عبد اللہ بن عبد المطلب

ویکی شیعہ سے
عبد الله
کوائف
نام:عبداللّہ بن عبدالمُطَّلِب بن ہاشم
والد:عبد المطلب
مشہور اقارب:پیغمبر اکرمؐ، آمنہ بنت وہب عبد المطلب، ابو طالب، علیؑ
وجہ شہرت:رسول خداؐ کے والد کے عنوان سے
پیدائش:عام الفیل سے 25 یا 26 سال پہلے
مقام پیدائشمکہ
وفات:ولادت پیغمبر اکرمؐ سے کچھ عرصہ قبل، بمقام یثرب
مدفن:ابتداء میں دار النابغہ، اور اب جنۃ البقیع، مدینہ منورہ
سماجی خدمات:والدِ رسول اللہ الاعظم


عبداللہ بن عبدالمُطَّلِب، رسول خداؐ کے والد ماجد ہیں۔ وہ مکہ کے تاجروں میں سے تھے۔ عبداللہ کی زندگی کا مشہور واقعہ ذبح کے لئے عبدالمطلب کی نذر کا واقعہ ہے۔ گوکہ بعض معاصر مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ بنو امیہ کا گھڑا ہوا افسانہ ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عبداللہ اپنے فرزند ارجمند حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی ولادت سے کچھ عرصہ پہلے یا ایک قول کی بنا پر بعد وفات پاگئے۔ اہل سنت کے منابع میں انہیں بھی کافر گردانا گیا ہے لیکن شیعہ علماء کا اتفاق ہے کہ عبداللہ موحد اور مؤمن تھے۔

نسب اور کنیت

عبداللہ بن عبدالمطّلب بن ہاشم عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ عبداللہ، امیرالمؤمنینؑ کے والد ابو طالب، زبیر اور ان کی پانچ بہنوں کی والدہ [[فاطمہ بنت عمرو مخزومی تھیں۔ ان کی والدہ فاطمہ رسول خداؐ کے شجرہ نسب میں پانچ فاطماؤں میں سے ایک ہیں۔[1]۔[2]

ان کی کنیتیں "أبو قشم"، "‌أبو محمّد"، "‌ابو احمد‌" ہیں اور لقب "ذبیح" ہے۔

ذبح عبداللہ کی داستان اور اس کی حقیقت

کہا گیا ہے کہ جب عبدالمطلب علیہ السلام چاہ زمزم کھودنے میں مصروف تھے تو ان کا صرف ایک فرزند تھا۔ اس زمانے میں قریش نے ان کی مخالفت کا آغاز کیا اور سب مدعی ہوئے کہ انہیں بھی اس اعزاز میں حصہ ملنا چاہئے۔ عبدالمطلب نے دیکھا کہ قریش ان کی مخالفت کررہے ہیں اور دفاع کے لئے ان کا صرف ایک بیٹا ہے تو انھوں نے نذر مانی کہ اگر خداوند متعال انہیں 10 بیٹے عطا کرے تو ان میں سے ایک کو اللہ کی راہ میں، خانۂ کعبہ کے پہلو میں قربان کریں گے۔ ان کے بیٹوں کی تعداد 10 ہوئی تو انھوں نے بیٹوں کے درمیان قرعہ ڈالا تو قرعہ عبداللہ کے نام پر نکلا؛ لیکن لوگوں نے مخالف کردی چنانچہ فیصلہ ہوا کہ عبداللہ اور 10 اونٹوں کے درمیان قرعہ ڈالا جائے، اگر قرعہ اونٹوں کے نام پر نکلے تو 10 اونٹوں کی قربانی دی جائے اور اگر عبداللہ کے نام پر نکلے تو 10 اونٹوں کا اضافہ کیا جائے اور اسی طرح اونٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے یہاں تک کہ قرعہ اونٹوں کے نام پر نکلے۔ قرعہ آخر کار عبداللہ اور 100 اونٹوں کے درمیان ڈالا گیا جو 100 اونٹوں کے نام نکلا۔[3]

رسول اللہؐ اس قضیئے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "‌أنا ابنُ الذَبیحَین: میں دو ذبیحوں (قربانیوں) کا فرزند ہوںامام رضاؑ اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اسمعیل اور عبداللہ۔[4]

علی دوانی نذر عبدالمطلب کو امویوں کے ذہنوں کا گھڑا ہوا افسانہ سمجھتے ہیں جو انھوں نے رسول اکرمؐ اور علیؑ کی قدر و منزلت گھٹانے کی غرض سے بنایا ہے۔[5]

آمنہ کے ساتھ شادی

بعض روایات کے مطابق عبدالمطلب نے نذر کے واقعے اور 100 اونٹوں کی قربانی دینے کے بعد، عبداللہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور فوری طور پر وہب بن عبد مناف کے گھر پہنچے۔ وہب ان دنوں اپنے خاندان "بنو زہرہ کے سربراہ تھے۔ عبدالمطلب نے ان کی بیٹی آمنہ بنت وہب کا رشتہ مانگا جو ان دنوں نسب اور منزلت کے لحاظ سے قریش کی عظیم ترین خواتین میں شمار ہوتی تھیں اور عبداللہ سے ان کا نکاح کرلیا؛[6] لیکن بعض دوسری روایات کے مطابق عبداللہ کی شادی واقعۂ نذر کے ایک سال بعد انجام پائی۔[7]

عبداللہ صاحب ایمان

عبداللہ بن عبدالمطلب علیہ السلام کے ایمان کے سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہل سنت کے بعض فرقوں کے علماء انہیں کافر سمجھتے ہیں لیکن علمائے امامیہ کا اتفاق ہے کہ رسول خداؐ کے آباء و اجداد عبداللہ سے لے کر آدمؑ تک سب یکتا پرست اور مؤمن تھے۔[8]

بہر حال علمائے امامیہ۔[9]۔[10] اور اہل سنت کی ایک جماعت۔[11]۔[12]۔[13]۔[14] کا عقیدہ ہے کہ رسول خداؐ کے والدین اور آباء و اجداد مسلمان اور یکتا پرست تھے۔

قرآن مجید کی نگاہ میں

خداوند متعال کا ارشاد ہے:

"الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ (218) وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ (219) (ترجمہ: جو دیکھتا ہے آپ کو جب آپ کھڑے ہوتے ہیں (218) اور آپ کی گردش کو سجدہ کرنے والوں میں (219))[؟–218-219]" اس کے معنی یہ ہیں کہ خداوند متعال رسول خداؐ کی روح کو ایک سجدہ کرنے والے سے دوسرے ساجد کی صلب میں منتقل کرتا ہے؛ اس معنی کے مطابق، آیت کی دلالت یہ ہے کہ رسول خداؐ کے تمام آباء و اجداد مسلمان تھے۔[15]۔[16]۔[17] لہذا ان آیات کے ذیل میں منقولہ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول خداؐ پے در پے ایک پیغمبر کی صلب سے دوسرے پیغمبر کی صلب میں منتقل ہوجاتے تھے۔[18]۔[19]۔[20]

احادیث کی روشنی میں

رسول اللہؐ کے آباء و اجداد کے ایمان اور یکتا پرستی کے بارے میں دو قسم کی حدیثیں وارد ہوئی ہیں:

1۔ وہ احادیث جو رسول خداؐ کے آباء اور ماؤں کی پاکیزگی اور طہارت پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: "جبرائیل مجھ پر نازل ہوئے اور کہا اے محمد! خداوند عزّ و جلّ خداوند متعال نے آپ پر درود بھیجتا ہے اور فرماتا ہے: بےشک میں نے آگ کو حرام کردیا ہر صلب پر جس نے آپ کو اتارا ہے اور ہر رَحِم (= کوکھ) پر جس نے آپ کو حمل کیا ہے، اور ہر دامن پر جس نے آپ کو پالا ہے اور آپ کی کفالت کی ہے۔[21]۔[22]

نیز آنحضرتؐ نے فرمایا: "خداوند عزّ و جلّ نے مجھے یکے بعد از دیگرے پاک صلبوں سے پاک اور مطہر کوکھوں میں منتقل کیا اور جاہلیت کی برائیاں مجھ تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔[23]۔[24]۔[25]۔[26]۔[27] یہ احادیث معنوی تواتر کی حد تک پہنچی ہیں۔[28]

2۔ وہ احادیث جن کے مطابق رسول اللہؐ قیامت کے دن اپنے آباء و اجداد کی شفاعت کرتے ہیں جیسا کہ رسول خداؐ نے فرمایا:

"میں نے اپنے پروردگار سے التجا کی کہ چار افراد کو بخش دے اور خدا انہیں بخش دے گا ان شاء اللہ: [میری والدہ] آمنہ بنت وہب، [میرے والد] عبداللہ بن عبدالمطلب، [میرے چچا] ابو طالب بن عبدالمطلب، اور ایک انصاری مرد جس کے ساتھ میرا عہد پیمان تھا۔[29] حالانکہ قرآن کی روشنی میں رسول اللہؐ کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے طلب مغفرت اور ان کی شفاعت کریں؛ ارشاد ہوتا ہے:

"مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِي قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (ترجمہ: پیغمبر کو اور انہیں جو ایمان لائے ہیں، یہ حق نہیں کہ وہ دعائے مغفرت کریں مشرکوں کے لیے، چاہے وہ عزیز ہوں بعد اس کے کہ ان پر ثابت ہو گیا وہ دوزخ والے ہیں)[؟–113] اور یہ جو رسول خداؐ نے فرمایا ہے کہ "میں اپنے والدین کی شفاعت کرتا ہوں" اس بات کی دلیل ہے کہ وہ موحد اور یکتا پرست تھے۔[30]

شیخ صدوق نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ نے امام علیؑ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "عبدالمطلب نے کبھی بھی قمار بازی (= جوا بازی) نہیں کی اور بتوں کی پوجا نہیں کی اور ۔۔۔۔ اور وہ کہا کرتے تھے کہ میں اپنے باپ ابراہیم خلیلؑ کے دین پر ہوں"۔[31]

نیز شیخ صدوق کہتے ہیں: ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ رسول خداؐ کے آباء و اجداد آدمؑ تک، نیز ابوطالب اور رسول اکرمؐ کی والدہ آمنہ سب مسلمان اور صاحب ایمان تھے۔[32]

تاریخ کی روشنی میں

تاریخی متون و مآخذ کے مطابق، نہ صرف رسول خداؐ کے آباء و اجداد کے مشرک ہونے کے سلسلے میں کوئی روشن دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اسلامی مآخذ میں ایسے دلائل بکثرت پائے جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ وہ عظیم اور بہترین شخصیت کے مالک تھے۔ مثال کے طور پر مکہ پر ابرہہ کے حملے کے دوران حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کا کلام اور ان کی دعا اس امر کی بہترین دلیل ہے۔ ابرہہ نے کعبہ کی ویرانی کی غرض سے مکہ پر حملہ کیا تو عبدالمطلب نے بتوں کی پناہ میں چلے جانے کے بجائے اللہ عز و جل کی بارگاہ میں التجا کی اور کعبہ کی حفاظت کے لئے اللہ پر توکل فرمایا۔[33]

ابرہہ کے گماشتے قریش کے اونٹ چوری کرکے لے گئے۔ عبدالمطلب اور ابرہہ کے درمیان ملاقات ہوئی۔ عبدالمطلب نے صرف اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ نے کہا: "میں نے گمان کیا کہ تم کعبہ کے بارے میں گفتگو کرنے آئے ہو"۔ عبدالمطلب نے کہا: "میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا اپنا مالک ہے جس کی وہ خود حفاظت کرے گا"۔ عبدالمطلب مکہ واپس آئے اور مکیوں سے کہا کہ اپنا گھر بار چھوڑ کر پہاڑیوں میں چلے جائیں اور اپنے اموال بھی ساتھ لے جائیں۔[34]

روایات کے مطابق جناب عبدالمطلب دین حنیف پر تھے اور انھوں نے کبھی بھی بت کی پوجا نہیں کی ہے۔ تیسری صدی ہجری کے مؤرخ مسعودی نے عبدالمطلب کے دین کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک [مشترکہ] قول یہ ہے کہ عبدالمطلب سمیت رسول اللہؐ کے اجداد میں سے کسی نے بھی بتوں کی پرستش نہیں کی ہے۔[35]

عمل صالح بھی شرط ایمان ہے جیسا کہ قرآن کی متعدد آیات میں ارشاد ہوا ہے اور رسول اللہؐ کے آباء و اجداد کی ایک وجۂ شہرت ان کا عمل صالح ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی مآخذ میں منقولہ اقوال کے مطابق آمنہ بنت وہب سلام اللہ علیہا کے اعمال صالح ان کی اعلی شخصیت کی دلیل ہیں۔ عبدالمطلب اپنے فرزند عبداللہ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: "فواللّه ما في بنات اهل مكّة مثلها لانّها محتشمةٌ في نفسها طاهرةٌ مطهرةٌ عاقلةٌ دَيّنَةٌ: خداوند متعال کی عزت و جلال کی قسم! مکہ میں کوئی لڑکی آمنہ کی طرح نہیں ہے کیونکہ وہ با حیا اور با ادب ہے اور پاکیزہ نفس کی مالک اور عاقل و فہیم ہے اور دین پر ایمان رکھتی ہے"۔[36]۔[37] پس رسول خداؐ کے والدین اور آباء و اجداد کی زندگی کی بنیادیں نیکی اور عمل صالح پر استوار تھیں جس کی وجہ سے اُس زمانے اور اس ماحول میں ان کی وجۂ شہرت نیکی اور عمل صالح اور انسانی عظمتوں سے عبارت تھی۔

وفات

تاریخ و مقام وفات

رسول اللہؐ کے والد ماجد "عبداللہ" نے 25 سال کی عمر میں یثرب کے ایک گھر دار النابغہ میں اپنے نانا کے خاندان بنو نجار میں وفات پاگئے اور اسی گھر میں سپرد خاک کئے گئے۔[38]

قوم مشہور یہ ہے کہ عبداللہ میلاد رسول خداؐ سے قبل دنیائے فانی سے رحلت کرگئے لیکن یعقوبی نے اس کو قول کو کو غیر صحیح اور اجماع کے خلاف قرار دیا ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے قول سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ "عبداللہ بن عبدالمطلب رسول خداؐ کی ولادت کے دو مہینے بعد وفات پاگئے ہیں۔ یعقوبی مزید لکھتے ہیں: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی وفات رسول اللہؐ کی ولادت کے ایک سال بعد ہوئی۔ جبکہ وہ اپنے والد کے ننھیال میں تھے۔[39] کلینی رازی نے بھی یعقوبی کے قول کی تائید کی ہے[40] جبکہ کلینی نے بھی یہ قول دوسروں سے نقل کیا ہے عبداللہ آنحضرتؐ کی ولادت کے ایک سال بعد رحلت فرما گئے ہیں۔ نیز بعض مؤرخین کے قول کے مطابق عبداللہ کی وفات میلاد النبی کے 28 مہینے بعد یا 7 ماہ بعد ہوئی ہے۔[41]۔[42] علاوہ ازیں مسعودی نے ان کی وفات آپؐ کی ولادت کے ایک ماہ بعد اور میلاد کے دوسرے سال بھی نقل کی ہے۔[43]

سبب وفات

مدینہ میں عبداللہ بن بن عبدالمطلب علیہ السلام کی وفات کے بارے میں مروی ہے: "عبداللہ قافلۂ قریش کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوئے اور واپسی میں بیماری کی وجہ سے قبیلہ بنو نجار کے ہاں رک گئے۔ قافلۂ قریش مکہ پہنچا تو عبدالمطلب نے ان کا حال پوچھا اور اپنے بڑے فرزند حارث بنی عبدالمطلب کو ان کے پاس یثرب روانہ کیا؛ لیکن حارث یثرب پہنچے تو عبداللہ وفات پا چکے تھے۔

حرم مطهر جناب عبدالله در بستر تاريخ

ترکہ

  • ایک کنیز بنام ام ایمن،
  • پانچ اونٹ،
  • بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ،
  • ای پرانی تلوار،
  • کچھ نقد رقم۔

کنیز ام ایمن آخر عمر تک رسول خداؐ کی خدمت کرتی رہیں۔ اور باقی اشیاء بھی ترکے کے طور پر رسول خداؐ کو ملیں۔[44]

عبداللہ بن عبدالمطلب کی قبر شریف مدینہ میں ہے اور اس کی زیارت مستحبات میں سے ہے۔[45]

مزار

کتاب اجساد جاویدان (جس کا عربی ترجمہ بعنوان الأجساد الخالدۃ بیروت سے شائع ہوا ہے) نے حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کے موجودہ مدفن کے بارے میں صحیح ترین معلومات فراہم کی ہیں اور کتاب کے مؤلف علی اکبر مہدی پور کا کہنا ہے کہ عاشقان اہل بیت قبور شہداء کے بعد اسمعیل بن جعفر صادق کا زیارت نامہ پڑھنے کے ساتھ ہی مسجد النبی) کے قریب جناب عبداللہ کی قبر شریف کی زیارت کریں۔ مؤلف کا کہنا ہے کہ رسول اللہؐ کے والد ماجد جناب عبداللہ کا جسم مطہر 1447 سال بعد مدینہ منورہ میں ظاہر ہوا جبکہ بالکل تر و تازہ تھا۔ ان کی قبر مسجد النبی کے قریب واقع ہوئی تھی اور شیعیان اہل بیت مدینہ مشرف ہونے کے بعد اس کی زیارت کرتے تھے۔ سعودی حکومت نے وہابیت کی مذموم روش کے تحت سنہ 1394 ہجری قمری کو ان کی قبر منہدم کرکے زمین کے برابر کردی تاکہ ان کا کوئی نام و نشان تک باقی نہ رہے؛ لیکن چونکہ خداوند متعال نے ارادہ فرمایا تھا کہ اس خاندان کی عظمت زمانے کی کشمکش میں محفوظ رہے چنانچہ قبر کا ایک حصہ کھل گیا اور ان کا جسم مطہر تر و تازہ حالت میں نمایاں ہوا۔ یہ واقعہ ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں رونما ہوا لہذا سعودی حکمرانوں نے مجبور ہوکر جسم مطہر کو عزت و احترام کے ساتھ قبرستان بقیع میں منتقل کرکے شہداء کی قبروں کے قریب سپرد خاک کردیا۔ جناب عبداللہ کا مدفن موجودہ زمانے میں بقیع میں واضح اور معروف ہے۔[46]

حوالہ جات

  1. ترجمۀ تاریخ یعقوبی، ج1، ص520
  2. ابن اثیر، الکامل، ج2، ص33۔
  3. ابن هشام، السيرة النبوية، ص103۔
  4. مجلسی، بحار الانوار، ج12، ص122۔
  5. دوانی، تاریخ اسلام از آغاز تا هجرت، ص54۔
  6. ابن هشام، السيرة النبوية، ج1، ص156۔
  7. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص42۔
  8. عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج2، 75۔
  9. مجلسی، بحار الانوار، ج15، ص117۔
  10. صدوق، الاعتقادات، ص110۔
  11. الآلوسی، تفسیر روح المعانی، ج10، ص135۔
  12. فخر رازی، تفسیر مفاتیح الغیب، ج13، ص32-33۔
  13. حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، ج6، ص313-124۔
  14. عجلونی جراحی، کشف الخفاء، ج1، ص60-62۔
  15. مفید، اوائل المقالات، ص43-46۔
  16. مفید، الصحابة بین العدالة والعصمة، ص97-98۔
  17. رضوانی، شیعه شناسى و پاسخ به شبهات، ج1، ص260۔
  18. الکوفی، تفسیر فرات، ص304۔
  19. البحرانی، تفسیر برهان، ج4، ص191-193۔
  20. البغوی، معالم التنزیل، ج3، ص484۔
  21. صدوق، علل الشرائع، ج1، ص177۔
  22. کلینی، الکافی، ج1، ص446۔
  23. البحرانی، تفسیر برہان، ج3، ص312۔
  24. طبری (الشیعی)، المسترشد في امامة علي بن ابی طالبؑ، ص649۔
  25. ابوحیان الاندلسی، تفسیر البحر المیحط، ج8، ص198۔
  26. شعیری، جامع الاخبار، ص16۔
  27. فخر رازی، تفسیر مفاتیح الغیب، ج24، ص536۔
  28. مجلسی، بحارالأنوار، ج15، ص118-119۔
  29. حمیری، قرب الاسناد، ص56۔
  30. مجلسی، بحار الأنوار، ج15، ص108۔
  31. صدوق، خصال، ج‏1، ص455۔
  32. صدوق، الاعتقادات، ص110۔
  33. رضوانی، شیعه شناسى و پاسخ به شبهات، ج1، ص261۔
  34. شفیعی کدکنی، آفرینش‏ وتاریخ، ج‏1، ص532۔
  35. مسعودی، مروج‏ الذهب، ج‏2، ص109۔
  36. بحارالانوار، علامه مجلسی، ج 15، ص 99۔
  37. البکری، الأنوار و مفتاح السرور، ص118-119۔
  38. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص10۔
  39. یعقوبی، تاریخ، ج2، ص10۔
  40. کلینی، الکافی، ج1، ص439۔
  41. ابن اثیر، اسد الغابه، ج1، ص13۔
  42. مجلسی، بحار الانوار، ج15 ، ص125۔
  43. مسعودی، التنبیه و الاشراف، ص 196۔
  44. مجلسی، بحار، ج 15 ، ص 125 ، ابن اثیر، اسد الغابه، ج 1 ، ص 14 ۔
  45. کاشف الغطاء، قلائد الدرر فی مناسک من حج و اعتمر، ص101 و 114۔
  46. مهدی پورو اجساد جاويدان، ص45-47


مآخذ

  • قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)۔
  • الآلوسى، سید محمود، روح المعانى فى تفسیر القرآن العظیم، دارالکتب العلمیة، بیروت، چاپ اول، 1415 ه‍ ق
  • آیتی، محمد ابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام صلّی الله علیه و آله و سلّم، تجدیدنظر و اضافات و کوشش: ابوالقاسم گرجی، تهران، دانشگاه تهران، 1378 ه‍ ش
  • ابن‌اثیر، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، بيروت، دار الفکر.
  • ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر - دار بیروت، 1385 ه‍ ق / 1965 ع‍
  • ابن هشام، السیرة النبویة، ترجمه سید هاشم رسولی‏، تهران، انتشارات کتابچی، چ پنجم، 1375 ه‍ ش  
  • الاندلسى، ابو حیان محمد بن یوسف، البحر المحیط فى التفسیر، دار الفکر، بیروت، 1420ق؛
  • البحراني، الشیخ محمد سند، الصحابة بین العدالة و العصمة، الإعداد والتنظيم: مصطفى الاسكندري، لسان الصدق، قم، الطبعة الأول، 1426ق / 2005 ع‍
  • البحرانى، سید هاشم بن سلیمان، البرهان فی تفسیر القرآن، مؤسسه بعثة، قم، چاپ اول، 1374 ه‍ ش
  • البغوى، حسین بن مسعود، معالم التنزیل فى تفسیر القرآن، تحقیق: المهدى، عبدالرزاق، ‏داراحیاء التراث العربى، بیروت، چاپ اول، 1420 ه‍ ق
  • البکرى، احمد بن عبد الله، الأنوار و مفتاح السرور و الأفکار فی مولد النبیّ المختار، محقق و مصحح: روحانى، احمد، دار الشریف الرضی، قم، چاپ اول، 1411 ه‍ ق
  • الحقى تلبروسوى، اسماعیل، تفسیر روح البیان، دارالفکر، بیروت، بى تا
  • الحمیرى، عبد الله بن جعفر، قرب الإسناد، مؤسسة آل البیت ؑ، قم، چاپ اول، 1413 ه‍ ق
  • دوانی، علی؛ تاریخ اسلام ازآغازتاهجرت، قم، دفترانتشارات اسلامی، چاپ هشتم، 1373 ه‍ ش
  • الرازى، فخر الدین، تفسیر مفاتیح الغیب، دار إحیاء التراث العربی، بیروت، چاپ سوم، 1420 ه‍ ق
  • رضوانى، على اصغر، شیعه شناسى و پاسخ به شبهات، نشر مشعر، تهران، چاپ دوم، 1384 ه‍ ق
  • الشعیری، محمد بن محمد، جامع الأخبار، مطبعة حیدریة، نجف، چاپ اول، بى تا
  • شفیعی کدکنی، محمد رضا، آفرینش و تاریخ، (ترجمه فارسی کتاب البدء والتاریخ، المقدسی، مطهر بن طاهر)، تهران، آگه، ط اول، 1374 ه‍ ق
  • شیخ صدوق، الشیخ محمد بن علی ابن بابویه، الاعتقادات، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، قم، چاپ دوم، 1414 ه‍ ق
  • شیخ صدوق، الشیخ محمد بن علی ابن بابویه، الخصال‏، ترجمه جعفری، قم، جامعه مدرسین، 1362 هجری شمسی‏۔
  • شیخ صدوق، الشیخ محمد بن علی ابن بابویه، علل الشرائع، کتاب فروشى داورى، قم، چاپ اول، 1385 ق ش
  • الطبرى (الشيعي)، محمد بن جریر، المسترشد فی إمامة علیّ بن أبی طالب ؑ، محقق و مصحح: محمودى، احمد، کوشانپور، قم، چاپ اول، 1415 ه‍ ق
  • العاملی، سید جعفرمرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، طبعة الخامسه، بیروت، المرکز الاسلامی للدراسات، 1427 ه‍ ق/ 2006 ع‍
  • العجلوني الجراحي، اسماعیل بن محمد، کشف الخفاء و مزیل الالباس عما اشتهر من الاحادیث، دارالکتب العلمیة، بیروت، چاپ سوم، 1408 ه‍ ق
  • کاشف الغطاء، احمد، قلائد الدرر فی مناسک من حج و اعتمر، نجف: مؤسسه کاشف الغطاء.
  • الکوفى، فرات بن ابراهیم، تفسیر فرات الکوفی، محقق و مصحح: کاظم، محمد، مؤسسة الطبع و النشر فی وزارة الإرشاد الإسلامی، تهران، چاپ اول، 1410 ه‍ ق
  • مجلسى، محمد باقر مجلسی، بحار الأنوار، دار إحیاء التراث العربی، بیروت، چاپ دوم، 1403 ه‍ ق
  • المسعودی، علی بن الحسین، التنبیه والاشراف، تصحیح عبدالله اسماعیل الصاوى، القاهرة، دار الصاوی، [بى‌تا](افست قم: مؤسسة نشر المنابع الثقافة الاسلامیة)
  • المسعودی، علی بن الحسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الهجرة، ط الثانیه، 1409 ه‍ ق
  • المفید، الشیخ محمد بن محمد، أوائل المقالات فی المذاهب و المختارات، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، قم، چاپ اول، 1413 ه‍ ق

مهدي پور، علي اكبر، اجساد جاويدان (ترجمه عربی: حیدر مجید با نام "الأجساد الخالدة بعد الموت")

  • الیعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، محمدابراهیم آیتی، تهران، شرکت انتشارات علمی فرهنگی،  1371 ه‍ ش