مندرجات کا رخ کریں

من لم یشکر المخلوق لم یشکر الخالق

ویکی شیعہ سے

مَن لم يَشكُرِ المَخلوقَ لَم يَشكُرِ الخالِقَ "جو مخلوق کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خالق کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا" ایک ایسا جملہ ہے جو روایت کے طور پر مشہور ہے؛ لیکن علوم حدیث کے محققین کے مطابق یہ جملہ شیعہ حدیثی منابع میں نہیں ملتا۔ تاہم اسلامی مآخذ میں اس جیسے موضوع پر احادیث موجود ہیں۔

محققین نے اس جملے سے استناد کرتے ہوئے شکر مخلوق اور شکر خالق کے مابین براہ راست تعلق اور رابطے قائل ہیں۔ ان کی نگاہ میں چونکہ مخلوقات فیض الہی کا ذریعہ اور واسطہ ہیں، اس لیے ان کا شکریہ ، درحقیقت نعمتوں کے اصل سرچشمہ یعنی خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔

فارسی ادب میں بھی اس جملے کی جھلک نظر آتی ہے، چنانچہ جامی جیسے عرفاء نے شعر کے پیرائے میں اس کو بیان کیا ہے۔

مشابہ احادیث سے ماخوذ

ناصر مکارم شیرازی کے مطابق، اگرچہ «من لم یشکر المخلوق لم یشکر الخالق» کا جملہ شیعہ روایات میں موجود نہیں ہے،[1] لیکن شیعہ احادیث کی کتب میں اس مضمون سے ملتی جلتی روایات موجود ہیں، جن میں یہ احادیث شامل ہیں:

  • «مَنْ لَمْ يَشْكُرِ اَلنَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اَللَّہَ؛ جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکریہ ادا نہیں کرتا»[2] یہ روایت پیغمبر خداؐ سے منقول ہے۔[3]
  • «...أَشْکَرُکُمْ لِلَّہِ أَشْکَرُکُمْ لِلنَّاس...؛ تم میں سے اللہ کا سب سے زیادہ شکر گزار وہی ہوگا جو لوگوں کا سب سے زیادہ شكرگزارہوگا۔»[4] یہ روایت امام زین العابدینؑ سے مروی ہے۔[5]
  • «مَنْ لَمْ یَشْکُرِ الْمُنْعِمَ مِنَ الْمَخْلُوقِینَ لَمْ یَشْکُرِ اللَّہَ عَزَّ وَ جَل؛ جو شخص لوگوں کی بھلائیوں کا شکر گزار نہیں ہوگا وہ خدائے بزرگ و برتر کا بھی شکرگزار نہیں ہوگا۔»[6] یہ حدیث امام علی رضاؑ سے منقول ہے۔[7]
  • «...فَمَنْ لَمْ يَشْكُرْ وَالِدَيْہِ لَمْ يَشْكُرِ اَللَّہَ تَعَالَى...؛ جس شخص نے اپنے والدین کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا بھی شکریہ ادا نہیں کیا۔»[8] یہ بھی امام رضاؑ سے منقول ہے۔[9]

شکرِِ مخلوق اور شکرِ خالق کے مابین رابطہ

دینی علوم کے محققین مختلف روایات سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ شکر مخلوق اور شکر خالق کے مابین گہرا رابطہ ہے؛ چنانچہ شیعہ مفکر اور مصنف مرتضی مطہری معتقد ہیں کہ انسان اس بنیاد پر کہ اس نے خد اکا شکر ادا کیا ہے دیگر افراد کا جیسے والدین، استاد اور دیگر وہ افراد جنہوں نے اس کے ساتھ بھلائی کی ہے، ان کا شکریہ ادا نہ کرے۔[10] ناصر مکارم شیرازی کے کہنے کے مطابق مخلوق اور خالق کی شکرگزاری کے درمیان تعلق اور رشتہ کی دو طرح سے تفسیر کی جاسکتی ہے:

  • مخلوق کی شکرگزاری نہ کرنا انسان کے ناشکرے ہونے کی نشانی ہے؛ اس صورت میں وہ خالق کا بھی شکر ادا نہیں کرے گا، خاص کر خدا کی نعمتیں اپنی پوری وسعت کے ساتھ ممکن ہے اس انسان کی نظروں سے اوجھل رہے۔
  • مخلوق، بندوں تک خدا کی نعمتوں کے پہنچنے کا ذریعہ ہیں اور نعمتوں کے وسیلہ کا شکر ادا نہ کرنا خالق کے شکرگزاری نہ کرنے کا باعث بنے گا۔[11]

عبد اللہ جوادی آملی نے بھی مخلوق کی شکرگزاری کو ادب کی نشانی اور انسانی وظیفہ سمجھا ہے۔[12] البتہ قرآنیات کے شیعہ محقق سید محمد علی ایازی نے اس مقام پر ایک شرط کا اضافہ فرمایا ہے اور وہ یہ کہ یہ عمل خدا سے غفلت کا باعث نہ بنے۔[13]

اس کے برعکس، شیعہ مفسر محمد جواد مغنیہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ مخلوق کا شکریہ ادا کرنا ایک قابل قدر اور نیک عمل ہے؛ تاہم، جملہ «من لم یشکر المخلوق لم یشکر الخالق» صرف ایک اخلاقی حکم ہے اور اس سے استناد کرتے ہوئے شکر مخلوق اور خالق کے درمیان تعلق اور رابطہ قائم نہیں کیا جاسکتا اور اس بات کا حکم نہیں دیا جاسکتا کہ مخلوق کی شکرگزاری واجب ہے۔[14]

فارسی ادب میں شکر مخلوق و خالق کا تذکرہ

دوسروں کے نیک کام کے مقابلے میں ان کا شکریہ ادا کرنے کے سلسلے فارسی ادب میں بھی تذکرہ ملتا ہے؛ چنانکہ کہ عبد الرحمٰن جامی نے حدیث «مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللہَ» کے بارے میں لکھا ہے:

بہ تو نعمت ز دست ہر کہ رسد؟نِہ بہ میدان شکرگویی، پای
کی بہ شکر خدا قیام کند؟تارکِ شکرِ بندگان خدای[15]

کسی کے ہاتھ تمھیں نعمت ملے تو تمہیں چاہیے کہ میدان عمل میں اس کا شکریہ ادا کرے۔ کون ہے جو خدا کا تو شکر ادا کرے لیکن اس کے بندوں کی شکر گزاری سے غافل ہو؟

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1377شمسی، ج3، ص93۔
  2. غفاری، ترجمہ من لایحضرہ الفقیہ، 1367شمسی، ج6، ص318۔
  3. صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1404ھ، ج4، ص380۔
  4. مکارم شیرازی، گفتار معصومین(ع)، 1387شمسی، ج2، ص200۔
  5. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص99۔
  6. محمدی ری‌شہری، میزان الحکمہ، 1389شمسی، ج6، ص24۔
  7. صدوق، عیون أخبار الرضا (ع)، 1378ھ، ج2، ص24۔
  8. محمدی ری‌شہری، میزان الحکمہ، 1389شمسی، ج6، ص24۔
  9. صدوق، عیون اخبارالرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص258۔
  10. مطہری، آشنایی با قرآن، ج2، 1376شمسی، ص23-24۔
  11. مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ج3، ص463–464۔
  12. جوادی آملی، تفسیر سورہ طور، جلسہ 8، مندرج در سایت اسراء۔
  13. ایازی، تفسیر قرآن مجید برگرفتہ از آثار امام خمینی، 1386شمسی، ج5، ص229۔
  14. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج1، ص239۔
  15. جامی، (6) مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللہَ. (جامع الترمذی)، مندرج در سایت گنجور۔

مآخذ

  • ایازی، محمدعلی، تفسیر قرآن مجید برگرفتہ از آثار امام خمینی، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رہ)، 1386ہجری شمسی۔
  • جامی، عبدالرحمن، (6) مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللہَ. (جامع الترمذی) در رسالہ اربعین، مندرج در سایت گنجور۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر سورہ طور، جلسہ 8، مندرج در سایت اسراء، تاریخ درج 25 بہمن 1395شمسی، تاریخ بازدید 17 فروردین 1404ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی‏، عیون أخبار الرضا (ع)، محقق و مصحح مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی‏، من لایحضرہ الفقیہ‏، قم‏، دفتر انتشارات اسلامی‏، 1404ھ۔
  • غفاری، علی‌اکبر و محمدجواد غفاری و صدرالدین بلاغی، ترجمہ من لایحضرہ الفقیہ، تہران، نشر صدوق، 1367ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، میزان الحکمہ، قم، سازمان چاپ و انتشار دارالحدیث، 1389ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، آشنایی با قرآن (2)، تہران، انتشارات صدرا، 1376ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، ایران، دار الکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق در قرآن، قم، مدرسۃ الإمام علی بن أبی طالب، 1377ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، گفتار معصومین(ع)، تہیہ و تنظیم سید محمد عبداللہ زادہ، قم، مدرسۃ الإمام علی بن ابی طالب، 1387ہجری شمسی۔