حدیث العُلماءُ وَرَثۃُ الأنبِیاء کو امام جعفر صادقؑ نے رسول خداؐ سے نقل کیا ہے۔ اس حدیث میں علمائے دین کو انبیاء کے وارث کے طور پر تعارف کرایا گیا ہے۔ حدیث کا مجموعی مضمون علم و عالم کی برتری کے بارے میں ہے۔ اس روایت میں علم سے مراد اخروی علوم (عقائد، اخلاق اور شرعی احکام) ہیں اور علماء سے مراد دینی علما ہیں۔

حدیث العلماء ورثۃ الانبیاء
حدیث العلماء ورثۃ الانبیاء
حدیث کے کوائف
موضوعرتبہ علم و عالم
صادر ازپیغمبر اسلام و امام جعفر صادقؑ
شیعہ مآخذبصائر الدرجات، کافی، اَمالی صدوق
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل

یہ بھی کہا گیا ہے کہ "ورثۃ" سے مراد علم و دانش کی وراثت ہے اور "انبیاء" سے مراد وہ انبیاء ہیں جو مستقل دین اور کتاب کے حامل تھے۔ محمد تقی مجلسی (متوفی: 1071ھ) کے مطابق علما انبیاء کی نبوت کے نقطہ نظر سے ان کے علم کے وارث ہیں اور یہ اس بات کے منافی نہیں کہ انبیاء نے بھی مادی لحاظ سے بھی میراث چھوڑی ہے۔ بعض فقہاء نے اس روایت سے ولایت فقیہ کے اثبات کے لیے استناد کیا ہے۔

یہ حدیث قدیم شیعہ اور سنی مآخذ حدیثی جیسے بصائر الدرجات، الکافی، سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد وغیرہ میں نقل ہوئی ہے۔

حدیث کا رتبہ اور اس کی سند

حدیث "العُلماء وَرَثۃُ الأنبِیاء" کو امام جعفر صادقؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے جس میں علما کو وارث انبیاء کے طور پر تعارف کیا گیا ہے۔[1] بعض فقہاء جیسے امام خمینی اور حسین علی منتظری نے اس حدیث فقیہ کی ولایت ثابت کی ہے[2] اور معاشرے کی قیادت اور رہبری کو انبیاء کی حیثیتیوں میں سے شمار کیا ہے اور علما انبیاء کے وارث ہونے کے ناطے یہ حیثیتیں ان میں منتقل ہونگی۔[3]

یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے قدیمی منابع حدیثی میں نقل ہوئی ہے۔[4] شیعہ محدثین میں سے صَفّار قمی (متوفیٰ: ۲۹۰ھ) نے اپنی کتاب بَصائرُالدرجات میں،[5] کلینی (متوفیٰ: ۳۲۹ھ) نے کافی میں [6] اور شیخ صدوق (متوفیٰ: ۳۸۱ھ) نے اپنی کتاب "اَمالی"[7] میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

اسی طرح اہل سنت محدثین میں سے ابن‌ ماجہ (متوفیٰ: ۲۷۳ھ)،[8] اَبوداود(متوفیٰ: 275ھ)،[9] تِرمذی(متوفیٰ: 279ھ)[10] اور ابن‌ حِبان(متوفیٰ:354ھ)[11] نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔


مضمون حدیث

حدیث "العُلماء وَرَثۃُ الأنبِیاء" کتاب کافی میں دو سلسلہ سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے: پہلی سند میں قداّح ہے[12] جسے موثّق شمار کیا گیا ہے[13] اور دوسری سند میں ابو البختری ہے۔[14] اس کے ضعیف ہونے کے باوجود[15] بعض علما نے اس کے مضمون حدیث کو قبول کیا ہے۔[16] قداح نے حدیث کے مضمون کو امام جعفر صادقؑ (امام صادقؑ نے اسے رسول خدا سے نقل کی ہے) سے یوں نقل کیا ہے:[17]
مَنْ سَلَکَ طَرِیقاً یَطْلُبُ فِیهِ عِلْماً سَلَکَ اللَّهُ بِهِ طَرِیقاً إِلَی الْجَنَّةِ وَ إِنَّ الْمَلَائِکَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِهِ وَ إِنَّهُ یَسْتَغْفِرُ لِطَالِبِ الْعِلْمِ مَنْ فِی السَّمَاءِ وَ مَنْ فِی الْأَرْضِ حَتَّی الْحُوتِ فِی الْبَحْرِ وَ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَی سَائِرِ النُّجُومِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ وَ إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیَاءَِ إِنَّ الْأَنْبِیَاء لَمْ یُوَرِّثُوا دِینَاراً وَ لَا دِرْهَماً وَ لَکِنْ وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ مِنْهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِر (ترجمہ: جو شخص علم حاصل کرنے کی راہ میں قرار پائے گا اللہ اسے بہشت میں لے جائے گا، بتحقیق فرشتے اس کام سے خوش ہوکر طالب علم کے لیے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں، اہل آسمان اور زمین یہاں تک کہ سمندر میں موجود مچھلیاں طالب علم کے لیے طلب مغفرت کرتی ہیں۔ عالم کو عابد پر ایسی فضیلت ہے جیسے چودہویں کے چاند کو باقی ستاروں پر فضیلت ہے۔ علما انبیاء کے وارث ہیں؛ کیونکہ پیغمبران الہی درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑتے؛ بلکہ علم وراثت میں چھوڑتے ہیں۔ پس جس نے ان کے علم سے استفادہ کیا اس نے بکثرت اپنا حصہ پالیا ہے۔)

حدیث کے بعض الفاظ کا تحقیقی جائزہ

حدیث "العُلماء وَرَثۃُ الأنبِیاء" میں علما کو وارثان انبیائے الہی قرار دیے گئے ہیں۔[18] مرزائے نائینی (متوفیٰ: ۱۳۱۵شمسی) نے احتمال دیا ہے کہ حدیث میں لفظ «العلماء» سے مراد ائمہ معصومینؑ ہیں؛[19] لیکن بعض دیگر علما کے مطابق «العلماء» سے مراد دینی علوم حاصل کرنے والے علما ہیں۔[20] سید محمد صادق روحانی (متوفیٰ: ۱۴۰۱شمسی) کا کہنا ہے کہ حدیث میں حصول علم کو ثواب کا کام قرار دیا گیا ہے یہ اس بات پر قرینہ ہے کہ «العلماء» سے مراد علمائے دین ہیں اور اس سے مراد ائمہ معصومینؑ لینا بعید ہے۔[21]

اس حدیث میں انبیاء سے مراد وہ پیغمبران الہی ہیں جن کے پاس مستقل دین اور کتاب تھی۔[22] کہتے ہیں مستقل دین اور کتاب کے حامل انبیاء حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیؑ، حضرت عیسیؑ اور حضرت محمدؐ ہیں۔[23] شیعہ فقیہ اور محدث فیض کاشانی (متوفیٰ: ۱۰۹۱ھ) علما کو پیغمبران الہی کے روحانی فرزند سمجھتے ہیں۔ علما ان سے روحانی غذا یعنی علم و دانش ارث میں لیتے ہیں۔[24]

کیا پیغمبران الہی ارث نہیں چھوڑتے ہیں؟

حدیثِ "العلماء ورثۃ الانبیاء" میں یہ جملہ بھی آیا ہے کہ پیغمبران خدا درہم و دینار ارث میں نہیں چھوڑتے ہیں؛ بلکہ ان کی میراث علم و دانش ہے اسی وجہ سے علما ان کے وارث ہیں۔[25] شیعہ فلسفی اور عارف ملا صدرا (متوفیٰ: ۱۰۵۰ھ) کے عقیدے کے مطابق پیغمبران الہی نبوت کے لحاظ سے مادی میراث کے حامل نہیں ہیں نہ کہ بالکل طور پر کوئی میراث نہ چھوڑے۔[26]

شیعہ محدثین میں سے محمد تقی مجلسی (متوفیٰ: ۱۰۷۱ھ) کا عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ چیزیں جو پیغمبران الہی کو ملتی ہیں وہ علم و حکمت ہیں۔ لہٰذا وہ اسی کو وراثت میں چھوڑتے ہیں اور ان کے وارث علماء ہیں۔[27] ان کا مزید کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی تضاد نہیں کہ انبیاء جسمانی طور پر بھی میراث کے حامل ہوں؛ یہی وجہ ہے کہ اہل بیتؑ روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے رسول خداؐ کے وارث تھے۔[28]

علم و عالم کی برتری

امام خمینی کے مطابق مجموعی طور پر حدیثِ "العلماء ورثۃ الانبیاء" سے معلوم ہوتاہے کہ یہ حدیث علم کی فضیلت اور علم و عالم کی برتری کے بارے میں ہے۔[29] کلینی نے بھی اپنی کتاب الکافی میں اس حدیث کو عالم و متعلم کے ثواب کے باب میں ذکر کیا ہے۔[30]

امام خمینی نے کتاب چہل حدیث میں علم کو حصول علم کے ہدف کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیوی اور اخروی علم میں تقسیم کیا ہے اور کہا ہے کہ اگرچہ ہر قسم کا علم انسان کے لیے باعث کمال اور شرف ہے،[31] لیکن اس حدیث میں علم سے مراد اخروی و دینی علم ہے۔[32] انہوں نے معرفت خدا (عقاید)، تہذیب نفس (اخلاق) اور آداب و سنن (احکام) کو اخروی علوم قرار دیے ہیں اور یہی علوم روز آخرت سعادت و کامیابی کا باعث ہیں۔[33]

حوالہ جات

  1. منتظری، مبانی فقهی حکومت اسلامی، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۲۵۷-۲۵۸۔
  2. خمینی، ولایت فقیه، ۱۴۲۳ھ، ص۹۶ و ۹۸؛ منتظری، نظام الحکم فی الإسلام ، ۱۴۱۷ھ، ص۱۵۷؛ مکارم شیرازی، أنوار الفقاهه، ۱۴۲۵ھ، ص۴۶۶۔
  3. خمینی، ولایت فقیه، ۱۴۲۳ھ، ص۱۰۱ و ۱۰۲۔
  4. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۲ و ۳۴؛ ابن‌ ماجه، سنن ابن‌ ماجه، دار إحیاء الکتب العربیة، ج۱، ص۸۱۔
  5. صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۱۰ و ۱۱۔
  6. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۲ و ۳۴۔
  7. شیخ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۶۰۔
  8. ابن‌ ماجه، سنن ابن‌ ماجه، دار إحیاء الکتب العربیة، ج۱، ص۸۱۔
  9. أبو داود، سنن أبی داود، المکتبة العصریة، ج۳، ص۳۱۷۔
  10. ترمذی، سنن ترمذی، ۱۹۹۸ء، ج۴، ص۳۴۶۔
  11. ابن‌ حَبّان، صحیح ابن‌حبان، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۲۸۹۔
  12. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۴۔
  13. مکارم شیرازی، أنوار الفقاهه، ۱۴۲۵ھ، ص۴۶۶۔
  14. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۲۔
  15. مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۱۰۳۔
  16. مازندرانی، شرح الکافی،۱۳۸۲ھ، ج۲، ص۲۹۔
  17. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۴۔
  18. منتظری، مبانی فقهی حکومت اسلامی، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۲۵۷-۲۵۸۔
  19. نائینی، منیة الطالب، ۱۳۷۳ھ، ج۱، ص۳۲۶۔
  20. قزوینی، الشافی، ۱۴۲۹ھ، ج۱، ص۲۹۳؛ خمینی، ولایت فقیه، ۱۴۲۳ھ، ص۹۸
  21. روحانی، فقه الصادق(ع)، ۱۴۱۲ھ، ج۱۶، ص۱۷۶۔
  22. قزوینی، الشافی، ۱۴۲۹ھ، ج۱، ص۲۹۳۔
  23. قزوینی، الشافی، ۱۴۲۹ھ، ج۱، ص۲۹۳۔
  24. فیض کاشانی، الوافی، ۱۴۰۶ھ، ج۱، ص۱۴۲۔
  25. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۲ و ۳۴۔
  26. ملا صدرا، شرح أصول الکافی، ۱۳۸۳ھ، ج۲، ص۴۱۔
  27. مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۱۰۳۔
  28. مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۱۰۳۔
  29. امام خمینی، شرح چهل حدیث، ۱۳۸۰شمسی، ص۴۱۲۔
  30. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۴۔
  31. مازندرانی، شرح الکافی،۱۳۸۲ھ، ج۲، ص۵۴۔
  32. امام خمینی، شرح چهل حدیث، ۱۳۸۰شمسی، ص۴۱۲۔
  33. امام خمینی، شرح چهل حدیث، ۱۳۸۰شمسی، ص۴۱۲۔

مآخذ

  • ابو داود، سلیمان بن الأشعث، سنن أبی داود، تحقیق: محمد محیی الدین، بیروت، المکتبة العصریة، بی‌تا۔
  • ابن‌ حبان، محمد، صحیح ابن‌ حبان، تحقیق: شعیب الأرنؤوط، بیروت، مؤسسة الرسالة، چاپ دوم، ۱۴۱۴ھ۔
  • ابن‌ ماجه، محمد بن یزید، سنن ابن‌ ماجه، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، دار إحیاء الکتب العربیة، بی‌جا، بی‌تا۔
  • امام خمینی، روح ‏الله، شرح چهل حدیث، قم، موسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ ۲۴، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن ترمذی تحقیق: بشار عواد، بیروت، دار الغرب الإسلامی، ۱۹۹۸ء۔
  • خمینی، سید روح‌ اللّٰه، ولایت فقیه، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، چاپ دوازدهم، ۱۴۲۳ ھ۔
  • روحانی، سید صادق، فقه الصادق(ع)، قم، مدرسة الامام الصادق(ص)، چاپ سوم، ۱۴۱۲ھ۔
  • شیخ صدوق، الامالی، تهران، کتابچی، چاپ ششم، ۱۳۷۶ہجری شمسی۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد صلّی الله علیهم، تحقیق و تصحیح: محسن کوچه باغی،‏ قم، مکتبة آیة الله المرعشی النجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد محسن، الوافی، اصفهان، کتابخانه امام أمیرالمؤمنین(ع)، چاپ اول، ۱۴۰۶ھ۔
  • قزوینی، ملا خلیل، الشافی فی شرح الکافی، مصحح: درایتی، محمدحسین‏، قم، دارالحدیث،‏ چاپ اول، ۱۴۲۹ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مازندرانی، محمد صالح، شرح الکافی، تصحیح: ابو الحسن شعرانی، تهران، المکتبة الاسلامیه، چاپ اول، ۱۳۸۲ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تصحیح: سید هاشم رسولی محلاتی، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، أنوار الفقاهه (کتاب البیع)، قم، انتشارات مدرسة الإمام علی بن أبی طالب(ع)، چاپ اول، ۱۴۲۵ھ۔
  • ملاصدرا، محمد بن ابراهیم، شرح أصول الکافی، تصحیح: محمد خواجوی، تهران، مؤسسه مطالعات و تحقیقات فرهنگی‏، چاپ اول، ۱۳۸۳ھ۔
  • منتظری، حسین‌ علی، مبانی فقهی حکومت اسلامی، قم، مؤسسه کیهان، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
  • منتظری، حسین‌ علی، نظام الحکم فی الإسلام، قم، نشر سرایی، چاپ دوم، ۱۴۱۷ھ۔
  • نائینی، محمد حسین، منیة الطالب فی حاشیة المکاسب، تهران، المکتبة المحمدیة، چاپ اول، ۱۳۷۳ھ۔