الجار ثم الدار

ویکی شیعہ سے
حدیث «الجار ثم الدار» کی عکاسی، علی بحرینی کے قلم سے

اَلْجارَ ثُمَّ الدّار یعنی «پہلے پڑوسی پھر گھر»، حضرت فاطمہ(س)[1] کی مشہور حدیث کا ایک حصہ ہے۔ امام حسنؑ نقل کرتے ہیں کہ ہماری والدہ ماجدہ کسی شب جمعہ کو صبح تک محراب عبادت میں دعا اور مناجات میں مشغول رہی اور ہر مؤمن مرد اور عورت کا نام لے کر بہت دعائیں کی، لیکن اپنے لئے کوئی دعا نہیں فرمائی۔ میں نے عرض کیا: والدہ محترمہ! جس طرح دوسروں کے لئے دعا فرماتی ہیں اپنے لئے کیوں دعا نہیں کرتیں؟ فرمایا: بیٹا! پہلے پڑوسی پھر گھر۔[2]

شیخ صدوق نے کتاب عَلَل الشرائع کے 145ویں باب میں مختلف اسناد کے ساتھ دو حدیث نقل کیا ہے جن میں"اَلجارَ ثُمَّ الدّارَ" کی عبارت موجود ہے۔ پہلی حدیث امام حسنؑ سے اور دوسری حدیث امام کاظمؑ نے اپنے آبا و اجداد سے نقل کی ہے اور ان دونوں کے مضامین میں کوئی زیادہ اختلاف موجود نہیں ہے۔[3] شیخ حر عاملی اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے دوسرے مؤمنین کے لئے دعا کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں اور کتاب وسائل الشیعہ میں اس موضوع کے لئے ایک علیحدہ باب مختص کیا ہے۔ انہوں نے مذکورہ دونوں احادیث کو اپنے نظریے کی اثبات کے لئے بطور دلیل پیش کیا ہے۔[4]

سید علی‌ خان مدنی نے اپنی لغت کی کتاب میں اس جملے کو کسی اور مضمون کے ساتھ ہمسایہ اور پڑوسیوں سے مربوط کہاوتوں میں شمار کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ کہاوت کسی جگہ سکونت اختیار کرنے یا گھر خریدنے سے پہلے پڑوسیوں کی شناخت کی اہمیت کی نشاندہی کرتی ہے۔[5] حدیثی منابع جیسے الکافی اور تُحَفُ العُقول میں امام علیؑ سے گھر انتخاب کرنے سے پہلے پڑوسی کی شناخت کی اہمیت کے بارے میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس کے کلمات بھی حضرت فاطمہ(س) کے مذکورہ جملے سے مشابہ ہے۔[6] علم حدیث کے محقق مہدی مہریزی کے مطابق مشترک الفاظ پر مشتمل احادیث کو سمجھنے کے لئے ان کے وجہ صدور سے آگاہی ضروری ہے۔[7] کہا جاتا ہے کہ مذکورہ جملہ اور اس کے دونوں مضامین فارسی ادبیات اور عرف میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔[8] کتاب الاِختصاص میں اہل سنت عالم دین اَوزاعی کی زبانی لقمان حکیم کی اپنے بیٹے کو کی گئی وصیت نقل کی ہوئی ہے جس میں «الجار ثُمَّ الدّار» کی عبارت آئی ہے۔[9]

مولوی کے شعر میں اَلجار ثُمَّ الدّار کی عبارت کا استعمال

خاک از ہمسایگی جسم پاک // چون مشرف آمد و اقبال‌ ناک
مٹی شریف انسان کے جسم سے شرافت اور نیک بخت ہو جاتی ہے
پس تو هم اَلجار ثُمَّ الدّار گو//گر دلی داری برو دلدار جو
تو تم بھی اَلجار ثُمَّ الدّار کہو اور اگر دل رکھتے ہو تو جار کر دلداری دو[10]

کہا جاتا ہے کہ عطار نیشابوری اور غزالی جیسے عرفاء اور شعراء نے "اَلجارَ ثُمَّ الدّار " کو دوسری صدی ہجری کی عارفہ اور زاہدہ رابِعہ عَدَویہ کی طرف نسبت دی ہے۔[11] لیکن بعض محققین حدیثی منابع اور حضرت زہرا(س) کے بیان سے استناد کرتے ہوئے اس ادعا کو رد کرتے ہیں۔[12] عرفاء اس عبارت کے مفہوم کو بہشت پر خدا کو ترجیح دینا اور عبادت میں اخلاص پیدا کرنا قرار دیتے ہیں۔[13]

حوالہ جات

  1. شیخ صدوق، علل الشرائع، 1385ش/1966م، ج1، ص182۔
  2. شیخ صدوق، علل الشرائع، 1385ش/1966م، ج1، ص182۔
  3. شیخ صدوق، علل الشرائع، 1385ش/1966م، ج1، ص182۔
  4. شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج7، ص113۔
  5. مدنی شیرازی، الطراز، 1384ہجری شمسی، ج7، ص230۔
  6. کلینی، کافی، 1407ھ، ج8، ص24؛ ابن‌شعبہ حرانی، تحف العقول، 1404ھ/1363ہجری شمسی، ص86؛ نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 31، ص405۔
  7. مہریزی، حدیث‌پژوہی، 1390ہجری شمسی، ج1، ص179۔
  8. «تأثیر زبانی و محتوایی روایات شیعی بر ادبیات فارسی»، سایت آیین رحمت۔
  9. شیخ مفید، الإختصاص، 1413ھ، ص337۔
  10. مولوی، مثنوی معنوی، ص929۔
  11. پناہی، «الجار ثم الدار و بررسی مأخذ و آموزہ‌ہای اخلاقی و عرفانی آن»، ص32-34۔
  12. پناہی، «الجار ثم الدار و بررسی مأخذ و آموزہ‌ہای اخلاقی و عرفانی آن»، ص34-36۔
  13. ملاصدرا، تفسیر القرآن الکریم، 1366ہجری شمسی، ج4، ص414؛ ج7، ص399؛ پناہی، «الجار ثم الدار و بررسی مأخذ و آموزہ‌ہای اخلاقی و عرفانی آن»، ص33۔

مآخذ

  • ابن‌شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، 1404ھ/1363ہجری شمسی۔
  • پناہی، مہین، «الجار ثم الدار و بررسی مأخذ و آموزہ‌ہای اخلاقی و عرفانی آن»، در مجلہ پژوہش‌ہای اسلامی، شمارہ ہفتم، تابستان 1390ہجری شمسی۔
  • «تأثیر زبانی و محتوایی روایات شیعی بر ادبیات فارسی»، سایت آیین رحمت، تاریخ بازدید: 5 خرداد 1403ہجری شمسی۔
  • جمشیدی، اسداللہ، «قواعد فہم حدیث»، در مجلہ معرفت، شمارہ 83، آبان 1383ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، کتاب‌فروشی داوری، چاپ اول، 1385ہجری شمسی/1966ء۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإختصاص، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مدنی شیرازی، علی خان بن احمد، الطراز الاول و الکناز لما علیہ من لغۃ العرب المعول، مشہد، مؤسسہ آل البیت(ع) لإحیاء التراث، چاپ اول، 1384ہجری شمسی۔
  • ملاصدرا، محمد، تفسیر القرآن الکریم، تحقیق محمد خواجوی، قم، انتشارات بیدار، چاپ دوم، 1366ہجری شمسی۔
  • مولوی، جلال‌الدین محمد، مثنوی معنوی، بہ‌کوشش توفیق ہاشم‌پور سبحانی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1373ہجری شمسی۔
  • مہریزی، مہدی، حدیث‌پژوہی، قم، دار الحدیث، چاپ دوم، 1390ہجری شمسی۔
  • نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسہ دار الہجرہ، 1414ھ۔