حدیث اصحابی کالنجوم
| حدیث اصحابی کالنجوم | |
|---|---|
حدیث «اصحابی کالنجوم»، هاشم البغدادی کی خطاطی سنہ 1382ھ | |
| حدیث کے کوائف | |
| دوسرے اسامی | حدیث اقتدا و اہتدا |
| موضوع | لوگوں کی ہدایت پانے میں صحابہ کا مقام |
| صادر از | پیغمبر اکرمؐ سے منسوب |
| اعتبارِ سند | ضعیف |
| شیعہ مآخذ | بصائر الدرجات، عیون اخبار الرضاؑ |
| مشہور احادیث | |
| حدیث سلسلۃ الذہب • حدیث ثقلین • حدیث کساء • مقبولہ عمر بن حنظلۃ • حدیث قرب نوافل • حدیث معراج • حدیث ولایت • حدیث وصایت • حدیث جنود عقل و جہل • حدیث شجرہ | |
حدیث اصحابی کالنجوم یا حدیثِ اقتداء و اہتداء، پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ایک حدیث ہے کہ اہل سنت علماء اس سے صحابہ کرام کی غیر مشروط پیروی اور ان سب کی عدالت پر استدلال کرتے ہیں۔
شیعہ علماء اور بعض اہل سنت علماء اس حدیث کو ضعیف اور جعلی قرار دیتے ہیں۔ شیعہ عقیدے کے مطابق اس حدیث کو درست ماننے کا مطلب تمام صحابہ کو معصوم (گناہوں سے پاک) سمجھنا ہے، جب کہ ان کے مابین پائے جانے والے بنیادی اختلافات کے باعث یہ بات قابلِ قبول نہیں۔ مزید برآں، یہ حدیث ان آیات اور احادیث سے بھی مطابقت نہیں رکھتی جو بعض صحابہ کے اعمال کی مذمت کرتی ہیں۔ اس حدیث پر تنقید کے سلسلے میں شیعہ اور اہل سنت علما نے مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں۔
شیعہ علما کے عقیدہ کے مطابق، اگر یہ حدیث صحیح ہو، تب بھی صرف اُن صحابہ پر صادق آسکتی ہے جو پیغمبر اکرمؐ کے بعد راہِ حق سے منحرف نہیں ہوئے۔ شیعہ منابع میں یہ حدیث دو طریقوں سے نقل ہوئی ہے جن میں اہلِ بیتؑ کو ان صحابہ کا مصداق قرار دیا گیا ہے جو ہدایت کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔
صحابہ کی عدالت کے لیے سند
"حدیث اصحابی کالنجوم" یا "حدیثِ اقتداء و اہتداء" پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ایک حدیث ہے جس میں صحابہ کے مقامِ ہدایت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[1] اہل سنت حدیثی منابع میں اس حدیث کو سب سے پہلے ابن حُمید (متوفیٰ 290ھ)[2] نے نقل کیا ہے۔[3]
کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث اہل سنت کے چند عقائد جیسے صحابہ کی غیر مشروط پیروی،[4] صحابہ کی مرجعیت اور ان سب کا اسوہ ہونا[5]، تمام صحابہ کا پاک ہونا[6]، تمام صحابہ کا قابلِ مدح ہونا[7]، عوام الناس پر تمام صحابہ کی برتری[8] اور تمام صحابہ کی عدالت[9] کی بنیاد بنی ہے۔ اگرچہ بعض اہل سنت کے مطابق اس حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ صحابہ سے جو کچھ منقول ہے، وہ قابلِ قبول ہے، نہ کہ ان کی رائے اور فتویٰ کی پیروی۔[10]
شیعہ علما کا نظریہ
شیعہ علما اس حدیث کو سند کے اعتبار سے ضعیف اور عقلی اور وحیانی دلائل کی روشنی میں جعلی قرار دیتے ہیں۔[11] ان کے نزدیک اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس کا مصداق تمام صحابہ نہیں، بلکہ مخصوص افراد جیسے حضرت علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ ہیں۔[12]
شیعہ اور اہل سنت منابع میں حدیث کے متن میں اختلاف
اہل سنت حدیثی منابع میں یہ حدیث مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے:
- "إنّما أصحابی کالنجوم، بأیّہم اقتدیتم اہتدیتم"[13] (بتحقیق میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جن کی بھی اقتداء کی جائے ہدایت پائیں گے)
- "إنّ أصحابی بمنزلۃ النجوم في السماء، فأیما أخذتم بہ اہتدیتم"[14] (بتحقیق میرے اصحاب ستاروں کے جیسے ہیں جن سے متمسک رہیں تو ہدایت پائیں گے)
- "مثل أصحابی مثل النجوم، من اقتدی بشيء منہا اہتدی"[15] (میرے اصحاب ستاروں کی طرح ہیں جو شخص ان میں سے جس کی اقتداء کرے ہدایت پائے گا)
کہا گیا ہے کہ اہل سنت منابع میں سب سے زیادہ مشہور تیسرا جملہ اور تیسری حدیث ہے،[16] اگرچہ ان سب کی تعبیر اور الفاظ میں معمولی اختلاف سے مفہوم میں بہت زیادہ فرق پیدا نہیں ہوگا۔[17]
شیعہ منابع میں اہل بیتؑ کو صحابہ کا مصداق قرار دینا
یہ حدیث ایک مختلف مضمون کے ساتھ شیعہ منابع میں بھی نقل ہوئی ہے:
- محمد بن حسن صفار (متوفی 290ھ) نے بصائر الدرجات میں تحریر کیا ہے کہ رسول خداؐ نے قرآن اور سنت کی پیروی کا حکم دینے کے بعد دوسرے مرحلے میں فرمایا کہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ یہاں اصحاب سے مراد کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: میرے "اہلِ بیتؑ"۔[18]
- شیخ صدوق (متوفی 381ھ) نے عیون اخبار الرضاؑ میں نقل کیا کہ امام رضاؑ سے اس حدیث کی صحت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ اُن اصحاب سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں پیغمبرؐ کے بعد کوئی تبدیلی یا انحراف پیدا نہ ہوا ہو۔[19]
کہا گیا ہے کہ ان احادیث کی بنیاد پر صرف اہل بیتؑ اس حدیث کے حقیقی مصداق ہو سکتے ہیں۔ اس کی تائید حدیثِ سفینہ، حدیثِ ثقلین اور حدیثِ کساء سے بھی ہوتی ہے۔[20] بعض اہل سنت منابع میں "اصحابی کالنجوم" کی جگہ "أھلُ بیتی کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم" کا متن بھی موجود ہے۔[21]
حدیث کے مفہوم پر اشکالات
شیعہ علما نے مذکورہ حدیث کے مفہوم پر جو اشکالات کئے ہیں انہیں تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- حدیث کے مفہوم کو ماننے کی صورت میں اس کے لوازمات کو بھی ماننا پڑے گا؛ مثلا یہ کہ اگر اس حدیث کو صحیح مانا جائے تو اس کا لازمہ تمام صحابہ کا معصوم، عادل اور ہادی ہونا ہے، جو ان کے درمیان موجود اختلافات اور رویہ میں تضاد ، یہاں تک کہ باہمی جنگ و خونریزی کے باعث بھی تھا، کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔[22]
- اس حدیث کا مضمون قرآن کی ان آیات جیسے: 15 اور 16، 16، 23، 24، 25، 38، 86، 87 اور 107 سورہ توبہ اور سورہ جمعہ آیت نمبر 11 سے متصادم ہے جو بعض صحابہ کی مذمت اور ان کے درمیان بعض منافقین کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتی ہیں، [23]
- یہ حدیث ان دیگر احادیث کے بھی خلاف ہے جن میں صحابہ کی اقتدا سے ممانعت[یادداشت 1] اور بعض صحابہ کی ارتداد کی پیشگوئی کی گئی ہے۔[یادداشت 2] اسی طرح ان احادیث کے بھی خلاف ہے جن میں خود صحابہ نے دینی تعلیمات کی نسبت اپنی جہالت[24] اور بدعت گذار[25] ہونے کا اعتراف کیا ہے۔[26]
اہل سنت علماء کے نزدیک اس حدیث کا ضعیف اور جعلی ہونا
اہل سنت کے کئی معتبر علما، مثلاً: ابنحَزم (درگذشتۂ 456ق)،[27] ابنعبدالبر قرطبی (درگذشتہ 463ق)،[28] ابنقدامہ (درگذشتۂ 620ق)،[29] ابوحیان اندلسی (درگذشتۂ 745ق)،[30] ابنقَیم الجوزیہ (درگذشتۂ 751ق)،[31] ابنابیالعِزّ حنفی (درگذشتۂ 792ق)[32] اور محمد ناصرالدین البانی (درگذشتۂ 14290ق)[33] نے اس حدیث کو جعلی یا ضعیف قرار دیا ہے۔
اسی طرح بیہقی (درگذشتہ 458ق)،[34] ابنتیمیہ (درگذشتۂ 728ق)،[35] ابنمُلَقَّن (درگذشتۂ 804ق)،[36] سخاوی (درگذشتۂ 902ق)[37] اور مبارکفوری (برصغیر کے تیرہویں صدی ہجری کے محدث، فقیہ و عالم درگذشتۂ 1353ق)،[38] وغیرہ نے اس حدیث کو ضعیف اور غیر معتبر کتابوں میں نقل ہونے والی حدیث قرار دیا ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ اہل سنت رجالی علما نے اس حدیث کے بعض راویوں کو ضعیف یا جعل ساز کہا ہے۔[39]
مستقل تصانیف

شیعہ علما نے اس حدیث پر تنقید کرتے ہوئے مستقل کتابیں تحریر کی ہیں:[40]
- احمد بن علی نجاشی نے ایک کتاب مسألۃ فی قول النبی اصحابی کالنجوم کو شیخ مفید کی طرف منسوب کیا ہے،[41] اگرچہ وہ کتاب اس وقت دستیاب نہیں ہے لیکن کتاب کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ مفید اس حدیث کو جعلی نہیں سمجھتے تھے۔[42]
- آقابزرگ تہرانی نے ایک کتاب شرح حدیث اصحابی کالنجوم کا تذکرہ کیا ہے جس کا مصنف نامعلوم ہے،[43] لیکن اس میں اس حدیث کے جعلی ہونے اور اس کے بطلان پر استدلال کیا گیا ہے۔[44]
- شیعہ متکلم سید علی میلانی نے بھی اصحابی کالنجوم کے عنوان سے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں اس حدیث کی سند اور متن دونوں کا تنقیدی جائزہ علمی انداز میں پیش کیا ہے۔[45]
- سنی مؤلف صالح بن سعید بن ہلابی نے بھی اپنی کتاب "نظرات فی حدیث اصحابی کالنجوم" میں چھ مختلف سندوں کے ساتھ اس حدیث کو نقل کر کے ان پر تنقیدی بحث کی ہے اور علمائے اہل سنت کی آراء سے ان کے جعلی ہونے کو ثابت کیا گیا ہے۔[46]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج4، ص443؛ ترکاشوند، «نقد و بررسی سندی و دلالی حدیث اصحابی کالنجوم»، ص132۔
- ↑ ابنحمید، منتخب المسند، 1408ھ، ص215۔
- ↑ بستانی، «واکاوی رویکرد شیعہ بہ حدیث «أصحابی کالنجوم»»، ص160۔
- ↑ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج2، ص628۔
- ↑ ابنعساکر، تبیین کذب المفتری، 1404ھ، ص420۔
- ↑ غزالی، الاقتصاد فی الاعتقاد، 1424ھ، ج1، ص131-132۔
- ↑ رفاعی حسینی، البرہان، 1408ھ، ج1، ص23۔
- ↑ ہیثمی، مجمع الزوائد، 1412ھ، ج2، ص615۔
- ↑ سفارینی، لوامع الانوار، 1402ھ، ج1، ص53۔
- ↑ عینی، عمدۃ القاری، دار إحیاء التراث العربی، ج10، ص202؛ ابنعبدالبر، الاستذکار، 1421ھ، ج4، ص7۔
- ↑ ابنشاذان، الایضاح، 1363ش، ص521؛ شیخ مفید، الافصاح، 1414ھ، ص49؛ ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، 1404ھ، ص393-397؛ کراجکی، التعجب، 1421ھ، ص94۔
- ↑ شیخ طوسی، تلخیص الشافی، 1383ھ، ج2، ص249؛ ابنطاووس، الطرائف، 1400ھ، ج2، ص523؛ قمی شیرازی، الاربعین، 1418ھ، ج1، ص305؛ شوشتری، الصوارم المہرقۃ، 1367ھ، ج3، ص5۔
- ↑ ابنبطہ عکبری، الابانۃ الکبری، 1426ھ، ج1، ص210۔
- ↑ بیہقی، المدخل الی السنن، 1437ھ، ج2، ص580۔
- ↑ قضاعی، مسند الشہاب، 1407ھ، ج2، ص275۔
- ↑ ترکاشوند، «نقد و بررسی سندی و دلالی حدیث «صحابی کالنجوم»، ص132۔
- ↑ ترکاشوند، «نقد و بررسی سندی و دلالی حدیث «صحابی کالنجوم»، ص132۔
- ↑ صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ج1، ص11۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1404ھ، ج2، ص87۔
- ↑ ترکاشوند، «نقد و بررسی سندی و دلالی حدیث «صحابی کالنجوم»، ص140
- ↑ ابنحجر عسقلانی، لسان المیزان، 2002م، ج1، ص404؛ ذہبی، معجم الشیوخ الکبیر، 1408ھ، ج2، ص43۔
- ↑ ابنحیون، دعائم الاسلام، 1385ھ، ج1، ص87؛ ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، 1404ھ، ص393 و ص396-397؛ کراجکی، التعجب من أغلاط العامۃ، 1421ھ، ص95؛ ابنطاووس، الطرائف، 1400ھ، ج2، ص523؛ عاملی نباطی، الصراط المستقیم، 1384ھ، ج3، ص146؛ شوشتری، الصوارم المُہرقۃ، 1367ھ، ص5۔
- ↑ شیخ مفید، الإفصاح فی الإمامۃ، 1413ھ، ص54-63؛ ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، 1404ھ، ص393-394۔
- ↑ نگاہ کنید بہ: تفتازانی، شرح المقاصد، 1401ھ، ج2، ص294؛ حنفی، فلک النجاۃ، 1418ھ، ص149۔
- ↑ سرخسی، المبسوط، دار المعرفۃ، ج24، ص7
- ↑ شیخ مفید، الإفصاح فی الإمامۃ، 1413ھ، ص49 و 54؛ ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، 1404ھ، ص394-396؛ مظفر، دلائل الصدھ، 1422ھ، ج4، ص433-434۔
- ↑ ابنحزم، الإحکام فی اصول الأحکام، 1404ھ، ج5، ص61۔
- ↑ ابنعبد البر قرطبی، جامع بیان العلم و فضلہ، 1398ھ، ج2، ص90-91۔
- ↑ ابنقدامہ، المنتخب من علل الخلال، دارالرایۃ، ج1، ص143۔
- ↑ أبوحیان، البحر المحیط، 1420ھ، ج6، ص582۔
- ↑ ابنقیم، إعلام الموقعین، 1411ھ، ج2، ص171۔
- ↑ ابنأبیالعز، شرح الطحاویۃ، 1418ھ، ج3، ص132۔
- ↑ ألبانی، صفۃ صلاۃ النبی(ص)، مکتبۃ المعارف، ص49۔
- ↑ بیہقی، المدخل الی علم السنن، 1437ھ، ج2، ص581۔
- ↑ ابنتیمیہ، منہاج السنّۃ، 1406ھ، ج8، ص364۔
- ↑ ابنملقن، البدر المنیر، 1426ھ، ج9، ص584۔
- ↑ سخاوی، المقاصد الحسنۃ، 1375ھ، ج1، ص27۔
- ↑ مُبارَکفوری، تحفۃ الأحوذی، 1410ھ، ج10، ص155۔
- ↑ ترکاشوند، «نقد و بررسی سندی و دلالی حدیث «صحابی کالنجوم»، ص135-136۔
- ↑ بستانی، «واکاوی رویکرد شیعہ بہ حدیث «أصحابی کالنجوم»»، ص161۔
- ↑ نجاشی، الرجال، 1416ھ، ص402۔
- ↑ بستانی، «واکاوی رویکرد شیعہ بہ حدیث «أصحابی کالنجوم»»، ص161۔
- ↑ آقابزرگ طہرانی، الذریعۃ، 1408ھ، ج13، ص188۔
- ↑ طہرانی، الذریعۃ، 1408ھ، ج13، ص188۔
- ↑ حسینی میلانی، أصحابی کالنجوم، 1429ھ، ص11-13۔
- ↑ ہلابی، نظرات فی حدیث اصحابی کالنجوم، 1390ھ، ص134-142۔
نوٹ
- ↑ احادیثی مانند: «تَکونُ بَینَ أصحابی فِتنةٌ یغفِر اللهُ لهم لسابِقَتِهِم، اِنْ اقْتَدی بِهم قومٌ مِن بَعدِهم کَبَّهُم الله تعالی فی نار جهنم؛ میرے اصحاب کے درمیان ایک فتنہ ایجاد ہوگا، اللہ ان کے سابقہ ایمانی حالت کی بنا پر انہیں بخش دے گا۔ لیکن اس کے بعد جو قوم ان کی اقتداء کرے گی خدا انہیں جہنم کی آگ میں ڈال دے گا» (متقی ہندی، کنز العمال، 1989م، ج11، ص294).
- ↑ جیسے حدیث «ذاتُ الشِّمال» جس میں رسول خداؐ نے اپنی رحلت کے بعد بعض صحابہ کے دین سے رو گردانی، ارتداد اور ان کا اصحاب شمال میں شامل ہونے کی خبر دی ہے(ترمذی، سنن، 1403ھ، ج5، ص4؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، 1411ھ، ج34، ص8).
مآخذ
- آقابزرگ طہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
- ابنعساکر، تبیین کذب المفتری: فیما نسب إلی الإمام أبي الحسن الأشعري، بیروت، دار الکتاب العربي، 1404ھ۔
- ابوحیان، محمد بن یوسف، البحر المحیط فی التفسیر، بیروت، دار الفکر، 1420ھ۔
- البانی، محمد، صفۃ صلاۃ النبی(ص)، ریاض، مکتبۃ المعارف، بیتا.
- ابوالصلاح حلبی، تقی بن نجم، تقریب المعارف، بیجا، مطبعۃ الہادی، 1417ھ۔
- ابنأبیالعز الحنفی، علی بن علی، شرح الطحاویۃ فی العقیدہ السلفیہ، عربستان، وزارۃ الشئون الاسلامیۃ، 1418ھ۔
- ابنبطۃ عکبری، عبیداللہ بن محمد، الابانۃ الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1426ھ۔
- ابنتیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویہ، تحقیق محمد رشاد سالم، بیجا، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ، 1406ھ۔
- ابنحجر العسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، بیروت، دار البشائر الإسلامیۃ، 2002م.
- ابنحزم، علی بن احمد، الإحکام فی اصول الأحکام، قاہرہ، دارالحدیث، 1404ھ۔
- ابنحمید، عبد، منتخب المسند، بیجا، مکتبۃ النہضۃ العربیۃ، 1408ھ۔
- ابنحیون، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، قم، آل البیت(ع)، 1385ھ۔
- ابنشاذان، فضل، الایضاح، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1363ہجری شمسی۔
- ابنطاووس، علی بن موسی، الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف، قم، خیام، 1400ھ۔
- ابنعبد البر النمری القرطبی، یوسف، الاستذکار، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1421ھ۔
- ابنعبدالبر، یوسف، جامع بیان العلم و فضلہ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1398ھ۔
- ابنقدامہ، عبداللہ ابناحمد، المنتخب من علل الخلال، اردن، دار الرایۃ، بیتا.
- ابنقیم، محمد بن ابی بکر، إعلام الموقعین عن رب العالمین، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1411ھ۔
- ابنملقن، عمر بن علی، البدر المنیر فی تخریج الاحادیث والآثار الواقعۃ فی الشرح الکبیر، ریاض، دارالہجرۃ، 1426ھ۔
- بستانی، قاسم، «واکاوی رویکرد شیعہ بہ حدیث «أصحابی کالنجوم»»، در مجلہ آموزہہای حدیثی، شمارہ 11، بہار و تابستان 1401ہجری شمسی۔
- بیہقی، احمد بن حسین، المدخل الی السنن الکبری، قاہرہ، دار الیسر للنشر والتوزیع، 1437ھ۔
- ترکاشوند، حسن، «نقد و بررسی سندی و دلالی حدیث صحابی کالنجوم»، فصلنامہ کلام اسلامی، شمارہ 97، بہار 1395ہجری شمسی۔
- ترمذی، محمد بن عیسی، سنن، بیروت، دارالفکر، 1403ھ۔
- تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، پاکستان، دارالمعارف النعمانیۃ، 1401ھ۔
- حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی صحیحین، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1411ھ۔
- حسینی میلانی، سید علی، أصحابی کالنجوم، قم، نشر الحقائق، 1429ھ۔
- حنفی، علی محمد، فلک النجاۃ فی الامامۃ و الصلاۃ، بیجا، موسسۃ دارالسلام، 1418ھ۔
- دارمی، عبداللہ بن رحمن، سنن، دمشق، مطبعۃ الاعتدال، 1349ھ۔
- ذہبی، محمد بن احمد، معجم الشیوخ الکبیر، طائف، مکتبۃ الصدّیھ، 1408ھ۔
- ذہبی، محمد حسین، التفسیر والمفسرون، قاہرۃ، مکتبۃ الوہبۃ، 1421ھ۔
- رفاعی حسینی، احمد بن علی، البرہان المؤید لصاحب موالید، بیروت، دارالکتب النفیس، 1408ھ۔
- زرکشی، محمد بن بہادر، البرہان فی علوم القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، 1391ھ۔
- زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل وعیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، قاہرہ، دارالریان، 1407ھ۔
- سبحانی، جعفر، الإلہیات علی ہدی الکتاب والسنۃ والعقل، قم، المرکز العالمی للدراسات الإسلامیۃ، 1412ھ۔
- سخاوی، محمد بن عبد الرحمن، المقاصد الحسنۃ فی بیان کثیر من الأحادیث المشتہرۃ علی الألسنۃ، مصر، مکتبۃ الخانجی، 1375ھ۔
- سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفۃ، بیتا.
- سفارینی، محمد بن احمد، لوامع الانوار البہیۃ و سواطع الأسرار الاثریۃ، دمشق، موسسۃ الخافقین، 1402ھ۔
- شوشتری، نور اللہ بن شریف الدین، الصوارم المُہرقۃ فی نقد الصواعق المُحرقۃ، تہران، مطبۃ النہضۃ، 1367ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، تلخیص الشافی، نجف، مطبعۃ الآداب، 1383ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الافصاح فی الامامۃ، بیروت، دارالمفید، 1414ق
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الافصاح فی الامامۃ، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1405ھ۔
- عاملی نباطی، علی من محمد بن علی، الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، 1384ھ۔
- عینی، بدرالدین، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، بیتا۔
- غزالی، محمد بن محمد، الاقتصاد فی الاعتقاد، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1424ھ۔
- قضاعی، محمد بن سلامۃ، مسند الشہاب، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1407ھ۔
- قمی شیرازی، محمدطاہر، الاربعین فی امامۃ الائمہ الطاہرین، تحقیق سید مہدی رجایی، بیجا، بینا، 1418ھ۔
- کراجکی، محمد بن علی، التعجب من أغلاط العامۃ فی مسألۃ الإمامۃ، قم، دارالغدیر، 1421ھ۔
- مبارکفوری، تحفۃ الأحوذی بشرح جامع الترمذی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
- متقی ہندی، علی بن حسام الدین، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، 1989ء۔
- مظفر، محمدحسن، دلائل الصدق لنہج الحق، قم، آل البیت(ع)، 1422ھ۔
- نجاشی، احمد بن علی، الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الْسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین، 1416ھ۔
- ہلابی، صالح بن سعید، نظرات فی حدیث اصحابی کالنجوم، مدینہ، الجامعۃ الاسلامیۃ، 1390ھ۔
- ہیثمی، علی بن ابیبکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بیروت، دارالفکر، 1412ھ۔