براق

ویکی شیعہ سے
"خمسہ نظامی" میں معراج کے واقعے کا ایک منظر جس میں پیغمبر اکرمؐ براق پر سوار ہیں۔ 16ویں صدی عیسوی میں شاہ طہماسب صفوی کے دور میں سلطان محمد نگارگر کی تخلیق جو برطانیہ کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔

بُرَاق، پیغمبر اسلامؐ کا وہ آسمانی مرکب ہے جس کے ذریعے آپ نے معراج کا سفر کیا۔ اسلام سے پہلے ادبیات عرب میں اس لفظ کے استعمال کے قرائن و شواہد دکھائی نہیں دیتے اور زیادہ تر یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ یہ لفظ پہلی بار حضرت محمدؐ کی زبان مبارک سے سنا گیا ہے۔ اس کے بعد عرب اور فارسی ادبیات میں اسے کثرت سے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ براق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: براق بہشتی حیوانات میں سے تھا جو بہت تیر رفتار تھا اور ہر قدم پر اپنی نظروں کی دید کے برابر مسافت طے کرتا تھا۔

مفہوم شناسی

اکثر ماہرین نے لفظ "بُراق" جو کہ مذکر اور مؤنث دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے، کو "بَرَق" کے مادے سے قرار دیا ہے۔ اس حیوان کو اس کی بے انتہا تیز رفتاری اور اس کے سفید اور چمکدار رنگی کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔ [1] اسلام سے پہلے عرب معاشری میں اس لفظ کے استعمال کی کوئی نشانی دکھائی نہیں دیتی اس بنا پر زیادہ تر یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ یہ لفظ پہلی بار حضرت محمدؐ کی زبان مبارک سے سنا گیا ہے جس کے بعد عربی اور فارسی دونوں ادبیات میں کثرت کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ نظریہ بلوشہ، جس میں اس لفظ کو "بارَگ" (اردو میں گھوڑے کے معنی میں) سے مشتق قرار دیتے ہیں، مورد قبول واقع نہیں ہوئی ہے۔ [2] نیز اس لفظ کے معرب ہونے کے بارے میں بھی کوئی قرائن و شواہد موجود نہیں ہیں۔[3]

براق، احادیث کی روشنی میں

"معراج" کے واقعے(جس کے واقع ہونے پر تقریبا تمام اسلامی مکاتب کا اتفاق ہے) سے مربوط احادیث کو تقریبا 30 سے زیاده صحابیوں نے پیغمبر اکرمؐ اور بعض شیعہ راویوں نے ائمہ معصومین سے نقل کئے ہیں۔[4] ان احادیث میں سے اکثر روایات میں بُراق کو پیغمبر اکرمؐ کی سواری قرار دیتے ہوئے اس کی صفات بھی بیان کی گئی ہیں۔

معراج سے مربوط اکثر روایات میں مکہ سے بیت المقدس اور دوبارہ مکہ تک کے اس معنوی سفر میں براق کو آنحضرتؐ کی سواری کے طور پر معرفی کی گئی ہے۔ ان روایات میں جن میں سے اکثر روایات خود پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہیں، آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ "بِیتُ المَقْدِس" پہنچ کر براق سے نیچے اترے اور اس کے لگام کو اس ستون کے ساتھ باندھ دیا جس کے ساتھ انبیاء اپنے مرکبوں کے لگام باندھتے تھے۔ اس کے بعد آنحضرتؐ مسجد الاقصی میں داخل ہوگئے وہاں نماز ادا کی پھر جبرئیل کے ساتھ آسمانوں کی سیر شروع کیں۔[5] جبرئیل(بعض روایات کے مطابق دو اور فرشتوں کے ہمراہ) نے شب معراج کو پیغمبر اکرمؐ کیلئے براق لے آئے اور براق بھی اپنے سوار کو پہچاننے کے بعد(یا دوسری نقل کے مطابق قیامت میں بھی آنحضرتؐ کی سواری ہونے کی ضمانت دینے کے بعد) سرکشی چھوڑ کر رام ہوگیا۔ [6]

بعض روایات کے مطابق قیامت کے دن بھی براق پیغمبراکرمؐ کی سواری ہو گی۔ [7] اسی طرح احادیث میں براق کو آنحضرتؐ کے علاوہ دوسرے پیغمبروں خاص کر ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو فلسطین سے مکہ پہنچانے کے واقعے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سواری بھی قرار دیتے ہیں۔ (بعض روایات کے مطابق حضرت ابراہیم کی تمام سفروں میں براق آپ کی سواری تھی)[8] عجّاج، بنی امیہ کے دور حکومت کا ایک شاعر، نے اپنے ایک رجز میں حضرت ابراہیم(ع) کے لگام شدہ براق کی طرف اشارہ کیا ہے [9]

ہندوستان میں براق کی پینٹنگ، 17ویں صدی عیسوی

اوصاف

بعض اوصاف کا ایک دوسرے سے ناہماہنگی کی وجہ سے اس سواری کی دقیق تصویر کشی کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس بارے میں وارد ہونے والی احادیث کی روشنی میں صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ براق ایک بہشتی اور بہت تیز رفتار سواری ہے جو ہر قدم پر اپنے نظروں کے دید کے برابر مسافت طے کرتی ہے۔ اوپر کی جانب جاتے وقت اس کی اگلی دو ٹانگیں پچھلی ٹانگوں کی بنسبت چھوٹی ہو جاتی ہیں جبکہ نیچے آتے وقت معاملہ اس کے برعکس ہو جاتا ہے یعنی اگلی ٹانگیں بلند اور پچھلی ٹانگیں چھوٹی ہوجاتی ہیں تاکہ سوار ہمیشہ افقی حالت میں رہ سکے۔ اکثر روایات کے مطابق براق کشیدہ جسامت کا حامل ہے جو گدے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ہے۔ اس کی گردن کے بال گھنے اس کا رنگ سفید اور حیوانات میں بہترین رنگ کا حامل ہے۔ اسے گھوڑے سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔[10] بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ براق کا چہرہ انسانی چہرے کی مانند ہے اور انسان کی طرح سننے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔[11]

حوالہ جات

  1. ابن منظور، ذیل «برق »؛ دمیری ، ج ۱، ص۱۶۵؛ ابن اثیر، ج ۱، ص۱۲۰؛ حلبی ، ص۳۶۸.
  2. د.اسلام، ذیل واژہ
  3. سیوطی، المزہر، ج ۱، ص۲۷۰۔
  4. سیوطی، الخصائص، ج ۱، ص۱۵۲ـ۱۷۹؛ مجلسی، ج ۱۸، ص۲۸۲.
  5. قرطبی، ج ۱۰، ص۲۰۵ـ۲۰۶؛ سیوطی، الخصائص، ج ۱، ص۱۵۲، ۱۵۸، ۱۶۷؛ حلبی، ج ۱، ص۳۷۱ـ ۳۷۵.
  6. قرطبی، ج ۱۰، ص۲۰۷؛ سیوطی، الخصائص، ج ۱، ص۱۷۹؛ مجلسی، ج ۱۸، ص۲۹۱ـ۴۱۰؛ حلبی، ج ۱، ص۳۶۹.
  7. مجلسی، ج ۷، ص۲۳۰ـ۲۳۷.
  8. دمیری، ج ۱، ص۱۶۵ـ۱۶۶؛ طبری، ج ۸، ص۵؛ سیوطی، الخصائص، ج ۱، ص۱۶۷؛ مجلسی، ج ۱۲، ص۹۷؛ حلبی، ج ۱، ص۳۷۰.
  9. ص ۲۹۵.
  10. قرطبی، ج ۱۰، ص۲۰۵، ۲۰۷؛ دمیری، ج ۱، ص۱۶۵؛ طبری، ج ۸، ص۳ـ۱۳؛ سیوطی، الخصائص، ج ۱، ص۱۵۲؛ مجلسی ، ج ۱۸، ص۲۹۱ـ.۴۱۰
  11. قرطبی، ج ۱۰، ص۲۰۷؛ مجلسی، ج ۹، ص۲۹۱، ج ۱۸، ص۳۱۶؛ حلبی، ج ۱، ص۳۷۰۔

منابع

  • قرآن۔
  • ابن اثیر، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر، چاپ طاہر احمد زاوی و محمود محمد طناحی، قاہرہ ۱۳۸۳ـ۱۳۸۵/ ۱۹۶۳ـ۱۹۶۵۔
  • ابن بلخی، فارس نامہ، چاپ گی لسترنج و رینولد آلن نیکلسون، لندن ۱۹۲۱، چاپ افست تہران ۱۳۶۳ ہجری شمسی۔
  • ابن سینا، معراج نامہ ابوعلی سینا، چاپ نجیب مایل ہروی، مشہد ۱۳۶۴ ہجری شمسی۔
  • ابن کثیر، السیرۃ النبویۃ، چاپ مصطفی عبدالواحد، بیروت، بی‌تا۔
  • ابن منظور، لسان العرب ، بیروت ( تاریخ مقدمہ ۱۳۰۰)۔
  • علی بن ابراہیم حلبی، السیرۃ الحلبیہ، بیروت، بی‌تا۔
  • محمدبن موسی دمیری ، حیاۃ الحیوان الکبری ، چاپ افست قم ۱۳۶۴ ہجری شمسی۔
  • علی اکبر دہخدا، لغت نامہ، زیرنظر محمد معین، تہران ۱۳۲۵ـ۱۳۶۱ ہجری شمسی۔
  • محمودبن عمر زمخشری، الکشّاف عن حقائق غوامض التنزیل ، بیروت، بی‌تا۔
  • عبدالرحمن بن ابی بکر سیوطی، الخصائص الکبری، بیروت، بی‌تا۔
  • عبدالرحمن بن ابی بکر سیوطی، چاپ محمد چادمولی، علی محمد بجاوی ، و محمد ابوالفضل ابراہیم ، قاہرہ بی‌تا۔
  • محمدحسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت ۱۳۹۰ـ۱۳۹۴/۱۹۷۱ـ۱۹۷۴۔
  • محمدبن جریر طبری، جامع البیان فی تفسیرالقرآن، بیروت، بی‌تا۔
  • عبداللہ بن روبہ عجاج، دیوان العجاج ، روایۃ عبدالملک بن قریب اصمعی و شرحُہُ، چاپ عزۃ حسن ، بیروت، ۱۹۷۱
  • محمدبن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، قاہرہ ۱۳۸۷، چاپ افست تہران ۱۳۶۴ ہجری شمسی۔
  • محمدباقربن محمدتقی مجلسی، بحارالانوار، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
  • EI , s۔v۔ "al-Bura ¦ k ¤ ", (by R۔ Paret)
  • The New Encyclopaedia Britanica, Micropaedia, Chicago 1985, s۔v۔ "Bura ¦ q al-Bura ¦ k"۔

بیرونی روابط

منبع مقالہ: دانشنامہ جہان اسلام