آیت اہل الذکر

ویکی شیعہ سے
آیت اہل الذکر
آیت کی خصوصیات
آیت کا ناماہل الذکر
سورہسورہ نحلسورہ انبیاء
آیت نمبر43 • 7
پارہ14 اور 17
صفحہ نمبر272 و 322
شان نزولانبیاء کا فرشتہ ہونے سے متعلق مشرکین کے عقیدے کا رد
محل نزولمکہ
موضوععقائد
مضمونفضائل اہل بیت علیہم السلام


آیت اَہلُ‌الذّکر سورہ نحل کی 43ویں اور سورہ انبیاء کی 7ویں آیت ہے۔ جس میں تمام لوگوں خاص کر مشرکین کو پیغمبر اسلامؐ کی نبوت کی حقیقت کے بارے میں اہل علم سے سوال کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مشرکین مکہ نے پیغمبر اسلامؐ کی نبوت کا انکار کیا اور کہا خدا کو چاہئے کہ وہ فرشتوں میں سے کسی کو نبوت کے لئے انتخاب کریں۔

مفسرین کے مطابق ان آیات میں اہل ذکر سے مراد علمائے یہود و نصاری یا گذشتہ امتوں کے بارے میں جاننے والے اہل علم حضرات ہیں اور سوال نبوت کی علامت اور نشانیوں کے بارے میں ہے جو گذشتہ امتوں کی کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں۔

مفسرین ان دو آیتوں کے ذیل میں شیعہ اور اہل سنت منابع سے متعدد احادیث سے استناد کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اہل الذکر کا واضح اور روشن ترین مصداق اہل بیتؑ ہیں بنابراین مسلمانوں کو دین کی تعلیمات اور قرآن کی تفسیر کے لئے ان کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔

اصول فقہ کی بعض کتابوں میں خبر واحد کی حجیت پر آیت اہل الذکر سے استناد کیا گیا ہے۔

آیت کا متن

وَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِک إِلَّا رِجَالًا نُّوحِی إِلَیهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّکرِ إِن کنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ


اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان کی طرف بھی وحی کرتے رہے ہیں تو ان سے کہئے کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو



سورہ نحل:43 و سورہ انبیاء:7


شأن نزول

ابن عباس سے مروی ہے کہ جب حضرت محمدؐ نبوت پر فائز ہوئے تو یہ بات مکہ والوں پر گراں گزری اس بنا پر وہ آپ کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ خدا کی شأن اس چیز سے بالاتر ہے کہ وہ کسی انسان کو نبوت کے لئے انتخاب کریں؛ مشرکین کے جواب میں یہ آیت اور سورہ یونس کی دوسری آیت: أَ كانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا إِلى‏ رَجُلٍ مِنْهُمْ[؟؟] نازل ہوئی۔[1] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آیت اہل الذکر مشرکین کے اس بات کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو کہتے تھے کہ خدا کے بھیجے ہوئے کو کیوں فرشتہ نہیں ہونا چاہئے۔[2]

محتوا

طبرسی تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کے ابتدائی حصے کو اس بات کی طرف اشارہ قرار دیتے ہیں کہ خدا انبیاء کو لوگوں کے درمیان سے انتخاب کرتے ہیں تاکہ لوگ انہیں دیکھ سکیں ان سے گفتگو کر سکیں اور ان کی باتوں کو درک کر سکیں؛ بنابراین یہ معقول نہیں ہے کہ انسان کے علاوہ کسی فرشتے کو رسول بنا کر لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا جائے۔[3]

علامہ طباطبایی نیز فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیت ارسال رسل کی کیفیت بیان کرنے کی غرض سے نازل ہوئی ہے تاکہ مشرکین یہ جان لیں کہ اسلام کی طرف دعوت ایک عام دعوت ہے؛ صرف یہ فرق ہے کہ اس دعوت کے مالک کو وحی کے ذریعے دنیا و آخرت کی نیکی عطا کرتا ہے اور نبوت کوئی ایسی غیبی قدرت نہیں ہے جو لوگوں کے ارادہ و اختیار کو ختم کر کے انہیں اس دعوت کو قبول کرنے پر مجبور کرے۔[4] علامہ کے مطابق مذکورہ آیت کا دوسرا حصہ: فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ[؟؟] میں اگرچہ مخاطب رسول اکرمؐ اور آپ کی قوم ہیں لیکن حقیقت میں تمام لوگ خاص کر مشرکین کو بھی شامل کرتی ہے جس کے تحت ہر وہ شخص جو پیغمبر اکرمؐ کی نبوت کی حقیقت سے آشنا نہیں ہے اسے چاہئے کہ وہ اہل علم حضرات سے اس بارے میں سوال کریں۔[5]

آیت اللہ مکارم شیرازی نیز اس آیت کے دوسرے حصے کو اس حقیقت کی تائید اور تاکید قرار دیتے ہیں کہ لوگوں تک وحی کو پہنچانا انبیاء کا ایک عام انسانی وظیفہ ہے، نہ یہ کہ کوئی غیبی طاقت ہو جو فطرت کے قوانین سے ہٹ کر لوگوں کو اس دعوت کے قبول کرنے اور تمام برائیوں کو ترک کرنے پر مجبور کرتی ہو اگر ایسا ہوتا تو ایمان لانا کوئی فخر کی بات نہیں ہوتی۔[6]

اہل ذکر اور اس کے مصادیق

مفسرین آیت اہل‌الذکر کے ذیل میں اہل الذکر سے مراد اور اس کے مصادیق کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ مفسرین مذکورہ آیت کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اہل ذکر سے مراد اہل علم اور باخبر افراد ہیں؛ یعنی وہ افراد جو ذکر (قرآن، کتب آسمانی وغیرہ) سے زیادہ سے زیادہ سنخیت رکھتے ہیں، بنابراین اہل ذکر سے مراد علمائے یہود و نصاری[7] یا گذشتہ امتوں کے حالات و واقعات سے باخبر افراد ہیں[8] اور جس چیز کے بارے میں سوال ہوگی وہ نبوت کی نشانیاں ہیں جو ان کی کتابوں میں مذکور ہیں۔[9] ان تمام باتوں کے باوجود مفسرین اہل‌الذکر کے دائرے کو وسیع قرار دیتے ہوئے اس کے لئے مزید مصادیق ذکر کرتے ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں دو مشہور نظریات ہیں:

اہل بیتؑ

شیعہ مفسرین متعدد احادیث[10] [یادداشت 1] سے استناد کرتے ہوئے ہوئے اہل ذکر کے بارز اور کامل مصداق کو اہل بیتؑ قرار دیتے ہیں۔[11] اہل سنت تفاسیر میں بھی بعض احادیث من جملہ ابن عباس سے مروی ایک حدیث میں حضرت محمدؐ، حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ(س)، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو اہل ذکر قرار دیا گیا ہے؛ اسی طرح اہل علم و عقل و بیان کو بھی اس کے مصادیق میں سے قرار دیتے ہیں۔[12] اہل سنت مفسرین قرطبی اور طبری سورہ انبیاء کی آیت نمیر 7 کے ذیل میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں امام علیؑ مذکورہ آیت کے نازل ہوتے وقت فرماتے ہیں "نحن اہل‌الذکر"۔[13]

اسی طرح کتاب بصائر الدرجات میں ایک باب کے عنوان کو "فی ائمة آل محمد انهم اهل الذکر الذین امر الله بسؤالهم" کو قرار دیا ہے۔[14] کلینی نے کافی میں بھی ایک باب "ان اهل الذکر الذین امر الله الخلق بسؤالهم هم الائمه" کے عنوان سے قرار دیا ہے۔[15] علامہ مجلسی بھی بحارالانوار میں "انهم (الائمه) علیهم السلام الذکر و اهل الذکر" نامی باب میں بعض احادیث نقل کرتے ہیں جن میں اہل ذکر سے مراد شیعہ ائمہ کو قرار دیا گیا ہے۔[16]

درج بالا احادیث کی وضاحت میں کہا جاتا ہے کہ ائمہ اہل بیتؑ کا یہ کہنا کہ ہم اہل‌الذکر ہیں، اس سے مراد ظاہری طور پر نہیں ہے کیونکہ مکہ کے کفار ائمہ سے کچھ نہیں پوچھ سکتے تھے اور اگر پوچھ بھی لیتے تو وہ ائمہ کے کلام کو حجت نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ وہ رسول خدا کے کلام کو بھی حجت نہیں سجھتے تھے؛ بنابراین ان احادیث سے مراد تشبیہ و تمثیل ہے۔ یعنی ہر چیز کے بارے میں اس کے اہل سے سوال کیا جانا چاہئیے۔ جس طرح انبیاء کا انسان ہونے کے بارے میں گذشتہ امتوں کے علماء سے سوال کیا جانا چاہئے اسی طرح اسلامی تعلیمات اور قرآن کی تفسیر کے بارے میں بھی ائمہ معصومینؑ سے پوچھنا چاہئے۔[17]

آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق اہل بیت کو اہل ذکر کا بارز مصداق قرار دینا اور اور مذکورہ آیت کا اہل کتاب کے علماء کے بارے میں نازل ہونے کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن کی تفسیری احادیث میں اس مسئلے کی طرف بار بار اشارہ ہوا ہے کہ کسی بھی آیت کا معین مصداق ہونا اس آیت کے مفہوم کی وسعت کو محدود نہیں کرتا ہے۔[18]

علماء

آیت کے سیاق کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل ذکر کے معنی اہل کتاب یا اہل علم لیا جاتا ہے۔[19] اہل ذکر کا معنی وسیع ہے اور ان تمام افراد کو شامل کرتا ہے جو دوسروں کی نسبت زیادہ علم و آگاہی رکھتے ہیں۔ حقیقت میں یہ آیت ایک عقلائی اصول اور عام عقلی احکام کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ ہر فن اور شعبے میں اس کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جانا چاہئے۔ یہ اصول کوئی تعبدی حکم نہیں ہے بنابر این اس پر ہونے والا امر بھی امر مولوی نہیں ہے۔[20]

اہل سنت مفسرین اہل ذکر کے 15 معنی بیان کرتے ہیں،[21] جن کو تین گروہ میں تقسیم کیا جاتا ہے: "اہل کتاب (بطور عام ہر کتابی یا بطور خاص مثلا اہل تورات)"، "اہل قرآن"[22]اور "علمائے اہل بیت"۔[23]

فقہ میں اہل ذکر کا استعمال؛‌ حجیت خبر واحد

خبر واحد کی حجیت کو ثابت کرنے کے لئے آیہ اہل‌الذکر سے استناد کیا جاتا ہے؛ اس نظریے کے مطابق لفظ "فاسئلوا" اہل ذکر سے سوال کرنے کو واجب قرار دیتا ہے اور سوال کا واجب ہونے کا لازمہ اس کے وجوب کو قبول کرنا اور اس امر کی اطاعت کرنا ضروری ہے؛ ورنہ سوال کا واجب ہونا لغو ہو گا۔[24] اس نظریے پر اشکال کیا جاتا ہے؛ پہلی بات یہ کہ مذکورہ آیت کو اخبار مستفیض کے بارے میں قبول کیا جا سکتا ہے[25] دوسری بات اگر مذکورہ آیت خبر واحد کی حجیت اور اس کی اطاعت کے واجب ہونے پر دلالت کرے تو اس سے مراد وہ خبر واحد ہے جس کا راوی اہل علم ہو اور وہ مورد سوال چیز کے بارے میں آگاہی رکھتا ہو، اس بنا پر وہ شخص جو کسی سے کوئی بات سن کر اسے دوسروں تک نقل کرتا ہے وہ اس کا مصداق نہیں بن سکتا؛ بنابراین مذکورہ آیت عام آدمی کا اہل علم کی تقلید کرنے کی طرف اشارہ ہے، چنانچہ علم اصول کے ماہرین عام آدمی پر تقلید کے واجب ہونے کے بارے میں مذکورہ آیت سے استناد کرتے ہیں۔[26]

نوٹ

  1. ان احادیث میں مختلف مضامین کے ساتھ اس مسئلے کو بیان کیا گیا ہے: مثال کے طور پر ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن ذکر ہے اور ہم آل رسول اہل ذکر ہیں یا ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ کو ذکر اور اہل بیت کو اہل ذکر قرار دیا گیا ہے۔(کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۰۳-۳۰۴؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۲۷، ص۷۳۔)

حوالہ جات

  1. محقق، نمونہ بیانات در شأن نزول آیات، ۱۳۶۱ش، ص۴۸۱۔
  2. واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۶۔
  3. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۵۵۷۔
  4. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۶۔
  5. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۷.
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۱۔
  7. ابوحیان، البحر المحیط، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۵۳۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔
  8. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۵۷؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۵۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔
  9. اصغرپور قراملکی، «اہل‌الذکر»، ص۱۳۲۔
  10. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۱۰-۲۱۱۔
  11. حویزی، نورالثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۵۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔
  12. حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۳۲۔
  13. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج ۱۱، ص۲۷۲؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۷، ص۵۔
  14. صفار قمی، بصائر الدرجات، باب ۱۹۔
  15. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۱، ص۳۰۳۔
  16. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۳، ص۱۷۲۔
  17. شعرانی، نثر طوبی، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۲۷۶۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔
  19. نجارزادگان و ہادی لو، «بررسی و ارزیابی وجوہ جمع بین روایات اہل الذکر»، ص۳۵۔
  20. طباطبائی، المیزان، دفتر انتشارات اسلامی، ج۱۲، ص۲۵۹۔
  21. بشوی، «نقد و بررسی دیدگاه فریقین دربارہ اہل ذکر»، ص۵۷۔
  22. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۰، ص۱۰۸۔
  23. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۴۹۲۔
  24. انصاری، فرائدالاصول، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۳؛ آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۳۰۰۔
  25. انصاری، فرائدالاصول، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۳۔
  26. اصغرپور قراملکی، «اہل‌الذکر»، ص۱۳۳۔

مآخذ

  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق محمدحسین شمس الدین، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • ابوحیان، محمد بن یوسف، البحر المحیط فی التفسیر، بیروت، دارالفکر، ۱۴۲۰۔
  • آخوند خراسانی، محمدکاظم، کفایۃ الاصول، قم، موسسہ آل البیت، ۱۴۰۹ھ۔
  • اصغرپور قراملکی، محسن، «اہل‌الذکر»، در دائرہ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۳ش۔
  • انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، قم، موسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۶ھ۔
  • بشوی، محمدیعقوب، «نقد و بررسی دیدگاہ فریقین دربارہ اہل ذکر»، در مجلہ پژوہشنامہ حکمت و فلسفہ اسلامی، قم، جامعۃ المصطفی العالمیۃ، شمارہ ۷، پاییز ۱۳۸۲ش۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، ۱۴۱۴ھ۔
  • حسکانی، عبید اللہ بن عبد اللہ، شواہد التنزيل لقواعد التفضيل، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
  • حویزی، عبدالعلی بن جمعہ، تفسیر نورالثقلین، مصحح ہاشم رسولی، قم، اسماعیلیان، ۱۴۱۵ھ۔
  • شعرانی، ابوالحسن، نثر طوبی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۹۸ھ۔
  • صفار قمی، محمد بن الحسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد ص، تصحیح و تعلیق میرزا محسن کوچہ باغی تبریزی، قم، انتشارات کتابخانہ آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار المعرفۃ، ۱۴۱۲ھ۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۶۴ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،‌ تہران دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • محقق، محمدباقر، نمونہ بینات در شأن نزول آیات، تہران، اسلامی، ۱۳۶۱ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ش۔
  • نجار زادگان، فتح‌اللہ و ہادی لو، سمیہ، «بررسی و ارزیابی وجوہ جمع بین روایات اہل‌الذکر»، مجلہ علوم حدیث، ش ۶۵، پاییز ۱۳۹۱۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، تحقیق کمال بسیونی زغلول، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۱ھ۔