وحی

ویکی شیعہ سے

وحی انبیاء اور عالم غیب کے درمیان معنوی اور ناشناختہ رابطے کو کہا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اللہ کا پیغام انبیاء تک منتقل ہوتا ہے۔ یہ رابطہ کبھی کسی واسطہ کے ذریعے ہوتا ہے اور کبھی کسی بھی واسطے کے بغیر پیغام منتقل ہوتا ہے۔ یہ عمل جسے علم کلام کی اصطلاح میں تشریعی اور رسالی وحی کہا جاتا ہے، انبیاء کے ساتھ مختص ہے اور الہام اور تحدیث سے مختلف ہے۔ دور معاصر میں یہ موضوع متفکرین کے ہاں زیر بحث آیا ہے اور وحی کے عمل کے بارے میں نئے تجزیئے سامنے آئے ہیں اور یہ تجزیے زیادہ تر دینی تجربے کی بنیاد پر سامنے آئے ہیں۔

معنی اور مفہوم

لفظ "وحی" لغوی لحاظ سے سرعت کے ساتھ اشارے،[1] سرعت اور تیز رفتاری،[2] اور کسی بات کی دوسروں کو خفیہ القاء و تفہیم[3] کے معنی میں آیا ہے۔

دینی اصطلاح میں یہ ایک معنوی اور روحانی رابطہ ہے پیغمبر کی ذات اور عالم غیب کے درمیان، جس کے دوران اللہ کا پیغام پیغمبر کو منتقل ہوتا ہے۔ اس عمل کا نتیجہ ایک قطعی اور فیصلہ کن آگہی ہے جو اللہ کی جانب سے بعض برگزیدہ انسانوں کو عطا ہوتی ہے۔[4]

لفظ وحی کے قرآنی استعمالات

قرآن کریم میں لفظ وحی کو مختلف موضوعات میں بروئے کار لایا گیا ہے؛ جیسے:

فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيّاً[؟–11] ترجمہ: تو وہ محراب [عبادت گاہ] سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو انہیں اشارے سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہا کرو.

  • جِبِلّی ہدایت، جیسے شہد کی مکھی کی فطری ہدایت:

وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتاً وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ[؟–68]؛ ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے وحی (جبلی الہام) کو شہد کی مکھی کی طرف پہنچایا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر (چھتے) بنا اور بعض درختوں میں، اور بعض چھپروں میں، جو لوگ بناتے ہیں۔

  • طبیعی [فطری] ہدایت جمادات کے الہام کے بارے میں:

وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاء أَمْرَهَا[؟–12]؛ ترجمہ: اور ہر آسمان میں وحی بھیجی اس کے [اپنے متعلقہ] معاملات کی۔

  • شیطانی وسوسے اور چالیں القا کرنے کے بارے میں:

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نِبِيٍّ عَدُوّاً شَيَاطِينَ الإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً[؟–112]؛ ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے قرار دیا ہر نبی کے لیے دشمن آدمی اور جِنّات میں سے، شیطانوں کو، جو ایک دوسرے کو دھوکا دینے کے لئے ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں "القا" کرتے رہتے ہیں۔

  • کوئی بات الہام و القا کرنا، خدا کی طرف سے غیر انبیاء کو:

وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ[؟–7]؛ ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی بھیجی کہ اسے دودھ پلاؤ، اس کے بعد اگر تمہیں اس کے لئے خطرہ محسوس ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اور ڈرو نہیں۔

  • تشریعی وحی انبیاء کے لئے:

وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ[؟–65]؛ ترجمہ: اور یقینا شک وحی بھیجی گئی ہے آپ کی طرف اور ان کی طرف جو آپ سے پہلے تھے، کہ اگر تم شرک کرو تو تمہارے سب اعمال اکارت جائیں گے اور یقینا تم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہو گے۔

خصوصیات

انبیاء پر نازل ہونے والی تشریعی وحی کئی خصوصیات کی حاصل ہے:[5]

  • اس عمل [Process] میں تعلیمات، ایک غیر بشری معلم اور غیر بشری واسطے سے پیغمبروں کو، پہنچائی جاتی ہیں:

إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ﴿4﴾ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ﴿5﴾[؟–4 و 5]؛ ترجمہ: نہیں ہوتی وہ مگر وحی جو بھیجی جاتی ہے ﴿4﴾ اسے سکھایا پڑھایا بڑی مضبوط طاقتوں والے صاحب قدرت نے ﴿5﴾۔

  • زيادہ تر مواقع پر بندوں کو پیغام الہی کا ابلاغ فرشتۂ وحی کے واسطے سے انجام پاتا رہا ہے۔

نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْأَمِيْنُ[؟–193]؛ ترجمہ: اسے روح الامین نے آپ کے دل پر اتارا۔

  • پیغمبر کی ذاتی کیفیت اس حقیقت پر استوار ہے کہ یہ عمل اس کے ذاتی تخیل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کا سرچشمہ اس کی ذات سے باہر کی طرف سے ہے۔

روشیں

پیغام الہی کا ابلاغ بطریق وحی، بھی کئی روشوں سے انجام پاتا تھا۔ یہ روشیں سورہ شوری میں بیان ہوئی ہیں:
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاء إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ[؟–51]؛
اور کسی آدمی کے لیے یہ بات حاصل نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے مگر (بواسطہ) وحی، یا پردے کے پیچھے سے، یا کسی فرستادے (فرشتہ وحی) کو بھیجے تو وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی پہنچائے، یقینا وہ بلندی والا ہے، صحیح کام کرنے والا۔

  • خدا کا اپنے پیغمبر سے بلا واسطہ مکالمہ کرنا (وحی بالمشافہہ)، قصۂ معراج کی مانند؛

فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى[؟–10]؛
ترجمہ: پس اس نے اپنے بندے (رسول خدا) کی طرف وحی کر دی جو اسے وحی کرنا تھی۔[6]

  • پیغمبر کے قبل پر کلام الہی القا ہونا، (وحی الہامی)؛

وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ[؟–15]؛
اور ہم نے ان (یوسف) کی طرف وحی بھیجی کہ تم انہیں خبر دوگے ان کی اس کار گزاری کی خبر دو گے جبکہ انہیں شعور نہ ہوگا۔

یہ بلاواسطہ اور الہامی وحی حضرت یوسف(ع) کو طفولت میں بھیجی گئی جب وہ کنویں میں پھینکے گئے تھے، اور ابھی پیغمبر نہ تھے۔[7]

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ...[؟–102]؛
ترجمه: اس کے بعد جب وہ مقام "سَعْی" (یا دوڑ دھوپ اور کوشش کرنے کے سن) تک پہنچا تو انہوں نے کہا اے بیٹا! میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔

  • غیر بشری واسطے ـ یعنی جبرائیل، روح یا کسی دوسرے فرشتے ـ کے بغیر۔[9]
  • ایک خاص امر کی بنا پر اور خفیہ طور پر؛ جیسے کوہ طور میں حضرت موسی(ع) سے کلام، جو ایک درخت کے اندر سے انجام پایا۔[10]

فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِي مِن شَاطِئِ الْوَادِي الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يَا مُوسَى إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ[؟–30]؛
ترجمہ: تو جب وہاں [آگ کے پاس] گئے تو اس وادی کی داہنی جانب سے آواز آئی، اس مبارک مقام پر، اس درخت سے، کہ اے موسیٰ! میں اللہ ہوں یقینا میں ہوں، میں ہوں تمام جہانوں کا پروردگار۔

الہام اور تسدیدی وحی کے ساتھ فرق

مفصل مضمون: الہام

تسدیدی وحی سے مراد ایک قسم کی غیر تشریعی وحی ہے جو انسان کامل پر اترتی ہے، یہ " وحي التسديد" اور "وحي التأديب" کے عنوان سے مشہور ہے۔[11]

تسدیدی وحی، کے ذریعے خداوند متعال کی جانب سے ایک حقیقت کو ایسے فرد کے قلب و روح میں القاء و الہام کیا جاتا ہے جو اس کی قابلیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے کسی قسم کا کلامی رابطہ برقرار نہیں ہوتا اور قوت سامعہ کے ذریعے کوئی صدا سنائی نہیں دیتی اور انسان غیر ارادی طور پر اپنے قلبی امر کی پیروی کرتا ہے؛ مادر حضرت موسی کی طرح، جنہیں الہام ہوا کہ اپنے بیٹے کو نیل میں پھینک دیں[12] یا وہ الہام جو ائمۂ معصومین(ع)[13] اور اولیاء اللہ کو ہوتا ہے۔[14]

یہ وحی احکام شریعت بیان کرنے کے لئے نہیں بلکہ ذاتی ہدایات، معاشرتی راہنمائیاں، مستقبل کے واقعات کی خبریں یا پھر سکون و اطمینان نازل کرنے وغیرہ سے عبارت ہے جو انسان کے قلبی استحکام و اطمینان کا موجب بنتی ہے۔[15]

شیطانی وسوسوں کے ساتھ فرق

شیطانی القائات اور وسوسے بھی اگرچہ وحی کی مانند تیزی سے، خفیہ طور پر اور رازداری میں آتے ہیں، لیکن الہی الہامات اور شیطانی وسوسوں میں فرق یہ ہے کہ الہی الہامات اور وحی وصول کرتے وقت وصول کنندہ پر مسرت انگیزی اور نشاط کی کیفیت طاری ہوتی ہے جبکہ شیطانی وسوسہ انسان کی فطرت اولیہ کے ساتھ عدم سازگاری کی وجہ سے، ایسے حال میں انسان پر وارد ہوتا ہے جب وہ کسی پریشانی، اضطراب اور صدمے سے دوچار ہو۔[16]

معاصر مباحث

سولہویں صدی عیسوی تک، وحی کے غیبی ہونے کا عقیدہ، مغربی دانشوروں کے ہاں رائج تھا لیکن تجرباای علوم اور مادہ پرستانہ تفکرات کے فروغ کے بعد، بعض دانشوروں نے وحی کے مابعدالطبیعی ہونے کا انکار کردیا۔ انھوں نے ابتداء میں اس کو ایک توہم یا خرافہ قرار دیا لیکن سنہ 1846ع‍ میں، امریکہ میں علم الارواح کے رواج پانے کے بعد، کچھ دانشوروں نے وحی کے بارے میں اپنے خیالات پر نظر ثانی کرکے اس کو تجرباتی علوم (Experimental Sciences) اور علوم نفس (نفسیات) کی رو سے انسان اور پیغمبر کی نفسانی کیفیات، اور چھٹی حس، اور ان افراد کے بلوغ کا نتیجہ قرار دیا۔[17]

بعض دیگر مغربی دانشوروں نے وحی اور دینی تجربے کی یکسانیت کے تصور کی بنیاد پر خیال ظاہر کیا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے مطابق، اپنے احتیاجاتاور ضروریات کو پورا کرنے کے درپے ہے؛ لیکن فطرت کی دنیا میں امتیاز و تفریق (Discrimination)، بنی نوع انسان کے ادراک و معرفت اور اخلاق میں نقص، احساس تنہائی، اور اس طرح کے دیگر مسائل، تمام انسانوں جیسے مسائل، تمام انسانوں کے خدشات نہیں ہیں؛ چنانچہ اعلی عزم و حوصلے کے مالک افراد ـ جن کے خدشات بھی عظیم ہیں ـ رفتہ رفتہ معاشرے سے کنارہ کش ہوکر عالم بالا کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ وہ ریاضت [یا تَپَسيا] اور کٹھن اور خاص قسم کی تمرینات کے ذریعے۔ خاص قسم کے حالات اور کیفیات پا لیتے ہیں جن سے دوسرے انسان محروم اور بےخبر ہوتے ہیں۔[18] اس تصور کی بنا پر، دین، پیغمبر کا دینی اور سماجی تجربہ ہے اور خدا کا کلام پیغمبر ہی کا کلام ہے۔ وحی پیغمبر کے تابع ہے اور جس قدر کہ پیغمبر کی شخصیت کو وسعت اور ترقی ملے گی وحی کو بھی وسعت و ترقی ملتی ہے۔

معاصر دور میں، وحی اور وحی کے عمل کے سلسلے میں نئے مباحث اور نئی وضاحتیں اور تشریحات سامنے آئی ہیں۔ عالم عرب کے "نصر حامد ابو زید"، "محمد ارکنون"، پاکستان کے "فضل الرحمن"، "حسن حنفی"، "محمد خلف اللہ" اور ایران کے "عبدالکریم سروش" اور "مجتہد شبستری" نے وحی کی نئی تفسیریں پیش کی ہیں۔

اس کے باوجود اس کے کہ، یہ تصورات ایک جیسے نہیں ہیں اور دینی تجربے کے قائلین کے درمیان بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں، ان آراء کی اکثریت کے درمیان دو چیزوں میں اشتراک رائے پایا جاتا ہے:

  1. دینی متون کو انسانیاتی مباحث کو باہر، اور انسانی تاریخ اور تہذیب سے الگ، نہیں دیکھا جاتا [اور ما فوق البشری اور اس کو ماورائی نگاہ سے ہرگز نہیں دیکھا جاتا] اور اس کے قائل افراد میں سے ہر ایک، اس عمل میں انسان کے کردار پر تاکید کرنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔
  2. وحی حقائق اور قضایا (proposition) سے ماخوذ نہیں ہے بلکہ مشاہدے اور باطنی تجربے کے زمرے میں آتی ہے۔[19]

ان افراد کی طرف سے بیان کردہ موضوعات اسلام کو معروف اور رائج تفکرات کے حامیوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مآخذ برائے مطالعہ

عمومی کتب

نام کتاب مؤلف طبع و نشر
آموزش کلام اسلامی (جلد2) محمد سعیدی مہر نشر طہ
راہ و راہنما شناسی محمد تقی مصباح یزدی موسسہ امام خمینی
وحی در قرآن محمود عبداللہی بوستان کتاب
آموزش عقائد محمد تقی مصباح یزدی نشر بین المللی سازمان تبلیغات
وحی در ادیان آسمانی ابراہیم امینی دفتر تبلیغات اسلامی
وحی و نبوت مرتضی مطہری نشر صدرا

تخصصی کتب

نام کتاب مؤلف طبع و نشر
وحی یا شعور مرموز علامہ طباطبایی نشر و توزیع کتاب
پاسخ بہ شبہات کلامی (دین و نبوت) محمد حسین قدردان قراملکی پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ
افق وحی سید محمد محسین حسینی طہرانی مکتب وحی
کلام خدا عبداللہ نصری نشر فرہنگ اسلامی
نگاہی بر بسط تجربہ نبوی رضا حاجی ابراہیم زلال کوثر

حوالہ جات

  1. راغب، مفردات، ص858۔
  2. خلیل بن احمد، العین، ج3، ص321۔
  3. ابن منظور، لسان العرب، ج3، ص379۔
  4. طباطبایی، وحی یا شعور مرموز، ص104۔
  5. مطهری، نبوت، ص81-84۔
  6. طباطبائی، المیزان، ج19، ص29۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر پیام قرآن، ج7، ص307۔
  8. صدوق، التوحید، ص264۔
  9. وحی کی بعض قسمیں بغیر واسطے کے ہیں۔ کبھی رسول خدا(ص) کبھی نزول وحی کے وقت مدہوشی کی سی کیفیت طاری ہوتی تھی۔ امام صادق(ع) نے اس کیفیت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرمایا: یہ وہ وقت تھا جب خدا اور اس کے رسول(ص) کے درمیان بلاواسطہ بات چیت ہوتی تھی اور خداوند متعال براہ راست آپ(ص) کے وجود ذی جود پر جلوہ فگن ہوتا تھا:- صدوق، التوحید، ص115۔
  10. علی بن ابراهیم، تفسیر قمی، ج2، ص279؛ طباطبایی، المیزان، ج18، ص74؛ مطهری، نبوت، ص81-84۔
  11. طباطبایی، المیزان، ج6، ص373۔
  12. سوره قصص، آیه 7۔
  13. حیدر آملی، المحیط الأعظم، ج1، ص446 به استناد: وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا ... سجده 24... أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ... بقره 157... أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ... انعام 90... وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ... انعام 87
  14. صدرالمتألهین، تفسیر القرآن الکریم، ص100؛آلوسی، تفسیر روح المعانی، ص393۔
  15. جوادی آملی، ادب فنای مقربان، ج1، ص141۔
  16. داور پناه، انوار العرفان، ج3، ص370۔
  17. وجدی، دائرة المعارف القرن العشرین، ج10، ص712-719۔
  18. علی دشتی، 23 سال، ص43۔
  19. پایگاه فرهنگ و علوم انسانی۔

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت: دار صادر، 2000 ع‍۔
  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القران الکریم (جلد7)، بیروت: دار الکتب العلمیہ، 1415 ھ ق۔
  • آملی، سید حیدر، تفسیر المحیط الأعظم و البحر الخضم، چاپ سوم، تهران: چاپ وانتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1422 ھ ق۔
  • جوادی آملی، عبدالله، ادب فنای مقربان؛ چاپ پنجم، ج2، قم: نشر اسراء، 1388ھ ش۔
  • فراهیدی، خلیل بن احمد، العین، چاپ دوم، قم: نشر هجرت، 1409ھ ق۔
  • داور پناه، ابو الفضل، انوار العرفان فی تفسیر القرآن، تهران: انتشارات صدر، 1375ھ ش۔
  • دشتی، علی، بیست و سہ سال۔
  • راغب اصفهانی، حسین بن محمد، مفردات فی غریب القرآن، بیروت: دار العلم، 1412ھ ق۔
  • صدر المتألهین، محمد بن ابراهیم، تفسیر القرآن الکریم، چاپ دوم، قم: نشر بیدار، 1366ھ ش۔
  • الشیخ الصدوق، محمد بن على، التوحيد، تحقیق و مقدمہ: السيد هاشم الحسيني الطهراني، منشورات جماعة المدرسين قم 1423ھ ق۔
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، چاپ پنجم، قم: نشر جامعہ مدرسین، 1417ھ ق۔
  • طباطبایی، محمد حسین، وحی یا شعور مرموز، بی‌ جا: مرکز نشر و توزیع کتاب، 1377ھ ش۔
  • قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر قمی، چاپ چهارم، قم: دار الکتاب، 1367ھ ش۔
  • مطهری، مرتضی، نبوت، تهران: نشر صدرا، 373ھ ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر (با همکاری جمعی از فضلا)، تفسیر پیام قرآن، دار الکتب الاسلامیہ، تهران 1377ھ ش۔
  • وجدی، فرید، دایره المعارف دایره المعارف القرن العشرین۔