اُطلُبوا العِلمَ مِنَ المَهدِ إلَی اللَّحْدِ ایک عربی عبارت ہے جو حدیث نبویؐ کے نام سے مشہور ہے جس کا ترجمہ "علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک" ہے۔

عبارت «اُطلُبوا العِلمَ مِنَ المَهدِ إلَی اللَّحْدِ» کی خوشخطی خط ثلث جلی میں، خطاط: ماجد الزہدی، سنہ 1372ھ

اگرچہ شیعہ اور اہل‌ سنت کے کسی معتبر حدیثی منابع میں یہ عبارت موجود نہیں ہے لیکن اس کے مضامین صحیح ہیں اور بعض احادیث اسی مضامین کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔

اس عبارت کی شہرت اس قدر ہے کہ اس کا منظوم ترجمہ «ز گہوارہ تا گور دانش بجوی» ایران کے اکثر تعلیمی اور تربیتی مراکز میں منقوش ہے۔ اس شعر کو ابو القاسم فردوسی کی شاعری قرار دی جاتی ہے لیکن محققین اسے قبول نہیں کرتے ہیں۔

حدیث‌ ہونے کا مسئلہ

گذشتہ صدیوں کے بہت سارے مصنفین نے عبارت «اُطلُبوا العِلمَ مِنَ المَهدِ إلَی اللَّحْدِ» کو رسول اکرمؐ کی حدیث کے عنوان سے نقل کئے ہیں۔ ایرانی مصنف اور مترجم ابو القاسم پایندہ نے اپنی کتاب نہج‌ الفصاحہ میں اسے پیغمبر اکرمؐ کے کلمات قصار یعنی مختصر کلام [1] اور خواجہ نصیرالدین طوسی نے اپنی کتاب آداب‌المتعلّمین میں اس عبارت کو «اَثَرُ الْمعروف» (مشہور حدیث) کے نام سے یاد کیا ہے۔[2]

ان کے علاوہ فیض کاشانی،[3] حاجی خلیفہ (گیارہویں صدی ہجری کے مورخ)،[4] اور تفسیر روح‌ البیان کے مصنف حقّی بروسوی[5] نے بھی اس عبارت کے حدیث ہونے کی تصریح کی ہے۔

اس درمیان بعض محققین کا خیال ہے کہ انہوں نے اس عبارت کو حدیثی منابع میں نہیں دیکھا[6] جبکہ بعض نے تصریح کی ہے کہ اس طرح کی کوئی عبارت حدیثی منابع میں نہیں ہے اور جن مصنفین نے اسے حدیث قرار دیا ہے ان کے موقف کو غیر محققانہ قرار دیا ہے۔[7]

مضمون

اگرچہ اس عبارت «اُطلُبوا العِلمَ مِنَ المَهدِ إلَی اللَّحْدِ» کے حدیث ہونے کے بارے میں مناقشات موجود ہیں لیکن اس کا مضمون اور محتوا اشکال سے خالی ہے اور معتبر منابع میں بعض احادیث موجود ہیں جن کا مضمون اس عبارت کے مضمون سے مشابہ ہے۔ امام کاظمؑ نے امام علیؑ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں مؤمن کی ایک صفت یوں بیان کرتے ہیں: «مؤمن اپنی پوری زندگی میں علم حاصل کرنے سے سیر نہیں ہوتا۔»[8]

 
ایران کے ایک سکول کی دیوار پر عبارت «ز گہوارہ تا گور دانش بجوی» منقوش ہے

یہ عبارت فارسی ادب میں

عبارت «اُطلُبوا العِلمَ مِنَ المَهدِ إلَی اللَّحْدِ» کی پیامبر اکرمؐ کی طرف نسبت اتنا مشہور ہے کہ ایک فارسی نظم میں یوں آیا ہے:[9]

چہ خوش گفت پیغمبر راستگویز گہوارہ تا گور دانش بجوی
سچے نبی نے کیا خوب فرمایا کہ ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرو

اور سالوں سال سے ایران کے تعلیمی اور تربیتی مراکز اور سکولوں کی دیوار پر اس عبارت یا اس کا منظوم ترجمہ منقوش چلا آرہا ہے۔[10]

اس شعر کے دوسرے مصرع کو لغت‌ نامہ دہخدا میں لفظ گور کے ذیل میں سعدی کی طرف نسبت دی گئی ہے؛[11] لیکن الفاظ کی مضبوطی اور فردوسی کے شاہنامہ کے ساتھ شعری قافیے میں مطابقت کی وجہ سے عام مصنفین اسے فردوسی کی نظموں میں سے ایک سمجھتے ہیں۔[12]

ان تمام باتوں کے باوجود انجام شدہ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شعر کو ایران کے پرانے شاعروں کی طرف دینے والی نسبت صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ شعر سنہ 1315ہجری شمسی میں کہی گئی ہے۔[13]

حوالہ جات

  1. پایندہ، نہج الفصاحہ، 1382ہجری شمسی، ص218۔
  2. نصیرالدین طوسی، آداب المتعلّمین، 1416ھ، ص112۔
  3. فیض کاشانی، الوافی، 1406ھ، ج1، ص126۔
  4. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، بی‌تا، ج1، ص51۔
  5. حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، بی‌تا، ج5، ص274۔
  6. منتظری، از آغاز تا انجام در گفتگوی دو دانشجو، 1388ہجری شمسی، ص29۔
  7. جمعی از نویسندگان، دانش‌نامہ عقاید اسلامی، 1385ہجری شمسی، ج3، ص15؛ ری شہری، العلم و الحکمۃ فی الکتاب و السّنۃ، 1422ھ، ص218 و 219۔
  8. کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص19۔
  9. فہندژسعدی، «آگاہی‌ہای تازہ دربارۂ «ز گہوارہ تا گور دانش بجوی» و سرایندۂ آن»، ص150۔
  10. فہندژسعدی، «آگاہی‌ہای تازہ دربارۂ «ز گہوارہ تا گور دانش بجوی» و سرایندۂ آن»، ص150۔
  11. حکمت شیرازی، «یادداشت‌ہایی از عصر پہلوی: آموزش بزرگسالان»، ص734–739
  12. ناطقی بلخابی، «نقش حدیث در غنای ادب فارسی»، ص140؛ جمعی از نویسندگان، دانش نامہ عقاید اسلامی، 1385ہجری شمسی، ج3، ص14۔
  13. فہندژسعدی، «آگاہی‌ہای تازہ دربارۂ «ز گہوارہ تا گور دانش بجوی» و سرایندۂ آن»، ص150۔

مآخذ

  • پایندہ، ابو القاسم، نہج الفصاحۃ، تہران، دنیای دانہجری شمسی، 1382ہجری شمسی۔
  • جمعی از نویسندگان، دانش‌نامہ عقاید اسلامی، قم، انتشارات دارالحدیث، 1385ہجری شمسی۔
  • حاجی خلیفہ، مصطفی بن عبداللہ، کشف الظنون عن أسامی الکتب و الفنون، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ اول، بی‌تا۔
  • حکمت شیرازی، علی‌اصغر، یادداشت‌ہایی از عصر پہلوی: آموزش بزرگسالان، در مجلہ وحید، شمارہ 184، مہر 1354ہجری شمسی۔
  • حقی بروسوی، اسماعیل، تفسیر روح البیان، بیروت، دارالفکر، بی‌تا۔
  • ری شہری، محمد، العلم و الحکمۃ فی الکتاب و السّنۃ، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی‌دار الحدیث، سازمان چاپ و نشر، 1422ھ۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام أمیر المؤمنین علیؑ، چاپ اول، 1406ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، تہران، 1407ھ۔
  • فہندژسعدی، حمیدرضا، آگاہی‌ہای تازہ دربارۂ «ز گہوارہ تا گور دانش بجوی» و سرایندۂ آن، شعرپژوہی، شمارہ 2، تابستان 1400ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، از آغاز تا انجام در گفتگوی دو دانشجو، تہران، گواہان، 1388ہجری شمسی۔
  • ناطقی بلخابی، محمدحسن، نقش حدیث در غنای ادب فارسی، سفیر، شمارہ 1، 1386ہجری شمسی۔
  • نصیرالدین طوسی، محمد بن محمد، آداب المتعلّمین، تحقیق سید محمدرضا حسینی جلالی، شیراز، کتابخانہ مدرسہ علمیہ امام عصر(عج)، چاپ اول، 1416ھ۔