حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الْایمانِ، یعنی وطن سے محبت ایمان کا جز ہے، یہ مشہور جملہ حضرت محمدؐ سے منسوب ہے۔ بعض محقق علما جیسے ناصر مکارم شیرازی کے مطابق یہ جملہ قدیم شیعہ منابع حدیثی میں نہیں پایا جاتا ہے۔ بعض علما کی نظر میں یہ ایک جعلی جملہ ہے۔ چھٹی صدی ہجری کے مفسر ابو الفتوح رازی نے اپنی تفسیر "روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن" میں یہ جملہ رسول خداؐ کی طرف منسوب کیا ہے جو آپؐ نے مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کے وقت کہا تھا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وطن سے پیغمبر خداؐ کی مراد شہر مکہ ہے۔

حب الوطن من الایمان
حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الْایمانِ
کوفی سلطانی خط میں حب الوطن کی خطاطی
کوفی سلطانی خط میں حب الوطن کی خطاطی
حدیث کے کوائف
صادر ازپیغمبر خداؐ سے منسوب
اعتبارِ سندمرسل
شیعہ مآخذروض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، اعیان الشیعہ (کتاب)
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل

محققین کے ایک گروہ نے "حب الوطن من الایمان" کے جملہ میں جغرافیائی وطن سے محبت اور ایمان کے باہمی اثر اور تعلق کو قبول نہ کرتے ہوئے لفظ "وطن" کی تاویل کی ہے۔ بعض نے وطن کا مفہوم عظیم اسلامی وطن اور بعض نے جنت کو وطن قرار دیا ہے۔ مسلم عرفاء نے وطن کے مفہوم کو وسعت دیتے ہوئے انسان کے لیے سکون و اطمینان کے حامل مقام کو اصلی وطن قرار دیا ہے اور وہ مقام قرب الہی ہے۔

اہمیت

جملہ "حبُّ الْوطن منَ الايمان"، کا مطلب ہے "وطن سے محبت ایمان کا جز ہے"، یہ ایک مشہور حدیث کے طور پر[1] پیغمبر اکرم ؐ سے منسوب ہے۔[2] لوگوں میں اس جملے کو مقبولیت حاصل ہے اور روز مرہ محاوروں میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے نیز ادیبوں اور شعراء نے اپنی تحریروں میں اس کا ذکر کیا ہے۔[3]

حدیث «حب الوطن من الایمان» کی سند

شیعہ مرجع تقلید ناصر مکارم شیرازی کے مطابق جملہ «حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْایمانِ» شیعہ قدیمی کتب حدیثی میں موجود نہیں ہے۔[4] یہ جملہ مرزبان بن رستم (متوفی: 302ھ) کے عربی ترجمہ مرزبانامہ میں پایا گیا ہے۔[5] مرزبان نامہ کو قدیم ترین ماخذ سمجھا جاتا ہے جس نے مذکورہ جملہ کو حدیث رسول خداؐ کے طور پر بیان کیا ہے۔[6]

بعض متاخرین شیعہ کی تصانیف میں یہ جملہ حدیث مرسل کے عنوان سے ذکر ہوا ہے۔[7] چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر ابو الفتوح رازی نے اپنی تفسیر "روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن" میں یہ جملہ ایک حدیث کی حیثیت سے نبی اکرم ؐ کی طرف منسوب کیا ہے جو آپؐ نے مکہ سے نکل کر مدینہ ہجرت کے وقت کہا تھا اور پیغمبر اکرم ؐ کا لفظ وطن سے مراد شہر مکہ تھا۔[8] شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب سفینۃ البحار میں یہ جملہ شیخ حر عاملی کی "سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار" نامی کتاب کے مقدمے سے نقل کیا ہے۔[9]

ابن عربی اپنی تفسیر کی کتاب ،[10] سید محسن امین اپنی کتاب اعیان الشیعہ [11] اور شارح نہج البلاغہ مرزا حبیب اللہ خوئی[12] نے اس مشہور جملے کو حدیث جانا ہے لیکن ان منابع میں اس کی کسی سند کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق بعض نے اس حدیث کو جعلی قرار دیا ہے۔[13] سید جعفر شہیدی نے بھی اس جملے کو حدیث نہیں مانا ہے۔[14]

مولوی اور سعدی جیسے شعراء نے بھی اپنی نظموں میں اس جملے کو حدیث کے طور پر ذکر کیا ہے۔[15]

سعدیا حب وطن گرچہ حدیثی است صحیحنتوان مرد بہ سختی کہ من آنجا زادم[16]

کہا جاتا ہے کہ بہت سے اہل سنت علماء نے اس حدیث کو جعلی قرار دیتے ہوئے اس کے مندرجات پر اعتراضات کیے ہیں۔[17]

ثبوت

آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق اگرچہ اس حدیث کا معتبر منابع میں ذکر نہیں ملتا ہے لیکن اس کی تائید میں دو دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں:

  • اس حدیث کے مضمون سے ملتا جلتا مضمون کچھ احادیث میں آیا ہے چنانکہحضرت امام علیؑ سے منقول ہے جس میں آپؑ نے فرمایا: «عُمِّرَتِ‏ الْبُلْدَانُ‏ بِحُبِ‏ الْأَوْطَان‏؛ وطن کی محبت سے ہی شہریں آباد ہوجاتے ہیں؛ [18] نیز آپؑ سے منقول ہے: «مِنْ كَرَمِ الْمَرْءِ بُكَاہُ عَلَى مَا مَضَى مِنْ زَمَانِہِ وَ حَنِينُہُ‏ إِلَى‏ أَوْطَانِہ‏؛ انسان کا اس کی زندگی کے گذشتہ لمحات پر گریہ کرنا اور وطن سے محبت کرنا اور اس میں دلچسپی لینا اس کی عظمت کی نشانی ہے۔»[19]
  • وطن سے محبت ایک فطری محبت ہے جو حق شناسی کے جذبے سے پیدا ہوتی ہے اور حق کو جاننا ایمان کی نشانی ہے۔[20]

وطن سے محبت ایمان کا جز ہونے پر اعتراض

محققین کے ایک گروہ نے "حب الوطن من الایمان" کے جملے میں جغرافیائی وطن سے محبت اور ایمان کے تعلق کو قبول نہیں کیا لہذا لفظ "وطن" کی تاویل کی ہے۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ جملہ "حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْایمانِ" میں ظاہری مفہوم کو قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کافر اور منافق بھی اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں جبکہ وہ ایمان سے کوسوں دور ہیں۔ پس وطن سے محبت ان کے ایمان کی علامت نہیں ہو سکتی۔ نیز اگر کسی مومن کی پیدائش کفار کی سرزمین میں ہو اور وہاں پرورش پایے اور اپنے وطن سے محبت کرے تو ایسے وطن سے محبت کرنا ایمان کوئی منطقی بات نہیں ہے۔[21]

شمس تبریزی بھی کہتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں پیغمبر خداؐ کی مراد جغرافیائی وطن نہیں۔ ان کی نظر میں مکہ پیغمبر خدا ؐ کا دنیاوی وطن ہے اور اس سے محبت کا آنحضرتؐ کے ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔[22]

علوم حدیث کے دو محقق اورشیعہ سیرت نگارسید جعفر مرتضیٰ عاملی[23] اور سید مرتضیٰ عسکری کے مطابق اس حدیث میں محبت سے مراد وہ محبت ہے جو اسلام کے بلند مقاصد سے منسلک ہو اور وطن سے مراد عظیم اسلامی وطن ہے، نہ کہ انسان کی پیدائش کی جگہ(یعنی جغرافیائی وطن)۔[24]

«وطن» کی عرفانی تاویل

علما کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ وطن سے مراد جنت ہے۔ اس نظریے کے مطابق مومن دنیا میں اجنبی ہے اور اپنے اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنے وطن(بہشت) کی طرف واپس جانے کا شوق رکھتا ہے۔[25] مسلم عرفاء نے وطن کے مفہوم میں وسعت پید اکرتے ہوئے اس مقام کو جہاں انسان سکون و آرامش کا احساس کرتا ہے[26] حقیقی وطن قرار دیا ہے اور وہ عالم بالا[27] اور حق تعالیٰ کا قُرب ہے[28] اور وہ لوگ جنہوں نے مذکورہ حدیث میں وطن کو زمینی اور جغرافیائی وطن سے تعبیر کیا ہے انہیں باطنی اور قلبی اندھے قرار دیے ہیں کہ دنیا کی محبت ان کے اندھے پن اور بہرے پن کا سبب بنی ہے۔[29] ساتویں صدی ہجری کے صوفی شاعر مولوی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اس معنی کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے اور کہا ہے:

مسکن یار است و شہر شاہ منپیش عاشق این بود حب الوطن [30]
از دم حب الوطن بگذر مایستکہ وطن آن سوست جان این سوی نیست
گر وطن خواہی گذر زان سوی شطاین حدیث راست را کم خوان غلط[31]

شیخ بہائی نے بھی اپنی کتاب "نان و حلوا" میں کچھ اشعار کے ضمن میں وطن سے ملکوتی وطن مراد لیا ہے:

گنج علم «ما ظَہَر مَع ما بَطَن» گفت از ایمان بود حب الوطن
این وطن، مصر و عراق و شام نیستاین وطن، شہریست کان را نام نیست
زانکہ از دنیاست، این اوطان تماممدح دنیا کی کند «خیر الانام»
حب دنیا ہست رأس ہر خطااز خطا کی می‌شود ایمان عطا
ای خوش آنکو یابد از توفیق بہرکاورد رو سوی آن بی‌نام شہر
تو در این اوطان، غریبی ای پسر!خو بہ غربت کردہ‌ای، خاکت بہ سر!
آنقدر در شہر تن ماندی اسیرکان وطن، یکبارہ رفتت از ضمیر
رو بتاب از جسم و جان را شاد کنموطن اصلی خود را یاد کن[32]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، نفحات الولایہ، 1426ھ، ج2، ص145۔
  2. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج17، ص299۔
  3. رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص219۔
  4. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1386شمسی، ج15، ص509؛ رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص219۔
  5. مرزبان بن رستم، مرزبان نامہ، 1997ء، ص178۔
  6. رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص220۔
  7. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1386شمسی، ج15، ص509۔
  8. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج17، ص299۔
  9. قمی، سفینۃ البحار، 1414ھ، ج8، ص524۔
  10. ابن‌عربی، تفسیر ابن‌عربی، 1422ھ، ج2، ص329۔
  11. امین، اعیان الشیعہ، دار التعارف، ج1، ص296۔
  12. ہاشمی خویی، منہاج البراعۃ، 1400ھ، ج21، ص394۔
  13. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1386شمسی، ج15، ص509
  14. شہیدی، شرح مثنوی، 1373شمسی، ج3، ص512۔
  15. مولوی، مثنوی معنوی، 1373شمسی، ص576؛ سعدی، کلیات، 1320شمسی، ص204۔
  16. سعدی، کلیات، 1320شمسی، ص204
  17. رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص221 و 231۔
  18. ابن‌ شعبہ حرانی، تحف العقول، 1404ھ، ص207۔
  19. کراجکی، کنز الفوائد، 1410ھ،‌ ج1، ص94۔
  20. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1386شمسی، ج15، ص509 و 510۔
  21. رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص222۔
  22. مقالات شمس، ج2، ص139، بہ نقل از: شہیدی، شرح مثنوی، 1373شمسی، ج5، ص329۔
  23. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبیؐ، 1426ھ، ج4، ص153 ـ 154۔
  24. رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص223 و 230۔
  25. رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص224 ـ 225۔
  26. قشیری، اربع رسائل فی التصوف، 1389ھ، ص59
  27. شیخ اشراق، رسائل شیخ اشراق، 1375شمسی، ج3، ص462۔
  28. بقلی، شرح شطحیات، 1374شمسی، ص622
  29. خوارزمی، ینبوع الاسرار، 1384شمسی، ج2، ص95
  30. مولوی، مثنوی معنوی، 1373شمسی، ص451
  31. مولوی، مثنوی معنوی، 1373شمسی، ص576
  32. شیخ بہایی، کلیات اشعار و آثار فارسی شیخ بہایی، 1352شمسی، ج1، بخش3، ص10۔

مآخذ

  • ابن‌ شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسولؐ، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • ابن‌ عربی، محیی الدین، تفسیر ابن‌عربی، لبنان، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1422ھ/2001ء۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تحقیق: محمدجعفر یاحقی و محمدمہدی ناصح، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، تحقیق: حسن امین، بیروت، دار التعارف، بی‌تا۔
  • بقلی، روزبہان، شرح شطحیات، بہ تصحیح ہانری کربن، زبان و فرہنگ ایران، تہران، بہار 1374ہجری شمسی۔
  • خوارزمی‏، کمال الدین حسین، ینبوع الأسرار، تہران، انجمن آثار و مفاخر فرہنگی‏، 1384ہجری شمسی۔
  • رحیمی، مرتضی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، دوفصلنامہ حدیث‌پژوہی، شمارہ 12، پاییز و زمستان 1393ہجری شمسی۔
  • سعدی شیرازی، مصلح الدین، کلیات سعدی، تصحیح: محمدعلی فروغی، تہران، چاپخانہ بروخیم، 1320ہجری شمسی۔
  • شیخ اشراق، رسائل شیخ اشراق، تہران، تصحیح: ہانری کربن، سید حسین نصر و نجفقلی حبیبی، مؤسسہ مطالعات و تحقيقات فرہنگى‌، چاپ دوم، 1375ہجری شمسی۔
  • شیخ بہایی، محمد بن حسین، کلیات اشعار و آثار فارسی شیخ بہایی، تہران، کتابفروشی محمودی، 1352ہجری شمسی۔
  • شہیدی، سیدجعفر، شرح مثنوی، تہران، شرکت انتشارات علمی فرہنگی، چاپ اول، 1373ہجری شمسی۔
  • عاملی، سید جعفرمرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظمؐ، قم، دار الحدیث، 1426/1386ہجری شمسی۔
  • قشیری‏، ابوالقاسم عبدالکریم، اربع رسائل فی التصوف‏، بغداد، مطبعۃ المجمع العلمی العراقی، 1389ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار، قم، انتشارات اسوہ،‌ 1414ھ۔
  • کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، قم، دارالذخائر، چاپ اول، 1410ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، نفحات الولایہ، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب(ع)، چاپ دوم، 1426ھ۔
  • مرزبان بن رستم، مرزبان نامہ، ترجمہ: احمد ابن محمد ابن عربشاہ، بیروت، مؤسسۃ الإنتشار العربی، 1997ء۔
  • مولوی، جلال الدین محمد، مثنوی معنوی، بہ کوشش: توفیق ہاشم‌ پور سبحانی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1373ہجری شمسی۔
  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسہ دار الہجرہ، 1414ھ۔
  • ہاشمی خویی، حبیب اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ، تحقیق: ابراہیم میانجی، تہران، مکتبۃ الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1400ھ۔