مسجد نبوی

ویکی شیعہ سے
مسجد نبوی
ابتدائی معلومات
بانیپیغمبر اسلامؐ
استعمالمسجد• روضہ پیمبرؐ • مدفن حضرت فاطمہ(س) ایک قول کی بنا پر
محل وقوعمدینہ
دیگر اسامیجامع مدینہ • مسجد الرّسول • مسجد رسول اللہ • مسجد النبی • مسجد مدینہ
مشخصات
معماری


مسجد نبوی یا مسجد النبی، سعودی عرب کے شہر مدینہ میں موجود اس تاریخی مسجد کو کہا جاتا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کا روضہ مبارکہ موجود ہے۔ یہ مسجد مسجد الحرام کے بعد مسلمانوں کے ہاں دوسرا مقدس مقام ہے۔ مسجد نبوی کی بنیاد خود پیغمبر اکرمؐ کے دست مبارک سے سنہ 1 ہجری میں رکھی گئی جس کے بعد مختلف ادوار میں اس کی تعمیر و توسیع کا کام جاری رہا۔ پیغمبر اکرمؐ اور حضرت علیؑ کا دولت سرا بھی اس مسجد کے ساتھ بنا ہوا تھا لیکن بعد میں جب مسجد نبوی کو توسعہ دیا گیا تو یہ مکانات بھی مسجد میں شامل ہو گئے۔ مسجد نبوی مسلمانوں خاص کر شیعیان حیدر کرار کے یہاں خاس اہمیت کی حامل ہے اور یہ مسجد ان کے زیارتی مقامات میں شامل ہے۔

اسامی

مسجد نبوی کو جامع مدینہ، مسجد الرّسول، مسجد رسول اللہ، مسجد النبی اور مسجد مدینہ بھی کہا جاتا ہے لیکن اس کا سب سے مشہور نام "مسجد نبوی" یا "مَسجدُالنَّبی" ہے۔ پیغمبر اکرمؐ جہاں اس مسجد میں نماز جماعت پڑھاتے تھے وہاں اس وقت کے سیاسی اور سماجی امور بھی اسی مسجد میں انجام دیتے تھے،[1] اسی وجہ سے قدیم زمانے سے ہی یہ مسجد، مسجد نبوی کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اس مسجد میں پیغمبر اکرمؐ کے دولت سرا کا شامل ہونا بھی اس کی نامگذاری میں مؤثر تھا۔[2] بعض احادیث میں پیغمبر اکرمؐ نے خود اس مسجد کو "مسجدی" (میری مسجد) سے تعبیر فرمایا ہے۔[3]

یہ مسجد سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ کے مرکز میں واقع ہے۔[4]

تاریخچہ

عصر نبوی

جس وقت پیغمبر اکرمؐ یثرب میں داخل ہوئے تو آپ کی سواری کو آزاد چھوڑ دیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ جہاں آپ کی سواری رکے گی وہیں آپؐ کا محل سکونت ہوگا، یوں جہاں آپؐ کی سواری رکی اسی جگہ مسجد اور آپ کیلئے قیام گاہ تعمیر کی گئی اس کے بعد رفتہ رفتہ دوسرے مسلمانوں نے بھی مسجد کے اطراف میں اپنے لئے گھر بنانا شروع کیا اور ان تمام گھروں کے دروازے مسجد کے اندر کھلتے تھے۔[5] مسجد نبوی کو 1050 مربع میٹر مساحت پر لکڑی اور مٹی سے بنایا گیا۔ مسجد نبوی کے شمالی حصہ پر جہاں اصحاب صفہ قیام کرتے تھے، کھجور کی ٹہنیوں سے چھت بنائی گئی تھی۔[6] مسجدالاقصی سے قبلہ کی مسجدالحرام کی طرف منتقلی کی وجہ سے مسجد کے جنوب میں واقع دروازے کو بند کر کے اسے شمالی حصے میں منتقل کیا گیا جس کے ساتھ شمالی حصے میں موجود اصحاب صفہ کا مقام بھی مسجد کے جنوب میں منتقل کیا گیا۔[7] سنہ 7 ہجری کو مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے مسجد نبوی کو توسیع دے کر اس کی مساحت کو 2475 مربع میٹر تک پہچایا گیا۔[8]

خلیفہ دوم اور سوم کا دور

سنہ 17 ہجری میں مسجد نبوی کے اطراف میں موجود مکانات کو بھی مسجد میں شامل کر قبلے کی طرف سے تقریبا 5 میٹر، مغرب کی جانب سے 10 میٹر اور شمال کی جانب سے 15 میٹر توسیع دی گئی۔[9] اسی طرح سنہ 29 ہجری میں خلیفہ سوم نے دوبارہ بعض مکانات کو ان کے مالکین کی مخالفت کے باوجود تخریب کر کے مسجد نبوی میں مزید 496 میٹر اضافہ کر دیا۔ اس دفعہ انہوں نے مسجد نبوی کی تعمیر میں تزیین شدہ پتھروں کا استعمال کیا گیا جبکہ مسجد کی چھت کو بھی ٹیک کی لکڑی سے مزین کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد کے اگلے حصے میں امام جماعت کے کھڑے ہونے کیلئے محراب بھی بنائی گئی۔[10]

بنی امیہ کا دور

عمر بن عبد العزیز جب مدینہ کے گورنر بنے تو انہوں نے سنہ 88 سے 91 ہجری تک مسجد کی تعمیر و توسیع کے حوالے سے بہت زیادہ کام کیا یہاں تک کہ ایک قول کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مسجد کو 7500 مربع میٹر تک وسعت دی۔[11] انہوں نے خلیفہ وقت ولید بن عبدالملک کے حکم سے روضہ پیغمبر اکرمؐ کے اردگرد دیوار بنائی اور حجرہ پیغمبر کو بھی مسجد میں شامل کر دیا۔ اسی طرح انہوں نے خلیفہ وقت کے حکم سے حضرت فاطمہ(س) کے گھر کو بھی جو اس وقت امام حسینؑ کی بیٹی اور حسن بن حسن بن علی کی زوجہ فاطمہ صغری کی ملکیت میں تھا، مسجد میں شامل کر دیا۔[12] بعض مورخین کا خیال ہے کہ ولید کے اس کام کا اصلی مقصد حسن بن حسن کی ملیکت سے حضرت زہرا(س) کے گھر کو چھیننا اور اسے مسجد نبوی سے دور کرنا تھا اسی وجہ سے لوگ سالوں سال تک اس حصے کو غصبی سمجھ کر اس میں نماز پڑھنے سے پرہیز کرتے تھے۔[13] اس عرصے کی خاص بات رومی ماہرین کے توسط سے مسجد کی عمارت کا استحکام اور تزیین تھی۔[14] ولید نے مسجد نبوی کی تعمیر میں قیصر روم سے مدد طلب کی تو اس نے ایک لاکھ مثقال سونے کا عطیہ دینے کے علاوہ ایک سو ماہرین کی ٹیم بھی بھیجی۔[14]

بنی عباس کا دور

مہدی عباسی نے سنہ 161 یا 162 ہجری کو مسجد نبوی میں 2450 میٹر کا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد کی ستونوں اور دروازوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا۔ ان کے دور میں مسجد نبوی کے 20 دروازے تھے؛ شمالی حصے میں چار جبکہ مغرفی اور مشرقی حصے میں آٹھ آٹھ دروازے تھے۔ اس توسیعی منصوبے میں مسجد نبوی کے اطراف میں موجود بہت سراے مکانات جو مختلف صحابہ کرام کے نام سے مشہور تھے، مسجد میں شامل کئے گئے، من جملہ ان مکانات میں عبداللہ بن مسعود، شُرَحْبیل بن حَسنۃ اور مِسْور بن مَخْرمہ کے مکانات شامل تھے۔[15]

آگ لگنا

سنہ 654 ہجری سلسلہ بنی عباس کے خاتمے سے تین سال پہلے مسجد نبوی میں آگ لگ گئی جس سے مسجد کو بہت نقصان ہوا۔ اس واقعے کے بعد مصر نے مسجد نبوی کی مرمت کیلئے اپنے معماروں کو بھیجا، اسی دوران محمد بن قلاوون نے مسجد نبوی کے مشرقی اور مغربی حصے پر چھت کا بندوبست بھی کیا۔ سنہ 705 اور 706ھ کے دوران مسجد نبوی کیلئے متعدد صحن بھی بنائے گئے۔[16]

سنہ 886ھ کو ایک بار پھر آسمانی بجلی کی وجہ سے مسجد نبوی میں آگ لگ گئی۔ اس دفعہ بھی مصر نے مرمت کی ذمہ داری سنبھالی اور مرمت کے ساتھ ساتھ کاروان سرا، مدرسہ اور کیچن بھی تعمیر کی۔ اس تعمیری منصوبے کے بعد مسجد کی مساحت 9010 مربع میٹر تک پہنچ گئی۔[17]

عثمانیوں کا دور

سلطان عبدالحمید اول نے 1265ھ سے تیره سال کے دوران مسجد نبوی کو مستحکم اور خوبصورت انداز میں تعمیر کرایا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ اس دور کی تعمیر گذشتہ کی نسبت زیادہ مستحکم تھی۔[18]

آل سعود کا دور

1373ھ کو عبد العزیز آل سعود نے مسجد نبوی کی کل مساحت 16327 مربع میٹر تک پہنچائی۔ اس دفعہ مسجد نبوی کے شمالی، مغربی اور مشرقی حصے میں مجموعی طور پر 6025 میٹر کا اضافہ کیا گیا، اس کے علاوہ اطراف میں موجود مزید مکانات کو تخریب کر کے 16931 میٹر مسجد کے اطراف میں پارکینگ اور رفت و آمد کے لئے خالی کرایا گیا۔[19]

سنہ 1405ھ کو مسجد نبوی کی توسیع کے آخری مرحلے میں ملک فہد بن عبد العزیز نے مسجد کی مجموعی مساحت کو 82000 مربع میٹر تک پہنچائی۔ اس دور میں مسجد نبوی میں جہاں بیک وقت 137000 نمازیوں تک کی گنجائش پیدا کی گئی وہاں مسجد کی چھت کو بھی 90000 نمازیوں کیلئے نماز پڑھنے کے قابل بنا دیا گیا یوں مسجد نبوی میں مجموعی طور پر بیک وقت 257000 نمازیوں کی گنچائش پیدا ہوگئی۔[20] ملک فہد نے وضو کیلئے بھی متعدد مکانات تعمیر کرائے اور مختلف ستونوں کے اوپر روشنائی کی خاصر متعدد بڑے بڑے لامپ نصب کئے گئے۔ اس کے علاوہ مختلف صحنوں میں آٹومیٹک چھتریاں پر نصب کی گئی تاکہ بارش اور دھوپ سے محفوظ ره سکے۔ اسی طرح اس دور میں مسجد کے 6 مینارے تعمیر کئے گئے جن کی بلندی 104 میٹر تھی۔ اس وقت مسجد نبوی کے دس مینار ہیں۔[21]

اہمیت اور مقام و منزلت

دینی اور مذہبی اعتار سے

مسجد نبوی کی دیوار پر شیعہ ائمہ معصومین کا نام

مسجد نبوی مسجد الحرام کے بعد مسلمانوں کے یہاں سب سے مقدس مقام ہے جس کے مخصوص احکام بھی ہیں۔ اس مسجد میں کے اندر اور اس کے اطراف میں موجود مختلف مقامات نے اس کی اہمیت میں دو چنداں اضافہ کیا ہے جن میں پیغمبر اکرمؐ کا روضہ مبارکہ اور آپ کا دولت سرا نیز قبرستان بقیع جس میں صدر اسلام کی اہم شخصیات مدفون ہیں، شامل ہیں۔[22] حجاج کرام حج کی ادائیگی سے پہلے یا بعد میں مسجد نبوی کی زیارت کیلئے مدینہ جانے کو اپنی اس معنوی سفر کو پایہ تکمیل تک پہچنے کا سبب سمجھتے ہیں۔[23] مسجد نبوی شیعوں کے یہاں مختلف حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے جن میں سے بعض کا ذکر کیا جاتا ہے:

  • سد الابواب کا واقعہ جس میں پیغمبر اکرمؐ کو خدا کی طرف سے حکم ملا کہ حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) کے دولت سرا کے علاوہ مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کرایا جائے۔[حوالہ درکار]

سیاسی اور سماجی اعتبار سے

مسجد نبوی صدر اسلام میں نہ صرف مسلمانوں کی عبادتگاہ تھی بلکہ یہ مسجد سیاسی اور سماجی حوالے سے بھی مسلمانوں کے جمع ہونے کی جگہ تھی۔ صدر اسلام کے بہت سارے اہم فیصلے اسی مسجد میں انجام پائے ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ مسجد سیاسی اور سماجی حتی نظامی حوالے سے بھی اس وقت کے اسلامی حکومت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔[26]

آداب و احکام

اسلامی تعلیمات میں مسجد نبوی کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے کچھ احکام بھی بیان ہوئی ہیں مثلا مسجد میں داخل ہونے سے پہلے دروازے کے نزدیک کھڑے ہو کر اذن دخول پڑھنا مستحب ہے۔ اس کے بعد داخل ہوتے وقت دائیں پاؤں کو پہلے اندر رکھیں اور باب الجبرئیل سے داخل ہو اور سور مرتبہ الله اکبر پڑھا جائے۔ اس کے بعد جب مسجد میں پہنچ جائے تو دو رکعت نماز تحیت مسجد پڑھی جائے۔[27]

اس کے علاوہ مسجد نبوی کے بعض احکام درج ذیل ہیں:

اماکن و اجزاء

حجرہ پیغمبر اور مرقد پیغمبرؐ

مسجد نبوی کا فضائی نقشہ

مسجد نبوی کی ابتدائی تعمیر میں پیغمبر اکرمؐ کا حجرہ اور مرقد مبارکہ مسجد نبوی کے حدود میں شامل نہیں تھے لیکن بعد میں جب مسجد کو توسیعہ دیا گیا تو یہ یہ دو مقامات کو بھی مسجد نبوی میں شامل کیا گیا اور خانہ کعبہ کی مماثلت سے بچنے کیلئے اسے پانچ ضلعوں میں تعمیر کیا گیا۔[30] سنہ 557ھ میں صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں کو پیغمبر اکرمؐ کے مرقد مبارکہ تک رسائی سے روکنے کیلئے مرقد کے چاروں طرف سیسہ پگھلا کر انڈیلا گیا۔ اس کے بعد سنہ 668-694ھ کے دوران مختلف بادشاہوں کے توسط سے پیغمبر اکرمؐ کے حجرے کے گرد لکڑی کے پنجرے بنائے گئے۔[31]

حضرت زہرا کا گھر اور مدفن

پیغمبر خدا حضرت محمدؐ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ(س) کا گھر حضرت عایشہ کے گھر کے پیچھے تھا جس کا کا دروازہ حجرہ پیغمبر اکرمؐ کے مغربی دیوار میں کھلتا تھا۔ حالیہ دور میں اس گھر کا کوئی نام و نشان نہیں بلکہ یہ پیغمبر اکرمؐ کے حجرہ اور ضریح مبارکہ میں شامل کر دیا گیا ہے۔[32] اہل سنت کی اکثریت اس بات کے معتقد ہیں کہ ضرت فاطمہ(س) بقیع میں دفن ہوئی تھیں؛[33] لیکن اکثر شیعہ احادیث میں آپ کے محل دفن کو آپ کا گھر ہی قرار دیتے ہیں جو اس وقت مسجد نبوی میں شامل ہو چکا ہے۔[34] شیعہ علماء اگر چہ یقینی طور پر نہیں کہتے لیکن زیادہ احتمال دیتے ہیں کہ آپ(س) آپ کے گھر میں ہی دفن ہو گئی تھیں جو اس وقت مسجد نبوی کا حصہ بن چکا ہے۔[35]

دروازے

مسجد نبوی کے دروازوں سے متعلق مختلف تاریخی اور جغرافی کتب میں بحث کی گئی ہے۔ صدر اسلام سے دور حاضر تک مسجد نبوی کے دروازوں کی تعداد اور ان کے شکل و شمائل میں تبدیلی آتی رہی ہے۔
شروع میں مسجد نبوی کے تین دروازے تھے:

  1. جنوبی دروازہ جسے تغییر قبلہ کے بعد بند کیا گیا اور اس کی جگہ شمالی حصے میں ایک دروازہ نکالا گیا۔[36]
  2. مغربی دروازہ یا "باب عاتکۃ" جو اس وقت "باب الرحمۃ" کے نام سے مشہور ہے۔[37] اس دروازے کو "باب عاتکہ" کہنے کی وجہ یہ تھی یہ دروازہ عاتکہ بنت عبد اللہ بن یزید بن معاویہ کے گھر کے سامنے تھا اسلئے اسے باب عاتکہ کہا جاتا تھا۔[38] اسی طرح اس وقت اسے "باب الرحمہ" کہنے کی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث کے مطابق ایک شخص اسی دروازے سے داخل ہو کر خدا سے باران رحمت کی درخواست جس کے بعد سات دن تک مسلسل بارش ہوتی رہی اور ساتویں دن پھر اسی شخص کی درخواست پر بارش بند ہوگئی۔[39]
  3. مشرقی دروازہ جو "باب عثمان"، باب النبی اور باب جبرئیل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔[40] یہ دروازہ چونکہ عثمان بن عفان کے گھر کے سامنے کھلتا تھا اسلئے اسے باب عثمان اور چونکہ پیغمبر اکرمؐ اسی دروازے سے مسجد میں داخل ہوتے تھے اسلئے اسے باب النبی اور جنگ بنی قریظہ کے وقت جبرئیل اسی دروازے سے پیغبر اکرمؐ پر نازل ہوا اسلئے اسے باب جبرئیل کہا جاتا ہے۔[41]

بعد میں مختلف ادوار میں مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کے ساتھ مختلف دروازے نکالے گئے اور چہ بسا بعد دروازوں کو بند بھی کیا گیا، اس وقت مسجد نبوی کے تقریبا 86 دروازے ہیں۔[42]

ستون

مسجد نبوی کے ستونوں کے بارے میں بحث پرانے زمانے سے ہی مدینہ سے متعلق موجود مآخذ میں چلی آرہی۔ کتاب آثار اسلامی مکہ و مدینہ میں رسول جعفریان کے مطابق اس وقت مسجد نبوی میں 2104 ستون موجود ہیں۔[43] ان میں ستون حَنّانہ، ستون توبہ اور ستون حَرَس کا نام سب سے زیادہ مشہور ہے۔[44]

مِنبر رسول

پیغمبر اکرمؐ شروع میں کھجور کے ایک درخت کے ساتھ ٹیگ لگا کر مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ ساتویں یا آٹھویں سنہ ہجری میں آپ کیلئے ایک منبر بنایا گیا۔[45] حدیثی منابع میں اس منبر کی فضیلت سے متعلق پیغمبر اکرمؐ سے احادیث بھی موجود ہیں۔[46] یہ منبر پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد سے معاویہ کے دور خلافت تک مسجد نبوی میں مورد استفادہ رہا۔ معاویہ اپنی خلافت کو شرعی اور قانونی شکل دینے کے لئے اس منبر کو مدینہ سے شام لے جانا چاہتا تھا لیکن مدینہ کے لوگوں نے اسے اس کام سے منع کیا۔ سنہ 654ھ کو جب مسجد نبوی میں آگ لگنے کے واقعے میں منبر بھی جل گیا۔ سنہ 664ھ میں حاکم مصر کی طرف سے مسجد نبوی کیلئے ایک نیا منبر بھیجا گیا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس کا منبر بھی تبدیل ہوتا رہا یہاں تک کہ سنہ 998ھ میں سلطان مراد عثمانی کی طرف سے ایک منبر بھیجا گیا جو اس وقت تک موجود ہے۔[47]

محراب

مسجد نبوی کے کئی محراب تھے اور ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور محرابیں یہ ہیں:

  • محراب پیغمبر؛ شروع میں پیغمبر اکرمؐ کے لئے مسجد نبوی میں کوئی محراب نہیں تھی لیکن بعد میں جہاں آپ نماز پڑھا کرتے تھے اسی جگہ ایک محراب تعمیر کی گئی جو مسلمانوں کے یہاں خاص احترام کا حامل ہے اور دیگر محرابوں کا تقدس بھی حقیقت میں اسی محراب کی وجہ سے ہے۔ احتمال قوی یہ ہے کہ یہ محراب عمر بن عبدالعزیز کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔[48]
  • محراب تہجّد؛ ستون تہجد کے ساتھ وہ مقام جہاں پیغمبر اکرمؐ نماز شب، عبادت اور شب بیداری فرماتے تھے، کی جگہ بعد میں پیغمبر اکرمؐ کے احترام اور آپ کی یاد میں ایک محراب بنایا گیا جو محراب تہجد کے نام سے مشہور ہو گئی جسے آل سعود کے دور میں خراب کیا گیا۔[49]
  • محراب فاطمہ(س)؛ یہ محراب، محراب تہجّد کے جنوب یا حضرت فاطمہ(س) کے دولت سرا میں واقع تھی جو بعد میں مسجد میں شامل کیا گیا۔ احادیث میں اس محراب کا تذکرہ ملتا ہے؛ من جملہ یہ کہ امام حسن مجتبیؑ فرماتے ہیں: "میری والدہ گرامی حضرت فاطمہ(س) کو ایک دفعہ شب جمعہ کو صبح تک محراب میں کھڑی ہو کر مومن مردوں اور عورتوں کیلئے نام لے کر دعا کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے پوچھا آپ کیوں اپنے لئے دعا نہیں کرتیں؟ اس وقت آپ(س) نے فرمایا: بیٹا پہلے ہمسایوں کیلئے پھر اہل خانہ کے لئے"۔[50]

گنبد نبوی

سنہ 678ھ کو پہلی مرتبہ سلطان قلاوون مملوکی کے توسط سے مرقد پیغمبرؐ پر گنبد تعمیر کیا گیا۔ سنہ 884 ھ کو سلطان قایتبای جس نے مسجد نبوی میں لگنے والی آگ میں گنبد کو ہونے والے نقصانات کا مشاہدہ کیا تھا، نے اسے نئے سرے سے دوبارہ تعمیر کروایا۔ اسی طرح سنہ1233ھ کو سلطان محمود عثمانی کی دور میں اس گنبد کی مرمت کی گئی۔ سلطان عبدالحمید عثمانی نے اس گنبد کا رنگ جو اس وقت تک نیلا تھا کو سبز رنگ میں تبدیل کیا جس کے بعد یہ گنبد، گنبد خضراء کے نام سے مشہور ہوا۔[51]

کتاب‌ شناسی

مسجد نبوی سے متعلق موجود قلمی آثار کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، وہ آثار جو مستقل طور پر مسجد نبوی کے بارے میں لکھی گیئ ہیں جبکہ دوسری قسم ان آثار کی ہیں جن میں دوسرے موضوعات کے ضمن میں مسجد نبوی سے متعلق بحث کی گئی ہیں۔

  • اخبار المدینۃ تحریر، ابن زَبالہ (پیدائش تقریبا 200 ھ)، ظاہرا یہ پہلی کتاب ہے جس میں مسجد نبوی سے متعلق بحث کی گئی ہے۔ ابن زبالہ اس کتاب میں مسجد نبوی کی تاریخ اور اس کی تعمیر و توسیع سے متعلق بحث کی ہیں۔ اسی طرح مصنف اس کتاب میں مسجد نبوی کی مساحت اور اس کے اطراف میں موجود مکانات سے متعلق بھی بحث کی ہیں۔
  • تاریخ المدینۃ المنورۃ، تحریر ابن شبّہ (پیدائش 262 ھ)، مؤلف نے اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ، خلیفہ دوم اور خلیفہ سوم کے دور میں شہر مدینہ کا تعارف کیا ہے۔[52] ابن شبہ شہر مدینہ سے مربوط مباحث کے ذیل میں مسجد نبوی کا تعارف کرتے ہوئے اس سے متعلق آداب بھی ذکر کیا ہے۔
  • آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تحریر رسول جعفریان۔
  • تاریخ المسجد النبوی الشریف، تحریر محمد الیاس عبدالغنی، مؤلف نے اس کتاب میں مستقل طور پر مسجد نبوی کے بارے میں بحث کی ہیں۔

حوالہ جات

  1. پور حسین، «قانون‌ مندی در حکومت نبوی»، ص۱۵۳.
  2. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۲۳۴.
  3. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۵۵۶.
  4. حافظ، فصول من تاریخ المدینہ المنورہ، ۱۴۱۷ق، ص۶۳.
  5. ابن زبالہ، اخبار المدینہ، ۲۰۰۳م، ص۷۴؛ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۲.
  6. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۳-۲۰۴.
  7. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۴.
  8. نجفی، مدینہ شناسی، ۱۳۶۴ش، ص۳۵؛ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۴.
  9. سمہودی، وفاءالوفاء، ۲۰۰۶م، ج ۲، ص ۶۷-۶۸؛ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۵، ۲۰۶.
  10. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص ۲۰۶.
  11. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.
  12. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.
  13. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.
  14. 14.0 14.1 جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۸.
  15. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۹.
  16. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۰.
  17. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص ۲۱۰.
  18. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۰.
  19. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۱.
  20. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۱-۲۱۳.
  21. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۳، ۲۱۴.
  22. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۳۹.
  23. امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۱۶۵-۱۶۹.
  24. صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۷۲.
  25. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۳۹.
  26. پورحسین، «قانون‌مندی در حکومت نبوی»، ص۱۵۳.
  27. قمی، مفاتیح الجنان، باب کیفیت زیارت حضرت رسول(ص) در مدینہ.
  28. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۶۴.
  29. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص ۲۸۵.
  30. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۷-۲۱۸.
  31. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۸.
  32. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۲۵۵۔
  33. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۹۔
  34. ابن شبّہ، تاریخ المدینۃ المنورۃ، ۱۳۹۹ق، ج۱، ص۱۰۷۔
  35. صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۷۲۔
  36. حافظ، فصول من تاریخ المدینہ المنورہ، ۱۴۱۷ق، ص۶۵-۶۶۔
  37. حافظ، فصول من تاریخ المدینۃ المنورۃ، ۱۴۱۷ق، ص۶۶۔
  38. عبد الغنی، تاریخ المسجد النبوی الشریف، ۱۴۱۶ق، ص۱۴۱۔
  39. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۳۶۔
  40. حافظ، فصول من تاریخ المدینۃ المنورۃ، ۱۴۱۷ق، ص۶۶۔
  41. عبد الغنی، تاریخ المسجد النبوی الشریف، ۱۴۱۶ق، ص۱۳۸-۱۴۱۔
  42. «ابواب مسجد النبی»
  43. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۲۳۔
  44. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۲۳، ۲۲۵، ۲۲۶۔
  45. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۔
  46. بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۳۶۱ش، ص۱۹۷۔
  47. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۲۱۔
  48. سمہودی، وفاءالوفاء، ۲۰۰۶م، ج۱، ص۲۸۲۔
  49. نجفی، مدینہ شناسی، ۱۳۶۴ش، ص۱۰۰؛ شیخی، فرہنگ اعلام جغرافیایی، ۱۳۸۳ش، ص۳۳۹۔
  50. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۶، ص۳۱۳۔
  51. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۳۵۔
  52. ابن شبّہ، تاریخ مدینہ منورہ، ۱۳۸۰ش، ص۲۔

مآخذ

  • ابن حبان، صحیح، تحقیق: شعیب ارنؤوط، بی‌جا، الرسالہ، ۱۹۹۳م۔
  • ابن زبالہ، محمد بن حسن، اخبار المدینہ، جمع و توثیق و دراسہ صلاح عبدالعزیز زین سلامہ، المدینۃ المنورۃ، مرکز بحوث و دراسات المدینہ المنورہ، ۲۰۰۳م۔
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عبدالعطاء، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۰ق۔
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، انتشارات فرہنگ واندیشہ، بی‌تا۔
  • ابن شبّہ، تاریخ المدینۃ المنورۃ، تحقیق فہیم محمد شلتوت، جدّۃ، بی نا، ۱۳۹۹ق۔
  • ابن شبّہ، تاریخ مدینہ منورہ، ترجمہ حسین صابری، تہران، نشر مشعر، ۱۳۸۰ش۔
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، المناقب، قم، موسسہ انتشارات علامہ، بی تا۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۳۹۸ق۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، ۱۴۱۶ق۔
  • بیہقی، احمد بن الحسین، دلائل النبوۃ، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۶۱ش۔
  • پور حسین، مہدی، «قانون مندی در حکومت علوی»، در مجلہ حکومت اسلامی، قم، دبیرخانہ مجلس خبرگان رہبری، زمستان ۱۳۸۵-شمارہ۴۲۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن ترمذی، تحقیق عبدالرحمن محمد عثمان، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۳ق۔
  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، نشر مشعر، چاپ نہم، ۱۳۸۷ش۔
  • حافظ، علی، فصول من تاريخ المدينۃ المنورۃ، المدينۃ النورۃ، شرکۃ للطباعۃ والنشر، الطبعۃ الثالثۃ، ۱۴۱۷ق۔
  • سایت بوّابۃ الحرمین الشریفین، بدون تاریخ درج مطلب، تاریخ بازدید: ۱۰ مرداد ۱۳۹۶۔
  • سبط ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص، قم، منشورات الشریف الرضی، ۱۳۷۶ش۔
  • سمہودی، نور الدین علی، وفاء الوفا باخبار‌دار المصطفی،‌ تحقیق خالد عبدالغنی محفوظ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۲۰۰۶م۔
  • شیخی، حمید رضا، فرہنگ اعلام جغرافیایی، تہران، مشعر، ۱۳۸۳ش۔
  • صدوق، محمّد بن علی، من لا یحضر الفقیہ، قم، منشورات جامعۃ المدرسین للحوزۃ العلمیۃ، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۴۱۳ق۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، دارالتراث، الطبعۃ الثانيۃ، ۱۳۸۷ق۔
  • عبد الغنی، محمد الیاس، تاریخ المسجد النبوی الشریف، المدینۃ المنورۃ، مکتبۃ ملک فہد، ۱۴۱۶ق۔
  • قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، قم، موسسہ فرہنگی ہنری مشعر، چاپ چہارم، ۱۳۸۱ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار،بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔
  • نجفی، محمد باقر، مدینہ شناسی، تہران، شرکت قلم، ۱۳۶۴ش۔
  • یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، بیروت، مؤسسۃ الاعلامی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق۔