حلف الفضول

ویکی شیعہ سے

حِلْفُ الْفُضول، ایک معاہدے کا نام ہے جو دور جاہلیت میں مظلوموں کی حمایت کے لئے قریش کے بعض قبائل کے درمیان مکہ میں منعقد ہوا تھا۔

معاہدے کے اسباب

اس معاہدے کا سبب یہ تھا کہ قبیلۂ قریش کے افراد کبھی اجنبی افراد، یا ان افراد کے ساتھ، ظلم روا رکھتے تھے جن کا مکہ میں قبیلہ یا خاندان نہیں ہوتا تھا۔[1] ہوا یوں کہ ایک دن یمن کے علاقے "زبید" کا ایک مرد سامان تجارت لے کر مکہ چلا گیا۔ (عمرو بن عاص کے باپ عاص بن وائل سہمی نے اس کا سامان خرید لیا لیکن قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کرکے اس کو تھکا دیا۔ یمنی مرد نے قریش سے مدد مانگی اور درخواست کی کہ اپنا حق لینے میں اس کی مدد کریں؛ لیکن کسی نے اس کی مدد نہیں کی؛ چنانچہ مسجد الحرام کے قریب کوہ ابو قبیس پر یا بقول دیگر حجر اسمعیل کے قریب کھڑے ہوکر اونچی آواز سے اشعار پڑھے اور قریش سے انصاف مانگا۔[2]

رسول اکرم(ص) کے چچا زُبیر بن عبدالمطلب، ـ جو قریش کے اکابرین اور اشراف میں سے تھے ـ نے سب سے پہلے حلف الفضول کی تجویز پیش کی اور لوگوں کے اس کی دعوت دی۔[3] اس دعوت کے بعد قریش کے بعض قبائل دار الندوہ میں (جو امور کے حل و عقد کا مرکز تھا) اس بات پر ہم قسم ہوئے کہ مظلوم کا حق ظالم سے لے لیں۔[4] بعدازاں زبیر بن عبدالمطلب کی کوششوں سے، قریش کے ایک سرکردہ شخص عبداللّہ بن جُدعان تَیمی، کے گھر میں جمع ہوئے۔ انھوں نے اپنے ہاتھ آب زمزم میں ڈبو دیئے (یا بقول دیگر ہاتھ مٹی پر مل لئے)[5] اور باہم طور پر عہد کیا کہ اگر کسی مکی پر یا اس شہر میں کسی اجنبی اور مسافر پر کوئی ظلم روا رکھا جائے، تو وہ اس کی مدد کریں گے تا کہ وہ اپنے حق ظالم سے وصول کرے،[6] ظالم کو ظلم سے باز رکھیں گے اور ہر برائی سے نہی کریں کے،[7] اور تہی دست و تنگ دست افراد کی مالی اور معاشی امداد کریں گے۔[8]

معاہدے میں شامل قبائل

قریش کے بعض ذیلی قبائل اس معاہدے میں شامل ہوئے جن کے نام درج ذیل ہیں:

یہ دو قبائل عبد مناف کی اولاد میں سے ہیں؛

  • بنو زُہرہ بن کلاب،
  • بنو تیم بن مُرَّه، اور
  • بنو اسد بن عبدالعزی بن قصی۔[9] بعض مآخذ میں ہے کہ "بنو حارث بن فہر" نامی قبیلہ بھی معاہدے میں شامل تھا۔[10] لیکن حلف الفضول میں اس قبیلے کی شمولیت کے بارے میں اتفاق رائے موجود نہیں ہے.[11] بہر صورت حلف الفضول میں فضیلت و سبقت بنو ہاشم کی تھی۔[12]

بنو عبد مناف کی دو شاخیں بنو عبد شمس اور بنو نوفل اس معاہدے سے خارج ہوئے؛[13] کیونکہ یہ معاہدہ بنو امیہ اور ان کے حلیف عاص بن وائل کے خلاف منعقد ہوا تھا۔[14] بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حلف الفضول میں شامل قبائل وہی تھے جو قبل ازاں حلف المطیبین میں شامل تھے۔[15]

وجۂ تسمیہ

اس معاہدے کی وجۂ تسمیہ کے بارے میں مؤرخین کا کہنا ہے کہ چونکہ حلف الفضول حلف المطیبین اور حلف الاحلاف کے بعد منعقد ہوا، اور ان دو معاہدوں کے علاوہ تھا اور ان کے اوپر [تیسرا] اضافہ تھا، چنانچہ اس کو اس نام سے موسوم کیا گیا[16]

نیز کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ یہ اس دن تک عرب میں منعقدہ تمام معاہدوں پر فضیلت و فوقیت رکھتا تھا اور یہ کہ اس کو ایسے افراد نے منعقدہ کیا جو صاحب فضیلت تھے۔[17]

مؤرخین نے اس تسمیئے کو زبیر بن عبدالمطلب سے منسوب کیا ہے جو خاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ تھے[18] اور کہا ہے کہ زبیر نے یہ معاہدہ ان کے لئے لکھا اور اس بارے میں اشعار بھی کہے۔[19] بعض دوسروں نے کہا ہے کہ عرب یا قریش نے اس کو بطور خاص حلف الفضول کا نام دیا۔[20]

اس کی وجۂ تسمیہ بیان کرتے ہوئے بعض دوسرے اقوال بھی بیان کئے گئے ہیں جو بہت مقبول نہیں ہیں؛ جیسے:

  • اس معاہدے میں تین افراد ایسے تھے جن کا نام فضل تھا (فضل کی جمع فضول)؛[21]
  • حلف الفضول میں حلیف افراد نے اپنے زائد امول (=فضول) کو بخش دیا؛
  • انھوں نے ایسا کام سرانجام دینے کا عہد کیا جو ان پر واجب و لازم نہیں تھا؛
  • سب سے پہلے قبیلۂ جُرہُم نے مل کر مظلوم کی حمایت اور اس کا حق دلانے کا عہد کیا تھا جن کے نام لفظ "فضل" سے مشتق تھے؛ اور حلف الفضول میں شامل افراد نے اپنے معاہدے کو ان کے نام سے موسوم کیا۔[22]

انعقاد کا وقت

مؤرخین نے کہا ہے کہ حلف الفضول عام الفیل کے 20 سال بعد قریشیوں کے جنگ فِجار سے واپسی پر منعقد ہوا اور حضرت محمد(ص) اس وقت 20 سالہ نوجوان تھے۔ منعقد ہوا۔ جنگ فِجار شوال کے مہینے میں لڑی گئی اور حلف الفضول ذوالقعدہ کو منعقد ہوا۔[23] لیکن بعض روایات کے مطابق یہ معاہدہ رسول اللہ(ص) کی بعثت سے پانچ سال قبل[24] یا پھر رسول اکرم(ص) کی طفولت کے ایام میں لکھا گیا تھا۔[25]

معاہدے کے بارے میں پیغمبر(ص) کی رائے

حلف الفضول شریف ترین اور بہترین معاہدہ تھا جو اس روز تک عرب دنیا میں معتبر تھا۔[26] رسول خدا(ص) سے مروی ہے کہ آپ(ص) نے بعثت سے قبل فرمایا:

"‌میں (اپنے اعمام کے ہمراہ) عبداللہ بن جدعان کے گھر میں ایک معاہدے کا گواہ تھا کہ اگر لال بالوں والے تمام اونٹ میرے حوالے کردیئے جائیں تو میں اس سے خیانت نہيں کروں گا اور اگر آج بھی اس (طرح کے) معاہدے میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے تو قبول کروں گا"۔[27]

چونکہ حلف الفضول مظلوم کی مدد اور ظالم سے مظلوم کا حق چھیننے کے لئے منعقد ہوا تھا لہذا اسلام نے نہ صرف اس کی تائید کی بلکہ اس کو مستحکم اور مضبوط بھی کیا۔[28]

اس معاہدے کی اہمیت

حلف الفضول ـ ایک اہم واقعے کی حیثیت سے ـ دور جاہلیت میں تاریخ کا مبادی (=جمعِ مبدء) میں شمار ہوتا تھا[29] اور ستم زدہ افراد اس معاہدے کے سہارے اپنا حق لے لیا کرتے تھے۔[30]

اس معاہدے کی اہمیت بعد از اسلام بھی برقرار رہی۔ خلیفۂ ثانی حلف الفضول میں شمولیت کو زیادہ عطیات اور تنخواہیں حاصل کرنے کے حوالے سے قبائل کے تقدم کا معیار قرار دیا۔[31]

حلف الفضول میں شمولیت کو فضیلت اور اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ معاویہ ایک دفعہ مدینہ آیا تو عبداللہ بن زبیر نے اس سے کہا: "میں حلف الفضول امام حسن(ع) کے ساتھ ہوں اور اگر وہ مجھ سے تمہارے خلاف مدد مانگیں تو میں ان کا ساتھ دوں گا"۔ لیکن معاویہ نے اس کے حلف الفضول سے انتساب کے دعوے کا مذاق اڑایا اور اس کے دعوے کو رد کیا۔[32] امام حسن(ع) شہید ہوئے، اور امام حسین(ع) نے آپ(ع) کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے بھائی امام حسن(ع) کو رسول خدا(ص) کے پہلو میں دفنانا چاہا اور آپ(ع) کو بنو امیہ کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، تو آپ(ع) نے حلف الفضول کا سہارا لیا اور بعض قبائل مدد کے لئے بھی تیار ہوئے لیکن آپ(ع) نے اپنا ارادہ ترک کیا۔[33]

جب مدینہ کے اموی والی ولید بن عُتبة بن ابی سُفیان، (دوران حکومت: 57ـ60 و 61ـ62)، نے مال یا زمین کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام کا حق پامال کیا تو امام(ع) نے اس کو دھمکی دی کہ اگر آپ(ع) کا حق نہ دے تو تلوار اٹھائیں گے اور مسجد رسول خدا(ص) میں جاکر لوگوں کو حلف الفضول میں فعال ہونے کی دعوت دیں گے؛ چنانچہ بعض لوگوں نے امام(ع) کی حمایت عندیہ دیا اور ولید نے مجبور ہو کر آپ(ع) دےدیا۔[34] جواد علی لکھتے ہیں[35]: شاید [[[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کا مقصود یہ تھا کہ لوگوں کو حلف الفضول جیسی میثاق کی دعوت دیں گے چنانچہ اس حکایت سے یہ نتیجہ نہیں لیا جاسکتا کہ حلف الفضول اس دن تک قائم تھا۔ ہشام بن محمد بن سائب کلبی (متوفی 204) نے حلف الفضول کے عنوان سے کتاب لکھی تھی۔[36]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. یعقوبی، تاریخ، ج2، ص17۔
  2. ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص52ـ53، 186؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص23؛ مسعودی، مروج الذهب، ج3، ص9؛ یعقوبی، تاریخ، ج2، ص17۔
  3. ابن سعد، ج1، ص128؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج14، ص130۔
  4. مسعودی، مروج، ج3، ص9۔
  5. ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص187؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص23ـ24؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج14، ص130 و ج15، ص203۔
  6. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص141؛ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص53۔
  7. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج14، ص130۔
  8. ابن سعد، طبقات، ج1، ص129؛ ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص187؛ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج15، ص203۔
  9. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص141؛ ابن حبیب، کتاب المُحَبَّر، ص167؛ وہی مؤلف، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص53؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص23؛ یعقوبی، تاریخ، ج2، ص18۔
  10. ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص189؛ یعقوبی، تاریخ، ج2، ص18۔
  11. ابن حبیب، کتاب المُحَبَّر، ص167۔
  12. ابن سعد، طبقات، ج1، ص129۔
  13. ابن هشام، السیرة النبویه، ج1، ص143؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج52، ص186۔
  14. عاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج1، ص99۔
  15. یعقوبی، تاریخ، ج2، ص17ـ 18؛ مسعودی، تنبیه الاشراف، ص210ـ211؛ ابن حِبّان، صحیح ابن حبّان، ج10، ص217۔
  16. ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص53ـ54، 279؛ یعقوبی، تاریخ، ج2، ص18۔
  17. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج14، ص130 و ج15، ص203۔
  18. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج15، ص203۔
  19. ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص187-189؛ مسعودی، تنبیه، ص210۔
  20. ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص54، 279؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص26۔
  21. یعقوبی، تاریخ، ج2، ص18۔
  22. بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص24۔
  23. ابن سعد، طبقات، ج1، ص128؛ ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص174، 186ـ 187؛ یعقوبی، تاریخ، ج2، ص18۔
  24. ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص53۔
  25. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج14، ص130 و ج15، ص203۔
  26. ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص52، 186؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج15، ص203۔
  27. ابن هشام، سیرة النبویه، ج1، ص141ـ142؛ ابن سعد، طبقات، ج1، ص129؛ ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص53؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص24، 26ـ27۔
  28. مسعودی، تنبیه، ص210؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج14، ص130؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج6، ص33۔
  29. مسعودی، تنبیه، ص209۔
  30. ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، ص280ـ281۔
  31. شافعی، الاُمّ، ج4، ص166؛ ابن حنبل، کتاب العلل و معرفة الرجال، ج3، ص423؛ مطیعی، التکملة الثانیة، ج19، ص381۔
  32. اخبار الدولة العباسیة، ص58ـ 59۔
  33. ابن عساکر، ترجمة الامام الحسن(ع)، ص222۔
  34. ابن هشام، سیرة النبویه، ج1، ص142؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص26؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج10، ص169۔
  35. المفصل فی تاریخ العرب، ج4، ص89۔
  36. ابن ندیم، فهرست، ص108؛ ابن خلّکان، وفیات الاعیان، ج6، ص82۔

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، چاپ محمدابوالفضل ابراهیم، قاهره، 1385ـ1387ہجری/ 1965ـ1967عیسوی، چاپ افست بیروت، [بی تا]۔
  • ابن حِبّان، صحیح ابن حبّان بترتیب ابن بلبان، ج10، چاپ شعیب ارنؤوط، بیروت، 1414ہجری/1993عیسوی۔
  • ابن حبیب، کتاب المُحَبَّر، چاپ ایلزه لیشتن اشتتر، حیدرآباد، دکن 1361ہجری/1942، چاپ افست بیروت [بی تا]۔
  • ابن حبیب، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، چاپ خورشید احمد فارق، بیروت، 1405ہجری/ 1985عیسوی۔
  • ابن حنبل، کتاب العلل و معرفة الرجال، چاپ وصی اللّه عباس، بیروت، 1408ہجری/1988عیسوی۔
  • ابن خلّکان، وفیات الاعیان۔
  • ابن سعد، طبقات، (بیروت)۔
  • ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، چاپ علی شیری، بیروت، 1415ـ 1421ہجری/ 1995ـ2001عیسوی۔
  • ابن عساکر، ترجمة الامام الحسن(ع)، چاپ محمدباقر محمودی، بیروت، 1400ہجری/1980عیسوی۔
  • ابن ندیم، فهرست، (تهران)۔
  • ابن هشام، السیرة النبویة، چاپ مصطفی سقا، ابراهیم ابیاری، و عبدالحفیظ شلبی، قاهره، 1355ہجری/1936عیسوی۔
  • اخبارالدولة العباسیة و فیه اخبارالعباس و ولده، چاپ عبدالعزیز دوری و عبدالجبار مطلبی، بیروت، دارالطلیعة للطباعة و النشر، 1971عیسوی۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، چاپ محمود فردوس عظم، دمشق، 1996ـ2000عیسوی۔
  • جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت، 1976ـ1978عیسوی۔
  • شافعی، محمدبن ادریس، الاُمّ، بیروت، 1403ہجری/ 1983عیسوی۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم صلی اللّه علیه وآله وسلم، قم، 1403 ہجری۔
  • قرطبی، محمدبن احمد، الجامع لاحکام القرآن، بیروت، 1405ہجری/ 1985عیسوی۔
  • مسعودی، تنبیه الاشراف۔
  • مسعودی، مروج الذهب، (بیروت)۔
  • مطیعی، محمد نجیب، التکملة الثانیة، المجموع: شرح المُهَذّب، در یحیی بن شرف نووی، المجموع: شرح المُهَذّب، ج13ـ20، بیروت، دارالفکر، [بی تا]۔
  • یعقوبی، تاریخ۔

بیرونی روابط