آیت انذار

ویکی شیعہ سے
آیت انذار
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامانذار
سورہشعراء
آیت نمبر214
پارہ19
صفحہ نمبر376
محل نزولمکہ
موضوععقائد
مضموناپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت
مرتبط موضوعاتامام علیؑ کی جانشینی کا اعلان


آیت انذار (سورہ شعراء: آیت 214) میں خدا کی طرف سے رسول اللہؐ کو اپنے رشتہ داروں کو اعلانیہ طور پر اسلام کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ مذکورہ آیت کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر اسلامؐ نے اپنے خاندان کے چالیس افراد کو مدعو کیا۔ دعوت کے آخر میں مہمانوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے ساتھ حضرت علی بن ابیطالبؑ کو اپنا جانشین اور خلیفہ کے طور پر متعارف کرایا۔ شیعہ متکلمین اس آیت کے شأن نزول میں وارد ہونے والی احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس آیت کو امام علیؑ کی جانشینی اور امامت دلیل قرار دیتے ہیں۔

شیعہ مفسرین دینی امور میں رشتہ داروں کے لئے امتیازی سلوک اور دوسروں سے غافل رہنے کے خدشے کا ازالہ اور خاندان رسول خدا کا آپ کے پاکیزہ ماضی سے آگاہی اس دعوت کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔


امام علیؑ کی امامت پر پہلی دلیل

سورہ شعراء کی آیت نمبر 214 اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہے جے آیت انذار کا نام دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سورہ شوری آیت نمبر 7 اور سورہ مدثّر کی آیت نمبر 1 اور 2 کو بھی آیت انذار کہا جاتا ہے۔[1] اس آیت میں خدا نے حضرت محمدؐ کو اپنے رشتہ داروں کو انذار یعنی ڈرانے اور خبردار کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ تفسیر نمونہ میں آیا ہے کہ ان کو شرک اور خدا کی مخالفت سے ڈرائیں۔[2]

قرآن کی یہ پہلی آیت ہے جو اسلام کی علانیہ تبلیغ کے بارے میں پیغمبر اسلامؐ پر نازل ہوئی ہے۔[3] بعض مفسرین اس آیت کے شأن نزول میں وارد ہونے والی احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس آیت کو امام علیؑ کی جانشینی اور امامت پر پہلی محکم اور یقینی دلیل قرار دیتے ہیں۔[4] مورخین کے مطابق یہ آیت بعثت کے تیسرے سال نازل ہوئی ہے۔[5]

وَ أَنْذِرْ عَشیرَتَکَ الْأَقْرَبین


اور (اے رسول) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو (عذاب سے) ڈراؤ۔



سورہ شعرا: آیت 214


حضرت علی کی جانشینی کا اعلان

شیعہ اور اہل سنت تفاسیر کے مطابق اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہؐ نے اپنے چالیس قریبی رشتہ داروں کو دعوت دی اور ان کو خدا کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی گواہی دینے کی دعوت دی۔ اس کے بعد دو یا تین مرتبہ فرمایا: "تم میں سے کون ہے جو اس مسئلے میں میری مدد کرے تاکہ وہ تمہارے درمیان میرا وصی اور جانشین ہو؟"، سب خاموش رہے اور ہر بار صرف حضرت علیؑ نے کہا: "اے رسول خداؐ! میں آپ کی مدد کے لئے تیار ہوں"۔ رسول اللہؐ نے اپنے رشتہ داروں سے مخاطب ہوکر فرمایا: "یہ علی تمہارے درمیان میرا وصی، جانشین اور خلیفہ ہیں، ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔[6] کتاب مجمع البیان میں اس شأن نزول کو شیعہ اور اہل‌ سنت کے درمیان مشہور قرار دیا گیا ہے۔[7]

شیعہ متکلمین اس روایت کی سند کو مُتَواتِر قرار دیتے ہوئے[8] امام علیؑ کی جانشینی اور بلافصل خلافت کو ثابت کرنے کے لئے اس سے استناد کرتے ہیں۔[9]

اسلام کی طرف دعوت میں رشتہ داروں کو مقدم کرنے کی علت

مفسرین پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے اسلام کی طرف دعوت دینے میں اپنے رشتہ داروں کو مقدم کرنے کی مختلف دلائل بیان کرتے ہیں من جملہ یہ کہ:

  1. دینی امور میں رشتہ داروں کے لئے امتیازی سلوک اور دوسروں سے غافل رہنے کے خدشے کا ازالہ[10]
  2. دوسروں کی نسبت رشتہ داروں کو جمع کرنے اور ڈرانے میں آسانی۔[11]
  3. ایمان لانے کی صورت میں اپنے رشتہ داروں کی حمایت اور مدد سے بہرہ مندی۔[12]
  4. بڑے بڑے انقلاب کا آغاز چھوٹی چھوٹی اکائیوں سے ہونا چاہئے۔[13]
  5. پیغمبر اکرمؐ کے رشتہ دار دوسروں کی نسبت آپؐ کو بہتر جانتے تھے اور آپس کی قرابت داری آپ کی دعوت کو قبول کرنے مددگار ثابت ہوتی اور دوسروں کی نسبت دشمنی اور عداوت بھی رشتہ داروں میں کم ہوتی ہے۔[14]

متعلقہ مضامین

حدیث یوم الدار

حوالہ جات

  1. بشوی، «آیہ انذار»، ص149۔
  2. مکارم، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج15، ص366۔
  3. مولائی نیا و مومنی، «تفسیر تطبیقی آیہ انذار از دیدگاہ فریقین»، ص144۔
  4. مولائی نیا و مومنی، «تفسیر تطبیقی آیہ انذار از دیدگاہ فریقین»، ص164۔
  5. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ہجری شمسی، ج2، ص60؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص116؛ وشنوی، حیاۃ النبی و سیرتہ، 1424ھ، ج1، ص105۔
  6. بحرانی، البرہان، المکتبۃ العلمیۃ، ج4، ص189-186؛ فرات الکوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص300؛ ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1406ھ، ج6، ص153-151؛ سیوطی، الدر المنثور، 1404ھ، ج5، ص97؛ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص543-542؛ طبرسی، مجمع البیان، 1406ھ، ج7، ص322-323۔
  7. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج7، ص322۔
  8. بشوی، «آیہ انذار»، ص149۔
  9. شیخ مفید، رسالہ فی معنی المولی، 1413ھ، ص39 و 40؛ شیخ مفید، الفصول المختارہ، 1413ھ، ص96؛ نباطی بیاضی، الصراط المستقیم، 1384ھ، ج1، ص325؛ ج2، ص29۔
  10. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج7، ص322۔
  11. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج7، ص322۔
  12. مغنیہ، تفسیر الکاشف، دار الانوار، ج5، ص521۔
  13. مکارم، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج15، ص366۔
  14. مکارم، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج15، ص366۔

مآخذ

  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1386-1385ہجری شمسی۔
  • ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الکتب العلمیۃ منشورات محمد علی بیضون، 1419ھ۔
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، 1416ھ۔
  • بشوی، محمد‌یعقوب، «آیہ انذار»، در دانشنامہ حج و حرمین شریفین، جلد 1، بی‌جا، پژوہشکدہ حج و زیارت، 1392ہجری شمسی۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: محمد‌باقر محمودی، بیروت، دار المعارف، 1417ھ۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن احمد، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1411ھ۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الدر المنثور، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، رسالۃ فی معنی المولی، قم، انتشارات کنگرہ جہانی شیخ مفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارۃ، قم، انتشارات کنگرہ جہانی شیخ مفید، 1413ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ و افست تہران، ناصر خسرو، 1406ھ۔
  • فرات کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1410ھ۔
  • مغنیہ، محمد‌جواد، التفسیر الکاشف، بیروت، دار الانوار، بی‌تا۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
  • مولایی‌نیا، عزت اللہ و محمدامین مؤمنی، «تفسیر تطبیقی آیہ انذار از نگاہ فریقین»، در پژوہش‌ہای تفسیر تطبیقی، ش1، 1394ہجری شمسی۔
  • نباطی بیاضی، علی بن یونس، الصراط المستقیم، نجف، چاپ کتابخانہ حیدریہ، 1384ھ۔
  • وشنوی، محمد‌قوام، حیاۃ النبی و سیرتہ، قم، سازمان اوقاف و امور خیریہ، 1424ھ۔