اَحادیث طینَت سے مراد وہ احادیث ہیں جن میں باایمان لوگوں کو طینت عِلّیّین(طینت یعنی گیلی مٹی اور عِلّیّین یعنی خوشبودار اور خوشگوار مادہ) سے خلق کیے جانے اور کافروں کو طینت سِجّین(بدبودار اور ناخوشگوار مادہ‌) سے خلق کیے جانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ احادیث لوگوں کے ایمان و کفر یا اطاعت و نافرمانی میں طینت کے موثر کردار کو بیان کرتی ہیں۔ نیز ان احادیث میں مرتبہ طینت کے دوران انسان کے مکلف قرار پانے اور اس سے امتحان لیے جانے کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ اس امتحان میں اصحاب یمین کی کامیابی میں اطاعت اور اصحاب شمال کی ناکامی میں ان کی نافرمانی کا ذکر ملتا ہے۔

احادیث طینت
احادیث طینت
حدیث کے کوائف
موضوعمومنین و کافروں کی تخلیق میں بنیادی مادے کے مابین فرق
صادر ازامام زین العابدینؑ، امام محمد باقرؑ، امام جعفر صادقؑ
دوسرے رواتابو حمزہ ثمالی، زرارہ بن اعین، ابن محبوب
اعتبارِ سندمتواتر
شیعہ مآخذالکافی، علل الشرائع، محاسن برقی
اہل سنت مآخذالدر المنثور، جامع البیان، تفسیر القرآن العظیم
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل

شیعہ مشہور علما احادیث طینیت کو متواتر سمجھتے ہوئے ان کو اجمالی طور پر قبول کرتے ہیں؛ لیکن سید مرتضی اور علامہ شعرانی جیسے علما احادیث طینت کو خبر واحد قرار دیتے ہوئے انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں۔

احادیث طینت کا نظریہ جبر و اختیار اور عدل الہی کے ساتھ بظاہر تضاد اور ناسازگاری کے بموجب یہ مسئلہ علم الحدیث کے مشکل ترین مباحث میں سے شمار ہوتا ہے۔ علم حدیث پر تحقیق کرنے والے شیعہ محققین نے ان احادیث کو ماننے، یا ان کو رد کرنے اور دیگر دینی تعلیمات کے ساتھ ان کو سازگار کرنے کی کیفیت کے لحاظ سے مختلف نظریات اپنائے ہیں۔ اجمالی طور پر ان نظریات کو یوں بیان کر سکتے ہیں: حذف کا نظریہ، نظریہ سکوت اور تاویلی نظریہ۔

اہمیت اور پس منظر

احادیث طینیت ان روایات کا مجموعہ ہیں جو انسانی تخلیق کے بنیادی مادے کی یکسانیت کی نفی کرتی ہیں۔ ان احادیث میں طینت علیین نامی خوش بودار اور خوشگوار مادے سے مومن کی تخلیق اور بدبودار اور ناگوار مادے سے کافر کی تخلیق کا ذکر ملتا ہے۔[1] ان احادیث کے مضامین میں انسانی مادہ تخلیق کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض میں نور و ظلمت اور بعض میں بہشت و جہنم کا ذکر ملتا ہے۔ شیعہ حدیثی کتب میں سے المحاسن،[2] بصائر الدرجات،[3] الکافی،[4] علل الشرایع[5] اور بحار الانوار[6] میں مختلف تعبیریں استعمال ہوئی ہیں۔ اہل سنت کے بعض منابع حدیثی میں بھی احادیث طینت کو نقل کیا گیا ہے۔[7]

احادیث طینت میں بنیادی طور پر اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانوں کے لیے پہلے سے طے شدہ تقدیر وسرنوشت موجود ہے۔ یہ مطلب ان آیات اور روایات کے خلاف سمجھا جاتا ہے جو انسانوں کی تقدیر کو ان کے اعمال کا نتیجہ سمجھتی ہیں۔[8] جیسا کہ سب سے پہلے یہ چیز بیان کی گئی ہے کہ مذکورہ احادیث کا بظاہر نظریہ جبر واختیار اورعدل الہی کے ساتھ تضاد پایا جاتا ہے۔[9] چنانکہ اسی تضاد اور عدم مطابقت نے اس مسئلے کو درایۃ الاحادیث میں مشکل ترین موضوعات میں شمار کیا ہے۔[10]

احادیث طینت پر بحث کرنے والے اکثر علماء نے سب سے پہلے طینت کے معنی بیان کیے ہیں؛ آقا جمال خوانساری اپنی شرح احادیث طینت میں لکھتے ہیں کہ طینت سے مراد وہ جوہر ہے جس سے انسانی نفس کی تخلیق ہوئی ہے۔[11] امام خمینی کے مطابق طینت، انسانی خلقت کا وہ اہم مادّہ ہے جو انسانی زندگی میں ان کے اعمال و رفتار میں متجلی ہوتا ہے۔[12]

حدیث کے مندرجات

طینت سے متعلق مختلف احادیث میں انسانوں کی مختلف قسموں کا ذکر کیا گیا ہے؛ مثال کے طور پر بعض احادیث میں لوگوں کو مومنوں اور کافروں میں تقسیم کیا گیا ہے، دوسری بعض احادیث میں مومنوں، ناصبیوں اور مستضعفین(فکری پسماندہ لوگ) میں فرق کیا گیا ہے اور بعض دیگر احادیث طینت میں مومنوں اور کافروں کی مخلوط طینت کا ذکر آیا ہے۔

مؤمن و کافر: طینت سے متعلق بعض روایات کے مطابق انسانوں کے دو گروہ ہیں، ایک گروہ مومنین کا اور دوسرا گروہ کافروں کا ہے، مومنین انبیاء و ائمہؑ کی طینت (طینت علیین و بہشت) سے پیدا ہوئے ہیں اور کافر آگ یا جہنم کی طینت سے پیدا ہوئے ہیں۔

مؤمن، ناصبی اور فکری پسماندہ: ایک دوسری تقسیم میں طینیات کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ گروہ مومنین، ناصبی اور فکری پسماندہ:

  • پہلی قسم انبیاء اور مومنین کی طینت ہے، اس فرق کے ساتھ کہ انبیاء کی طینت برگزیدہ اور منتخب طینیت ہے اور مومنین کی طینیت اسی کا فرع ہے۔(طین لازب)
  • دوسری قسم ناصبیوں کی طینیت ہے جن کو «حمإ مسنون»(سڑا ہوا گارا جس میں بو پیدا ہوگئی ہو) سے خلق کیا گیا ہے۔
  • تیسری قسم فکری پسماندہ لوگوں کی طینت ہے جن کو ’’تراب‘‘ سے پیدا کیا گیا ہے۔

ان روایات کے مطابق ائمہ معصومینؑ اور شیعوں کی ایک ہی طینت ہونے کی وجہ سے ان کے دل ائمہؑ کی طرف مائل ہوتے ہیں اور کافروں کے دل اہل بیتؑ کے دشمنوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔[13]

مومنوں اور کافروں کی مخلوط طینت: احادیث طینت کا ایک اور گروہ مومنوں اور کافروں کی مخلوط طینت پر دلالت کرتا ہے۔ ان روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے طینت علیین اور طینت سجین کو پیدا کرنے کے بعد ان دونوں کو آپس میں مخلوط کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مومن کبھی گناہ کرتا ہے اور کافر کبھی نیک کام کرتا ہے اور اسی بنا پر آخر کار مومن کی تمام برائیاں کافروں کے اعمال کی طرف پلٹ جاتی ہیں اور کافر کی تمام نیکیاں مؤمن کے اعمال کی طرف پلٹ جاتی ہیں۔[14]

اصحاب یمین اور اصحاب شمال: طینت کے مسئلہ میں اور بھی روایات موجود ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ اصحابِ یمین اور اصحابِ شمال کو ابتدائی طینت سے نکالا گیا ہے۔ اس بنا پر خدا نے طینت آدم کی تخلیق کے بعد اصحابِ یمین اور اصحابِ شمال کو اس طینت سے ذرات کی شکل میں نکال کر آگ میں داخل ہونے کا حکم دیا جسے اصحابِ یمین نے قبول کر کے اپنے آپ کو آگ میں ڈال دیا، لیکن اصحاب شمال نے نافرمانی کی۔[15]

ان روایات میں لوگوں کے ایمان و کفر یا انسانوں کی اطاعت و نافرمانی کی تشکیل میں انسان کی طینت کو کارگر قرار دیا گیا ہے اور مرتبہ طینت میں مکلف قرار پانے اور ان کے امتحان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ نیز امتحان الہی میں اطاعت اصحابِ یمین اور عصیان اصحابِ شمال کا ذکر بھی آیا ہے۔ مخلوقات سے خدا کی ربوبیت، رسول خدا(ص) کی نبوت اور اہل بیتؑ کی ولایت کا عہد لیا جانا ان روایات میں مندرج دیگر موضوعات میں سے ہیں۔[16]

احادیث کا سلسلہ سند اور اعتبار

احادیث طینت کے سلسلہ سند اور اعتبار کے سلسلے میں مشہور رائے یہ ہے کہ یہ احادیث متواتر اور معتبر ہیں، البتہ سید مرتضی اور ابو الحسن شعرانی جیسے علماء نے مذکورہ احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے:

  • مشہور شیعہ علماء جن میں شیخ حر عاملی، محدث جزائری، علامہ شبر، آقا جمال خوانساری شامل ہیں، احادیث طینت کو متواتر سمجھتے ہیں۔[17] شیخ حر عاملی احادیث طینت کی کثرت کو تواتر کی حد سے تجاوز کرنے کا سبب سمجھتے ہیں۔[18] محدث جزائری نے ان احادیث کو ضعیف سمجھنے والوں کے جواب میں کہا ہے کہ ہمارے فقہاء نے ان احادیث کو بہت سی سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے، اس لیے ان کے رد و انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔[19]
  • سید مرتضیٰ اور ابو الحسن شعرانی[20] جیسے علماء ان روایات کے سلسلہ سند کو اس لیے ضعیف سمجھتے ہیں کہ یہ احادیث خبر واحد ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مذکورہ روایات چونکہ مسلمہ عقلی مباحث اور آیات قرآنی کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں لہذا ان کو رد کیا جانا چاہیے۔[21]

نظریات: مکمل مسترد کرنے سے لیکر تأویلی قبول کرنے تک

علمائے حدیث اور شیعہ علماء نے ان احادیث کو رد کرنے یا قبول کرنے اور ان روایات کو دیگر دینی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کے بارے میں متعدد نظریات اپنائے ہیں؛ علامہ مجلسی نے مرآۃ العقول[22] میں پانچ قول نقل کیے ہیں اور سید عبد اللہ شبر نے مصابیح الانوار[23] میں نو قول نقل کیے ہیں۔ مذکورہ روایات کے رد کرنے، ان کے سلسلے میں سکوت اختیار کرنے اور نظریہ تاویل جیسے تین عمومی اقسام موجود ہیں:

تاویلی نظریات

بہت سے شیعہ علماء نے احادیث طینت کے صدورکو قبول کرتے ہوئے ان احادیث کا عرفانی، فلسفیانہ اور کلامی تجزیے اور تفسیر کی ہے۔[24] بعض تاویلی نظریات یہ ہیں:

  • علم الٰہی سے استناد: اس نظریے کے مطابق اختلافِ طینت ایمان اور کفر کے تابع ہے، اس کے برعکس نہیں؛ کیونکہ خدا اپنے علم کے مطابق جانتا ہے کہ کون ایمان لائے گا اور کون کافر ہوگا، اس لیے اس نے ان کی خلقت میں ان کے ساتھ اسی طرح برتاؤ کیا اور طالب خیر کو پاک طینت سے اور طالب شر کو ناپاک طینت سے خلق کیا ہے۔ ملا صالح مازندرانی اور سید عبد اللہ شبر اسی نظریے کے قائل ہیں۔[25] حسن بن سلیمان حلی کے مطابق، انسانوں کے مستقبل کے بارے میں خدا کے علم کی وجہ سے اس نے انہیں مختلف نوعیتوں کی بنیاد پر تخلیق کیا۔[26]
  • عالم ذر میں اطاعت یا نافرمانی کا اثر: اس نظریے کے مطابق طینتوں میں اختلاف عالم ذر میں آزمائش کے نتیجے میں اطاعت و نافرمانی کے زیر اثر ہے۔ اس بنا پر خدا نے اطاعت کرنے والوں کے لیے نیک طینت اور نافرمانی کرنے والوں کے لیے بُری طینت بنائی ہے۔[27]
  • طینت کا انسانی سعادت و شقاوت پر اجمالی اثر: علامہ طباطبائی کے نزدیک انسان کی سعادت و شقاوت کا براہ راست تعلق اس کی طینت سے ہے، لیکن مکمل اور علیت تامہ کی صورت میں نہیں۔ ان کی رائے کے مطابق تربیت انسان کے اخلاق و رفتار کی تشکیل میں کارگر ہے؛ اسی وجہ سے ان کے خلق و خو کی تخلیق میں طینت کا اثر یقینی نہیں ہے۔ اس بنا پر احادیث طینیت کو قبول کرنے اور انسان کے اختیار کے درمیان کوئی تعارض و تضاد نہیں ہے، بلکہ طینت علت ناقصہ اور ایک کمزور سبب کی حیثیت رکھتی ہے اور انسان کی سعادت و شقاوت اس کے اختیاری اعمال کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہیں۔[28]

احادیث طینت کا رد

 
کتاب "شرح احادیث طینت" کی تصویر، قلمی اثر: آقا جمال خوانساری
  • ابو الحسن شعرانی نے شرح اصول کافی مازندرانی میں لکھا ہے کہ احادیث طینت امامیہ مذہب کے عدل اور قاعدہ لطف جیسے اصولوں کے خلاف ہیں نیز ان روایات کے بھی خلاف ہیں جو باب فطرت میں بیان ہوئی ہیں۔[یادداشت 1] اس لیے انہیں رد کر دینا چاہیے اور یہ استناد کے قابل نہیں ہیں۔[29]
  • بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ غالیوں نے ائمہؑ اور دوسرے انسانوں کی تخلیق کے درمیان فرق کو ظاہر کرنے کے لیے ان احادیث کو اپنی طرف سے گھڑی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سندی کمزوری کی وجہ سے ان کو رد کر دینا چاہیے۔[30]
  • بعض محققین کا خیال ہے کہ احادیث طینت تقیہ پر مبنی احادیث ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق چونکہ روایات کا ظاہر جبر پر دلالت کرتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ شیعہ ائمہؑ نے حکومت کے گھٹن ماحول میں شیعوں کی جان بچانے کے لیے یہ احادیث بیان کی ہوں۔[31]

نظریہ سکوت

علامہ مجلسی نے احادیث طینت متشابہ اور مشکل احادیث میں شمار کیا ہے، جن پر حد سے زیادہ بحث و تمحیص نہین کرنی چاہیے۔ ان کے نزدیک ہماری عقل ان احادیث کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس لیے ہم ان احادیث کے مندرجات کو تعبداً قبول کرتے ہیں اور ان کا تحلیل و تشریح خود ائمہؑ پر چھوڑ دیتے ہیں۔[32] علوم حدیث کے دانشورعبد الہادی مسعودی کے مطابق، عقیدہ سے مربوط کچھ احادیث جیسے احادیث طینت، سعادت اور جبر و اختیار«صعب مستصعب»(بہت مشکل)احادیث میں سے ہیں، جن کو سمجھنے کے لیے عام فہم سے زیادہ فہم کی ضرورت ہے۔[33]

مونوگراف

  • شرح احادیث طینت:‌آقا جمال خوانساری نے اس کتاب کو فارسی زبان میں تحریرکیا ہے۔ مصنف نے اس میں دس احادیث طینت کے بارے میں بحث کی ہے۔ اس کتاب کوعبد اللہ نورانی نے "نہضت زنان مسلمان" نامی پبلشرز نے سنہ 1980ء میں شائع کیا ہے۔[34] انہوں نے اس کتاب کی وجہ تصنیف کو احادیث طینت کی کج فہی بیان کی ہے اور ان احادیث کے صدور کو قبول کیا ہے۔[35]

حوالہ جات

  1. رضوانی و ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، ص47-48۔
  2. برقی، المحاسن، 1371ھ، ج1، ص132-135 و 282-283۔
  3. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص14-18 و 171۔
  4. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص2-7۔
  5. صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص82-84 و116-117۔
  6. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج5، 152-161۔
  7. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج3، ص150؛ ابن ابی‌ حاتم، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج2، ص627؛ سیوطی، الدر المنثور، 1404ھ، ج2، ص15۔
  8. محمودی و حسینی،‌ «دیدگاہ علامہ طباطبایی پیرامون احادیث طینت در تبیین شعادت و شقاوت انسان»، ص78۔
  9. شبر، مصابیح الانوار، 1371شمسی، ج1، ص35۔
  10. امام خمینی، مصباح الہدایہ، 1373شمسی، ص110۔
  11. آقا جمال خوانساری، شرح احادیث طینت، 1359شمسی، ص17۔
  12. امام خمینی، طلب و ارادہ، 1362شمسی، ص160۔
  13. رضوانی و ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، ص47-48؛ غلامی و ذاکری، «طینت و عدل الہی»، ص112-114۔
  14. کریمی و داوری، «تحلیل احادیث طینت از منظر فقہ الحدیث»، ص67-68۔
  15. رضوانی و ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، ص49-52۔
  16. غلامی و ذاکری، «طینت و عدل الہی»، ص112-114۔
  17. فدایی و موسوی، «تحلیل احادیث طینت و رابطہ آن با اختیار انسان»، ص94-95۔
  18. حر عاملی، الفصول المہمہ، 1418ھ، ج1،‌ ص420۔
  19. جزایری، الانوار النعمانیہ، 1429ھ، ج1، ص212۔
  20. جزایری، الانوار النعمانیہ، 1429ھ، ج1، ص212۔
  21. صالح مازندرانی، شرح اصول کافی، 1382شمسی، ج4، ص8؛ شبر، مصابیح الانوار، ج1، ص11۔
  22. مجلسی، مراۃ العقول، 1404، ج7، ص15۔
  23. شبر، مصابیح الانوار، 1371شمسی، ج1، ص35-39۔
  24. غلامی و ذاکری، «طینت و عدل الہی»، ص116۔
  25. مازندرانی، شرح اصول کافی، 1382ھ، ج8، ص5؛ شبر، مصابیح الانوار، ص38۔
  26. حلی، مختصر البصائر، 1421ھ، ص384۔
  27. شبر، مصابیح الانوار، ص38۔
  28. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج8، ص98-99۔
  29. مازندرانی، شرح اصول کافی، 1429ھ، ج8، ص4-5۔
  30. مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، 1389شمسی، ص70۔
  31. شبر،‌ مصابیح الانوار، 1371شمسی، ج1، ص36۔
  32. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج5، ص260۔
  33. مسعودی، آسیب‌شناسی حدیث، 1389شمسی، ص281۔
  34. خوانساری، شرح احادیث طینت، 1359شمسی، ص3۔
  35. خوانساری، شرح احادیث طینت، 1359شمسی، ص8۔

نوٹ

  1. اس نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے بعض معاصر مفکرین نے بعض دینی متون کا حوالہ دیتے ہوئے یہ عقیدہ اختیار کیا ہے کہ تمام انسانوں کے مابین فطریات مشترک ہونےکے ساتھ ہر انسان کی اپنی انفرادی فطرت بھی ہو سکتی ہیں؛ جیسا کہ ہر انسان، اس امتحان کی وجہ سے جو اس نے عالم ذر میں دیا، اس کی ایک خاص طینت اور فطری خلقیات کا مالک ہے۔(برنجکار، «فطرت در احادیث»، 1384شمسی)

مآخذ

  • ابن‏ ابى‌ حاتم، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، ریاض، مکتبۃ نزار مصطفى الباز، 1419ھ۔
  • آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح احادیث طینت، تہران، نہضت زنان مسلمان، 1359ہجری شمسی۔
  • آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح آقا جمال خوانسارى بر غرر الحکم و درر الکلم‏، تہران، دانشگاہ تہران، 1366ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، روح‌ اللہ، طلب و ارادہ، تہران، انتشارات علمی، 1362ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، روح‌ اللہ، مصباح الہدایہ الی الخلافہ و الولایہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1386ہجری شمسی۔
  • برقى، احمد بن محمد، المحاسن، محقق جلال‌الدین محدث، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1371ھ۔
  • برنجکار، رضا، «فطرت در احادیث»، مجلہ قبسات، شمارہ 36، تابستان 1384.
  • جزایری، سید نعمت اللہ، الانوار النعمانیہ، بیروت، دار القاری، 1429ھ۔
  • حرعاملی، محمد بن حسن، الفصول المہمۃ فی أصول الأئمۃ(تکملۃ الوسائل)، قم، مؤسسہ امام رضا، 1418ھ۔
  • حلی، حسن بن سلیمان، مختصر البصائر، تحقیق مشتاق مظفر، قم، موسسہ نشر اسلامی، 1421ھ۔
  • رضوانی، معصومہ و مہدی ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، در مجلہ پژوہش‌ہای فلسفی-کلامی، شمارہ 69، 1395ہجری شمسی۔
  • ذہنی تہرانی، محمدجواد، ترجمہ علل الشرایع، قم، انتشارات مومنین، 1380ہجری شمسی۔
  • سیوطى، عبدالرحمن بن ابى‏‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • شبر، عبداللہ، مصابیح الأنوار فی حل مشکلات الأخبار، قم، بصیرتی، 1371ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتابفروشی داوری، 1385ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ع)، تحقیق محسن کوچہ باغی، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفہ، 1412ھ۔
  • غلامی، مہدی و اصغر ذاکری، «طینت و عدل الہی»،در مجلہ تحقیقات کلامی، شمارہ3، 1392ہجری شمسی۔
  • فدایی اصفہانی، مرتضی و سید مجتبی موسوی، «تحلیل احادیث طینت و رابطہ آن با اختیار انسان» در پژوہش‌نامہ علوم حدیث تطبیقی، شمارہ 5، 1395ہجری شمسی۔
  • کریمی، محمود و روح‌اللہ داوری، «تحلیل احادیث طینت از منظر فقہ الحدیث»، در مجلہ حدیث‌پژوہی، شمارہ 18، 1396ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مازندرانى، محمد صالح بن احمد، شرح الکافی- الأصول و الروضۃ، تہران، المکتبۃ الاسلامیۃ، 1382ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیا التراث العربی، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول‏، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1404ھ۔
  • محمودی، زہرا و محمد رنجبرحسینی، «دیدگاہ علامہ طباطبایی پیرامون احادیث طینت در تبیین سعادت و شقاوت انسان»، در مجلہ کتاب و سنت، شمارہ 6، 1394ہجری شمسی۔
  • مدرسی طباطبایی، سید حسین، مکتب در فرآیند تکامل، تہران، نشر کویر، 1389ہجری شمسی۔
  • مسعودی، عبد الہادی، آسیب‌شناسی حدیث، قم، انتشارات زائر، 1389ہجری شمسی۔