قاضی نعمان مغربی
فقیہ و قاضی القضات اسماعیلیہ | |
---|---|
کوائف | |
مکمل نام | نعمان بن محمد بن منصور بن احمد بن حیون تمیمی |
لقب/کنیت | قاضی نعمان |
تاریخ ولادت | سنہ 283ھ سے 290ھ کے درمیان |
آبائی شہر | قیروان (موجودہ تیونس) |
تاریخ وفات | 29 جمادی الثانی سنہ 363ھ |
علمی معلومات | |
تالیفات | دعائم الاسلام • مناقب بنی هہاشم • تقویم الاحکام • الاتفاق و الافتراق |
خدمات | |
متفرقات | فقیہ و مصنف |
نعمان بن محمد المعروف قاضی نعمان (283-363ھ) اسماعیلیوں کے برجستہ علما میں سے ہیں۔ وہ حکومت فاطمیون کے دوران قاضی القضات کے سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ قاضی نعمان فاطمیون کے آغاز دعوت ہی سے ان کے ساتھ تھے اور چار فاطمی خلفا کے لیے خدمات انجام دیں۔
قاضی نعمان کے بکثرت قلمی آثار موجود ہیں جو ان کے مختلف میدانوں میں علمی کمال کی علامت ہیں۔ انہوں نے کلام اور فقہ امامیہ کے موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔ دعائم الاسلام، اساس التأویل، المجالس و المسایرات ان کی بعض تالیفات میں شامل ہیں۔
علامہ مجلسی جیسے بعض شیعہ اثنا عشریہ علما کے مطابق قاضی نعمان شیعہ بارہ امامی ہیں جبکہ بعض تاریخی شواہد اور ان کے قلمی آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسماعیلیہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔
تعارف
قاضی نعمان کا اصلی نام نعمان بن محمد بن منصور بن احمد بن حیون تمیمی تھا اور کنیت ابوحنیفہ، جبکہ اسماعیلیہ کے ائمہ انہیں صرف "نعمان" کے نام سے یاد کرتے تھے۔ ان کا نام ان کی کنیت سے زیادہ معروف تھا اور یہ اس لیے تھا کہ ان کی کنیت کے استعمال سے مذہب حنفیہ کے فقیہ ابو حنیفہ کی کنیت سے مشتبہ نہ ہونے پائے۔[1]
ان کے والد ابوعبد الله محمد نے سنہ 351ھ کے ماہ رجب میں 104 سال کی عمر میں وفات پائی اور نعمان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور دروازہ سلم (قیروان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ) می مدفون ہوئے۔[2]
قاضی نعمان کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہے لیکن تاریخی میں مذکور تواریخ میں سے گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ سنہ 283 ھ سے سنہ 290ھ کے درمیانی کسی سال میں پیدا ہوئے ہیں۔[یادداشت 1] ان کی پیدائش اور پرورش "قیروان" (موجودہ تیونس) میں ہوئی ہے۔[3] قاضی نعمان کے خاندان کے بارے میں دقیق معلومات فراہم نہیں ہیں۔ بعض اسماعیلی مصنفین کا خیال ہے کہ ان کے والد بھی اسماعیلی مبلغین میں سے تھے۔[4]
نعمان، فاطمی حکومت کے چار خلفاء (مہدی، قائم، منصور و معز) کے ہم عصر تھے اور ان کی خدمت کی[5] اور سنہ 363ھ[6] مورخہ 29 جمادی الثانی[7] یا یکم رجب[8] کو وفات پائے۔
مقام
المعز لدین اللہ (فاطمیوں کا چوتھا خلیفہ) کا قاضی نعمان کے بارے میں یہ قول نقل کیا گیا ہے: "اگر کوئی قاضی نعمان کی کامیابی کا سوواں حصہ بھی حاصل کر لے تو میں اس کے لیے بہشت کی ضمانت دوں گا۔ خدا کی طرف سے۔" میں کرتا ہوں"[9] ناصر خسرو (پانچویں صدی ہجری کے اسماعیلی شاعر اور مفکر) نے بھی اپنے اشعار میں قاضی نعمان کی تعریف کی ہے۔[10] مستعلی طیبی اسماعیلی (اسماعیلیہ کی ایک شاخ) کے پیروکار قاضی نعمان کے قلمی آثار کو اپنے ائمہ کے علمی آثار کے بعد سب سے اہم مذہبی ماخذ مانتے ہیں۔[11] قاضی نعمان کی بہت سے تالیفات موجود ہیں جو کلام امامیہ اور فقہ امامیہ کے بارے میں ان کی علمی مہارت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ آصف فیضی نے دعائم الاسلام کے دیباچے میں ان کے بارے میں لکھا ہے: "قاضی نعمان کے پاس بہت سی عطائے الہی تھی۔ ان کے پاس بہت زیادہ علم تھا اور وہ وسیع معرفت کا مالک تھا، وہ تحقیق و جستجو کرنے والا شخص تھا اور اس نے بہت سی کتابیں لکھیں۔"[12] ابن خلکان نے بھی کتاب اخبار قضات مصر سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
- "قاضی نعمان بن محمد انتہائی نیک انسان تھے، وہ قرآن اور اس کے معانی سے آشنا تھے، وہ فقہ کی جہتوں اور فقہاء کے اختلافات سے بخوبی واقف تھے۔ وہ لغت، مضبوط شاعری اور لوگوں کی تاریخ جانتے تھے۔ اس سب میں وہ ماہر اور منصف تھے۔ انہوں نے اہل بیتؑ کے بارے میں بہترین اور خوبصورت انداز میں ہزاروں صفحات پر مشتمل کتابیں لکھیں۔ انہوں نے مناقب اور مثالب کے بارے میں اچھی کتاب لکھی۔ نیز مخالفین کے رد میں بھی بکثرت کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور ابن سریج وغیرہ کے رد میں مظالب موجود ہیں۔[13]
سیاسی سماجی سرگرمیاں
قاضی نعمان نے فاطمی حکومت میں قاضی القضات کی حیثیت سے اہم سرکاری فرائض انجام دیے۔ وہ فاطمیوں کی دعوت کے آغاز سے ہی ان کے ساتھ تھے اور انہوں نے چار فاطمی خلفاء کی خدمت کی۔ قاضی نعمان کی تصانیف کو فاطمی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں اہم عوامل سمجھا جاتا ہے۔[14] قاضی نعمان کی اپنی کتابوں المجالس اور المسایرات میں موجود مطالب کی بنیاد پر ان کی خدمات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ:
- سنہ 313 ھ سے سنہ 322ھ تک وہ عبید الله فاطمی اور القائم بالله تک خبریں پہنچانے کی ذمہ داری ان پر تھی۔ احتمال یہی ہے کہ یہ ذمہ داری محض خدمت یا نگہہ داشتی کی حیثت کی تھی۔
- سنہ 322 ھ سے سنہ 334ھ میں فاطمی حکومت کے دوسرے خلیفہ القائم بامر اللہ کے دور میں میں بھی قاضی اسی ذمہ داری کو انجام دیتا تھا اوراسماعل کے بیٹے قائم کے لیے کتابوں کی نسخہ برداری بھی کرتے تھے۔
- سنہ 334ھ سے 341 ھ تک جب اسماعیل فاطمی حکومت کا تیسرا خلیفہ بنا اور اس نے لقب المنصور باللہ حاصل کیا تو قاضی نعمان کو قضاوت کا منصب دیا گیا۔ وہ خود کہتے ہیں: ’’میں پہلا شخص تھا جس جسے قاضی کا عہدہ دیا گیا، میری بلند نامی ہوئی اور مجھے مقام و مرتبہ حاصل ہوا۔
- سنہ 334ھ سے 337ھ تک منصور نے انہیں طرابلس کا قاضی منصوب کیا۔
- سنہ 341 ھ میں چوتھے فاطمی خلیفہ المعز لدین اللہ کے دور میں نعمان کی عظمت و شوکت میں اضافہ ہوا؛ کیونکہ نعمان کا ان کے ساتھ ان کی خلافت سے پہلے ہی گہرا تعلق تھا۔ "جو بات میں منصور باللہ تک پہنچانا چاہتا تھا، اسے سب سے پہلے المعز لدین اللہ کے سامنے پیش کرتا تھا اگر وہ بات اس کی رائے کے ساتھ سازگار ہوتی تو میں اسے انجام دیتا تھا اور جو وہ پسند نہیں کرتا تھا اسے چھوڑ دیتا تھا۔"' نعمان کی جانب سے معز کی بے چون و چرا پیروی نے اس کے لیے فاطمی حکومت میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کی راہ ہموار کی اور اسے اسماعیلی فکر کے عظیم لوگوں میں سے ایک بنا دیا۔
قاضی نے بھی اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس دوران اپنی کئی کتابیں شائع کیں۔
مذہب
نعمان کی مذہب کے سلسلے میں سب سے زیادہ مشہور قول یہ ہے کہ آغاز میں وہ مالکی مذہب تھا اس کے بعد اسماعیلی فرقہ اپنایا۔ اس کے باوجود اس کے مذہب کے بارے میں متعدد اقوال بتائے گئے ہیں:
فاطمیون کی خلافت سے پہلے
مالکی: اس قول کو ابن خلکان نے پیش کیا ہے اور بعض دیگر علما جیسے علامہ مجلسی، فرہاد دفتری وغیرہ نے اسے انتخاب کیا ہے۔
اسماعیلی: بعض اسماعیلی مصنفین جیسے اسماعیل پوناوالا نے دعوا کیا ہے کہ وہ شروع سے ہی اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ انہوں نے دوسرے مذاہب کو اس کی طرف منسوب کرنے کو بعید جانا ہے۔[16]
حنفی: ابن تغری بردی نے ایک نادرست استدلال [یادداشت 2] کرتے ہوئے کہا ہے کہ نعمان حنفی المذہب تھا۔ معاصر محققین میں سے ہدی روگر ادریس[17] جیسے محقق بھی ابن تغری بردی کے ہم نظر ہے۔[18]
فاطمیون کو حکومت ملنے کے بعد
اسماعیلی: تمام اسماعیلی علما قاضی نعمان کو اپنے بڑے علماء میں سے مانتے ہیں اور بڑی شان سے ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔ نیز بارہویں صدی ہجری کی بعض شیعہ شخصیات کی بھی ایسی ہی رائے تھی۔ کہتے ہیں کہ ان میں سے قدیم ترین عالم ابن شہر آشوب ہیں[19] اور بعد کے زمانے میں مقدّس اردبیلی جیسے بعض کا بھی یہی نظریہ تھا۔[20] علمائے متاخرین میں سے آیت اللہ سید علی حسینی سیستانی[21] اور سید موسی شبیری زنجانی جیسے کچھ فقہاء نے بھی یہی رائے قبول کی ہے۔ بہت سے اہل سنت دانشوروں جیسے ذہبی اور عسقلانی وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔
دوازدهامامی: بعض بارہ امامی علماء نے قاضی نعمان کو بارہ کا شیعہ اثنا عشریہ سمجھا ہے۔ علامہ مجلسی، سید بحرالعلوم، محدث نوری، عبد اللہ مامقانی، شیخ عباس قمی، آقا بزرگ تہرانی اور دیگر علما نے اس قول کا انتخاب کیا ہے۔ [22]
قلمی آثار
قاضی نعمان کی ایک برجستہ خصوصیت یہ ہے کہ وہ تالید و تصنیف کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ بکثرت تالیفات کے بموجب قاضی نعمان حکومت فاطمیون کے فعال مصںفین میں شمار ہوتے ہیں۔[23] بلکہ اسماعیلیوں کے معاصر محقق اسماعیل پوناوالا نے انہیں اسماعیلیوں میں کثیر التالیف شخصیات میں سے قرار دیا ہے۔[24] عارف تامر نے ان کے قلمی آثار کی فہرست یوں بیان کی ہے:
- دعائم الاسلام
- الایضاح
- مختصر الایضاح
- الاخبار
- الینبوع
- الاقتصار
- الاتفاق و الافتراق
- المقتصر
- العقیدۃ المنتخبہ
- مختصر الآثار
- یوم و لیلۃ
- الطهارة
- کیفیۃ الصلوات
- منہاج الفرائض
- نہج السبیل إلی معرفہ التأویل
- اساس التأویل
- تأویل دعائم الاسلام
- حدود المعرفۃ
- التوحید و الامامۃ
- اثبات الحقائق
- کتاب فی الإمامۃ
- القصیدة المختارة
- التعاقد و الانتقاد
- الدعاء
- الهمۃ فی آداب اتباع الأئمہ
- الحلی و الشباب
- شرح الأخبار
- قصیدة ذات المنن
- قصیدة ذات المحن
- مناقب بنی هاشم
- المجالس و المسایرات
- افتتاح الدعوة
- تأویل الرؤیا
- مفاتیح النعمۃ
- تقویم الاحکام
- سیرة الائمۃ[25]
حوالہ جات
- ↑ قاضی نعمان، کتاب المجالس و المسایرات، 1996ء، ص6.
- ↑ ابن خلکان، وفیات الاعیان، 1997ء، ج5، ص416.
- ↑ زرکلی، الاعلام، 2002ء، ج8، ص41.
- ↑ جوان آراسته، «قاضی نعمان و مذهب او»، ص49.
- ↑ زرکلی، الاعلام، 2002ء، ج8، ص41.
- ↑ کندی، ولاة و قضاة مصر، ص586.
- ↑ ادریس عماد الدین، عیون الاخبار، ج6، ص287.
- ↑ ابن مُیَسّر، المنتقی من أخبار مصر، ص165
- ↑ ادریس عماد الدین، تاریخ الخلفاء الفاطمیین بالمغرب: القسم الخاص من کتاب عیون الأخبار، 1985ء، ص569.
- ↑ دفتری، الإسماعیلیون؛ تاریخهم و عقائدهم، 2014ء، ص349.
- ↑ پوناوالا، سیر تاریخی آثار قاضی نعمان، 1401ہجری شمسی، ص24.
- ↑ قاضی نعمان، دعائم الاسلام، 1963ء، ص11.
- ↑ ابن خلکان، وفیات الاعیان، 1997ء، ج5، ص416.
- ↑ شبیری زنجانی، کتاب حج، مرکز فقهی امام باقر (ع)، ج2، ص119؛ جوان آراسته، «قاضی نعمان و مذهب او»، ص51.
- ↑ جوان آراسته، «قاضی نعمان و مذهب او»، ص51 – 52؛ نقل از: مقدمۀ شرح الاخبار، ج1، ص20 - 23.
- ↑ پوناوالا، «سیرتاریخی آثار قاضی نعمان» (بخش نخست)، ص8.
- ↑ Hady roger Idris
- ↑ پوناوالا، «سیرتاریخی آثار قاضی نعمان» (بخش نخست)، ص8.
- ↑ ابن شهرآشوب، معالم العلماء، ص126. برای آگاهی از این که ابن شهرآشوب قدیمیترین ایشان بوده، بنگرید: پوناوالا، «سیرتاریخی نگاه امامیه به قاضی نعمان و آثار او»، ص7.
- ↑ جوان آراسته، «قاضی نعمان و مذهب او»، ص60.
- ↑ سيستانی، قاعدة لا ضرر و لا ضرار، ص63.
- ↑ جوان آراسته، «قاضی نعمان و مذهب او»، ص59 – 64.
- ↑ جوان آراسته، «قاضی نعمان و مذهب او»، ص52.
- ↑ پوناوالا، «سیرتاریخی آثار قاضی نعمان»، 1401ش، ص4.
- ↑ عارف تامر، تاریخ الاسماعیلیة، 1991ء، ج2، ص192.
یادداشت
- ↑ قاضی نعمان، کتاب المجالس و المسایرات، 1996ء، ص6؛ البتہ محمد کامل حسین نے ان کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں مختلف احتمالات ذکر کرنے ے بعد سنہ 259ھ کو ترجیح دی ہے۔ ملاحظہ کیجیے: مقدمۀ الهمۃ فی آداب اتباع الائمہ، ص5؛ محمد کام حسنین نے ہی اپنی کتاب فی ادب مصر الفاطمیہ میں قاضی کی تواریخ پیدائش کےبارے میں شک و تردید کی ہے اور کسی ایک کا انتخاب کرنے سے گریز کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے: فی ادب مصر الفاطمیه، ص64۔
- ↑ ان کا استدلال یہ ہے کہ اس دوران وہاں کے اکثر لوگوں کا مذہب حنفی تھا حالانکہ تحقیق کے مطابق اس زمانے میں اکثر کا مذہب مالکی تھا۔ ملاحظہ کیجیے: پوناوالا، «سیر تاریخی آثار قاضی نعمان (بخش نخست)»، ص8۔
مآخذ
- ابن خلکان، احمد بن محمد، وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، تحقیق احسان عباس، بیروت، دارصادر، 1997ء۔
- ادریس عماد الدین، تاریخ الخلفاء الفاطمیین بالمغرب: القسم الخاص من کتاب عیون الأخبار، تصحیح محمد یعلاوی، بیروت، دار الغرب الإسلامی، 1985ء۔
- پوناوالا، اسماعیل قربان حسین، «سیر تاریخی آثار قاضی نعمان (بخش نخست)»، ترجمه، نقد و تعلیقات محمد عافی خراسانی، میراث شهاب، ش107، بهار 1401ہجری شمسی۔
- جوان آراسته، امیر، «قاضی نعمان و مذهب او»، هفت آسمان، شماره 9و 10، بهار و تابستان 1380۔
- شبیری زنجانی، موسی، کتاب حج (تقریرات درس)، قم، مرکز فقهی امام محمد باقر (ع)، قم، بیتا۔
- سيستانى، على، قاعدة لا ضرر و لا ضرار، قم، دفتر آيتالله سيستانى، 1993ء۔
- تامر، عارف، تاریخ الاسماعیلیة، لندن – قبرس، ریاض الریس للکتب و النشر، 1991ء۔
- قاضی نعمان، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، تحقیق: آصف بن علی اصغر فیضی، قاهره، دارالمعارف، 1963ء۔
- قاضی نعمان، نعمان بن محمد، المجالس و المسایرات، تحقیق حبیب الفقی، ابراهیم شبوح و محمد یعلاوی، بیروت، دارالمنتظر، 1996ء۔
- کندی، یوسف، ولاة و قضاة مصر، تصحیح: رُووِن گِست، لیدن، بریل، 1912ء۔
- ادریس عماد الدین، ادریس بن حسن، عیون الأخبار، تصحیح یوسف صفار فطّوم، دمشق، مؤسسۀ فرانسیس دو پروچه اوریِنت، 2008ء۔
- ابن میسّر، محمد بن علی، المنتقی من أخبار مصر، تصحیح ايمن فؤاد سيّد، قاهره، مؤسسۀ فرانسیس دارچئولوژیه اورینتال (بنیاد فرانسوی میراث شرقی)، 1981ء۔
- دفتری، فرهاد، الاسماعیلیون؛ تاریخهم و عقائدهم، تعریب: سیف الدین القصیر، بیروت، دار الساقی، 2014ء۔
- زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دارالعلم للملایین، چاپ پانزدهم، 2002ء۔