھ) نے اپنی کتاب رسائل فارسی میں[15] علامہ نراقی (متوفی: 1209ھ) نے جامع السعادات میں،[16] اسے بغیر سند کے امام علیؑ کی طرف منسوب کیا ہے۔[17] البتہ ابو سعید خادمی(متوفی: 1156ھ)[18] اور قَبانچی نے شرح رسالة الحقوق للاِمام زین‌العابدینؑ[19] میں اس جملہ کے مضمون کو امام علیؑ سے منسوب کیا ہے۔

جبکہ بعض اہل‌ سنّت علماء جیسے عبدالقادر آل‌غازی نے اس جملہ کو شعبہ نامی شخص کی طرف[20] اور عجلونی (متوفی: 1162ھ) نے اسے مشہور کی طرف منسوب کیا ہے۔[21]

سنہ 1368 ہجری شمسی ثانوی تعلیم کے پہلے سال کی کتب درسی کی کور ڈیزائن

شیعہ مرجع تقلید آیت‌اللہ مکارم شیرازی اور بعض دیگر محققین نے اس عبارت کو امام علیؑ کی طرف نسبت دینے میں شک و تردید کا اظہار کیا ہے۔[22] تاہم ایران کے سپریم لیڈر آیت‌اللہ خامنہ‌ای اس کے مفہوم کو درست اور اخلاقی طور پر قابلِ قبول قرار دیتے ہیں۔[23]

مشابہ اقوال

  • "مَنْ تَعَلَّمْتَ مِنْهُ حَرْفاً صِرْتَ لَهُ عَبْداً؛ میں نے جس سے ایک لفظ سیکھ لیا اسکا غلام ہوگیا" ابن ابی‌ جمہور احسایی کی کتاب عَوالِی اللَئالی اور بِحار الاَنوار[24] میں رسول اکرمؐ سے منسوب ہے۔
  • "مَن عَلَّمَنی حَرفاً مَلَّکَنی عَبداً ؛ جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنالیا" کو سید بحر العلوم نے ضرب المثل کے طور پر نقل کیا ہے۔[25]
  • "أنا عبدُ من تعلَّمتُ منه ؛ میں اسکا غلام ہوں جس سے تعلیم لیا ہے " کو شہید ثانی نے مُنیَة المُرید میں ایک مجهول شخص کی طرف نسبت دی ہے۔[26]
  • "أنا عبدُ من تعلَّمتُ منه حرفاً ؛ میں غلام ہوں جس سے ایک لفظ سیکھا ہے" کو فخرالدین رازی نے ضرب‌ المثل کے عنوان سے نقل کیا ہے۔[27]

حوالہ جات

  1. علامه طباطبایی، تعالیم اسلام، 1387ش، ص209؛ مصباح یزدی، نگاهی گذرا به حقوق بشر از دیدگاه اسلام، تدوین عبدالحکیم سلیمی، ص139؛ مطهری، انسان کامل، 1402ش، ص216-217؛ مکارم شیرازی، اخلاق اسلامی در نهج‌البلاغه، 1385ش، ج2، ص157۔
  2. رجوع کریں: «سرود من علمنی حرفا قد صیرنی عبدا به مناسبت روز معلم»، سایت آپارات۔
  3. «عربی سال اول آموزش متوسطه دهه شصت سال 1368»، سایت کوشان بوک۔
  4. رجوع کریں: «اثر 480 بخط محمد تعریفی خشتی: حدیث خوشنویسی شده من علمنی حرفا فقد صیرنی عبدا»، سایت شمیم ثلث؛ «اثر حسن مختاری در هنر خوشنویسی : محفل خوشنویسی»، سایت 100 هنر۔
  5. رجوع کریں: «من علمنی حرفا فقد صیرنی عبدا»، پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه۔
  6. «من علمنی حرفا فقد صیرنی عبدا»، پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه۔
  7. الخادمی، بريقة محمودية، 1348ھ، ج4، ص3۔
  8. قبانچی، شرح رساله الحقوق امام زین العابدین(ع)، 1422ھ، ج1، ص306۔
  9. نراقی، ترجمه متن کامل جامع السعادات، 1388ش، ج2، ص438۔
  10. مصباح یزدی، نگاهی گذرا به حقوق بشر از دیدگاه اسلام، تدوین عبدالحکیم سلیمی، ص139۔
  11. قبانچی، شرح رسالة الحقوق امام زین العابدین(ع)، 1422ھ، ج1، ص306۔
  12. نراقی، جامع السعادات، اعلمی، ج3، ص142۔
  13. مکارم شیرازی، اخلاق اسلامی در نهج‌البلاغه، 1385ش، ج2، ص157۔
  14. سیفی هروی، تاریخنامه هرات، 1383ش، ص476۔
  15. عزلتی خلخالی، رسائل فارسی ادهم خلخالی، 1381ش، ج2، ص644-645۔
  16. نراقی، جامع السعادات، اعلمی، ج3، ص142۔
  17. نراقی، جامع السعادات، اعلمی، ج3، ص142۔
  18. الخادمی، بريقة محمودية، 1348ھ، ج4، ص3۔
  19. قبانچی، شرح رساله الحقوق امام زین العابدین(ع)، 1422ھ، ج1، ص306۔
  20. آل‌غازی، بیان المعانی، 1382ھ، ج4، ص190۔
  21. عجلونی، کشف الخفاء، 1351ھ، ج2، ص265۔
  22. مکارم شیرازی، اخلاق اسلامی در نهج‌البلاغه، 1385ش، ج2، ص157؛ سلیمانی آشتیانی و درایتی، مجموعه رسائل در شرح احادیثی از کافی، 1387ش، ج1، ص321۔
  23. خامنه‌ای، «بیانات در دیدار معلمان استان فارس»، سایت دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله خامنه‌ای۔
  24. ابن‌ابی‌جمهور، عوالی اللئالی، 1403ھ، ج1، ص292؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج77، ص166-167۔
  25. بحرالعلوم، «مقدمه»، الفوائد الرجالیة، 1363ش، ج1، ص38۔
  26. شهید ثانی، منیة المرید، 1431ھ، ص85۔
  27. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج15، ص429 و ج21، ص483۔

مآخذ

  • «اثر حسن مختاری در هنر خوشنویسی : محفل خوشنویسی»، سایت 100 هنر، تاریخ مشاہدہ: 5 اسفند 1403ہجری شمسی۔
  • «اثر 480 بخط محمد تعریفی خشتی: حدیث خوشنویسی شده من علمنی حرفا فقد صیرنی عبدا»، سایت شمیم ثلث، تاریخ مشاہدہ: 5 اسفند 1403ہجری شمسی۔
  • آل‌غازی، عبدالقادر، بیان المعانی علی حسب ترتیب النزول، دمشق، مطبعة الترقی، 1382ھ/ 1962ء۔
  • ابن‌ابی‌جمهور، محمد بن زین‌الدین، عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة، تحقیق مجتبی عراقی، قم، مؤسسه سید الشهدا(ع)، 1403ھ/ 1983ء۔
  • بحرالعلوم، سید محمدصادق، «مقدمه»، الفوائد الرجالیه، تألیف سید محمدمهدی بحرالعلوم، تهران، مکتبة الصادق(ع)، 1363ہجری شمسی۔
  • الخادمی، محمد، بريقة محمودية فی شرح طريقة محمدية و شريعة نبوية فی سيرة احمدية، بی‌جا، مطبعة الحلبی، 1348ھ۔
  • «جمله مشهوری که سند روایی ندارد»، سایت خبرگزاری بین‌المللی قرآن (ایکنا)، تاریخ درج مطلب: 22 مهر 1396ش، تاریخ مشاہدہ: 2 اسفند 1403ہجری شمسی۔
  • خامنه‌ای، سید علی، «بیانات در دیدار معلمان استان فارس»، سایت دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله خامنه‌ای، تاریخ مشاہدہ: 2 اسفند 1403ہجری شمسی۔
  • «سرود من علمنی حرفا قد صیرنی عبدا به مناسبت روز معلم»، سایت آپارات، تاریخ درج مطلب: 18 خرداد 1402ش، تاریخ مشاہدہ: 2 اسفند 1403ہجری شمسی۔
  • سلیمانی آشتیانی، مهدی، و محمدحسین درایتی، مجموعه رسائل در شرح احادیثی از کافی، قم، دار الحدیث، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • سیفی هروی، سیف بن محمد، تاریخنامه هرات، تهران، اساطیر، 1383ہجری شمسی۔
  • شهید ثانی، زین‌الدین بن علی، منیة المرید، بیروت، مؤسسة التاریخ العربی، 1431ھ/ 2010ء۔
  • «عربی سال اول آموزش متوسطه دهه شصت سال 1368»، سایت کوشان بوک، تاریخ مشاہدہ: 13 اسفند 1403ہجری شمسی۔
  • عجلونی، اسماعیل بن محمد، کشف الخفاء و مزیل الإلباس عما اشتهر من الأحادیث على ألسنة الناس، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1351ھ۔
  • عزلتی خلخالی، ادهم، رسائل فارسی ادهم خلخالی، به تصحیح عبدالله نورانی، تهران، انجمن آثار و مفاخر فرهنگی، 1381ہجری شمسی۔
  • علامه طباطبایی، سید محمدحسین، تعالیم اسلام، گردآوری سید هادی خسروشاهی، قم، بوستان کتاب قم، 1387ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ/ 1991ء۔
  • قبانچی، حسن، شرح رساله الحقوق امام زین العابدین(ع)، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، 1422ھ/ 2002ء۔
  • نراقی، محمدمهدی، ترجمه متن کامل جامع السعادات، به ترجمه کریم فیضی، قم، قائم آل محمد(عج)، 1388ہجری شمسی۔
  • نراقی، محمدمهدی، جامع السعادات، بیروت، اعلمی، چاپ چهارم، بی‌تا.
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بی‌جا، مؤسسة الوفاء، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، نگاهی گذرا به حقوق بشر از دیدگاه اسلام، تدوین عبدالحکیم سلیمی، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.
  • مطهری، مرتضی، انسان کامل، تهران، صدرا، 1402ش/ 1445ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق اسلامی در نهج‌البلاغه، قم، نسل جوان، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
  • «من علمنی حرفا فقد صیرنی عبدا»، پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه، تاریخ درج مطلب: 14 آبان 1388ش، تاریخ مشاہدہ: 2 اسفند 1403ہجری شمسی۔