حدیث رفع

ویکی شیعہ سے
حدیث رفع
حدیث رفع
حدیث کے کوائف
موضوعامت محمدیہ سے بعض چیزوں میں رفع قلم کا حکم
صادر ازامام جعفر صادقؑ، امام رضاؑ
اعتبارِ سنداختلافی
شیعہ مآخذمحاسن، کافی وغیرہ
قرآنی تائیداتآیہ 286 سورہ بقرہ
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


حَدیث رَفْع حضرت محمد (ص) سے منقول ان روایات کا مجموعہ ہے جن میں امت محمدی سے بھول چوک، اجبار و اضطرار جیسے موارد میں ان کے مرفوع القلم ہونے اور ان سے عقاب اٹھائے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔

احادیث رفع مختلف تعابیر اور مصادیق کے ساتھ امام جعفر صادقؑ اور امام رضاؑ سے نقل کی گئی ہیں۔ رفع قلم سے کیا مراد ہے؟ اس کے بارے میں مختلف احتمالات دیے گئے ہیں؛ ان میں سے چند یہ ہیں: بعض کہتے ہیں کہ ان موارد سے حکم شرعی کو اٹھایا گیا ہے، بعض کا کہنا ہے اس عمل کا ظاہری اثر اٹھایا گیا ہے، بعض کے نزدیک تمام آثار اور کچھ کے نزدیک دنیاوی یا اخروی سزا کا حکم اٹھایا گیا ہے۔

اصول فقہ کے دانشور حضرات حدیث میں موجود جملہ «ما لا یعلمون» (جو وہ نہیں جانتے) سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کچھ نادانستہ غلطیوں یا مجبوری کی حالت وغیرہ میں مکلف انسان سے ظاہری طور پر حکم کو اٹھایا جاتا ہے، یعنی شرعی طور پر فی الحال وہ بری الذمہ ہے یا یہ معنی ہیں کہ اس طرح کے موقعوں پر احتیاط کرنا واجب نہیں ہے۔

فقہاء نے ان احادیث کی مقبولیت (شہرت فتوائی) اور تواتر کی وجہ سے ان کو معتبر جانا ہے اور ان احادیث کے سندی اعتراضات سے صرف نظر کیا ہے۔

حدیث رفع کو سورہ بقرہ کی آخری آیت میں نبی اکرم(ص) کی اس درخواست پر خدا کی طرف سے جواب سمجھا گیا ہے جس میں آنحضرت(ص) نے اپنی امت سے بھول چوک یا نادانستہ غلطی وغیرہ میں مبتلا ہو جانے کی صورت میں ان سے عذاب الہی کے اٹھایے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

تعارف اور اہمیت

حدیث رفع کو رسول خدا(ص) کی جانب سے نقل کی گئی ہے جس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے 9 چیزوں کو امت محمدیہ سے اٹھا لیا ہے۔[1]

اصول فقہ میں اس حدیث کے جملہ "مالایعلمون" سے اصل برائت(بری الذمہ ہونے) کا قانون اخذ کیا جاتا ہے جسے برائت شرعی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ حدیث علمائے اصول کی توجہ کا مرکز قرار پائی ہے اور انہوں نے اس کے بارے میں مختلف آراء پیش کی ہیں۔[2] انہوں نے اس حدیث کے دوسرے جملات کو جملہ "مالایعلمون" کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے استعمال کیا ہے۔[3] یہ حدیث اخباریوں کے اس دعوے کے برخلاف بھی ہے جس میں وہ شبہ حکمیہ تحریمیہ کے موقع پر اصالۃ الاحتیاط کا قانون جاری کرتے ہیں۔[4]

احادیث رفع مختلف تعبیرات کے معمولی فرق کے ساتھ (بعض اوقات رفع کے بجائے وضع یا موضوع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے) اور رفع کی تعداد میں اختلاف کے ساتھ (ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ، یہاں تک کہ بعض تعبیرات میں 9 چیزوں کے اٹھائے جانے سے متعلق) امام جعفر صادقؑ سے اور ایک مورد میں امام رضاؑ سے نقل ہوئی ہیں۔[5] بعض محققین کے مطابق چونکہ علمائے اصول کے نزدییک اعداد مفہوم نہیں رکھتیں(اور خود عدد مد نظر نہیں) اس لیے ان احادیث کی مختلف تعبیروں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔[6] حدیث رفع کے مجموعہ روایات بعض تعبریں "رفع" کے ساتھ جبکہ دوسری بعض تعبیروں میں "وضع"، "تجاوز" اور ان جیسی تعبیریں مستعمل ہوئی ہیں۔[7]" "رُفِعَ" اس حدیث کے جملات کا پہلا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اٹھانا اور یہ حدیث رفع کے نام سے مشہور ہوئی ہے۔ ہر مورد میں رفع کا کیا مطلب ہے اور ہر مورد میں حقیقتاً کیا چیز رفع کی جاتی ہے؟ فقہاء کے مابین اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔[8]

اس حدیث میں لفظ "عن امتی" اور رفع حکم کو نبی مکرم (ص) کی امت کے ساتھ مختص کیے جانے سے فقہاء نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بھول چوک وغیرہ کی صورت میں حکم کا اٹھایا جانا امت محمدی کے حق میں ایک قسم کا احسان اور ان کے لیے ایک قسم کی آسانی ہے جو سابقہ امتوں میں نہیں تھی۔[9] اس کے علاوہ بعض علما نے اس حدیث کو سورہ بقرہ کی آخری آیت میں پیغمبر خدا (ص) کی اس درخواست کا جواب سمجھا ہے جس میں آنحضرت(ص) نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کو بھول چوک، لغزش و گناہ، حسد اور جبر اکراہ کی صورت میں حکم شرعی کے حوالے سے بری الذمہ قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔[10]

متن و ترجمہ

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یحْیی الْعَطَّارُ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ یعْقُوبَ بْنِ یزِیدَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِیسَی عَنْ حَرِیزِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ صقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) رُفِعَ عَنْ‌ أُمَّتِی‌ تِسْعَةٌ الْخَطَأُ وَ النِّسْیانُ وَ مَا أُکرِهُوا عَلَیهِ وَ مَا لَا یعْلَمُونَ‌ وَ مَا لَا یطِیقُونَ وَ مَا اضْطُرُّوا إِلَیهِ وَ الْحَسَدُ وَ الطِّیرَةُ وَ التَّفَکرُ فِی الْوَسْوَسَةِ فِی الْخَلْقِ‌ مَا لَمْ ینْطِقْ بِشَفَةٍ. ترجمه:امام جعفر صادقؑ نے حضرت محمد(ص) نے روایت کی ہے کہ میری امت کے 9 قسم کے لوگ مرفوع القلم ہیں: غلطیاں اور بھول چوک، جن کو مجبور کیا گیا ہو، جن چیزوں کو وہ نہیں جانتے، جن کو انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتے، جو چیزوں ان کی ضرورت ہو، حسد، بدشگونی، لوگوں سے متعلق شکوک و شبہات یہاں تک کہ وہ انہیں زبان پرنہ لائے۔[11]

حسد

شیخ انصاری کہتے ہیں کہ حدیث رفع کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ حسد کا مواخذہ نہیں ہوگا جبکہ یہ معنی بہت سی آیات اور روایات کے خلاف ہیں۔[12] شیخ انصاری بعض روایات کو نقل کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ حدیث رفع میں حسد سے مراد حسد قلبی ہے یعنی وہ حسد جو انسان کے دل میں ہو اور اس کا عملی مظاہرہ نہ کیا جائے۔[13] ان کے نزدیک وہ حسد گناہان کبیرہ میں سے ہے جس کا اظہار کیا جائے نہ کہ وہ حسد جو صرف انسان کے دل تک محدود ہوتا ہے۔[14]

بدشگونی

بدشگونی کا مطلب ہے نحوست کا تصور کرنا۔ شیخ انصاری اس کے بارے میں کہتے ہیں: الطیرۃ کا لفظ "طیر" سے ماخوذ ہے جس کے معنی پرندے کے ہیں، بدشگونی کو الطیرہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کی عورتیں زیادہ تر پرندوں کو نحوست کی علامت سمجھتی تھیں، خاص طور پر کوے کو۔[15] انہوں نے حدیث رفع میں "رفع الطیرہ" کو اس کی سزا کا رفع ہونا یا رفع اثر معنی لیا ہے۔[16] ایک روایت میں الطیرہ (بدشگونی) کو شرک اور توکل کو تباہ کرنے والا سبب قرار دیا گیا ہے۔[17]

مخلوقات کے بارے میں وسواسی ہوکر فکرکرنا

شیخ انصاری نے "وسوسۃ فی الخلق" میں رفع تفکر کے بارے میں دو احتمال پیش کیا ہے: یہاں تفکر سے مراد یا تفکر فی الخالق ہے یا تفکر فی المخلوق۔ شیخ انصاری نے اس سلسلے میں چھ قسم کی روایتوں کو نقل کرنے کے بعد دعوا کیا ہے کہ تفکر فی الخالق حرام ہے۔[18] ان کی نظر میں "تفکر فی الوسوسۃ فی الخلق" سے مراد خلقت عالم کے بارے میں فکر کے دوران وسوسہ شیطانی پیدا ہونا ہے اور حدیث رفع کے مطابق انسان کے دل میں اس قسم کے وسوسے کے گناہ کو رفع کیا گیا ہے۔[19]

برائت شرعی کے اثبات کے لیے حدیث رفع سے استناد

برائت شرعی(کسی حکم کی مشروعیت کے سلسلے میں شک ہونے کی صورت میں اسے کالعدم سمجھنا) کے اثبات کے سلسلے میں متعدد احادیث سے استناد کیا گیا ہے ان میں سے ایک روایت حدیث حلّ ہے اور دوسری روایات حدیث سعہ اور حدیث رفع وغیرہ ہیں۔[20] اس حدیث کے بارے میں بحث اور اس کے ذریعے برائت شرعی کے اثبات کی تاریخ شیخ طوسی کے زمانے سے ملتی ہے، لیکن بعض محققین کے مطابق سب سے پہلے جس شخص نے اسے "نامعلوم موارد" میں برائت ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا وہ فاضل طونی تھے۔[21] آخوند خراسانی نے اپنی کتاب کفایۃ الاصول میں برائے شرعی کے اثبات کے لیے سب سے جس روایت سے استدلال کیا ہے وہ حدیث رفع ہے۔ انہوں نے حدیث کے اس جملے"مالایعلمون" سے اسےدلال کیا ہے۔[22]

طریقہ استدلال

آخوند خراسانی سمیت بعض فقہاء کا خیال ہے کہ حدیث رفع میں "ما" سے مراد شرعی حکم ہے؛ اس صورت میں، "رفع" اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس کے معنی کو بیان کرنے کے لیے کسی اور لفظ کو فرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛[23] اس صورت میں:

  • پہلی بات یہ کہ: رفعِ حکم سے مراد اس کا ظاہری طور پر رفع ہونا ہے، کیونکہ جو عمل نادانستہ انجام پاتا ہے وہ عالم واقع میں معلوم اور اپنی جگہ پر قائم ہوتا ہے۔[24] نیز، رفع حکم کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کی دنیاوی یا اخروی سزا کو رفع کیا گیا ہے۔[25]
  • دوسری بات یہ کہ: اس صورت میں حدیث رفع شبہ حکمیہ اور شبہ موضوعیہ دونوں میں برائت کے اثبات کے لیے دلیل بن سکتی ہے کیونکہ احکام شرعی احکام جزئی اور احکام کلی دونوں کو شامل ہوتے ہیں۔[26] لیکن بعض دوسرے فقہاء جیسے شیخ انصاری وغیرہ کے مطابق، حدیث کے سیاق و سباق کی وحدت کے مطابق، "ما" سے مراد مکلف کا فعل ہے۔ اس صورت میں لفظ "رفع" کو اس کے حقیقی معنی میں استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ نسیان(بھول جانا)، مجبور ہونا، ضرورت، حسد وغیرہ جیسی چیزیں امت رسول خدا (ص) کے علاوہ تمام اقوام میں پائی جاتی ہیں اور ان کے رفع ہونے کا معنی نہیں بنتا؛ لہٰذا انہوں نے کچھ الفاظ کو فرض قرار دے کر اس کے معنی کو کامل کیا ہے مثلاً رفع سے مراد رفع مواخذہ اور عقاب ہے، اسی طرح تمام اثرات (خواہ تکلیفی اثرات ہوں یا وضعی) یا ظاہری اثرات کا رفع مد نظر ہے۔[27] اگر "ما" سے مراد فعلِ مکلف ہو تو حدیث رفع صرف شبہ موضوعیہ کے لیے کارآمد ہوگی۔[28]

حدیث کا سَندی اعتبار

بعض فقہاء نے اس حدیث کے سلسلہ سند کو صحیح قرار دیا ہے اور بعض نے اس کےصحیح السند ہونے پر اعتراض کیا ہے؛[29] لیکن بعض محققین کے مطابق چونکہ یہ حدیث علمائے حدیث کےمابین شہرت کی حامل ہے اور فقہاء نے اس سے استناد کرتے ہوئے فتوا دیا ہے اس لیے اس کے سندی ضعف کی تلافی ہوتی ہے، پس مجموعی طور پر یہ حدیث صحیح السند اور معتبر ہے اس لیے اس کے سلسلہ سند می مزید تحقیق کی ضرورت نہیں۔[30]

اس حدیث میں اختلاف کی وجہ سے بعض اہل سنت نے اس حدیث کو مجمل قرار دیتے ہوئے اس کی سندی لحاظ سے تحقیق کو غیر ضروری سمجھا ہے۔[31] علم رجال کے دانشور اور فقیہ شبیری زنجانی کے مطابق یہ حدیث بہت سی شیعہ اور سنی کتب میں مختلف تعبیرات کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔[32] انہوں نے شیخ انصاری کے اس روایت کو خصال اور توحید صدوق کے بیان کرنے کے طریقہ کو صحیح سمجھا ہے اور کہا کہ اس روایت کی سند میں مذکور تمام لوگوں کے ثقہ ہونے میں کوئی شک نہیں اور صرف احمد بن محمد بن یحییٰ کی وثاقت میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[33]

مقام استعمال

فقہاء نے بعض فقہ کے عملی احکام کو استنباط کرنے کے لیے حدیث رفع کا استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر صاحب جواہر نے اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے مردوں کے لیے مجبوری حالات جیسے جنگ وغیرہ میں ریشمی کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے۔[34] انہوں نے اس حدیث کے مطابق فتوا دیا ہے کہ اگر نمازی اگر کسی غیر رکن جزء کو بھول کر بجا نہ لائے تو کوئی حرج نہیں صرف یہ کہ اس کے لیے بعد میں ایک سجدہ سہو بجالایا جائے۔ انہوں نے جملہ "ما استکرهوا علیه" سے یہ نتیجہ اخز کیا ہے کہ اگر طلاق اور عتق(غلام یا کنیز کو آزاد کرنا) بغیر رضایت کے انجام پائے تو یہ باطل ہے؛[35] اس کے علاوہ انہوں نے حدیث رفع سے استناد کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اکراہ یا نیسان کی صورت میں قسم ٹوٹتی نہیں ہے۔[36]

حوالہ جات

  1. طارمی راد، حدیث رفع، ص788۔
  2. طارمی راد، حدیث رفع، ص788؛ خمینی، حدیث رفع، ص14۔
  3. آخوند خراسانی، کفایة الاصول، مجمع الفکر الاسلامی، ج3، ص16۔
  4. آخوند خراسانی، کفایة الاصول، مجمع الفکر الاسلامی، ج3، ص16۔
  5. خویی، مصباح الاصول، 1380شمسی، ج2، ص287۔
  6. خمینی، حدیث رفع، ص14۔
  7. حرّ عاملی، وسائل الشیعه، اسلامیه، ج11، ص295۔
  8. قنبری و قنبری، «بازکاوی حدیث رفع»، ص38۔
  9. قنبری و قنبری، «بازکاوی حدیث رفع»، ص38۔
  10. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص30؛ قنبری، «بازکاوی حدیث رفع»، ص38؛ سوره بقره، آیه286۔
  11. قنبری، «بازکاوی حدیث رفع»، ص39۔
  12. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص36۔
  13. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص35۔
  14. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص37۔
  15. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص38۔
  16. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص38۔
  17. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص38۔
  18. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص38۔
  19. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص38۔
  20. آخوند خراسانی، فرائد الاصول، مجمع الفکر الاسلامی، ج2، ص16۔
  21. قنبری و قنبری، «بازکاوی حدیث رفع»، ص38۔
  22. الآخوند الخراسانی، کفایة الأصول، مؤسسة آل البیت، ج1، ص339۔
  23. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج1، ص19۔
  24. جمعی از محققین، فرهنگ‌نامه علم اصول، 1388شمسی، ج1،ص414۔
  25. «درس خارج اصول برائت»، پایگاه اطلاع‌رسانی آیت‌الله شبیری زنجانی؛ آخوند خراسانی، کفایة الاصول، مجمع الفکر الاسلامی، ج3، ص22؛ جمعی از محققین، فرهنگ‌نامه علم اصول، 1388شمسی، ج1، ص413 و 414۔
  26. آخوند خراسانی، کفایة الاصول، مجمع الفکر الاسلامی، ج3، ص20 و 21.
  27. الهاشمی الشاهرودی، بحوث فی علم الأصول، 1417ھ، ج5، ص41؛ آخوند خراسانی، درر الفوائد، ج1، ص193۔
  28. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص28۔
  29. «بررسی سند حدیث رفع، درس خارج استاد احمد عابدی»، وبگاه مدرسه فقاهت۔
  30. جوان، «پژوهشی در اسناد و اعتبار حدیث رفع»، ص15؛ جمعی از محققین، فرهنگ‌نامه علم اصول، 1388شمسی۔ ج1،ص414۔
  31. طارمی راد، «حدیث رفع»، ص788۔
  32. «درس خارج اصول برائت»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر آیت‌الله شبیری زنجانی؛ طارمی راد، حدیث رفع، ص788۔
  33. «درس خارج اصول برائت»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر آیت‌الله شبیری زنجانی۔
  34. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج8، ص116۔
  35. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج32، ص9۔
  36. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج35، ص338۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • «بررسی سند حدیث رفع، درس خارج استاد احمد عابدی»، وبگاه مدرسه فقاهت، تاریخ درج مطلب: 24 دی 1397شمسی، تاریخ بازدید: 5 شهریور1402ہجری شمسی۔
  • «درس خارج اصول برائت»، پایگاه اطلاع رسانی دفتر آیت الله شبیری زنجانی، تاریخ درج مطلب: 29مرداد 1396شمسی، تاریخ بازدید: 4 شهریور 1402ہجری شمسی۔
  • آخوند خراسانی، کفایة الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، بی‌تا۔
  • آخوند خراسانی، درر الفوائد في الحاشية على الفرائد، تهران، مؤسسة الطبع والنشر التابعة لوزارة الثقافة والإرشاد الإسلامی، بی‌‌تا۔
  • آخوند خراسانی، کفایة الأصول، قم، مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، بی‌‌تا۔
  • السید محمود، الهاشمی الشاهرودی، بحوث فی علم الاصول، قم، مرکز الغدیر للدراسات الإسلامیة، 1417ھ۔
  • النجفی، محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، 1262ہجری شمسی۔
  • جوان، عبدالله، «پژوهشی در اسناد و اعتبار حدیث رفع»، در فصلنامه علمی فقه و اصول، خرداد1401ہجری شمسی۔
  • حرّ عاملی، محمد حسن، وسائل الشیعه، قم، الاسلامیه، بی‌تا۔
  • خمینی، سید حسن، حدیث رفع، در پژوهشنامه متین، شماره 47، تابستان 1389ہجری شمسی۔
  • خوئی، ابوالقاسم، مصباح الاصول، (مقرر: محمد سرور واعظ‌الحسینی) قم، مکتبة الداوری، 1380ہجری شمسی۔
  • شیخ انصاری، فرائد الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1419ھ۔
  • طارمی راد، حدیث رفع، در دانشنامه جهان اسلام، تهران،‌ موسسه فرهنگی هنری کتاب مرجع، 1387ہجری شمسی۔
  • قنبری شیخ بانی، حسن، و قنبری شیخ بانی، محمدتقی، «بازکاوی حدیث رفع»، در جستارهای فقهی و اصولی، شماره 25، زمستان1400ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد حسن،‌ جواهر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، 1362ہجری شمسی۔